Episode 42 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 42 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

اگرچہ اس نظم میں اول کی چند باتوں کے سوا سارا بیان بہت صاف اور نیچرل ہے۔ مگر میر حسن نے شوق سے تقریباً ستر برس پہلے جب کہ زبان اردو کی ابتدائی حالت تھی اس مقام کا سماں اس سے زیادہ نیچرل طور پر باندھا ہے وہ کہتا ہے:
خفا زندگانی سے ہوئے لگی
بہانے سے جا جا کے سونے لگی
ٹھہرنے لگا جاں میں اضطراب
لگی دیکھنے وحشت آلودہ خواب
نہ اگلا سا ہنسنا نہ وہ بولنا
نہ کھانا نہ پینا نہ لب کھولنا
جہاں بیٹھنا پھر نہ اٹھنا اسے
محبت میں دن رات گھٹنا اسے
کہا گر کسی نے کہ بیوی چلو
تو اٹھنا اسے کہہ کے ہاں جی چلو
جو پوچھا کسی نے کہ کیا حال ہے
تو کہنا یہی ہے جو احوال ہے
کسی نے جو کچھ بات کی، بات کی
پر دن کی جو پوچھی کہی رات کی
کہا گر کسی نے کچھ کھایئے
کہا خیر بہتر ہے منگوایئے
جو پانی پلانا تو بینا اسے
غرض غیر کے ہاتھ جینا اسے
نہ کھانے کی سدھ اور نہ پینے کا ہوش
بھرا دل میں اس کے محبت کا ہوش
کسی نے کہا سیر کیجئے ذرا
کہا سیر سے دل ہے میرا برا
چمن پر نہ مائل نہ گل پر نظر
وہی سامنے صورت آٹھوں پہر
نہفتہ اسی سے سوال و جواب
سدا روبرو اس کے غم کی کتاب
غزل یا رباعی یا کوئی فرد
اسی ڈھب کی پڑھنا کہ ہو جس میں درد
سو بھی جو مذکور نکلے کہیں
نہیں تو کچھ اس کی بھی پروا نہیں
سبب کیا کہ دل سے تعلق ہے سب
نہ ہو دل تو پھر بات بھی ہے غضب
گیا ہو جب اپنا، ہی جیوڑا نکل
کہاں کی رباعی کہاں کی غزل
زبان پر تو باتیں ولے دل اداس
پراگندہ حیرت سے ہوش و حواس
نہ منہ کی خبر اور نہ تن کی خبر
نہ سر کی خبر نہ بدن کی خبر
اگر سر کھلا ہے تو کچھ غم نہیں
جو کرتی ہے میلی تو محرم نہیں
جو مسی ہے دو دن کی تو ہے وہی
جو کنگھی نہیں ہے تو یوں ہی سہی
نہ منظور سرمہ نہ کاجل سے کام
نظر میں وہی تیرا بختی کی شام
و لیکن یہ خوباں کا دیکھا سو بھاؤ
کہ بگڑے سے دونا ہو ان کا بناؤ
نہیں حسن کی اس طرح بھی کمی
جو بیٹھی ہے بگڑی تو گویا بنی
غرض بے ادائی سے یاں کی ادا
شھلوں کو سبھی کچھ لگے ہے بھلا
ان دونوں نظموں میں یہ اعتبار سادگی اور نیچرل ہونے کے جو حق ہے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔

(جاری ہے)

لیکن میر حسن کے بیان میں جہاں جہاں نیچرل حالت کی تصویر بعینہ کھینچی گئی ہے اس کو جتا دینا ضرور ہے۔ بہانہ سے جا جا کے سونا ، وحشت آلود خواب دیکھنا ، جہاں بیٹھ جانا پھر وہاں سے نہ اٹھنا ، اگر کسی نے اٹھنے کو کہا تو اٹھ کھڑا ہونا نہیں تو بیٹھے رہنا ، کسی نے حال پوچھا تو خیرو عافیت کہدی۔
 کسی نے بات کی تو جواب دے دیا مگر بے ٹھکانے ، کسی نے کھانے کو کہا تو بہت اچھا نہیں تو کچھ نہیں، ہر کام اوروں کے کہنے سے کرنا نہیں تو کچھ نہ کرنا ، دل ہی دل میں کسی سے سوال و جواب کرنے ، دن رات کسی کی صورت آنکھوں کے سامنے رہنی ، زبان سے باتیں کرنی اور دل میں اداس رہنا ، جو سر کھلا ہے تو کھلا ہی ہے ، جو کرتی میلی ہے تو میلی ہی ہے ، جو مسی نہیں ملی تو ، ہی سہی جو کنگھی نہیں کی تو بے کنگھی ہی سہی ، نہ سرمہ سے مطلب نہ کاجل سے غرض ، مگر بغیر بناؤ سنگار کے بھلا لگنا اور بگڑنے سے اور زیادہ بننا یہ سب ایسی سچی اور پتے کی باتیں ہیں جو ہمیشہ ایسی حالتوں میں واقع ہوا کرتی ہیں۔
اگرچہ شوق کا بیان اور مثنویوں کی نسبت نہایت عدہ ہے مگر جیسی جچی تلی باتیں میر حسن نے بیان کی ہیں ویسی شوق کے یہاں بہت کم ہیں۔
جو لوگ صنعت الفاظ پر فریضہ ہوتے ہیں اور لفظی مناسبتوں پر جان دیتے ہیں وہ کبھی کسی نیچرل حالت کی تصویر نہیں کھینچ سکتے۔ یہی جدائی اور انتظار کا بیان طلسم الفت میں اس طرح کیا گیا ہے:
شرم اس کو حیا سے آنے لگی
بے حجابی کے ناز اٹھانے لگی
کم وقاری کی قدر بڑھنے لگی
چشم تر بھی نظر پر چڑھنے لگی
ٹھنڈی سانسوں کا دم وہ بھرنے لگی
سوز الفت کا پاس کرنے لگی
پان کے بدلے خون دل کھانا
دیکھ کر مہندی پاؤں پھیلانا
رات دن ہم کلام خاموشی
یاد ہر دم زخود فراموشی
گرم صحبت تھی سرد آہوں سے
سرمہ بھی گر گیا نگاہوں سے
ناتوانی بھی زور کرنے لگی
لاغری فکر گور کرنے لگی
آشنا درد آہ لب سے ہوا
اوج سوز دل اس سبب سے ہوا
شدتیں درد دل کی سہنے لگی
پاس پہلو کے پاس رہنے لگی
رنگ خون جگر بھی لانے لگا
آنکھ سے جائے اشک آنے لگا
سرگرانی بھی سر اٹھانے لگی
بیقرای سے چین پانے لگی
کاجل اور آئینہ سے آٹھ پہر
چشم پوشی تھی، اس کو مدنظر
روز افزوں تھا شوق کم سخنی
زردی رنگ رخ پہ غازہ بنی
چوٹی بھولے سے بھی نہ گندھواتی
پیچ و تاب اور کنگھی سے کھاتی
ذکر سن سن کر لاکھے کا وہ نگار
ہونٹ اپنے چپاتی سو سو بار
ہم نشینوں سے ہو گئی نفرت
کنج غزلت سے رہتی تھی خلوت
خشکی لب جو کرتی منہ زوری
صاف کر جاتی اس کی غم خوری
بدلے ہنسنے کے روز رونا تھا
خاک مسند کی جا بچھونا تھا
خاصہ جس وقت کوئی لاتی تھی
گھڑیوں ابکائی اس کو آتی تھی
کوفت کھانے سے بس وہ جیتی تھی
خون دل جائے آب پیتی تھی
گو کہ درد جگر مصائب تھا
ضبط آٹھوں پہر مصائب تھا
گاہ آنکھیں لگی ہوئی چھت سے
مشورے گاہ درد فرقت سے
دل سے کہنا کبھی، نہیں رے دل
دلربا کا یہ زعم ہے باطل
کچھ تو امید جی میں تھی کچھ پاس
گاہ درجہ یقین کا گاہ ہراس

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali