Episode 43 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 43 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

یہ مثنوی لکھنوٴ کے ایک مشہور شاعر آفتاب الدولہ مہر الملک خواجہ اسد علی خان بہادر شمس جنگ تخلص بہ خلق کی ہے سنا ہے کہ اکثر اہل لکھنوٴ اس کو اعلی درجہ کی مثنوی سمجھتے ہیں۔ شاید ایسی ہی ہو مگر افسوس ہے کہ وہ زمانہ حال کے مذاق سے بالکل آشتی نہیں رکھتی۔ جو شعر ہم نے اس مقام پر اس سے نقل کئے ہیں۔ ان کی کچھ خصوصیت نہیں ہے۔ بلکہ اس مثنوی کا تمام بیان اول سے آخر تک اسی قبیل کا ہے۔
لفظی رعایتوں میں معنی کا سررشتہ اکثر ہاتھ سے جاتا رہتا ہے اور کوئی حالت یا سماں جیسا کہ چاہئے بیان نہیں ہو سکتا۔ اول کے چار شعروں میں پہلے مصرعے کا تو بمشکل کچھ کچھ مطلب سمجھ میں آ جاتا ہے مگر آخر کے چار مصرعوں کا مطلب ہماری سمجھ میں مطلق نہیں آیا۔ ان کے بعد اکثر مصرعے اس طرح کے ہیں۔ باقی جن شعروں یا مصرعوں کا مفہوم کچھ سمجھ میں آتا ہے۔

(جاری ہے)

ان میں کوئی بات سیدھی طرح نہیں بیان کی۔ مثلاً ”اس کو کسی کی شرم باقی نہیں رہی تھی ”اس کو یوں بیان کیا ہے کہ۔“ اس کو شرم سے شرم آنے لگی۔“ ”یا اس کی جگہ ”اس کو خود فراموشی یاد رہتی تھی۔“ غرض کل اشعار کا حال جیسا کہ ظاہر ہے ایسا ہی ہے یا اس سے بھی زیادہ ژولیدہ اور غیر فطری۔
مثنوی گلزار نسیم میں لفظی رعایتوں کا بہت التزام کیا گیا ہے۔
اس نے بھی بکاولی کا تاج الملوک کے فراق میں کچھ مختصر سا حال لکھا ہے۔ وہ اس طرح بیان کرتا ہے:
کرتی تھی جو بھوک پیاس بس میں
آنسو پیتی تھی کھا کے قسمیں
جامہ سے جو زندگی کی تھی تنگ
کپڑوں کے عوض بدلتی تھی رنگ
یکچند جو گزری بے خور و خواب
زائل ہوئی اس کی طاقت و تاب
صورت میں خیال رہ گئی وہ
ہیئت میں مثال رہ گئی وہ
اس بیان میں تیسرے شعر کے سوا باقی تین شعروں کا مطلب کچھ نہیں معلوم ہوتا اور ظاہراً اس نے کوئی مطلب رکھا بھی نہیں۔
اس کو تو فقط یہ لطیفہ بیان کرنا مقصود ہے کہ کھانے کی جگہ قسمیں کھاتی تھی پینے کی جگہ آنسو پیتی تھی۔ کپڑے کے عوض رنگ بدلتی تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔
(۶) قصہ میں اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ ایک بیان دوسرے بیان کی تکذیب نہ کرے کیونکہ اس سے قصہ نگار کا پھوہڑ پن ثابت ہوتا ہے اور سچ مچ اس مثل کا مصداق بنتا ہے کہ ”دروغ گورا حافظہ نباشد۔
“ آج کل جو شائستہ ملکوں میں ناول لکھے جاتے ہیں ان کا تو کیا ذکر ہے۔ ایشیا کے قدیم زمانہ کے قصہ نویسوں نے بھی اس بات کا ہمیشہ لحاظ رکھا ہے کہ ایک بیان دوسرے بیان کے منافی نہ ہو۔
 یہ سچ ہے کہ قصہ میں کسی خاص واقعہ کا بیان نہیں ہوتا مگر قصہ نگار اس کو ایک واقعہ ہی کی صورت میں بیان کرتا ہے پس اس کو ایسے طور پر بیان کرانا جس سے جابجا اس کی غلط بیانی ثابت ہو  اصول قصہ نگاری کے خلاف ہے۔
کاری گر کسی انسان کی صورت پتھر یا دھات کی بناتا ہے ظاہر ہے وہ صورت انسان کی نقل ہوتی ہے نہ کہ اصل انسان۔ لیکن کاریگر کا فرض ہے کہ اس میں اور اصلی انسان میں ایک جان پڑنے کے سوا کوئی فرق محسوس نہ ہو۔ اسی طرح قصہ نگار کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ قصہ بالکل واقعات کی شکل میں بیان کیا جائے۔ اس مطلب کے ذہن نشین کرنے کیلئے ہم چند شعر مثنوی طلسم الفت کے نقل کرتے ہیں۔
ایک قصہ گو شاہزاد عشق آباد یعنی جان جہان سے حسن آباد کی شہزادی عالم آراء کا حال اپنی آنکھوں دیکھا بیان کر رہا ہے کہ جب میں حسن آباد میں پہنچا تو ایک شخص نے مجھ سے عالم آرا کے حسن و جمال کا ذکر کرنے کے بعد یہ کہا:
دیکھنا بھی تو اس کا مشکل ہے
کہ وہ لیلیٰ میان محمل سے
آدمی کیا ملک سے پردہ ہے
بلکہ چشم فلک سے پردہ ہے
اس بیان سے معلوم ہوا ہے کہ اس کو بڑے اہتمام کے ساتھ پردہ میں رکھا جاتا ہے مگر اسی بیان میں اس کا ذکر ہوتے ہوتے یہ ارشاد ہوتا ہے کہ باغ میں جس دریچہ میں جا کر بیٹھی ہے وہاں:
بام پر اژدھام رہتا ہے
مجمع خاص عام رہتا ہے
مشق جور و ستم کسی پر ہے
چشم لطف و کرم کسی پر ہے
ناز سے ایک سے کلام کیا
ایک کو غمزہ سے تمام کیا
وصل کا ایک سے کیا اقرار
ایک مشتاق سے کیا انکار
دو ہی فقروں سے اک و ٹال دیا
ٹھٹھے بازی میں اک کو ڈال دیا
کھینچ مارا کسی پہ ہنس کے اگال
رنج سے منہ کسی کا ہو گیا لال
دور سے ہنس کے اک کو شاد کیا
قرب پردہ کسی کو یاد کیا
یوں ہی وہ دن تمام ہوتا ہے
کیا کہوں قتل عام ہوتا ہے
دو گھڑی دن رہے سے تا سر شام
جلوہ آرا رہی و مہر اندام
غرض کہاں تک لکھوں دور تک ایسے ہی اشعار جن سے نہ صرف بے پردگی بلکہ غائت درجہ کا بیسوا پن پایا جاتا ہے چلے جاتے ہیں۔
اسی بیان میں اور اوپر کے دونوں شعروں کے بیان میں جو منافات ہے وہ ظاہر ہے۔ ایسی مثالیں اس مثنوی میں اور گلزار نسیم میں بہت ہیں مگر اور مثنویاں بھی اس سے بالکل پاک نہیں ہیں۔
(۷) اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ قصہ کے ضمن میں کوئی بات ایسی بیان نہ کی جائے جو تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہو جس طرح ناممکن اور فوق العادت باتوں پر قصہ کی بنیاد رکھنی آج کل زیبا نہیں ہے اسی طرح قصہ کے ضمن میں ایسی جزئیات بیان کرنی جن کی تجربہ اور مشاہدہ تکذیب کرتا ہو ہرگز جائز نہیں ہے۔
اس سے قصہ نگار کی اتنی بے سلیقگی ثابت نہیں ہوتی جتنی کہ اس کی لاعلمی اور دنیا کے حالات سے ناواقفیت اور ضروری اطلاع حاصل کرنے سے بے پروائی ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً بدر منیر میں ایک خاص موقع اور وقت کا سماں اس طرح بیان کیا ہے:
وہ گانے کا عالم وہ حسن بتاں
وہ گلشن کی خوبی وہ دن کا سماں
درختوں کی کچھ چھاؤں اور کچھ وہ دھوپ
وہ دھانوں کی سبزی وہ سرسوں کا روپ
اخیر مصرع سے صاف یہ مفہوم ہوتا ہے کہ ایک طرف دھان کھڑے تھے اور ایک طرف سرسوں پھول رہی تھی۔
مگر یہ بات واقعہ کے خلاف ہے کیونکہ دھان خریف میں ہوتے ہیں اور سرسوں ربیع میں گیہوں کے ساتھ بوئی جاتی ہے۔
یا مثلاً مثنوی طلسم الفت میں جب کہ شہزادہ جان جہاں کا جہاز غرق ہوا ہے اور جان جہان اور سب اہل جہاز ڈوب چکے ہیں۔ اس طرح بیان کرتا ہے:
دوسرے دن وہ گوہر یکتا
جھیل کر محنت محیط بلا
مثل خورشید ڈوب کر نکلا
زندہ اک تختہ پر مگر نکلا

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali