Episode 1 - Musarrat Ki Talash By Wazir Agha

قسط نمبر 1 - مسرت کی تلاش - وزیر آغا

پیش لفظ اکادمی پنجاب جن مقا ِصد کی تحصیل و تکمیل کے لیے قائم ُہوئی ہے ‘ اُن میں ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ ملک کے ”اُردو خواں“ طبقے کی فکری سطح بلند کی جائے اَور اُس کے مطالعے کے لیے ایسی کتابیں بہم پہنچائی جائیں جن کے مطالب فکر انگیز ‘ مگر اسلوب ِ بیاں سادہ اَور د ِلآویز ہو۔ مجھے َ ّمسرت ہے کہ اکادمی کے اِس منصوبے کی اِبتدا ایک ایسی کتاب سے ہو رہی ہے جو مطالب کی فکر انگیزی اَور بیان کی د ِلآویزی‘ دونوں اعتبارات سے کامیاب ہے اَور جسے اُردو زبان میں اپنی قسم کی ایک نہایت اچھی کتاب قرار دیا جا سکتا ہے۔
وزیر آغا نے’ َ ّمسرت کی تلاش ‘لکھ کر ا ِہل قلم کے لیے ایک بہت عمدہ مثال قائم کی ہے اَور ّصحت َمند اَدب کی تخلیق و اِشاعت کا ایک نیا راستہ د ِکھایا ہے۔ ز ِندگی ایک ُ ِگل َصد برگ ہے جس کی ہر ّپتی اپنے مشام میں غیر فانی نکہتوں کا مخز ِن بے پایاں رکھتی ہے۔

(جاری ہے)

اَب َبھونروں کو یہ کون سمجھائے کہ ایک آدھ ّپتی ہی کا ہو َرہنا اَوراُسی کے َرس کو ز ِ ندگی کا مآل تصو ّر کر لینا‘ کہاں کی عشق بازی ہے ! فیض: ُ َ ّ اَوربھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا راحتیں اَور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا اِنسانی ز ِندگی اپنے لاتعداد مسائل اَور رنگا رنگ کیفیتیں اپنے دامن میں لیے‘ ہر وقت اُن مردا ِن ہوش َمند کی منتظر ہے جو اِنسان کو ایک بہتر‘ خوب تر اَور جمیل تر ز ِندگی بسر کرنے کا اَنداز ِسکھائیں اَور اُسے ّ ِجنت مو ُعودہ کے دا ِم خیال سے نکال کر‘ اِسی ّ ِجنت ارضی کے لذائذ و اِنعام سے بہرہ یاب ہونے کا راز بتائیں۔

وقت ہے کہ ہمارے ا ِہل قلم رسمی اَدبیات کے تنگ گلی کوچوں سے نکل کر‘ ز ِندگی کے کشادہ و وسیع میدان میں اُتریں جہاں ہر طرف تعمیر ِ اَفکار کا بے شمار مسالہ بکھرا پڑا ہے۔پھر ُوہ چاہیں تو اِسی سے فکر کے ایسے رفیع ُ ا ّلشاں قصر تعمیر کر لیں جن کی بلندی ‘پرواز ِ تخیل اَور ِسنگینی مرور ِ ا ّیام پر ہمیشہ ہمیشہ تک خندہ زن رہے! اَز بسکہ کتاب ایک روشن خیال نوجواں نے لکھی ہے‘ موزونیت کا تقاضا تھا کہ اِس کا مقد ّمہ بھی ایک اَیسا نوجواں لکھے ‘ جسے َنو ُعمری کے باوصف‘ ز ِندگی کی ما ّہیت اَور اُس کے خوب و ز ِشت پر کچھ غور و فکر کرنے اَور اَپنے نتا ِئج فکر کو سلیقے سے جامہ ٴ الفاظ پہنانے کا موقع َعطا ُہوا ہے۔
مجھے َ ّمسرت ہے کہ وزیر آغا نے اِس خدمت کی انجام دہی کے لیے جس رفیق کا اِنتخاب کیا‘ ُوہ نہ صرف اُن کے معیار پر پورا اُترتا ہے بلکہ اُس نے واقعی ایک فکر انگیز اَور دلآویز دیباچہ لکھ کر‘ خود تلا ِش َ ّمسرت کے تقاضوں کو بھی ُپورا کیا ہے۔ (صلاح الدین احمد) مقد ّمہ ”خود کو پہچان“… یہ تھی ُسقراط کی تعلیم ۔ سقراط‘ ُصوفی ِ منش آدمی تھا۔
اُس نے جب مشاہدہ ٴ با ِطن ‘ خود نگاہی اَور خود شناسی کا سبق دیا تو اُس کا ُروئے سخن ‘سالک کی ذات کی طرف تھا۔ اُس کے مسلک میں قدیم یونانی فلسفے کی طرح فرد ِ وا ِحد کو مرکزی ّحیثیت حاصل تھی۔ البتہ افلاطون نے جو اِس مقولے کی تفسیر پیش کی ہے‘ اُس سے یونانی حکمت میں ایک نئے نقطہ ٴ نظر کا اِضافہ ُہوا ہے۔ افلاطون نے اِنفرادی خود شناسی کے بجائے اِجتماعی خود آگاہی کو تحقیق و ّتجسس کی آ ِخری منزل قرار دیا ہے۔
اُس کی نظر میں اِنسانی فطرت کا مطالعہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی قدیم کتبے یا َلوح پر لکھی ُہوئی تحریر کو پڑھنے کی کوشش ! اِنفرادی تجربہ جس نو ِشت کو پیش کرتا ہے‘ ُوہ ایسے باریک اَور شکستہ ُحروف میں لکھی ُہوئی ہے کہ اُسے برسوں کی چشم سوزی کے بعد بھی نہیں پڑھا جا سکتا۔ اِنسان کی اِجتماعی ز ِندگی اِنھِیں ُحروف کو‘ ایک بڑے پیمانے پر پھیلا کر ‘ہماری نظروں کے سامنے لا رکھتی ہے۔
اِس طرح ہر نقش واضح اَور روشن ہو جاتا ہے اَور ُپوری عبارت کا مطلب سمجھ میں آ جاتا ہے ۔ افلاطون کی نظر میں سیاسی اَور معاشرتی تنظیمات کا مطالعہ ہی اِنسانی فطرت کی صحیح ّعکاسی کر سکتا ہے۔ اُس کا قول ہے کہ ریاست‘ شہریت کی بلند ترین تخلیق ہے اَور ریاست ہی کے پیکر میں اِنسان کے خد ّو خال ُپورے َطور سے نمایاں ہوتے ہیں ۔ یونانی تمد ّن اَور حکمت کی تاریخ میں ُوہ لمحہ بہت ہی اَہم ہے جب افلاطون نے اِنفرادی بصیرت اَور تجربے پر فلسفے کی بنیاد رکھنے کے بجائے اِنسان کے اِداروں‘ اُس کے معمولات اَور وسائل ‘ اَور اُس کی سماجی ز ِندگی کے متعلق سوچنا شروع کیا۔
افلاطون کے نظریات اَور قدیم تر یونانی فلسفے کا تقابل یہ بات ُسجھاتا ہے کہ دو۲ چشمے ہمیشہ سے ِ علم ودانش کے چمن کی آبیاری کرتے آئے ہیں… ایک طرف ُوہ جہاں د ِیدگی اَور زمانہ شناسی ہے جس کا سبق تاریخ سے‘ حوادث ِ روزگار سے اَور کشاکش ہائے ہستی سے حا ِصل ہوتا ہے؛ دُوسری طرف ُوہ نظر ہے جسے پانے کے لیے آدمی خود اَپنی آگ میں جلتا ہے اَور خود اَپنا تماشائی بنتا ہے ۔
َ ّمسرت کی تلاش میں اِنسان اِنھِیں دو۲ راستوں میں سے ایک کا اِنتخاب کرتے چلا آیا ہے۔ اِن میں سے ایک تو ُوہ مشرب ہے جسے اِختیار کر کے آدمی اچھا شہری بنتا ہے اَور اپنی کمزوری اَور تنہائی پر قا ُبو پانے کے لیے اپنی ذات کو ایک منظم اَور منضبط معاشرے سے وابستہ کرلیتا ہے۔ یہ وابستگی اُس کے سماجی شعور کو ُپختہ تر بناتی ہے۔ خانگی اَور جماعتی ذ ِ ّمے داریوں کا احساس‘ قومی رسم و رواج کا احترام، حسن اخلاق‘ نظم و نسق کا ّتحفظ ‘ بڑوں کا اَدب‘ چھوٹوں پر شفقت ‘ ہم نفسوں کی ر ِفاقت‘ ہمسایے کا پاس‘ دُوسروں کے ساتھ قدم ِملا کر چلنے کی عادت‘ یہ سب باتیں آہستہ آہستہ اُس کی سیرت کا ُجزو ہو جاتی ہیں۔
ُوہ مل ُجل کر کام کرنے اَور مشترکہ محنت کے پھل کو بانٹ کر کھانے کا ُگر سیکھ جاتاہے۔ سماجی ہمہ اَوست کے نشے میں مگن‘ ُوہ شہد کی ّمکھی کی طرح کا م کیے جاتا ہے اَور اَپنے خو ِن گرم کو سماج کے تعمیری مقا ِصد کی نذر کر دینے میں اپنی ّشخصیت کی معراج اَور تکمیل دیکھتا ہے۔ اِس خود سپردگی میں عافیت کوشی کا رنگ ہی نہیں‘ ایک مثبت ‘ جیتی جاگتی اَور ز ِندگی بخش َ ّمسرت کا احساس بھی ہے۔
یہ َ ّمسرت اِنسان میں د ِلجمعی ‘ خود اِعتمادی اَور وقار َپیدا کرتی ہے اَور اُسے اپنی قدر و قیمت سے آشنا کراتی ہے۔ اِنسانی تعلقات کی ِ ّحدت و حلا َوت اَور سماجی ر ِشتوں کی معنو ّیت اِسی شعور کا نتیجہ ہے۔ اِس شعور کی بدولت اِنسان اپنی کم مائیگی کے احساس پر قابو پاتا ہے ۔ رکھ رکھاؤ‘ خوش وقتی اَور خوش سلیقگی سے ز ِندگی َبسر کر نے کا ڈھب سیکھتا ہے۔
ز ِندگی کو سہل تراَور خوش ُنما تر بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ تعمیری کام اَور عملی معرکہ آرائیاں نیز روزانہ ز ِندگی کا رنگ ِ طرب‘ جلسے اَور ہنگامے‘ ہمدمی و ہمرازی‘ مہر و َوفا‘ ِشکوہ و شکایت اَور تمام تعلقات جو ز ِندگی میں رچاؤ اَور رنگینی َپیدا کرتے ہیں‘ اِسی ”پا ِبستگی رسم و رہ ِ عام“ کا نتیجہ ہیں۔ دُوسرا راستہ ‘ایک ایسی پگ ڈنڈی ہے جس پر صرف تنہا آدمی چل سکتاہے ۔
یہ ایسے خودبیں و آزاد لوگوں کا مسلک ہے جو خضر کی قیادت کو بھی قبول نہیں کرتے۔ اکیلے پن کو ُبھلانے کی یہ بھی ایک صورت ہے کہ اِنسان اپنی ّشخصیت کو اِس قدر وسیع کر ڈالے کہ اُس کی ُحدود تک نظروں سے اوجھل ہو جائیں ۔ اپنے جا ِم جہاں ُنما میں ُپوری کائنات کا عکس دیکھے ‘ بجائے خود محشر ِ خیال بن جائے اَور د ِن رات دُنیا و مافیہا سے بے خبر‘ اپنے اَصنا ِم خیالی کی پرستش کیے جائے۔
ایساہی آدمی اپنے متعلق یہ َکہ‘ سکتا ہے : دیرم صنم ام برہمن ام زنار ام بہت کم لوگ اِس مشرب کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔ اَور جو اِس راستے پر چل اُٹھتے ہیں‘ ُوہ بسا اَوقات ایسے دُور دراز مقامات کی ّسیاحت کو روانہ ہو جاتے ہیں کہ اُن کی واپسی کی اُمید کم َرہ جاتی ہے: مستانہ طے کروں ہوں رہ ِ واد ِی خیال تا بازگشت سے نہ رہے مدعا مجھے ایسے لوگ عام َطور پر بے فیض ہوتے ہیں اَور صرف اپنے لیے جیتے ہیں۔
مگر اِن میں سے جو دو چار َ لوٹ آتے ہیں‘ ُوہ َ ّمسرت اَور َبہجت کے ایسے َسرچشموں کا ُسراغ لگا آتے ہیں جن سے َصدیوں تک تشنہ لبوں کی پیاس بجھتی رہتی ہے۔ دُنیا کے پیغمبر ‘ ُصوفی‘ بلند مرتبہ فلسفی‘ فن کار اَور شا ِعر اَدیب‘ اِنھِیں َلوٹ آنے والے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اِن لوگوں کی وساطت سے ہم اُس عا َلم تاب َ ّمسرت سے ہم َکنار ہوتے ہیں جسے کتاب کے مصنف نے ”احسا ِس بحر آسا“ کا نام دیا ہے۔
اِنسانی تاریخ و تمد ّن کے پس منظر میں َ ّمسرت کی تلاش مختلف مرا ِحل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ پہلی منزل ا ّولیں قبائل کی ُوہ ز ِندگی ہے جس میں خار ِج و با ِطن ‘ فرد و جماعت ‘ خواب و حقیقت کا تضاد پورے َطور سے ظاہر نہیں ُہوا تھا۔ ز ِندگی میں ایک بے َلوث اِنہماک تھا… ّبچوں کی سی معصو ّمیت ‘ جو ہر نئے تجربے سے دامن بھر لینے کے لیے بے قرار رہتی تھی۔
ز ِندگی شعبوں اَور خلیوں میں نہیں بٹی تھی۔ اَور‘ نہ کہیں اکیلے َپن کی اُداسی تھی۔ اِنسان َبیک َوقت دیوی دیوتا ‘ شجر‘ ُپھول‘ ندی‘ پہاڑ اَور چاند ِستاروں سے ہم کلام ہو سکتا تھا۔ اَشیا کے باہمی ربط و تسلسل کا احساس اُس کی قو ّت ِ مشاہدہ کی کمزوری کا نتیجہ نہیں تھا کیونکہ اُس زمانے کا آرٹ‘ اِنسان کی ُجزو بینی اَور تیز نگاہی کا سب سے بڑا شاہد ہے۔
اِس احساس کا ماخذ ایک قوی تر جذبہ ہے … ز ِندگی کی َوحدت و یکتائی کا تصو ّر…یہ احساس کہ ایک ہی َمو ِج بہار نے سینکڑوں ُپھول ِکھلائے ہیں؛ ایک ہی جیون جیوتی سے لاکھوں د ِیپ روشن ہوئے ہیں؛ فطرت ایک جیتے جاگتے ‘ گاتے ناچتے قبیلے کی طرح تھی جس میں کوئی درجہ بندی ‘ کوئی چھوٹے بڑے کا فرق نہ تھا۔چنانچہ دُوسری مخلوقات کے مقابلے میں اِنسان کو کوئی شرف اَور اِمتیاز حا ِصل نہیں تھا۔
ہر برادری کسی حیوان سے منسوب ہوتی تھی اَور ہم نسلی کا قوی احساس‘ سماجی ر ِشتوں کی مضبوطی کا ضامن تھا۔ َموت کا تصو ّر بھی َپیدا نہیں ُہوا تھا۔ مرنے والے اپنے گھروں میں دیوی دیوتا بن کر رہتے تھے؛ نہیں تو ہر تیوہار پر اُن کی ُروحیں پاتال سے لوٹ آ ِتیں‘ دعوتوں میں شرکت کر ِتیں‘ ناچ اَور رسموں ر ِیتوں میں شا ِمل ہو ِتیں۔ اِس ز ِندگی میں ایک قسم کی ُیکسوئی تھی… ربط و ہم آہنگی کا احساس جو اِنسان کو اُس کے سماج سے اَور ُ کل کائنات سے َبیک َوقت منسلک رکھتا تھا۔
اِسی لیے ُ ُحصو ِل َ ّمسرت میں شعوری کوشش کی ّکیفیت اَور کاو ِش و طلب کا اَنداز َپیدا نہیں ہوا تھا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کتنے عرصے تک اِنسان اِسی حالت میں رہا۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ زمانہ‘ اِنسان کی لکھی ُہوئی تاریخ سے کہیں زیادہ طویل رہا ہو گا ۔ سفر کی اگلی منزل‘ شہری تہذیب کے ُوہ کلس‘ مینار اَور ُگنبد ہیں جو اِنسانی تاریخ کی پہلی شعاعوں میں جگمگاتے نظر آتے ہیں ۔
یہ ۵۰۰۰ ق م اَور ۳۰۰۰ ق م کا درمیانی وقفہ ہے۔ اِس زمانے میں دریائے نیل ‘ دجلہ و فرات ‘ سندھ اَور (قدرے بعد چین میں) دریائے ہوانگ کے َ کنارے شہر آباد ہوئے۔ مصر کے مقبروں ‘ ہڑ ّپے اَور موہنجوڈرو اَور خاص َطور پر حضرت ابراہیم  کے وطن اُر میں سے جو آثار برآمد ہوئے ہیں‘ اُن سے اِس تہذیب کا کچھ ُسراغ ِملتا ہے۔ اِن شہروں کی عظیم ُ ا ّلشاں منصوبہ بندی اَور وسیع پیمانے کی تعمیرات سے نہ صرف اُن لوگوں کی ُ َہنر َمندی اَور محنت کشی کا پتا چلتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اِن مندروں، مقبروں اَور شہروں کی تخلیق ایک اَیسا ہی سماج کر سکتا تھا جو مشین کی طرح منظم ہو اَور جس کا ہر فرد ضابطے کا پابند اَور ِحکم حاکم کا تابع ہو۔
عراق و عجم کے شہروں کی تجارتی گہما گہمی سے جس ذ ّہنیت اَور اسلوب ِ ز ِندگی کا پتا چلتا ہے‘ اُس میں امن‘ سلامت روی ‘ اِیمان داری‘ سفید پوشی ‘ حقو ق و فرائض کے احساس اَور ُپختہ سماجی شعور کا پایا جانا ناگزیر ہے۔ اِسی طرح موہنجوڈرو کے مکانوں اَوربازاروں کے قاعدے اَور ترتیب سے ایک ایسی ہی مد ّون اَور مر ّتب معاشرت کا ُوجود ظاہر ہوتا ہے ۔
بالغ قسم کی اِجتما ّعیت اَور ما ّدی َوسائل کی حیرت انگیز ترقی کے بالمقابل اعلیٰ ُروحانی اَقدار کے کوئی آثار نہیں ملتے۔ قدیم تریں قبائل کے اعتقادات میں بھی اُس زمانے کی مذ ّہبیت سے زیادہ بالیدگی پائی جاتی ہے۔ عبادت کا مقصد محض دیوی دیوتاؤں کو ر ِشوت دے کر‘ خوش رکھنا تھا۔ راہب ‘بڑی بڑی جاگیروں کے مالک تھے؛ بہترین محلوں میں رہتے تھے؛ سیاسی طاقت بھی بہت َحد تک اُنھِیں کے ہاتھوں میں تھی۔
ضروری نہیں کہ مذہب کی آڑ میں ُوہ دُوسروں کو بیوقوف بناتے ہوں ۔ مذہب کی ّحیثیت محض ایک کار آمد سماجی اِدارے کی تھی اَور لوگ شاید اِس حقیقت سے باخبر بھی تھے اَور مطمئن بھی۔ ُ ُعلوم کی ترقی ایک خاص نقطے پر پہنچ کر رک گئی تھی جس کے آگے بڑھنے کا کوئی اِمکان نہیں تھا۔ اِس کا سبب یہی تھا کہ علم و فضل ذو ِق ّتجسس کی سیرابی یا ُروحانی تقاضوں کی تسکین کا ذریعہ نہیں تھا‘ یہ محض ُروز ّمرہ کی کار براری کا َو ِسیلہ تھا… ریاضی‘ ِفن ّ تعمیر کی تابع؛ فلکیات‘ آب پاشی اَور زراعت کی معاو ِن؛ اَور ہندسہ‘ تجارتی اَغراض کی َپیداوار… البتہ فنو ِن لطیفہ اَور َدست کاری ( خاص َطورپر موسیقی اَور ّنقاشی ) کو بہت اَ ّہمیت حا ِصل تھی ۔
مز ّین سازی‘ خوش ُنما زیور اَور ّ منقش ظروف اُ ن کی گھریلو ز ِندگی کے اَجزا تھے۔ گھریلو چیزوں سے اُنھیں اِس قدر ّمحبت تھی کہ ُوہ قبروں میں بھی اُنھیں ساتھ لے جاتے تھے۔ اِس تہذیب کا مطالعہ‘ اُن خوش باش ‘ باعمل اَور َسرگرم لوگوں کی اُس ز ِندگی کو پیش کرتا ہے جو سماجی خمیر کی حد ّت سے ُ ُنمو پاتی تھی۔ یہ تھے ُوہ لوگ جو ُطو ر و سینا کی ر ِفعتوں کے بجائے اپنی گلیوں کی ُلوبان اَور َصندل سے بوجھل فضاؤں میں َرہنا پسند کرتے تھے اَور َصحرا کی خاک چھاننے کے بجائے آپس میں ِمل بیٹھ کر‘ فراغت و آسائش سے ُعمر َبسر کرنا چاہتے تھے۔
اَور یہ تھے ُوہ شہر جن سے آ ِل ابراہیم  نے ہجرت کی اَور جنھیں ُوہ ہمیشہ اِنسانی ُروح کا َبندی خانہ قرار دیتے رہے اَور جن پر ہمیشہ لعنت بھیجتے رہے! اِرتقا کی اگلی منزل ۵۰۰ ق م کے قریب قریب کا زمانہ ہے۔ ُیوں سمجھ لیجیے کہ ۸۰۰ ق م سے ۲۰۰ق م کا درمیانی وقفہ! اِس زمانے میں چین ‘ ایران ‘ فلسطین‘ ہندوستان اَور یونان میں َبیک َوقت ‘ لیکن آزادانہ َطور سے‘ اِنسان کی ُروحانی بنیادیں تشکیل پا رہی تھیں اَور اِنھِیں بنیادوں کے اِستحکام پر اِنسان آج بھی تکیہ کیے ہوئے ہے ۔
اِس مختصر سے زمانے میں بہت سے عجیب واقعات ُرونما ہوئے۔ چین میں کنفیوشس اَور لاو ٴزلے اَور اِن کے بعد موزلے اَور چوانگ زلے نے ُپورے چینی فلسفے کا تارو َپود تیار کیا۔ ہندوستان میں یہ اُپنشدوں اَور ُبدھ َمت کا زمانہ تھا۔ یہاں بھی ِچین کی طر ح(ماد ّیت اَور تشکک پرستی سمیت ) فلسفے کے تمام رُجحانات َپیدا ہوئے اَور پروان چڑھے۔ ایران میں زردشت نے نیکی اَور بدی کی اَزلی َپیکار کا تصو ّرپیش کیا۔
فلسطین میں نبی (ایلیجاہ ‘ جرمیاہ‘ اشیعا) َپیدا ُہوئے۔ یونان نے ہومر کو جنم دیااَور ہر قلیطس (Heraclitus) ‘ اَرشمیدس ‘ افلاطون اَور اَلم پرست شا ِعروں کو َپیدا کیا۔ اِس َعہد کی سب سے بڑی خصو ّصیت یہ تھی کہ اِنسان کو پہلی مرتبہ اَپنی عظمت کا احساس اَور ّشخصیت کے لامحدود اِمکانات کا ِعلم ُہوا۔ ہندوستان کے ر ِشی‘ چین کے جہاں َ گرد راہب‘ اسرائیلی نبی اَور یونانی فلسفی ( اپنے باہمی اِمتیازات کے باوجود)‘ دُنیاکو ایک ہی پیغام دیتے ُسنائی دیے: اِنسان اپنی ذات میں سمٹ کر اَور نفس کی پہنائیوں میں کھو کر ہی کائنات کے رازوں کا امین بن سکتا ہے‘ اَور نور ِ با ِطن اَور فکر و و ِجدان ہی وہ ِمشعل راہ ہے جس کی روشنی میں چل کر اُس َ ّمسرت ِ لازوال کو پا سکتا ہے جس کی جستجو ُوہ اَزل سے کرتا آیا ہے۔
یہ َ دور‘ َنوا ِسنجی بلبل کا َعہد تھا۔ آرا ِئش ُ گل اَور چمن بندی کی فرصت کسے تھی۔ مردا ِن حق کی تعلیمات نے اَفراد کو متاثر کیا لیکن سیاست و معاشرت کی کوئی نئی تنظیم‘ کوئی بہتر شیرازہ بندی ظہور پذیر نہ ہو سکی۔ یہ لوگ اپنے بعد ایسے خزانے چھوڑ گئے تھے جن کا وار ِث بننے کے لیے کوئی تیار نہ ہوتا تھا۔ کچھ عرصے بعد محض نفسا نفسی تھی اَور شور ِ محشر … ایک ہنگامہ جس میں سب لوگ ایک دُوسرے سے دست و گریباں نظر آتے تھے۔
آزاد ِی نفس کا پیغام‘ اِنتشار و بے راہ روی کا نعرہ بن ُچکا تھا۔ بے شمار چھوٹی چھوٹی ریاستیں ‘شہر ‘ قبیلے اَور فرقے آپس میں مصروف ِ َپیکا ر تھے۔ اِس منظر سے گھبرا کر اِنسانیت نے ایک مرتبہ پھر جبر و اِستبداد کا َطوق گلے میں پہن لیااَور ِکنج قفس ہی میں عافیت چاہی: اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ُہوئے! چین میں شی اَور ِسن خاندانوں کی بادشاہت آئی۔
ہندوستان میں موریا سلطنت کا اِستحکام ُہوا۔ مغرب میں رومتہ ُالکبریٰ نے اپنا ّتسلط جما لیا ‘اَور َصدیوں تک ُپوری دُنیا پر سیاست اَور ملک گیری کا غلبہ رہا۔ اِنسانی تاریخ قبا ِئل ا ّولیں کی معاشرت سے شروع ہو کر‘ قدیم تہذیبوں کے عروج و زوال سے گزرتے ہوئے‘ اِنسان کے اُس عہد ِ ُروحانیت تک پہنچتی ہے جس کا نقش ابھی تک د ِلوں پر باقی ہے۔
اُس زمانے سے اَب تک جو واقعات پیش آئے‘ اُن میں سب سے زیادہ نتیجہ خیز اَور اِنقلاب آفریں لمحہ سترھویں اَور اٹھارھویں َصدی عیسوی میں سائنس کی اِیجادات کو قرار دیا جاسکتاہے۔ جس طرح ُپرانے زمانے کا اِنسان ‘ ّپتھر کے اَوزار بنا کر اَورآگ کا اِستعمال سیکھ کر‘ ایک طویل سفر پر روانہ ہو گیا تھا ‘ اُسی طرح صنعتی اِنقلاب اَور مشینی تمد ّن کی فتوحات سے ایک نئی تگ و َدو کا آغاز ہوتا ہے۔
کیا اِس سفر کا بھی ُوہی انجام ہو گا ‘ ویسی ہی منزلیں راہ میں آئیں گی… کیا ایک بار پھر عظیم ُ ا ّلشاں تنظیمات کا َدور آئے گا … ایٹمی َعہد کے یہ شہر بابل ‘ نینوا اَور اُر کی طرح تباہ و برباد ہوں گے اَور غارت گر ِی چمن کے بعد ا ِہل نظر تازہ بستیاں آباد کرنے کے منصوبے باندھیں گے … پچھلا تجربہ تو یہی کہتا ہے کہ اَیسا ہی ہو گا… لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ آدمی اپنے ماضی سے سبق لے اَور َسر پر سے پانی گزر جانے سے پہلے‘ ایک نئے نظا ِم حیات اَور نئے شعور کی تخلیق کرے! اِس نظام کے متعلق صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ تاریخ کے دُوسرے اَور تیسرے َدور کی خصوصیات کی یکجائی سے ترکیب پائے گا۔
اِس میں رہنے والے لوگ‘ سماج کے َ سرگرم و مستعد ُ رکن بھی ہوں گے اَور اُن میں خلو َت نشینوں کے احساس کی ِ ّشدت‘ خود آگاہی اَور بلند نظری بھی ہو گی۔ ُوہ َبیک َوقت ما ّدی و ُروحانی َ ّمسرت کے ِ ّعطیوں سے بہرہ َمند ہو سکیں گے۔ اُن میں نہ تو صرف ُصوفیوں کی سی بے نیازی اَور بے تعلقی ہو گی اَور نہ ہی محض ہو ِس ناو نوش اَور حرص و َہوا کا عا َلم… اُن میں اِن دونوں سے مختلف ایک تیسرا اَنداز ِ نظر ہوگا جس کا مظہر مشرقی شا ِعری کا َسرو ہے جو آزاد َصفت بھی ہے اَور گرفتار ِ چمن بھی‘ یا بھگو َت گیتا کا کنول جو جھیل میں َرہتا ہے لیکن پانی سے تر نہیں ہوتا۔
اِس مشینی َعہد کو ایک ایسے ہمہ گیر فلسفے کی ضرورت ہے جو اِن دونوں( بظاہر متضاد) مقا ِصد میں ہم آہنگی َپیدا کر سکے؛ اَور غالب ایسی شخصیتوں کا اِنتظار جو تازہ و شیریں پھلوں‘ نکھرے موسموں اَور دوستوں کے خطوں کے اِنتظار کی لذ ّت کو ز ِندگی میں اُتنی ہی جگہ دے سکیں جتنی کہ ِنغمگی سروش اَور َدمساز ِی مہر و ماہ کو! ابھی تک اِس نئے اَنداز ِ نظر کے کوئی واضح آثار نظر نہیں آتے۔
ذہنی َطور پر آج ہم اُسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں بنی اسرائیل‘ اپنی ہجرت کے فوراً بعد پہنچے تھے۔ ہم ماضی و حال کو تو کوس سکتے ہیں لیکن کسی نئی تعمیر کا نقشہ ہمارے ذہن میں موجود ہی نہیں۔ اِس زمانے کے سب سے طاقت َور نظریے (سوشلزم) اَور بنی اِسرائیلی عقائد میں گہری مماثلت و قربت ہے۔ یہودیوں کے ا ّولیں صحیفوں میں آزاد ِی نفس‘ ُروحانی کشاکش ‘ بخشش اَور شخصی نجات کا کوئی تصو ّر نہیں۔
بقائے ُروح کا عقیدہ بھی بہت بعد میں َپیدا ُہوا ۔ فرد‘ معاشرے کا محض ایک بے نام و نشاں ذ ّرہ تھا۔ ُخدا‘ افراد کے بجائے‘ قوموں اَور قبیلوں سے مخاطب ہوتا تھا اَور اُنھیں جزا و َسزا کا مستحق سمجھتا تھا۔ خوش ہو کر اُن میں نبی اَور بادشاہ بھیجتا‘ ناراض ہو کر اُن سے َدر بہ َدر کی خاک چھنواتا۔ اِنفرادیت پر ّ ملی اَور اِجتماعی تخیل کی فضیلت‘ سوشلسٹ نظریے کا بنیادی ُرکن ہے۔
اِس کے علاوہ ما ّدی ضروریات کے معاملے میں بھی سوشلسٹ اَور یہودی‘ ہم خیال ہیں۔ یہودی ذ ّہنیت ‘ ُروح اَور ضمیر کی ّجنت و دوزخ سے متاثر ہونے کے بجائے‘ جاہ و حشم کی خا ِطر یا ما ّدی َوسائل کی شادابی و فراوانی کے ُ ُحصول کے لیے نیکی اَور ُخدا ترسی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ پرولتاری بھی ُخدا کے برگزیدہ بندے لیکن زمانے بھر کے مظلوم ومقہور عوام! اُن کے ُخدا نے بھی زمین کی بادشاہت کا وعدہ کر رکھا ہے۔
تاریخ کا واضح اَور روشن اِدراک دونوں میں مشترک ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی داستان دونوں کو اَزبر ہے؛لیکن دونوں کے عقائد‘ یکساں َطورپر‘ داخلی احساس سے تہی اَور آزادی کے مفہوم سے نا آشنا ہیں۔ آج مشرق میں اِشتراکی ہمہ اَوست کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو دیکھ کر‘ مغربی اقوام پر یہ ہراس طاری ہے مبادا کہ اُس خودی کی قندیل کو‘ جسے اِنسان َصدیوں سے اپنے سینے میں چھپائے پھرا ہے‘ اِس ”قلز ِم َصر َ صر“ کی موجیں ہمیشہ کے لیے بجھا دیں۔
فرانس کے فلسفہ ٴ ُوجودیت (Existentialism) میں اَز منہ ٴ وسطیٰ کی ُپوری ُرہبانی ذ ّہنیت جلوہ گر ہے جو ز ِندا ِن نفس کی دیواروں سے باہر نہیں جھانک سکتی۔ مغرب کی مصو ّری اَور شا ِعری بھی محبوس دا ّخلیت کا رنگ اِختیار کر چکی ہے ۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ مشرق ‘جو ہمیشہ سے دا ّخلیت کا پرستار رہا ہے‘ ایک بے ُروح اسلوب ِ حیات کو اَپنانے کے لیے مضطرب ہے اَور مغرب اُنھِیں ُبتوں کا قتیل ہے جن سے ُوہ عرصے تک دُشمنی کرتا رہا ہے! خود اَپنے ُمنہ ‘سے یہ بات بھلی نہیں لگتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس تضاد و کشاکش کا َحل اگر کسی کے پاس موجود ہے تو ُوہ یہی خاک بہ َسر اَور مفلوج تہذیب ہے جس کے وار ِث اِس بر ّ ِ عظیم کے رہنے والے ہیں۔
ِہمیں نے اِس آویزش کو ُپورے َطور سے سمجھا اَور ُمحسوس کیا ‘اَور اِس سے اُوپر اُبھرنے کے راستے دریافت کیے۔ سولھویں اَور سترھویں َصدی عیسوی کے ُصوفیا ہی کو لیجیے: یہ لوگ تزکیہ ٴ با ِطن میں مشغول رہنے کے ساتھ ساتھ‘ عوام میں ُ گھل ِمل کر د ِین کی اِشاعت اَور اُمرا و سلاطین کی مشیری کو بھی اپنا فرض جانتے تھے۔ اُردو غزل‘ جو ہمارے کلچر کی ایک خاص مظہر ہے‘ اِسی دو۲رنگی کو ایک اَور طرح سے پیش کرتی ہے۔
اِس کی اِشار ّیت میں داخلی تجربے کا ُپورا اِرتعاش اَور تمو ّج موجود ہے‘ اَور اِس بے کلی کے ساتھ ساتھ وسعت‘ ہمہ گیری اَور عام فہمی بھی شامل ہے۔ ہمارے زمانے میں اقبال نے اپنے تجزیے سے تہذیب کی اِس کرن کے ساتوں رنگ نکال کر سامنے رکھ دیے: جن واضح الفاظ میں اُس نے خودی کی تکمیل اَور ربط ِ ّملت کے نصب ُ العین میں توا ُزن و آہنگ َپیدا کیا ہے ‘ اُس کی مثال اِس َدور کے ُپورے مغربی ّتفکر میں نہیں ملتی۔
وزیر آغا نے اپنی اِس کتاب میں جن پہلوؤں سے َ ّمسرت کے فلسفے اَور نفسیات کا جائزہ لیا ہے‘ اُن میں ہمیں ُوہی دو۲ دریاؤں کے سنگم کی سی ّکیفیت نظر آتی ہے … جیسے گنگا اَور جمنا کے ملنے سے َسرسو َتی جنم لے رہی ہو۔ مصنف نے َ ّمسرت کا جو ہمہ گیر تخیل پیش کیا ہے ‘ اُس میں شفق کے بدلتے ہوئے رنگوں کی جھلک اَور ز ِندگی کے لمحات ِ گریزاں کا عکس بھی ہے اَور اَبد ّیت کی گونج بھی۔
اُس کی نظر میں ُوہ ایک ہی جذبہ ہے جو کبھی جنسی ّمحبت کا ُروپ بھرتا ہے اَور کبھی جمالیاتی ذوق یا ُصوفیانہ و ِجدان کے لبادے میں ظاہر ہوتا ہے۔ ّمحبت‘ ماورایت اَور ُحسن و جمال‘ اِس کتاب کے تین۳ خاص موضوع ہیں۔ کتاب کا ایک ُپورا باب‘ آرٹ سے متعلق ہے جس میں جمالیاتی احساس اَور تخلیقی عمل کی توضیح پیش کی گئی ہے۔ اِن تصو ّرات کے تجزیے میں مصنف نے جس بصیر ت کا ثبوت دیا ہے‘ ُوہ آپ کے ِپیش نظر ہے۔
صوفی کی نگاہ‘ منا ِظر و اَشیا پر نہیں جمتی۔ ُوہ ُ ِحسن بے حجاب کا تماشائی بننا پسند کرتا ہے ۔ اِس کے برعکس فن کار کا کام محض ُصورت گری ہے… بے جاں ّپتھر سے ایسی ُمورتیاں بنانا جن کی آنکھوں میں شرارے بھرے ہوں اَورجن کا انگ انگ لچکے‘ َبل کھائے۔ فن کار کی شا ِن آزری، کسی عام عقیدے ‘ کسی منطق یا بنے بنائے اُصول کا سہارا نہیں لیتی۔ اُ س کے کام میں ایک اپنا قرینہ ہوتا ہے‘ ایک اپنی انوکھی منطق ہوتی ہے۔
اُس کی نگاہ ‘ہر شے کو نئے اَنداز سے دیکھتی ہے؛ لفظوں‘ رنگوں یا آوازوں کی دُنیا میں ایک نئی شیرازہ بندی کرتی ہے؛ اَور ہر بار تند ِی َصہبا سے پگھلا ُہوا آبگینہ‘ ایک نئی شبیہ ‘اِختیار کرتا ہے… اِسی عمل کا نام ِتخلیق فن ہے! فن کار کا کام صرف یہی نہیں کہ ہم تک ُوہ اپنی آواز پہنچائے یا اپنے جذبات کی صحیح ترجمانی کرے: اِس مقصد سے کہیں زیادہ اَہم ُوہ درخشانی و تابندگی ہے جسے ُوہ تاریک و مبہم ُمحسوسات میں پیدا کر دیتا ہے۔
فن کے قالب میں ڈھل کر‘ اِنسانی جذبات کی ما ّہیت یکسر بدل جاتی ہے ۔ فن کے معکوس تجربات میں ُوہ گراں باری‘ گرفت اَور َدم روکنے والی ِ ّشدت نہیں ہوتی جو اصل جذبوں میں پائی جاتی ہے : اِس کی جگہ کشادگی ‘ سبکساری اَور ر ِ َفعت کا احساس جاگ اُٹھتا ہے جو ذہن کو ِگرد و پیش کی سلا ِسل سے نجات د ِلوا کر‘ ایک بلند تر شادمانی سے ہم َکنار کر دیتا ہے۔
فن کی جاذ ّبیت کا ایک اَور سبب اِس کی ُوہ دو۲ رنگی خصو ّصیت ہے جو اَپنے اَندر َبیک َوقت تمو ّج و سکوں ‘ اِرتعاش و آ ُسودگی اَور ُشعلہ و شبنم کی کیفیات کو سموئے رکھتی ہے۔ ہر فن پارہ خواب اَور نشے کا عجیب و غریب اِمتزاج پیش کرتا ہے ۔ خواب کا تعلق‘ تخیلات کی نزاکت اَور ُ حسن سے‘ اُن کی ُبوقلمونی اَورفراوانی سے‘ نیرنگ ِ نظر اَور حیرت ِ تماشا سے ہے۔
نشہ فقط تپش و اِضطراب‘ خود آرائی و خود فریبی‘ ہنگامہ و شوریدہ َسری‘ رقص اَور راگ رنگ کا دُوسرا نام ہے ۔ نشے کی کثافت ‘ گراں نشینی اَور ِ ّحدت کس طرح خواب کی مافوقیت سے ُ ُنموپا کر‘ اعلیٰ فن کو جنم دیتی ہے … نفسیات ِ جمال ابھی تک اِس عمل کو ُپوری طرح بیان نہیں کر پائی۔ اِس کتاب کے مصنف نے اِس سلسلے میں ”آرٹ اَور َ ّمسرت“ کے زیر ِ عنوان‘ بعض خیال افروز باتیں کہی ہیں جو غور و فکر کی محتاج ہیں۔
جس فعل کو ذہن کا عمل رابطہ کہتا ہے‘ یہ ُوہی لمحاتی لمس ہے جو پیاس سے جلتے ہوئے لبوں اَورپہاڑی چشمے کے َسرد و شیریں پانی کے مابین َپیدا ہوتا ہے: یہ لمس صرف ِتخلیق فن و اَدب ہی کا محرک نہیں‘ اِنسانی فکر و نظر کی دُوسری شمعیں بھی اِسی لمحہ ٴ حیات افروز کے فیضان سے روشن ہیں۔ اِنسان کے ذہن پر ُصوفیانہ تصو ّرات کا اُتنا ہی گہرا اَثر پڑتا ہے جتنا کہ فن و اَدب کے کارناموں کا‘ یا شاید اِس سے بھی زیادہ۔
اِنسان اَورکائنات کا باہمی ر ِشتہ اُتنا ہی حقیقی ہے جتنا کہ جنس کا یا روٹی کا سوال: پھر اِس مسئلے سے اِتنا گریز کیوں‘ اِتنی پردہ پوشی کیوں! اِنسان اپنی ذات اَور اَجزائے آفرینش میں کیسے ربط و ہم آہنگی تلاش کرتا ہے … اُس کے ُروحانی اَور جمالیاتی تقاضوں کی نو ِ ّ عیت کیا ہے… ز ِندگی کی َوحدت و یکتائی کا احساس ذہن پر کیسے اَثر اَنداز ہوتاہے… اِن سب سوالو ں سے جدید علوم (بالخصوص جدید نفسیات) نے جس طرح اپنا دامن چھڑانے کی کوشش کی ہے‘ اُس سے ایک گہرا اَعصابی خوف جھلکتا ہے۔
نفسیات‘ اِنسان کو مرکزی ّحیثیت بخشتی ہے اَور ایسے تجربات کا تصو ّر کرتے ہوئے جھجکتی ہے جو احسا ِس خودی سے عاری ہوں۔ لیکن ہر زمانے میں ایسے لوگ ہو گزرے ہیں جنھوں نے شخصی ُوجود کی اِضافیت کو ُمحسوس کیا اَور قطرے کو دریا سے ہم َکنار کر ڈالنے میں ُعمریں ِبتا د ِیں۔ اِن تجربات کا سنجیدہ مطالعہ نفسیات کو ایک نئے اَنداز ِ فکر سے ُ روشناس کراتا ہے۔
یہ خیال پختگی پکڑنے لگتا ہے کہ نفس ایک وسیع و بسیط اِرتقائی عمل کی محض ایک منزل ‘ محض ایک ماندگی کا وقفہ ہے:اِس کی کوئی دائم و قائم اَزلی اَور اَساسی ّحیثیت نہیں اَوریہ مفروضہ ،نفسی حقائق کا ایک بالکل نیا تصو ّر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے؛ لیکن شاید ہم ابھی تک اِس اِنقلاب کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ وزیر آغا نے بڑی جرأت سے کام لیتے ہوئے اِن تجربات کی َتوجیہ ‘کی ہے۔
اُن کے مطالعے کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اِس میں غیر ضروری قطعیت ‘ َہٹ دھرمی اَور بے جا خود اِعتمادی موجود نہیں۔ ممکن ہے کہ اُن کا یہ پہلا قدم‘ ایک د ِن باقاعدہ تحریک کی صورت اِختیار کر لے اَور ہم اُن مسائل کے متعلق غور و فکر کرنا شروع کر دیں جن کے ذ ِکر سے بھی آج بہت سے پڑھے لکھے لوگ کتراتے ہیں! تصو ّف اَور پر ِستش جمال میں ایک قدر ِ خاص مشترک ہے۔
ُصوفی کی بے خودی اَور فن کار کی اِنتہائی خود بینی و خود آرائی‘ بظاہر متضاد کیفیتیں ہیں لیکن حقیقتاً فن کار اَور ُصوفی دونوں ایک ہی مقصد کے لیے جیتے ہیں … ایک ایسی حالت ِ جذب کے لیے جس میں ذات اَورغیر ذات کا اِمتیاز باقی نہ رہے اَور مکمل خود فراموشی ّمیسر ہو۔ تاہم تعشق، ”من و ُتو“ کے احسا س کو مٹانے کے بجائے ‘اُسے شدید تر کر ڈالتا ہے ۔
تلا ِش حق اَور تلا ِش جمال کی طرح ّمحبت کا بنیادی محرک بھی تنہائی اَور بے بسی کا احسا س ہے۔ لیکن عا ِشق( ُصوفی اَور فن کار کی طرح) اُس حد ّ ِ فا ِصل کو فراموش نہیں کرتا جو اِیغو کو کائنات سے ُجدا کرتی ہے۔ عشق کی تکمیل کے لیے ُمحبوب کا جسمانی ُوجود لازمی ہے‘ لیکن عا ِشق کے لیے جنسی جذبہ محض ایک وسیلہ ہوتاہے … ایک ایسی زبان‘ جسے دُنیا بھر میں صرف دو۲ اَفراد بول سکتے ہوں… یہ ایک اَیسا راستہ ہے جس کی کوئی منزل نہیں! جب دو۲ آئینے ایک دُوسرے کے سامنے رکھ دیے جائیں تو عکسوں کا ایک لا متناہی سلسلہ بنتے چلا جاتاہے: کوئی یہ نہیں َکہ ‘سکتا کہ آ ِخری عکس کون سا ہے…یہی عشق کی ّ کیفیت ہے! کوئی بات بھی آ ِخری بات نہیں… جنسی ّلذت‘ َہوس کی اِنتہا اَور عشق کی اِبتدا ہے ۔
اِس کتاب کے مصنف نے جہاں فلسفیانہ َطور سے ّمحبت کی تقسیم کی ہے‘ وہاں اُن بندشوں اَور اُلجھنوں کا بھی ذ ِکر کیا ہے جو آئے د ِن َمردوں اَور عورتوں کی ز ِندگیوں کو تلخ اَور بے َکیف بنائے رہتی ہیں۔ عام َطورپر لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اِنسان سیدھے خطوط‘ صرف اپنے ہاتھ سے کھینچتا ہے: فطرت میں تو ہر طرف َلہروں کا سا اُتار چڑھاؤ ہے… ایک َصوتی آہنگ جوکبھی نرم و نازک ہے اَور کبھی ُتند و تیز ! سب سے بڑی بات یہی ہے کہ آدمی اِس تھاپ کو ُپورے َطور سے جانے اَور اِس سے قدم ِملائے رہے۔
َمرد اَور عورت کی چا َہت میں بھی یہی زیر و بم ہے … دُھوپ چھاؤں کا منظر! جنسی کشش اَور طلب کے ساتھ ساتھ گریزاَور فرار کا جذبہ بھی ایک حیاتیاتی حقیقت ہے‘ اَور َ ّمسرت کے ُ ُحصول کے لیے ضروری ہے کہ چاہنے اَور چاہے جانے والے اِس حقیقت سے کبھی بے خبر نہ ہوں۔” ّمحبت اَور َ ّمسرت“ کے عنوان سے مصنف نے اِس موضوع پر ایک ُپورا باب لکھا ہے جو نظریاتی لحاظ ہی سے د ِلچسپ نہیں‘ ہماری ز ِندگی سے نہایت قریب ہونے کے سبب ایک نفسیاتی مشورے کی ّحیثیت بھی رکھتاہے ۔
اِس کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کے افکار و نتائج محض کتابی مطالعے اَور غور و فکر کی پیداوار نہیں… اِس کاو ِش میں اُن کے ذاتی حالات اَور اُن حالات سے اُبھرنے والے اَنداز ِ نظر کو بہت دخل ہے۔ اِس لیے اُن کے شخصی تعا ُرف کے بغیر یہ دیباچہ نامکمل َرہ جائے گا۔ جب وزیر آغا نے پہلے پہل مجھ سے یہ اِرادہ ظاہر کیا کہ ُ وہ َ ّمسرت کے موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھنا چاہتے ہیں تو مجھے یہ سمجھنے میں دُشواری ُہوئی کہ اُنھوں نے اِس موضوع کا اِنتخاب کیوں کیا ہے۔
اَدبیات ِ حاضرہ میں تو اِس موضوع کی کوئی روایتی ّحیثیت نہیں اَور نہ ہی ہنگامی لحاظ سے یہ موضوع کوئی مقبو ّلیت رکھتا ہے ۔ ُوہ زمانہ گیا جب لوگ کسی بنیادی بات کا ذ ِکر بے جھجک چھیڑ دیا کرتے تھے اَورسیدھے سادے اَنداز سے بڑی بڑی باتیں َکہ ‘جاتے تھے۔ ایک بار جب َمیں اُن کے گاؤں میں جا کر رہا تو مجھے اِس سوال کا جواب مل گیا۔ واپس آتے ہوئے میں نے سوچا کہ ُ وہ باتیں جو وزیر آغا نے اپنے مقالوں میں علمی اَور غیر شخصی اَنداز سے کہی ہیں‘ اُن کے کہنے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ ُوہ اپنے گاؤں کے متعلق ایک ناو ِل لکھتے ۔
غالباً اِس مختصر سے قیام کے تاثر کو ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنے کی خا ِطر ہی َمیں دوبارہ اُن کے گاؤں نہ گیا۔ اِس گاؤں کے متعلق تفصیل سے کچھ کہنا میرے لیے ناممکن ہے۔ ُیوں سمجھ لیجیے کہ گاوٴں کی ز ِندگی َبیک َوقت خاموش بھی ہے اَور متلاطم بھی‘ اَور اِس سے وابستہ ہر شخص ایک مکمل فلسفہ ٴ حیات کا نمائندہ ہے اَور ایک مشین کی طرح اپنے مسلک کا اعلان کیے جا رہا ہے ۔
اِس ماحول میں وزیر آغا ہی ایک اَیسا اِنسان ہے جو کسی نظریے کا تابع نہیں۔ ُوہ خاموشی سے سب کچھ سنتا ہے … ایک غیر مخل اَور صاحب ِ بصیرت تماشائی ہے ۔ بڑے آغا صاحب اَور کریم بخش کے ساتھ ایک دوپہر میرے حافظے میں ہمیشہ روشن رہے گی۔ بڑے آغا صاحب ‘ویدانت پر غیر معمولی َطور سے حاوی ہیں؛ اَور جس طرح ُوہ (بڑ کے) درخت کے نیچے بیٹھے‘ سیدھی سادی پنجابی میں‘ آس پاس کے دیہات سے آئے ُہوئے لوگوں کو اِس نظریے کی تلقین کرتے ہیں… ُوہ منظر اِس بیسویں َصدی میں غیر حقیقی سا نظر آتا ہے۔
کریم بخش محض ایک دہقان ہے۔ میں نے اُس سے خیر و شر سے متعلق ُپوچھا تو اُس نے صرف اِتنا کہا : ُبرائیاں اگر لوہے کی بیڑیاں ہیں تو نیکیاں سونے کی بیڑیاں ہیں! اِس گاؤں کے بعض ِکرداروں کا ذ ِکر آپ کو اِس انوکھی کتاب میں ملے گا۔ شمس آغا مرحوم اُن لوگوں میں سے تھے جن کے متعلق غالب نے کہا ہے : ُ َ کیا پوچھو ہو وجود و عدم اہل شوق کا آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے چڑت رام اَور د ِلاور خاں‘ اپنی اپنی جگہ مکمل اِنسان ہیں۔
وزیر آغا اپنی صبح‘ مالٹے کے باغوں کی دیکھ بھال میں َصرف کرتے ہیں؛ واپس آ کر‘ زمین داری کا حساب دیکھتے ہیں؛ یا مردانے میں بیٹھ کر‘ کچھ پڑھتے رہتے ہیں ؛ اَور شام کو اُن پگ ڈنڈیوں پر ِمیلوں گھومتے ہیں جن کی َ گرد‘ ڈوبتے ہوئے ُسورج کی شعاعوں میں سونے کے ذ ّروں کی طرح چمکتی ہے … یہ ہے ُوہ ز ِندگی ‘ جس نے اُن خیالات کو جنم دیا جو ایک سادہ مگر د ِلکش نگارش کے سلسلہ ٴ ز ّریں میں آپ کے ِپیش نظر ہیں۔ (وجیہ ‘ الدین احمد)

Chapters / Baab of Musarrat Ki Talash By Wazir Agha