Episode 39 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 39 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

(۳) مبالغہ کو اہل بلاغت نے صنائع معنوی اور محنات کلام میں شمار کیا ہے مگر افسوس ہے کہ اس کی لے بڑھتے بڑھتے اب وہ اس درجہ کو پہنچ گیا ہے کہ کلام کو بے قدر و سبک اور کم وزن کر دیتا ہے۔ انتہا سے انتہا درجہ کا مبالغہ بھی اس سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے کہ جو کچھ کسی چیز کی تعریف یا مدح یا زم میں کہا جائے گو وہ اس چیز کے حق میں صحیح نہ ہو مگر کسی نہ کسی چیز پر صادق آ سکتا ہو۔
نہ یہ کہ دنیا میں کوئی چیز اس کی مصداق نہ ہو اور مبالغہ کی غایت یہ ہونی چاہئے کہ جو مطلب بیان کرنا منظور ہے۔ مبالغہ کے سبب اس کا اثر سامع کے دل پر نہایت قوت کے ساتھ ہو۔ نہ یہ کہ اس کا رہا سہا یقین بھی جاتا رہا ہے مثلاً کسی پر رونق بازار کی نسبت ایک تو یہ کہنا کہ ”وہاں شام تک کٹورا بجتا ہے۔“ (اگرچہ وہاں کسی وقت بھی کٹورا نہ بجتا ہو) اور ایک طرف اس کی تعریف اس طرح کرنی:
رات دم جمگھٹا ہے میلا ہے
مہرد مہ کا کٹورا بجتا ہے
یا مثلاً ایسے بازار کی نسبت ایک تو یہ کہنا کہ”وہاں چھڑکاؤ سے ہر وقت زمین نم رہتی ہے“ اور ایک یہ کہ ”وہاں گلاب کیوڑے کا نہیں بلکہ آب گوہر کا چھڑکاؤ ہوتا ہے ”پس آج کل ایسے مبالغے باعث شرم سمجھتے جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ ان سے سامع کے دل پر کوئی نقش بیٹھے شاعر کی لیاقت ظاہر ہو اس کی لغویت اور بے سلیقگی پائی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

(۴) متقضائے حال کے موافق کلام ایزاد کرنا خاص کر قصہ کے بیان میں ایسا ضروری ہے کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو بلاغت کا بھید صرف اسی بات میں چھپا ہوا ہے یہ ایک نہایت وسیع بحث ہے مگر ہم یہاں صرف چند مثالیں دے کر اس مطلب کو ناظرین کے ذہن نشین کرنا چاہتے ہیں۔
مثلاً مثنوی طلسم الفت میں اس موقع پر جب کہ بادشاہ عشق آباد کی طرف سے شیدا وزیر اپنے شہزادہ کیلئے نسبت کا پیغام لے کر شہر حسن آباد میں شاہانہ جاہ و حشم کے ساتھ پہنچا ہے اور حسن آباد کے بادشاہ نے اس کے آنے کی خبر سن کر اپنے وزیر کو اس سے گفتگو کرنے کیلئے بھیجا ہے۔
وہاں صاحب مثنوی اس طرح بیان کرتا ہے۔
جاتے ہی اس نے قرب شہر پناہ
خیمہ اپنا کیا بہ شوکت و جاہ
بسکہ دانائے روزگار تھا وہ
مرد میدان کار زار تھا وہ
رعب پہلے ہی سے بٹھانے کو
صولت و دبدبہ دکھانے کو
کی اسی روز لشکر آرائی!
کثرت فوج سب کو دکھلائی
خبر آمد کی اس کی عام ہوئی
خلق دہشت زدہ تمام ہوئی
اتنے میں واں کے شہر یار کو بھی
خبر اس کے ورود کی گزری
کہ کسی شہر کا کوئی سردار
لے کے ہمراہ لشکر بسیار
آ کے ترا ہے قرب شہر پناہ
مستعد جنگ پر ہے وہ ذیجاہ
سنتے ہی وہ کمال گھر آیا
وزراء کو بلا کے فرمایا
دیکھو تو کس کا لشکر اترا ہے
کون ہم پر غنیم آیا ہے!
الغرض اک وزیر باتدبیر!
اپنے ہمراہ لے کے فوج کثیر
تھا فروکش جہاں وہ ہم پایہ
واں ملاقات کیلئے آیا
سنتے ہی پاس یہ کیا اس نے
بے تکلف بلا لیا اس نے
تالب فرش لینے کو آیا
مل کے پہلو میں اپنے بٹھلایا
پہلے تو ذکر ادھر ادھر کا رہا
بعد اک طور سے یہ اس نے کہا
کہ جہاں دار جو ہمارا ہے
اس فلک قدر نے یہ پوچھا ہے
آپ نے کی ہے کیوں ادھر تکلیف
کس ارادہ سے لائے ہیں تشریف
سیر کا عزم ہے تو گھر ہے یہ
ہر مسافر کا رہ گر ہے یہ
دل میں گر اور کچھ ارادہ ہو
تو میں باہر نہیں ابھی آؤ
فقط اتنی ہی دیکھتا تھا میں راہ
دیر پھر کس لئے ہے بسم اللہ
اس بیان میں قطع نظر لفظی کمزوریوں کے بڑی کسر یہی ہے کہ کلام مقتضائے حال کے موافق ایزاد نہیں کیا گیا۔
تاریخ کے بیان میں مورخ خود واقعات کے قبضہ میں ہوتے ہیں۔ تاریخ میں جس واقعہ کی صحت بخوبی ثابت ہو جائے اس کی جواب دہی مورخ کے ذمہ باقی نہیں رہتی۔ البتہ اس کا فرض ہے کہ اس کے اسباب کا تفحص کرے اور بتائے کہ ایسا واقعہ ہوا بخلاف قصہ کے کہ اس کے بیان میں جو بے ربطی پائی جائے گی اس کا ذمہ دار خود قصہ کا بنانے والا ہے۔
 اول تو نسبت کے پیغام کو پہلے خط و کتابت کے ذریعہ سے طے نہ کرنا اوردفتہً وزیر اور شہزادے کے ساتھ ایک لشکر جرار روانہ کر دینا۔
پھر وزیر کا فوج کثیر لیکر اور مہینوں کا رستہ طے کرکے حسن آباد کی شہر پناہ تک پہنچ جانا اور بادشاہ حسن آباد کو اس کے حال اور اس کے ارادہ کی مطلق خبر نہ ہونا پھر اس کا حال دریافت کرنے کیلئے بادشاہ کا وزیر کو معہ فوج کثیر کے بھیجنا پھر وزیر کا بادشاہ کی طرف سے مہمان کے ساتھ ایسی گفتگو کرنا۔ جیسی کہ بازاریوں میں ہوتی ہے۔ یعنی یہ کہ ”اگر کچھ اور ارادہ ہو تو میں اس سے بھی باہر نہیں ہوں میں بس اتنی ہی راہ دیکھتا تھا۔
اب دیر کیا ہے بسم اللہ“ بالکل متقضائے مقام کے خلاف ہے۔
اس کے بعد شیدا وزیر بادشاہ عشق آباد کی طرف سے نسبت کا پیغام دینے کے بعد کہتا ہے:
جاہ و حشمت کا کچھ اگر ہو خیال
تو یہ بے جا اے ہمایوں فال
آپ ہیں اپنے شہر کے سلطان
بندہ ہے تاج بخش باج ستاں
دل میں انصاف کیجئے تو صریح
ہر طرح سے ہے بندہ کو ترجیح
کہ میں سلطان خسرواں ہوں آج
بلکہ شہنشاہ جہاں ہوں آج!
میرے قبضے میں ہیں کئی اقلیم
بخشتا ہوں میں افسردو بیم
مجھ کو دی ہے خدا نے وہ طاقت
وہ مرا دبدبہ ہے اور صولت
آج چاہوں تو باج دے قاروں
ربع مسکوں پہ سکہ بٹھلاؤں
زور دکھلانے پر میں آؤں گر
چھین لوں تاج خسرو خاور
میں دلاور وہ ہوں سفاک
ہفت اقلیم میں ہے جس کی دھاک
سرکش آ آ کے پاؤں پڑتے ہیں
ناک در پر مرے رگڑتے ہیں

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali