Episode 45 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 45 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

اگر اس بات سے قطع نظر کر لی جائے کہ قدیم قصوں کی طرح اس مثنوی کی بنیاد بھی دیو پری کے افسانوں پر رکھی گئی ہے تو یہ کہنا کچھ بے جا نہیں ہے کہ میر حسن نے قصہ نگاری کے تمام فرائض پورے پورے ادا کر دیئے ہیں سلطنت کی شان و شوکت تختہ گاہ کی رونق اور چہل پہل ، لاولدی کی حالت میں یاس و نا امیدی اور دنیا سے دل برداشتگی جوتشیوں کی گفتگو ، شاہزادہ کی ولادت اور چھٹی کی تقریب ، ناچ رنگ اور گانے بجانے کے ٹھاٹھ ، باغوں اور ہر قسم کی محفلوں کے سمے ، سواریوں کے جلوس ، حمام میں نہانے کی کیفیت اور حالت ، مکانوں کی آرائش ، شاہانہ لباس اور جواہرات اور زیورات کا بیان ، خواب گاہ کا نقشہ ، جوانی کی نیند کا عالم ، رنج و غم کے عالم میں محلوں اور باغوں کی بے رونقی ، عاشق معشوق کی پہلی ملاقات اور اس میں شرم و حجاب کا پاس و لحاظ ، عشق و محبت کا بیان ، حسن و جمال کا بیان ، مصائب کا بیان ، خوشی کا بیان نسبت کے پیغام و سلام ، بیاہ شادی کے سامان ، بچھڑے ہوؤں کا ملنا اور اس حالت کا نقشہ غرض کہ جو کچھ اس مثنوی میں بیان کیا ہے ، اس کی آنکھوں کے سامنے تصویر کھینچ دی ہے اور مسلمانوں کے آخیر دور میں سلاطین و امراء کے ہاں جو جو حالتیں ایسے موقعوں پر گزرتی تھیں اور جو جو معاملات پیش آتے تھے ان کا بعینہ چربہ اتار دیا ہے۔

(جاری ہے)


 میر حسن کے بعد اور مثنویوں میں بھی بدر منیر کی ریس سے یہ تمام سین دکھانے کا قصد کیا گیا ہے۔ لیکن اکثر راہ راست سے بہت دور جا پڑے ہیں ، ایک صاحب بازار کی تعریف میں کہتے ہیں کہ وہاں نازو شوخی و انداز کی جنس بکتی ہے (یعنی کوئی جنس دستیاب نہیں ہوتی) ٹھنڈی سانسوں کا بازار گرم رہتا ہے (یعنی بازار میں بالکل رونق نہیں)۔ داغ دل کا سکہ ہر طرف بھنایا جاتا ہے (یعنی سکہ رائج کی ریزگاری نہیں ملتی) خارمثرگاں کے کانٹے میں زرجاں تلتا ہے (یعنی وہاں نہ سونا ہے نہ سونا تولنے کا کانٹا) میوہ فروش سیب رذقن بیچتے ہیں۔
(یعنی سیب نہیں ملتے) ترکاری کی جگہ جو بن بکتا ہے) یعنی ترکاری نہیں ملتی حلوائیوں کی دکان پر شیرہ جان کی مٹھائی بنتی ہے (یعنی لڈو پیڑے اور بالو شاہی وغیرہ کا قحط ہے) بازار میں آب گوہر کا چھڑکاؤ ہوتا ہے اور مہرو ماہ کا کٹورا بجتا ہے (یعنی بازار میں خاک اڑتی ہے اور ہر وقت سناٹا رہتا ہے) اسی طرح جو سین دکھانا چاہا ہے۔ اس میں محض الفاظ کا طلسم باندھا ہے معنی سے کچھ سروکار نہیں رکھا بہرحال اردو کی عشقیہ مثنویوں میں ہمارے نزدیک اکثر اعتبارات سے بدر منیر کے برابر آج تک کوئی مثنوی نہیں لکھی گئی البتہ اس میں کچھ الفاظ و محاورات ایسے ضرور ہیں جو کہ اب متروک ہو گئے ہیں۔
لیکن آج سے ستر اسی برس پہلے کی مثنوی کا حسن اور زیور یہی ہے کہ اس میں ایسے الفاظ و محاورے موجود ہوں۔
میر حسن کے بعد نواب مرزا شوق لکھنوی کی مثنویاں سب سے زیادہ لحاظ کے قابل ہیں۔ شوق نے غالباً واجد علی شاہ کے اخیر زمانہ سلطنت میں یہ مثنویاں لکھی ہیں۔ ان میں سے تین مثنویوں میں اس نے اپنی ابو الہوسی اور کامجوئی کی سرگزشت بیان کی ہے یا یوں کہو کہ اپنے اوپر افتراء باندھا ہے اور ایک مثنوی یعنی لذت عشق میں ایک قصہ بالکل بدر منیر کے قصے سے ملتا جلتا اس کی بحر میں لکھا ہے ان مثنویوں میں اکثر مقامات20 اس قدر غیر اخلاقی اور خلاف تہذیب ہیں کہ ایک حد تک ان تمام مثنویوں کا چھپنا حکماً بند رہا لیکن شاعری کی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو ایک خاص حد تک ان کو بدر منیر پر ترجیح دی جا سکتی ہے وہ قدیم الفاظ اور محاوروں سے جو اب متروک ہو گئے ہیں اور حشو اور بھرتی کے الفاظ سے بالکل پاک ہیں ، ان میں ایک قسم کا بیان ، زبان کی گھلاوٹ ، روزمرہ کی صفائی ، قافیوں کی نشست اور مصرعوں کی برجستگی کے لحاظ سے بمقابلہ بدر منیر کے بہت بڑھا ہوا ہے ان میں مردا نے اور زنانے محاوروں کو اس طرح برتا ہے کہ نثر میں بھی ایسی بے تکلفی سے آج تک کسی نے نہیں برتا۔
 اگرچہ ان مثنویوں میں بدر منیر کی طرح ہر موقع کا سین نہیں دکھایا گیا۔ جس سے شاعر کی قدرت بیان کا پورا اندازہ ہو سکے مگر جو کچھ اس نے بیان کیا ہے ، خواہ وہ اخلاقی ہو خواہ غیر اخلاقی اس میں حسن بیان کا پورا حق ادا کر دیا ہے۔ اس نے بخلاف عام شعرائے لکھنوٴ کے لفظی رعایتوں کا مطلق التزام نہیں کیا اور اردو کے عام روزمرہ کو صحت الفاظ پر جس کے اہل لکھنوٴ سخت پابند ہیں اکثر ترجیح دی ہے۔
ردیف و قافیہ میں عروضیوں کی بے جاقیدوں کی بھی چنداں پابندی نہیں کی۔ مگر جو اصل مقصود ردیف و قافیہ سے ہوتا ہے اس کو کہیں ہاتھ سے نہیں جانے دیا مثلاً:
کوئی مرتا ہے کیوں؟ بلا جانے
ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں
اس ردیف کو ہمارے شعراء ضرور غلط بتائیں گے مگر ردیف کا جو اصل مقصد ہے وہ اس سے بخوبی حاصل ہے۔ کیونکہ سامع کو یہ سن کر واحد اور جمع کا فرق مطلق محسوس نہیں ہوتا اور یہی ردیف کا ماحصل ہے۔
اختلاط کے موقع پر جس بے تکلفی کے ساتھ معاملات کی تصویر اس نے کھینچی ہے۔ اس کی نسبت سوا اس کے اور کیا کہا جائے کہ ”چور کی ماں گھنٹوں میں سردے اور روئے۔“ افسوس ہے کہ شوق کی مثنویوں کی اس سے زیادہ اور کچھ داد نہیں دی جا سکتی کہ جو شاعری اس نے ایسی غیر اخلاقی مثنویوں کے لکھنے میں صرف کی ہے اگر وہ اس کو اچھی جگہ صرف کرتا اور روشنی کے فرشتے سے تاریکی کے فرشتے کا کام نہ لیتا تو آج اردو زبان میں اس کی مثنویوں کا جواب نہ ہوتا۔
یہ بات تعجب سے خالی نہیں کہ نواب مرزا شوق کو اپنے اسکول کے برخلاف مثنوی میں ایسی صاف اور بامحاورہ زبان برتنے کا خیال کیونکہ پیدا ہوا۔ جب سوسائٹی کا رخ پھرا ہوا ہوتا ہے تو اس کے مخالف رخ بدلنے کیلئے کسی خارجی تحریک کا ہونا ضروری ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ میر درد کے چھوٹے بھائی میر اثر دہلوی نے جو ایک مثنوی لکھی ہے جس کا نام غالباً خواب و خیال رکھا تھا اور جس کی شہرت ایک وجہ سے زیادہ تر یورپ میں ہوئی تھی۔
اس مثنوی میں جیسا کہ ہم نے اپنے بعض احباب سے سنا ہے کہ تقریباً چالیس ، پینتالیس شعر اسی قسم کے ہیں جیسے کہ شوق نے بہار عشق میں اختلاط کے موقع پر ان سے بہت زیادہ لکھے ہیں۔
 معلوم ہوتا ہے کہ شوق کو ایسی زبان برتنے کا خیال اس مثنوی کو دیکھ کر پیدا ہوا اور چونکہ وہ ایک غوخ طبع آدمی تھا اور بیگمات کے محاورات پر بھی اس کو زیادہ عبور تھا اس نے اپنی مثنوی بنیاد ”خواب و خیال“ کے انہیں 45,40 شعروں پر رکھی اور ان معاملات کو جو خواجہ میر اثر کے ہاں ضمناً مختصر طور پر بیان ہوئے تھے۔
اپنی مثنویوں میں زیادہ وسعت کے ساتھ بیان کیا اور جس قسم کے محاوروں کی انہوں نے بنیاد قائم کی تھی ، شوق نے اس پر ایک عمارت چن دی اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ خواب و خیال کے اکثر مصرعے اور شعر تھوڑے تھوڑے تفاوت سے بہار عشق میں موجود ہیں جن میں ایک دو شعر ہم کو بھی یاد ہیں مگر اس میں شک نہیں کہ موجودہ حالت میں خواب و خیال کو بہار عشق سے کچھ نسبت نہیں ہو سکتی۔
اب ہم مضمون کو ختم کرتے ہیں اس کی نسبت یہ امید رکھنی کہ ہمارے دیرینہ سال شاعر جن پر قدیم شاعری کا رنگ چڑھ گیا ہے۔ اسی مضمون کی طرف التفات کریں گے یا اس کو قابل التفات سمجھیں گے۔ محض بے جا ہے اور یہ خیال کرنا بھی فضول ہے کہ جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے وہ سب کچھ واجب التسلیم ہے۔ البتہ ہم کو اپنے نوجوان ہم وطنوں سے جو شاعری کا چسکا رکھتے ہیں اور زمانہ کے تیور پہچانتے ہیں یہ امید ہے کہ شاید وہ اس مضمون کو پڑھیں اور کم سے کم اس قدر تسلیم کریں کہ اردو شاعری کی موجودہ حالت بلاشبہ اصلاح یا ترمیم کی محتاج ہے ہم نے اپنی ناچیز رائیں جو اسی مضمون میں شاعری کی اصلاح کے متعلق ظاہر کی ہیں گو ان میں سے ایک رائے بھی تسلیم نہ کی جائے ، لیکن اس مضمون سے ملک میں عموماً یہ خیال پھیل جائے کہ فی الواقع ہماری شاعری اصلاح طلب ہے تو ہم سمجھیں گے کہ پوری کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
کیونکر ہر ترقی کی پہلی سیڑھی اپنے تنزل کا یقین ہے۔
اگرچہ اردو شاعری کی حقیقت ظاہر کرنے کیلئے اس بات کی نہایت ضرورت تھی کہ مشہور اور مسلم الثبوت شاعروں کے کلام پر صراحتاً نکتہ چینی کی جائے کیونکہ عمارت کا بودا پن جیسا کہ بنیاد کی کمزوری سے ثابت ہوتا ہے ایسا اور کسی چیز سے ثابت نہیں ہوتا مگر صرف اس خیال سے کہ ہمارے ہم وطن ابھی اعتراض سننے کے عادی نہیں ہیں بلکہ تنقید کو تنقیص سمجھتے ہیں جہاں تک ہو سکا ہے اس مضمون میں کسی شاعر کے کلام پر کوئی گرفت یا اعتراض اس طرح نہیں کیا گیا جو خاص اس کے کلام سے خصوصیت رکھتا ہو۔
بلکہ شاعری کے عام طریقہ پر اعتراض کرکے مثال کے طور پر جس کا کلام یاد آیا ہے نقل کر دیا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس شخص پر بالتخصیص اعتراض کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ شاعری کے عام طریقہ کی خرابی ظاہر کرنی مقصود ہے جس میں اس شخص کے ساتھ اور لوگ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں تک ممکن تھا کسی پر کوئی ایسا اعتراض نہیں کیا جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ شاعری کے اصول مسلمہ سے ناواقف ہے یا اس نے کوئی گریمر یا عروض کی غلطی کی ہے یا کوئی ایسی فروگذاشت کی ہے جس سے قدیم طریقے کے موافق اس کی شاعری پر حرف آتا ہے بلکہ زیاہ تر ایسے اعتراض کئے ہیں جو نہ صرف اردو شاعری پر بلکہ تمام ایشیائی شاعری پروارد ہوتے ہیں۔
با ایں ہمہ اگر مقتضائے بشریت کوئی ایسی بات لکھی گئی ہو جو ہمارے کسی ہم وطن کو ناگوار گزرے تو ہم نہایت عاجزی اور ادب سے معافی کے خواست گار ہیں اور چونکہ یہ مضمون اردو لٹریچر میں جہاں تک کہ ہم کو معلوم ہے بالکل نیا ہے اس لئے ممکن ہے کہ اگر بالفرض اس میں کچھ خوبیاں ہوں تو ان کے ساتھ کچھ لغرشیں اور خطائیں بھی پائی جائیں۔
 اگرچہ خدا کا قاعدہ ہے کہ ”نیکیاں بدیوں کو مٹا دیتی ہیں۔
“ لیکن انسان نے یہ قاعدہ بنا رکھا ہے کہ ”بدیاں نیکیوں کو مٹا دیتی ہیں۔“ پس اسی انسانی قاعدہ کے موافق ہم کو یہ امید رکھنی تو نہیں چاہئے کہ اس مضمون کی غلطیوں کے ساتھ اس کی خوبیاں بھی اگرچہ کچھ ہوں ظاہر کی جائیں لیکن اگر صرف غلطیوں کے دکھانے پر ہی اکتفا کیا جائے اور خربیوں کو بہ تکلف برائیوں کی صورت میں ظاہر کیا جائے تو بھی ہم اپنے تئیں نہایت خوش قسمت تصور کریں گے۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali