Episode 35 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 35 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

جہاں تک سنگلاخ زمینوں کا استقرار کیا جاتا ہے۔ ان میں یا تو ردیف اور قافیہ ایسا اختیار کیا جاتا ہے جن میں باہم دگر کچھ مناسبت نہ ہو۔ مثلاً تقریر پشت آئینہ نخچیر پشت آئینہ ، تدبیر پشت آئینہ اور کل کی مکھی۔ محل کی مکھی ، ردل کی مکھی اور عسس کی تیلیاں ، مگس کی تیلیاں ، نفس کی تیلیاں۔ یا ردیف ایسی لمبی اختیار کرتے ہیں جو ایک آدھ سے زیادہ شعروں میں معقول طور پر نہیں آ سکتی جیسے فلک پہ بجلی ، زمین پہ باراں ، سر پر طرہ ، ہار گلے میں ، گاہ خذنگ وگاہ کمان ، غرضیکہ قصداً ایسی تجویز کرتے ہیں جس میں عمدہ مضمون بندھنا تو یقینا ناممکن ہو اور بامعنی نکلنا بھی نہایت مشاق شعراء کیلئے سخت مشکل ہو اور عام شعراء کیلئے قریب ناممکن کے ہو۔
ایسی زمینوں میں بڑا کمال شاعر کا یہی سمجھا جاتا ہے کہ قافیہ اور ردیف میں جو منافرت ہو وہ بظاہر جاتی رہے گویا تیل اور پانی کو ملایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ایسی غزلوں میں اور امیر خسرو# کی انمل میں کچھ تھوڑا ہی سا فرق معلوم ہوتا ہے۔ امیر خسرو# نے کھیر ، چرخہ ، ڈھول اور کتا ان چار چیزوں کا پیوند اس طرح ملایا ہے:

کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا
آیا کتا کھا گیا‘ تو بیٹھی ڈھول بجا
ایک شاعر گلگیری اور پشت آئینہ کو اس طرح پیوند دیتا ہے:
آرسی پہنے ہوئے وہ گل جو لیوے شمع کا
ہم انگوٹھے کو کہیں گلگیر پشت آئینہ
ایک اور شاعر نے کل اور مکھی کو س طرح گانٹھا ہے:
صنعت بعت چین دیکھ دلا جا کر تو
دیکھن کر تجھے منظور ہو کل کی مکھی
اس پر قیاس کر لینا چاہئے کہ کل سنگلاخ زمینوں میں اس کے سوا اور کچھ مقصود نہیں ہوتا کہ بے میل چیزوں میں میل ثابت کیا جائے۔
پس شاعر کو چاہئے کہ ہمیشہ ردیف ایسی اختیار کرے جو قافیہ سے میل کھاتی ہو اور ردیف و قافیہ دونوں مل کر دو مختلف کلموں سے زیادہ نہ ہوں بلکہ رفتہ رفتہ مردف غزلیں لکھنی کم کرنی چاہئیں اور سردست محض قافیہ پر قناعت کرنی چاہئے۔ 
قافیہ ایسا اختیار کرنا چاہئے جس کیلئے قدر ضرورت سے دس گنے بلکہ بیس گنے الفاظ موجود ہیں۔ ورنہ مضمون کو قوافی کا تابع کرنا پڑے گا۔
قافیہ مضمون کے تابع نہ ہوں گے۔ جتنے نامور شعراء گزرے ہیں انہوں نے یہی اصول ملحوظ رکھا ہے اور ہمیشہ ایسی زمینیں اختیار کی ہیں جن میں ہر قسم کے مضمون کی گنجائش ہو۔
قصیدہ:
قصیدہ بھی اگر اس کے معنی مطلق مدح و ذم کیلئے جائیں تو ایک نہایت ضروری صنف ہے جس کے بغیر شاعر کمال کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا اور اپنے بہت سے اہم اور ضروری فرائض سے سبکدوش نہیں ہو سکتا ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر اوقات کسی چیز کو دیکھ کر یا کسی واقعہ کو سن کر بے اختیار ہمارے دل میں مدح و ستائش یا نفریں و ملامت کا جوش اٹھتا ہے۔
کبھی کسی کے عدل و انصاف یا عالمی ہمتی یا حب وطن یا قومی ہمدردی یا اور کسی خوبی کو معلوم کرکے اس کی تعریف کرنے کو جی چاہتا ہے کبھی کسی نیک صفات اور ستودہ خصائل آدمی کی موت پر افسوں کرنے اور اس کی خوبیاں یاد کرنے کا ولولہ دل میں پیدا ہوتا ہے کبھی ہم کو اپنے گزشتہ دوستوں کی صحبتیں یاد آتی ہیں اور ان کی بے ریا دوستی اور محبت کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے جو ان کا ذکر خیر کرنے پر مجبور کرتا ہے کبھی کسی خوش فضا مقام پر ہمارا گزر ہوتا ہے اور جو لطف وہاں حاصل ہوتا ہے اس کے بیان کرنے کا جوش ہمارے دل میں اٹھتا ہے۔
اسی طرح جب کوئی واقعہ ہمارے دل کو ناگوار معلوم ہوتا ہے یا کسی سے کوئی حرکت یا کام قابل نفریں ظہور میں آتا ہے تو اس کی بُرائی ظاہر کرنے کا ارادہ ہمارے نفس پر متحرک ہوتا ہے ایسے موقعوں پر شاعر کا فرض ہے کہ جو ملکہ اس کی طبیعت میں خدا نے ودیعت کیا ہے اس کو معطل اور بیکار نہ چھوڑے اور اس سے جیسا کہ اس کی فطرت کی اقتضا ہے کچھ کام لے جس طرح ایک محقق حکیم کا یہ فرض ہے کہ موجودات عالم کے جس قدر خواص اور احوال اس پر منکشف ہوں ان سے دنیا کو آگاہ کرے یا ایک طبیب کا فرض ہے کہ عقاقیر کے مضارو منافع سے بنی نوح کو تابمقدور بے خبر نہ رہنے دے یا ایک سیاح کا فرض ہے کہ انکشافات جدیدہ سے اہل وطن کو مطلع کرے اسی طرح شاعر کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اچھوں کی خوبیوں کو چمکائے ان کے ہنر اور فضائل عالم میں روشن کرے اور ان کے اخلاق کی خوشبو سے موجودہ اور آئندہ دونوں نسلوں کے دماغ معطر کرنے کا سامان مہیا کر جائے اور نیز برائیوں اور عیبوں پر جہاں تک ممکن ہو گرفت کرے تاکہ حال اور استقبال دونوں زمانوں کے لوگ رائی کی سزا اور اس کے نتائج سے ہوشیار اور چوکنے رہیں۔
یہ وطیرہ بالکل سنت الٰہی کے مطابق ہوگا کیونکہ کلام الٰہی میں بھی ہمیشہ بروں کو برائی کے ساتھ اور بھلوں کو بھلائی کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ متوکل باللہ نے ایک شاعر سے پوچھا کہ تم کس حد تک لوگوں کی ہجوکے در پے رہے ہو اور کب تک ان کی مدح و ستائش کرتے ہو اس نے کہا جب تک کہ ان سے بدی اور نیکی سرزد ہوتی ہے اور پھر کہا خدا نہ کرے ہمارا حال بچھو کا سا ہو جو کہ بنی اور ذمی دونوں کے ڈنگ مارتا ہے۔
جب کسی ایسے شخص کی  جو مدح کا مستحق ہوتا ہے  تعریف کی جاتی ہے تو اس کی مدح کا زیادہ استحقاق حاصل کرنے یا کم سے کم اپنا پہلا استحقاق قائم رکھنے کا اور دوسروں کو اس کا ریس کرنے کا خیال پیدا ہوتا ہے اسی طرح جو لوگ نفریں کے مستحق ہیں جب ان کے عیب کنایہ میں بیان کئے جائیں گے۔ تو امید ہے کہ وہ اس اندیشہ سے کہ مبادا آئندہ زیادہ رسوائی ہو اپنی اصلاح کی طرف متوجہ یا کم سے کم اپنی برائی سے نادم یا متنبہ ہوں گے اور دوسرے ان عیبوں کو مذموم و قابل نفریں سمجھیں گے اس لئے مدح ایسے اسلوب سے کرنی چاہئے کہ وہ خوشامد نہ ہو جائے اور مذمت ایسے عنوان سے ہونی چاہئے کہ دل سوزی کا پہلو طعن تشنیع کی نسبت غالب تر ہو۔
مرثیہ پر بھی اس لحاظ سے کہ اس میں زیادہ تر شخص متوفی کے محامد و فضائل بیان ہوتے ہیں مدح کا اطلاق ہو سکتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ زندوں کی تعریف کو قصیدہ بولتے ہیں اور مردوں کی تعریف کو جس میں تاسف اور افسوس بھی شامل ہوتا ہے مرثیہ کہتے ہیں عرب کی قدیم شاعری میں قصائد اور مرثیے ایسے سچے اور صحیح حالات و واقعات پر مشتمل ہوتے ہیں کہ ان سے متوفی کی مختصر لائف ظاہر ہو سکتی تھی۔
 مثلاً آنحضرتﷺ کے جد بزرگوار عبد المطلب کے مرثیے  جتنے لکھے گئے ہیں سب میں تھوڑے تھوڑے تفاوت سے ان کی عشیرہ پروری  قومی ہمدردی اور قوم کی مشکلات اور مصائب میں سینہ سپر ہونے کی تعریف کی گئی ہے ہر مرثیہ میں ان کی خوب صورتی کا ذکر کیا گیا ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی قوم میں ممتاز ، سربر آوردہ ، فیاض ، قحط سالیوں میں اہل وطن کے ساتھ سلوک کرنے والے ، عالی خاندان عہد و پیمان کے سخت پابند اور اولوالعزم ، نرم خو ، صاحب رعب و داب ، صلہ رحم کرنے والے ، باحیاء ، مہالک و مخاطر میں بے دھڑک گھسنے والے اور آبرو کی حفاظت کرنے والے تھے۔
بعض مرثیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قصیٰ ابن کلام کے زمانہ سے خانہ کعبہ کی تولیت اور سقاتیہ حجاج اور عمارت مسجد حرام عبدالمطلب کے خاندان میں چلی آتی تھی اور دیگر بنی کنانہ جو قصیٰ کی نسل سے نہ تھے اس بات پر بنی قصیٰ سے جلتے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بنی قصیٰ نے ملکہ اور حوالی ملکہ میں اہل وطن اور حاجیوں کے آرام کیلئے کنویں کھدوائے تھے ورنہ پہلے گڑھوں میں جو بارش کا پانی جمع ہو جاتا تھا فقط اس پر مدار زندگی تھا یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابو لہب بن عبدالمطلب کی ماں کا نام لبنیٰ تھا اور وہ بنی خزاعہ میں سے تھی اور اسعد جو کہ بیس برس قوم کی حمایت میں لشکر کا سردار رہا تھا اور ابو شمر اور عمر بن مالک اور ذوجدن اور ابو الجبریہ سب لبنیٰ کے رشتہ دار تھے۔
حذیفتہ ابن خاتم نے جو لوی بن غالب ہی کی نسل سے تھا عبدالمطلب کے مرثیہ میں اس احسان کا بھی ذکر کیا ہے کہ جب وہ خود چار ہزار درہم قرضہ کی بابت مکہ میں پکڑا گیا تھا تو ابو لہب بن عبد المطلب نے جا کر اس کو قرض خواہوں کے پنجے سے چھڑایا تھا۔ اسی طرح عرب کے اکثر قصائد اور مراثی حقائق و واقعات پر مشتمل پائے جاتے ہیں۔
ہمارے قصائد کی حالت تو ناگفتہ بہ ہے البتہ ہمارے شعرا نے مرثیہ میں ایک خاص قسم کی نمایاں ترقی ظاہر کی ہے مرثیہ کا اطلاق ہمارے ہاں زیادہ تر شہدائے کربلا اور خاص کر جناب سید الشہدا کے مرثیہ پر ہوتا ہے یہاں مرثیہ کی ابتدا اول اسی اصول پر ہوئی تھی جو کہ قدرت نے تمام انسانوں کو یکساں طور پر تقسیم کیا ہے یعنی میت کو یاد کرکے حزن و غم کا اظہار کرنا اور اپنے بیان سے دوسروں کو مخزون و مغموم کرنا۔
چنانچہ جو مرثیے اول اول لکھے گئے وہ کم و بیش بیس تیس بند بیت سے زیادہ نہ ہوتے تھے اور ان میں مرثیت یا بین کے سوا اور کوئی مضمون نہ ہوتا تھا۔ مگر چونکہ مرثیہ ایک خاص مضمون کے دائرہ میں محدود تھا اور اس کی قدر روز بروز زیادہ ہوتی جاتی تھی۔ لہٰذا متاخرین کو اس کے سوا کچھ چارہ نہ تھا کہ مرثیہ میں کچھ جدت پیدا کریں اور اس کے مضامین میں کچھ اضافہ کریں۔
رفتہ رفتہ مرثیہ کی لے بہت بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ خواجہ حیدر علی آتش نے مرزا دبیر کا ایک مرثیہ مجلس میں سن کر تعجب سے یہ کہا کہ مرثیہ تھا یا لندھور بن سعد ان کی داستان تھی؟ اگرچہ یہ ترقی براہ راست مرثیہ کی ترقی نہ تھی بلکہ اردو شاعری میں ایک قسم کا ایجاد تھا کہ جس نظم کی بنیاد محض بین اور مرثیت پر ہونی چاہئے تھی۔
 اس میں بین اور مرثیت کے علاوہ مدح اور قدح فکر و مباہات اور رزم اور بزم بھی نہایت شدومد کے ساتھ شامل ہو گئی۔
مگر حق یہ ہے کہ اس نئی طرز کی نظم سے اردو شاعری میں بہت وسعت پیدا ہوئی۔ اس طرز میں سب سے پہلے جہاں تک ہم کو معلوم ہے۔ میر ضمیر نے مرثیے لکھے ہیں گویا وہی اس طرز کے موجد ہیں مگر میر انیس نے کہ باوجود خدا داد مناسبت کے چار پشت سے شاعری اور مرثیہ کوئی ان کے خاندان میں چلی آئی تھی۔ اس پر اردو زبان کے مالک تھے اور لکھنوٴ بنا ہوا تھا۔ اس طرز کو معراج کمال تک پہنچا دیا۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali