Episode 38 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 38 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

مثنوی:۔
مثنوی اصناف سخن میں سب سے زیادہ مفید اور بکار آمد صنف ہے کیونکہ غزل یا قصیدہ میں اول سے آخر تک ایک قافیہ کی پابندی ہوتی ہے ہر قسم کے مسلسل مضامین کی گنجائش نہیں ہو سکتی لیکن مسدس میں یہ دقت ہے کہ ہر ایک بند میں چار قافیے ایک طرح کے لانے پڑتے ہیں۔ پس اس میں مسلسل مضامین ایسی خوبی سے بیان کرنے کہ مطالب برابر بے کم ، کاست ادا ہوتے چلے جائیں اور قافیوں کی نشست اور روزمرہ کا سرچشمہ ہاتھ سے نہ جائے یہ ہر شخص کا کام نہیں۔
ترجیع بند بھی مضامین کی گوں کا نہیں ہے کیونکہ اس میں ہر بند کے آخر یں وہی ایک ترجیع کا شعر بار بار آتا ہے جو سلسلہ کلام کو منقطع کر دیتا ہے ترکیب بند کے اگر تمام بندوں میں بیتوں کی تعداد برابر رکھی جائے تو بھی ایسی ہی دقت پیش آتی ہے۔

(جاری ہے)

کیونکہ اس کے ایک بند میں صرف ایک پوائنٹ عمدگی سے بیان ہو سکتا ہے۔ لیکن ہر پوائنٹ کی وسعت یکساں نہیں ہوتی۔

بلکہ کم و بیش ہوتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ بند بھی چھوٹے بڑے ہوں۔ ممکن ہے کہ ایک بند تین بیت کا ہو اور دوسرا پندرہ بیس بیت کا اور یہ بات اس تناسب کے برخلاف ہے جو شعر کا جزو اعظم ہے۔
الغرض جتنی صنفیں فارسی اور اردو شاعری میں متد اول ہیں ان میں سے کوئی صنف مسلسل مضامین بیان کرنے کے قابل مثنوی سے بہتر نہیں ہے۔ یہی وہ صنف ہے جس کی وجہ سے فارسی شاعری کو عرب کی شاعری پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔
عرب کی شاعری میں مثنوی کا رواج نہ ہونے یا نہ ہو سکنے کے سبب تاریخ یا قصہ یا اخلاق یا تصوف میں ظاہراً ایک کتاب بھی ایسی نہیں لکھی جا سکتی ، جیسی فارسی میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں لکھی گئی ہیں۔ اس لئے عرب شاہنامہ کو قرآن انجم کہتے ہیں اور اسی لئے مثنوی معنوی کی نسبت ”ہست قرآن در زبان پہلوی“ کہا گیا ہے۔
اردو میں چند چھوٹی چھوٹی عشقیہ مثنویوں کے سوا اخلاق یا تاریخ وغیرہ میں ظاہراً آج تک کوئی چھوٹی یا بڑی مثنوی کسی مسلم الثبوت استاد نے نہیں لکھی۔
عشقیہ مثنویوں کا حال بھی جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ اس زمانہ کے مقتضی اور مذاق سے بہرحال دور تر اور بعید تر ہے۔ جو قصے ان مثنویوں میں بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں قطع نظر اس کے ناممکن اور فوق العادت باتیں حد سے زیادہ مبالغہ اور غلو بھر ہوا ہے۔ اکثر مثنویوں میں شاعری کے فرائض بھی پورے پورے ادا نہیں ہوتے۔ مثنوی میں علاوہ ان فرائض کے جو غزل یا قصیدے میں واجب اولادا ہیں۔
کچھ اور شرائط بھی ہیں۔ جن کی پابندی نہایت ضروری ہے ازاں جملہ ایک ربط کلام ہے جو کہ مثنوی اور ہر مسلسل نظم کی جان ہے۔ غزل اور قصیدہ میں ایک شعر کو دوسرے شعر سے جیسا کہ ظاہر ہے کچھ ربط نہیں ہوتا۔ الاماشاء اللہ بخلاف مثنوی کے اس میں بیت کو دوسری بیت سے ایسا تعلق ہونا چاہئے۔ جیسے زنجیر کی ایک کڑی کو دوسرے کڑی سے ہوتا ہے اسی لئے جن لوگوں کی طبیعت پر غزلیت کا رنگ غالب ہے۔
ان سے مثنوی کے فرائض اچھی طرح انجام نہیں ہو سکتے۔ باورچیوں میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ پتیلی پکانے والے سے دیگ اچھی نہیں پک سکتی۔ جو نسبت پتیلی کو دیگ کے ساتھ ہے وہی نسبت مثنوی کو غزل کے ساتھ ہے جس طرح پتیلی پکانے والے کو دیگ کے نمک پانی اور آنچ کا اندازہ معلوم نہیں ہو سکتا اسی طرح جو لوگ غزل میں منہمک ہو جاتے ہیں اور ان پر غزلیت کا رنگ چڑھ جاتا ہے وہ مثنوی کی ترتیب اور انتظام سے اکثر عہدہ براء نہیں ہوتے۔
جس نظم میں کوئی تاریخی واقعہ یا کوئی فرضی قصہ بیان کیا جاتا ہے۔ اس میں مضمون آفرینی اور بلند پروازی کی کچھ ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ مطالب ایسی صفائی سے ادا کئے جائیں کہ اگر انہیں مطالب کو نثر میں بیان کیا جائے تو نثر بیان نظم سے کچھ زیادہ واضح اور صاف اور مربوط نہ ہو۔ البتہ نظم کا بیان نثر سے صرف اس قدر ممتاز ہونا چاہئے کہ نظم کی طرز بیان نثر سے زیادہ موثر اور دل کش و دلآویز ہو۔
پس مثنوی لکھنے والے کا سب سے مقدم فرض یہ ہے کہ بیتوں اور مصرعوں کی ترتیب ایسی سنجیدہ ہو کر ہر مصرع دوسرے مصرع سے اور ہر بیت دوسری بیت سے چسپاں ہوتی چلی جائے اور دونوں کے بیچ میں کہیں ایسا کھانچا باقی نہ رہ جائے کہ جب تک کچھ عبارت مقدر نہ مانی جائے۔ تب تک کلام جیسا کہ چاہئے مربوط اور منظم نہ ہو۔ مثلاً شاعر گلزار نسیم میں کہتا ہے:
خوش ہوتے تھے طفل مہ جبین سے
ثابت یہ ہوا ستارہ بیں سے
پیازا یہ وہ ہے کہ دیکھ اسی کو
پھر دیکھ نہ سکے گا کسی کو
جو مطلب کہ صاحب مثنوی ادا کرنا چاہتے کہ ”لوگ تو اس محفل میں مہ جبیں کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔
مگر نجومیوں نے بادشاہ سے یہ کہا کہ یہ لڑکا آپ کو پیارا تو ہے مگر یہ ایسا پیارا ہے کہ اس کو دیکھ کر پھر کسی کو نہ دیکھ سکے گا۔ کیونکہ اس کے دیکھتے ہی بینائی جاتی رہے گی۔“ ظاہر ہے کہ ان دونوں بیتوں میں جب تک کہ کئی لفظ بڑھائے اور کئی لفظ بدلے نہ جائیں۔ تب تک یہ مطلب جو ہم نے اوپر بیان کیا۔ ان بیتوں سے سیدھی طرح نہیں نکل سکتا اور پہلا مصرع دوسرے مصرع سے اور دوسرا مصرع تیسرے مصرع سے چسپاں نہیں ہو سکتا یا مثلاً اس مثنوی میں ہے:
نور آنکھ کا کہتے ہیں پسر کو
چشمک تھی نصیب اس پدر کو
مطلب یہ ہے کہ بیٹا باپ کی آنکھ کا نور ہوتا ہے مگر بیٹا باپ کی آنکھوں کیلئے ظلمت تھا۔
پس جب تک دوسرے مصرع کے الفاظ بدلے نہ جائیں۔ کلام مربوط نہیں ہو سکتا یا مثلا:
آتا تھا شکار گاہ سے شاہ
نظارہ کیا پدر نے ناگاہ
یہ دونوں مصرعے بھی مربوط نہیں ہیں۔ کیونکہ بظاہر الفاظ سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ شاہ اور شخص ہے اور پدر اور شخص ہے  حالانکہ پدر او رشاہ سے ایک ہی شخص مراد ہے پس دوسرا مصرع یوں ہونا چاہئے:
”بیٹے پہ پڑی نگاہ ناگاہ“
(۱) بہرحال مثنوی میں ربط کا لحاظ رکھنا خاص کر جب کہ اس میں تاریخ یا قصہ بیان کیا جائے نہایت ضروری ہے۔
(۲) دوسری نہایت ضروری بات یہ ہے کہ جو قصہ مثنوی میں بیان کیا جائے اس کی بنیاد ناممکن اور فوق العادت باتوں پر نہ رکھی جائے۔ اگرچہ قصوں اور کہانیوں میں ایسی باتیں بیان کرنے کا دستور نہ صرف ایشیا بلکہ کم و بیش تمام دنیا میں قدیم سے چلا آتا ہے اور جب تک کہ انسان کا علم محدود تھا ایسی باتوں کا اثر لوگوں کے دل پر نہایت قوت کے ساتھ ہوتا تھا۔
لیکن اب علم نے اس طلسم کو توڑ دیا ہے۔ اب بجائے اس کے کہ ان باتوں کا لوگوں کے دل پر کچھ اثر ہو  ان پر ہنسی آتی ہے اور ان کی حقارت کی جاتی ہے اور بعوض آں کے ان سے کچھ تعجب پیدا ہو  شاعر کی حماقت اور سادہ لوحی معلوم ہوتی ہے۔
 اب شاعر یا ناولسٹ کی لیاقت اس سے ثابت ہوتی ہے کہ جو مرحلے پہلے محالات کے ذریعے سے طے کئے جاتے تھے اور جن کا عادتاً طے ہونا ناممکن معلوم ہوتا تھا۔
ان کو علم اور فلسفہ کے موافق نہایت آسانی کے ساتھ طے کر جائے۔ مثلاً شاہنامہ میں جہاں رستم اور سہراب کو لڑایا ہے۔ وہاں فردوس یا اصل قصہ بنانے والے کو دو متضاد باتیں ثابت کرنی منظور ہیں۔ ایک سہراب کا رستم سے بہت زیادہ قوی اور تنومند ہونا۔
 دوسرے رستم کے ہاتھ سے آخرکار اس کو قتل کرانا پہلی بات تو اس نے اس طرح ثابت کی ہے کہ پہلے مقابلہ میں سہراب سے رستم کو بچھڑوا دیا ہے۔
مگر اب دوسری بات بغیر اس کے ثابت نہیں ہو سکتی کہ رستم میں غیر معمولی طاقت خود بخود پیدا ہو جائے۔ پس اس غرض کیلئے یہ بات گھڑی گئی کہ رستم نے جوانی میں جب کہ وہ اپنی طاقت اور زور سے تنگ آ گیا تھا۔ خدا سے دعا کی تھی کہ میری طاقت کم ہو جائے۔ چنانچہ اس کی اصل طاقت کم ہو گئی تھی۔ اب سہراب سے مغلوب ہو کر اس نے پھر دعا کی میری اصل طاقت مجھ کو مل جائے چنانچہ اس کی اصل طاقت جو خدا کے ہاں امانت رکھی تھی۔
اس کو واپس مل گئی اور دوسرے یا تیسرے مقابلہ میں سہراب پر غالب آ گیا۔ لیکن اس زمانہ میں ایسے ڈھکوسلوں سے کچھ کام نہیں چلتا آج کسی کو ایسا مرحلہ پیش آئے تو وہ اس کو اس طرح طے کر سکتا ہے کہ رستم جو کسی سے مغلوب نہ ہوا تھا اور جس کی شہرت تمام ایران اور توران میں ضرب المثل تھی کہ ایک لونڈے کے ہاتھ سے بچھڑ کر اس کی غیرت سخت جوش میں آئی اور اپنی عمر بھر کی ناموری اور عزت قائم رکھنے کا ولولہ اس کے دل میں نہایت زور کے ساتھ متحرک ہوا۔
گو طاقت میں سہراب سے بہت کم تھا مگر سپہ گری کے کرتبوں اور تجربوں میں سہراب کو اس سے کچھ نسبت نہ تھی دوسرے یا تیسرے مقابلہ میں جوش غیرت اور پاس عزت اور فن سپہ گری کی مشاقی سے اس سہراب کو مار رکھا۔
رہی یہ بات کہ اخلاقی مضامین جو اکثر قدیم زمانے کے نامور شعرا نے سوپر نیچرل باتوں کے پیرایہ میں بیان میں کئے یا اب شائستہ ملکوں میں بیان کرتے ہیں یہ ایک دوسرا عالم ہے ان کا مطلب ایسے پیرائے اختیار کرنے سے اخلاقی نتائج نکالنے اور کلام کو تعجب انگیز کرکے اس میں اخر پیدا کرنا ہوتا ہے کہ ناممکن باتوں کا لوگوں کو یقین دلانا اور ان کو واقعات کا لباس پہنانا یہ بالکل ایسی بات ہے کہ ایک شخص جانوروں کے پیرایہ میں خصائل انسانی ظاہر کرتا ہے اور ان سے اخلاقی نتائج استخراج کرتا ہے اور دوسرا شخص بغیر اس مقصد کے جانوروں کی حکایتیں اس طرح بیان کرتا ہے کہ گویا وہ ان میں فی الواقع تمام خصائل انسانی ثابت کرنا اور لوگوں کو ان کا یقین دلانا چاہتا ہے اس میں اور اس میں بہت بڑا فرق ہے۔
پس ایسے بے سروپا قصے لکھنے سے خاص کر اس زمانے میں اجتناب کرنا چاہئے۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali