Episode 44 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 44 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

یعنی جان جہان ایک رات اور ایک دن ڈوبے رہنے کے بعد زندہ دریا سے نکلا اور نکلا بھی ایک تختہ پر بیٹھا ہوا اول تو اس قدر عرصہ کے بعد زندہ نکلنا اور پھر قعر دریا سے ایک تختہ پر بیٹھے نکلنا بالکل تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہے۔
(۸) جس طرح سے ان سے اہم اور ضروری باتوں کو جن پر قصہ کی بنیاد رکھی گئی ہے نہایت صراحت کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے اسی طرح ان ضمنی باتوں کو جو صاف صاف کہنے کی نہیں ہیں  رمز اور کنایہ میں بیان کرنا ضروری ہے مگر افسوس ہے کہ ہماری مثنویوں میں دونوں باتوں کا لحاظ بہت کم کیا گیا ہے۔
مثلاً گل بگاؤلی کے قصہ میں سارے قصہ کی بنیاد صرف اس بات پر رکھی گئی ہے کہ زین الملوک کے جب پانچواں بیٹا پیدا ہوا تو نجومیوں نے یہ حکم لگایا کہ اگر بادشاہ اس بیٹے کی طرف آنکھ اٹھا کر یکھے گا تو اس کی بینائی جاتی رہے گی مگر گلزار نسیم میں اس بات کو ایسا ناکافی طور پر بیان کیا ہے کہ اگر گل بگاؤلی کا قصہ پہلے سے کسی کو معلوم نہ ہوا تو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ سکتا۔

(جاری ہے)

رہی دوسری بات سو اس کا خیال تو ہمارے شعرا نے کبھی بھول کر بھی نہیں کیا بلکہ جو باتیں بے شرمی کی ہوتی ہیں وہاں اور بھی زیادہ پھیل پڑتے ہیں اور نہایت فخر کے ساتھ ناگفتی باتوں کا کھلم کھلا بیان کرتے ہیں۔ 
افسوس کہ ہم ایسے موقعوں کی زیادہ صاف اور کھلی مثالیں نہیں دے سکتے۔ صرف تصریح اور کنایہ کی صورت زیادہ ذہن نشین کرنے کیلئے یہاں تک سرسری مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔
خواجہ میر اثر دہلوی اپنی مثنوی خواب و خیال میں اختلاط کے موقع پر کہتے ہیں:
ہاتھ پائی میں ہانپتے جانا
کھلتے جانے میں ڈھانپتے جانا
دوسرے مصرع میں اس بات کی کچھ تصریح نہیں کی گئی کہ کیا چیز کھلتی ہے اور کس چیز کو بار بار ڈھانپا جانا تھا۔ یہ مطلب اس سے بہتر لفظوں میں ادا نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ ایسے موقع پر ہمیشہ بولا بھی یونہی جاتا ہے کہ سینے یا چھاتی یا محرم وغیرہ کا صراحتاً نام نہیں لیا جاتا۔
اسی مطلب کو نواب مرزا شوق نے بہار عشق میں اس طرح ادا کیا ہے:
ہاتھا پائی میں ہانپتے جانا
چھوٹے کپڑوں کو ڈھانپتے جانا
شوق نے اتنا پردہ تو رکھا ہے کہ لباس ہی کے نام پر اکتفا کیا ہے سینے وغیرہ کا نام نہیں لیا مگر پردہ ایسا باریک ہے کہ اس میں بدن جھلکتا نظر آتا ہے۔
تصریح کچھ بے شرمی و بے حیائی ہی کے موقع پر بدنما نہیں ہوتی بلکہ قصہ میں اکثر مقام ایسے آ جاتے ہیں کہ وہاں رمز و کنایہ سے کام نہ لیا جائے تو کلام نہایت سبک اور کم وزن ہو جاتا ہے۔
اگرچہ یہ بحث فی الواقع چوتھی دفعہ سے علاقہ رکھتی ہے جس میں مقتضائے حال کے موافق ایزاد کلام کا ذکر ہو چکا ہے لیکن اس کو زیادہ اہم سمجھ کر خصوصیت کے ساتھ علیحدہ بیان کیا گیا ہے۔
ان آٹھ باتوں کے سوا قصہ نگاری کے اور بھی فرائض ہیں مگر یہاں صرف انہیں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اگر ہمارے ہم وطنوں کو شاعری کی اصلاح کا خیال ہوگا۔ تو ان کو کسی کے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
خود ان کی طبیعت ان کی رہنمائی کرے گی۔
اب ہم خاص ان مثنویوں پر جو ہمارے نزدیک کسی نہ کسی حیثیت سے امتیاز رکھتی ہیں ایک اجمالی نظر ڈالتے ہیں۔ اب تک اردو میں جتنی عشقیہ مثنویاں ہماری نظر سے گزری ہیں۔ ان میں سے صرف تین شخصوں کی مثنوی ایسی ہیں جس میں شاعری کے فرائض کم و بیش ادا ہوئے ہیں۔ اول میر تقی جنہوں نے غالباً سب سے اول چند عشقیہ قصے اردو مثنوی میں بیان کئے ہیں۔
جس زمانہ میں میر نے مثنویاں لکھی ہیں اس وقت اردو زبان پر فارسیت بہت غالب تھی اور مثنوی کا کوئی نمونہ اردو زبان میں غالباً موجود نہ تھا اور اگر ایک آدھ نمونہ موجود بھی ہو تو اس سے چنداں مدد نہیں مل سکتی۔ اس کے سوا اگرچہ غزل کی زبان بہت منجھ گئی تھی۔ مگر مثنوی کا رستہ صاف ہونے تک بھی بہت زمانہ درکار تھا اسی لئے میر کی مثنویوں میں فارسی ترکیبیں فارسی محاوروں کے ترجمے اور ایسے فارسی الفاظ جن کی اب اردو زبان متحمل نہیں ہو سکتی۔
 اس اندازہ سے جو آج کل فصیح اردو کا معیار ہے بلاشبہ کسی قدر زیادہ پائے جاتے ہیں نیز اردو زبان کے بہت سے الفاظ و محاورات جواب متروک ہو گئے ہیں۔ میر کی مثنوی میں موجود ہیں۔ اگرچہ یہ تمام باتیں میر کی غزل میں بھی کم بیش پائی جاتی ہیں مگر غزل میں ان کی کھپت ہو سکتی ہے کیونکہ غزل میں ایک شعر بھی صاف اور عمدہ نکل آئے تو ساری غزل کو شان لگ جاتی ہے  وہ عمدہ شعر لوگوں کی زبان پر چڑھ جاتا ہے اور باقی پر کن اشعار سے کچھ سروکار نہیں رہتا لیکن مثنوی میں جستہ جستہ اشعار کے صاف اور عمدہ ہونے سے کام نہیں چلتا۔
زنجیر کی ایک کڑی بھی ناہموار اور بے میل ہوتی ہے تو ساری زنجیر آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ پس ان اسباب سے شاید میر کی مثنوی آج کل کے لوگوں کی نگاہ میں نہ جچے۔ 
مگر اس سے میر کی شاعری میں کچھ فرق نہیں آتا۔ جس وقت میر نے یہ مثنویاں لکھی ہیں اس وقت اس سے بہتر زبان میں مثنوی لکھنی امکان سے خارج تھی با ایں ہمہ میر کی مثنوی میں بھی بیان کے انتظام اور تسلسل کو انہوں نے کہیں ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے اور مطالب کو بہت خوبی کے ساتھ ادا کیا ہے۔
جیسا کہ ایک مشاق و ماہر استاد کر سکتا ہے اس کے سوا صاف اور عمدہ شعر بھی میر کی مثنوی میں بمقابلہ ان اشعار کے جن پر پرانے محاورے یا فارسیت غالب ہے کچھ کم نہیں ہیں۔ صدہا اشعار میر# کی مثنویوں کے آج تک لوگوں کے زبان زد چلے جاتے ہیں۔
اگرچہ میر کی مثنویوں میں قصہ پن بہت کم پایا جاتا ہے۔ انہوں نے چند صحیح یا صحیح نما واقعات بطور حکایات کے سیدھے سادھے طور پر بیان کر دیئے ہیں۔
نہ ان میں کسی شادی یا تقریب یا وقت یا موسم کا سماں بیان کیا گیا ہے نہ کسی باغ یا جنگل یا پہاڑ کی فضا یا اور کوئی ٹھاٹھ دکھایا گیا ہے مگر جتنی میر کی عشقیہ مثنویاں ہم نے دیکھی ہیں وہ سب نتیجہ خیز اور عام مثنویوں کے برخلاف بے شرمی و بے حیائی باتوں سے مبرا ہیں۔
میر تقی کے بعد میر حسن دہلوی کی مثنوی بدر منیر نے ہندوستان میں جو سچی شہرت حاصل کی ہے وہ نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد آج تک کسی مثنوی کو نصیب ہوئی۔ یہ خیال کہ میر تقی کے نمونوں سے میر حسن کو کچھ مدد ملی ہو گی یا کچھ رہبری ہوئی ہو گئی ٹھیک نہیں معلوم ہوتا کیونکہ قصہ کی شان جو میر حسن کی مثنوی میں ہے میر تقی کی مثنویوں میں اس کا کہیں پتہ بھی نہیں۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali