Episode 31 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 31 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

ازدیوان سودا#
-1شیخ کو چاہئے کہ سالک کو تعلیم فنا
سے پہلے دنیا کے تعلقات سے متنفر
کرے۔
-2دنیا میں فی الحقیقت کوئی چیز
دِل بستگی کے قابل نہیں۔
-3دنیا کی کسی نعمت کو ثبات نہیں۔
-4دنیا میں عروج کے ساتھ ہی تنزل
لگا ہوا ہے۔
-5جو دنیا کو بے ثبات جانتے ہیں وہ
اپنی بے ثباتی کے بھی قائل ہیں۔
-6خدا کی ، بندے کی ، قوم کی ، ملک کی ، 
کسی کی محبت کیوں نہ ہو اس پر
ملامت ہونی ضرور ہے۔
-7جو کام کرنے ہیں ان میں دیر کرنی
نہیں چاہئے۔
-8جس قدر دنیا کی محبت بڑھتی جاتی ہے
اسی قدر مشکلات زیادہ ہوتی جاتی ہے
-1خانہ پرورد چمن ہیں آخر اے صیاد ہم
اتنی رخصت دے کر ہولیں گل سے ٹک آزاد ہم
-2خندہ گل بے نمک فریاد بلبل بے اثر
اس چمن سے کہہ تو جا کر کیا کریں گے یا ہم
-3پائی نہ بو وفا کی ترے پیرہن میں ہم!17
اے گل صبا کی طرح پھرے اس چمن میں ہم
-4نہ دیکھا اس سوا کچھ لطف اے صبح چمن تیرا
گل ادھر لے گئیگلچیں گئی روتی ادھر شبنم
-5بھلا گل تو تو ہنستا ہے ہماری بے ثباتی پر
بتا روتی ہے کس کی ہستی موہوم پر شبنم
-6دلا اب سر کو اپنے پھیر مت سنگ ملامت سے
یہی ہوتا ہے ناداں عشق کا انجام دنیا میں
-7ساقی ہے اک تبسم گل فرصت بہار
ظالم بھرے ہے جام تو جلدی سے بھر کہیں
-8اس کشمکش سے دام کی کیا کام تھا ہمیں
اے الفت چمن ترا خانہ خراب ہو
ذوق
-1اگر دلوں میں محبت باقی نہ رہے
تو دنیا کے سب کام بند ہو جائیں
-2بہت سے جوہر قابل پہلے اس سے 
کہ اپنے جوہر دکھلائیں خاک میں
 مل جاتے ہیں
-3تو کل کی شان۔

(جاری ہے)


-4تعلقات دنیاوی کے نتائج
-1بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے
-2کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا! دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
-3احسان نا خدا کے اٹھائے مری بلا
کشتی خدا پہ چھوڑ دوں لنگر کو توڑ دوں
-4اگر اٹھے تو آرزدہ جو بیٹھے تو خفا بیٹھے!
لگا دیا کو اپنے روگ جب سے دل لگا بیٹھے
غالب
-1عزلت نشینی میں کوئی خطرہ نہیں۔

-2تیز زبان آدمی کی ہر کوئی شکایت
کرتا ہے۔
-3رنج اور تکلیف سب خدا کی طرف
سے ہے۔
-4غلبہ یاس میں مطلب ہاتھ سے جاتا
رہتا ہے۔
-5خدا تک کسی کی رسائی
نہیں ہوتی۔
-1نے تیر کماں میں ہے نہ صیاد کہیں میں
گو شے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
-2گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی
-3جلاد سے لڑتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے
ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے جس رنگ میں وہ آئے
-4سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے
کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
-5تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے
تیرا پتہ نہ پائیں تو نا چار کیا کریں
شیفتہ
-1خدا غریبوں کے جھونپڑے
میں ہے۔
-2مشائخ کے ہر ایک سلسلہ کی نسبت
میں جدا کیفیت ہوتی ہے۔
-3نفس کی رعونت جس طریقہ سے
کم ہو سکے بہتر ہے۔
-4خدا کی ذات مکان اور چھت
سے پاک ہے۔
-5لہو و لہب سے دفعتہ کنارہ کش ہو کر
اطمینان کلی حاصل کرنا۔
-1فانوس و شیشہ و لگن زر سے کیا حصول
وہ ہے وہاں جہاں نہیں روغن چراغ میں
-2ہے امتزاج مشک مے لعل فام میں
آتی ہے بوئے غیر ہمارے مشام میں
-3نفس سرکش کی کسی ڈھنگ سے رعونت کم ہو
چاہتا ہوں وہ صنم جس میں محبت کم ہو
-4وہ آ ہوئے رمیدہ کہ ہم جس کے صید ہیں
نے وادی تتار نہ دشت ختن میں ہے
-5ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
اگرچہ اس قسم کے اشعار سے فارسی کے خاص خاص دیوان بھرے ہوئے ہیں اور اردو میں تلاش کرنے سے ایسے اشعار اور زیادہ دستیاب ہو سکتے ہیں مگر یہ اسلوب زیادہ تر تصوف کے مضامین سے خصوصیت رکھتے ہیں۔
ہر قسم کے نیچرل خیالات ادا کرنے کیلئے صرف یہی اسلوب کافی نہیں ہو سکتے۔ جب تک کہ شاعر ان کو عمدہ طور پر ہر موقع کے مناسب استعمال کرنے کی لیاقت اور انہیں میں ملتے جلتے نئے اسلوب پیدا کرنے کا ملکہ نہ رکھتا ہو ، ہمارے نزدیک اس کا گُر یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے استعارہ و کنایہ و تمثیل کے استعمال اور محاورات کے بدلنے پر قدرت حاصل کرنی چاہئے۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali