Episode 2 - Musarrat Ki Talash By Wazir Agha

قسط نمبر 2 - مسرت کی تلاش - وزیر آغا

مسرت مسرت …؟ یہ سوچنا غلط ہے کہ زیادہ آسائش زیادہ َ ّ مسرت کامنبع ہے ۔ َ ّ مسرت آتی ہے گہرے َطور پر محسوس کرنے سے‘ سادگی سے ُلطف اَندوز ہونے سے ‘ تخیل کی آزاد اُڑان سے ‘ ز ِندگی کو خطرے میں ڈالنے سے ‘ دُوسروں کے کام آنے سے ! سٹارم جیمز سن کے اِن الفاظ کی صداقت پر کیونکر شبہ ہو سکتاہے ! لیکن ز ِندگی اِس قدر بسیط اَور اِس کی اَقدار اِتنی پیچیدگیوں کی حامل ہیں کہ اِس کے متعلق کوئی بھی سطحی بیان ، ِتسکین قلب کا ُموجب نہیں ہو سکتا۔
اَور چونکہ کلبلاتے ہوئے اِس َدور میں خوشی اَور غم کا لاینحل مسئلہ ایک باقاعدہ مرض کا درجہ اِختیار کر ُچکا ہے ‘ لہٰذا اِس پر ایک گہری نظر ڈال کر کسی آخری نتیجے پر پہنچنے کی کمزور سے کمزور َسعی بھی باعث ِ َ ّ مسرت ہو سکتی ہے … َ ّ مسرت ! … ُوہی َ ّ مسرت جسے میں نے اپنے مطالعے کا ُعنوان کیا ہے ۔

(جاری ہے)

لیکن َ ّ مسرت آ ِخر ہے کیا ‘ اَور کس َحد تک اِسے غم سے ّمتمیزکیا جا سکتا ہے ! اگر علم ُ ا ّلنفس کی جدید تریں تحقیقات ّمحبت اَور نفرت کو ایک ہی تصویر کے دو۲ رُخ قرار دے سکتی ہیں ؛ اگر اِن تحقیقات کی روشنی میں احسا ِس برتری اَور احسا ِس کمتری کے ما َبین صرف ایک لطیف سا پردہ ہی حائل ہو سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خوشی اَور غم کی َسر َحدیں بھی پھیلتے پھیلتے ایک دُوسرے میں مدغم نہ ہو گئی ہوں اَور ہمارے لیے اُن کے درمیان َ ّ ِحد فا ِصل قائم کرنا ایک مصیبت نہ بن گیا ہو … مگر َ ّ ِ حد فا ِصل تو قائم ہے کہ َ ّمسرت غم نہیں ہو سکتی اَور غم َ ّمسرت نہیں ہو سکتا … یہ دو۲ مختلف کیفیات ہیں جو اِنسانی ز ِندگی کے تاروں کو اِتنی ِ ّشدت سے مرتعش کرتی ہیں کہ اِنسان لرز اُٹھتا ہے… یہ اَور بات کہ اِن میں سے ایک‘ اپنے اِرتقا میں شگفتگی اَور والہانہ َپن کے سہارے بہتے ہوئے‘ ز ِندگی کو ایک نشاط انگیز رقص میں تحلیل کر دیتی ہے اَور دُوسری‘ اپنی اِنتہا میں اُس کا ہاتھ پکڑ کر‘ ایسی گہرائیوں میں اُتر جاتی ہے جہاں تیرگی اَور بے بسی کے شدید احساس کے ِسوا کچھ نہیں ہوتا۔

ہاں، مگر ایک بات واضح ہے اَور ُوہ یہ کہ اِن دونوں میں سے کوئی ّکیفیت نہ تو اَبد ّیت کی حامل ہے اَور نہ ہی کسی ایک کا ُوجود‘ دُوسری کے قطعی اِستیصال سے قائم َرہ سکتا ہے ۔ َ ّمسرت کا مزہ کچھ ُوہی جانتا ہے جس نے غم کی چاشنی کو بھی ّچکھاہے اَور غم کی خلش کچھ اُسے ہی ستاتی ہے جس نے َ ّمسرت و نشاط کا جام بھی پیا ہے… یہ دونوں لازم وملزوم ہیں اَور ز ِندگی نام ہے اُس َدوڑ کا جو اِن دو۲ َسر َ حدوں کے درمیان اَزل کے روز سے جاری ہے اَور اَبد تک جاری رہے گی۔
تجربہ اَور تاریخ شاہد ہے کہ اِنسان روز ِ آفرینش ہی سے َ ّمسرت کا طالب رہا ہے ۔ لیکن یہ حقیقت جن مستثنیات کے تابع ہے‘ اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ بعض لوگ َ ّمسرت کے بجائے غم کے جویا ہوتے ہیں : ایسے لوگ خود اَذ ّیتی (Masochism)کے تحت اپنی ذات کو دُکھ میں ڈال کر ‘ َحظ اُٹھاتے ہیں اَور قنوطیت کے پیہم تھپیڑے َسہ ‘ َسہ ‘ کر ‘ اُس کے اِس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ اُن پر تمام مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں ۔
اِس ُزمرے میں ُوہ لوگ بھی شامل ہیں جو غم کو مثبت (Positive) تصو ّر کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے مطابق َ ّمسرت بذات ِ خود کوئی چیز نہیں ‘یہ فقط غم کے فقدان کا نام ہے … اپنے اِسی خیال کو زیادہ صاف الفاظ میں ُوہ ُیوں بیان کرتے ہیں کہ َ ّمسرت ایک ِسیاہ ّبلی ہے جسے کوئی اَندھیرے کمرے میں ڈھونڈ رہا ہے جبکہ ُوہ وہاں نہیں ہے۔ اَور اِسی ُزمرے میں اُن لوگوں کا نام بھی شامل ہے جنھوں نے اپنے اُوپر گھناؤنی ز ِندگی کی تمام صعوبتوں کو روا رکھتے ہوئے‘ دُوسروں کے لیے َمیدان صاف کیا اَور خود چپ چاپ ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اَبدی تاریکیوں میں گم ہو گئے۔
اِس ضمن میں چارلس ڈکنس کے معروف ِکردار سڈنی کارٹن کی لازوال قربانی کی مثال دی جا سکتی ہے بشرطیکہ ہم اِس ِکردار کے اِن آخری الفاظ کو یاد رکھیں: یہ کتنا نفیس قدم ہے جو میں اُٹھا رہا ُہوں… اُن سے ہزار ُ گنا اچھا جومیں نے آج تک اُٹھائے ہیں ! میں ایک ایسے سُکھ اَور آرام کی طرف گام ز َن ُہوں جس سے میں آج تک محروم رہا۔ نفسیاتی لحاظ سے بھی یہ نقطہ قا ِبل غور ہے کہ ہم اکثر ٹریجڈی کو کامیڈی سے زیادہ َوزنی قرار دیتے ہیں اَور ّمقدم ُ الذکر کی تاریک فضا میں ہمیں ُوہ تسکین حا ِصل ہوتی ہے جس کی واقعی ہمیں ضرورت ہوتی ہے؛ لیکن اِن تمام مثالوں میں جس اَہم نکتے کونظر اَنداز نہیں کیا جا سکتا‘ ُوہ یہ ہے کہ ایسے لوگ غم‘ دُکھ‘ قربانی اَور ٹریجڈی سے دراصل ُوہی َ ّمسرت حا ِصل کرلیتے ہیں جس کے نہ ملنے کی وجہ سے ُوہ اِن چیزوں کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔
چنانچہ فی الحقیقت ہر اِنسان َ ّمسرت کی تلاش میں ہے ۔ مگر اِس سے قبل کہ میرے اِس فقرے سے کوئی غلط فہمی َپیدا ہو جائے‘ میں َ ّمسرت اَور ّلذت کے مابین َ ّ ِحد فا ِصل کی اُن لکیروں کو شوخ تر کر دیناچاہتا ُہوں جو اِن دونوں کیفیات کو نمایاں کر سکیں۔ ّلذت ایک ّحسیاتی چیز ہے اَور اِس کا زیادہ تر تعلق جسم سے ہے۔ ہم اپنی پا۵نچ ِ ّحسیات ( ُسونگھنے‘ چکھنے‘ ُچھونے‘ سننے اَور دیکھنے) سے ُلطف اَندوز ہوتے ہیں۔
اِن میں سے جسم کے ساتھ کسی ُلطف کا جتنا زیادہ تعلق ہو گا‘ اُتنا ہی ُوہ َ ّمسرت کی بہ نسبت‘ ّلذت سے زیادہ نزدیک ہوجائے گا۔ آسمان کی نیلی سی جھیل میں َتیرتے ہوئے بادل کے ایک تودے کی جھلک‘ یا موسیقی کی کوئی ُمدھر دُھن‘ یا کسی ایسی ہی ّکیفیت سے َ ّمسرت کی ایک ہلکی سی َموج ہمارے سراپے سے ٹکرا کر پھر غائب ہو جائے… اُس ّلذت سے کافی مختلف ہو گی جو مثلاً کوک شاستر کی کسی َبرہنہ تصویر کو دیکھ کریا کباب کا ایک ٹکڑا کھا کرحا ِصل ہو سکتی ہے۔
لیکن شاید میری دلیل ابھی تشنہ ہے۔ زیادہ واضح الفاظ میں َ ّمسرت اَور ّلذت میں ُوہی تفاوت ہے جو ّمحبت اَور شہو َت میں ہے ‘ تخیل اَور حقیقت میں ہے ‘ روح اَور جسم میں ہے ۔ َ ّمسرت‘ ّلذت ہی کی ترقی یافتہ صورت کی مظہر ہے ۔ ّلذت جسم سے وابستہ ہے، َ ّمسرت روح سے متعلق ہے۔ ّلذت اِنسانی ِ ّحسیات کی مر ُہو ِن ِ ّمنت ہے ، َ ّمسرت اُن ُروحانی کیفیات کے تابع ہے جن کا محرک کوئی خارجی منظر ہوتا ہے لیکن جو روح کی کسی غیر ُمحسوس َلہر سے جنم لیتی ہیں… اگرچہ یہ چیز بسا اَوقات صرف چند لمحات تک پائیدار ہوتی ہے‘ تاہم اِن چند لمحات میں ُوہ ز ِندگی کو اِتنا کچھ بخش جاتی ہے جو بیش بہا خزانوں پر بھی بھاری ہوتا ہے ۔
اِس سلسلے میں امریکہ کے ایک مشہور جریدے (Reader's Digest) کے ایک بلند پایہ مضمون کا تذکرہ مناسب ہوگا جس میں اُس مریض کے چند نہایت ُپر َ ّمسرت لمحات کا بیان ہے جو اُس نے تن درستی کے بعد یک لخت ُمحسوس کیے جب اُسے بالکنی میں ایک پلنگ پر لٹا دیا گیا تھا اَور اُس کے سامنے ایک کبڑے سے درخت پر بہار کے شگوفے ُپھوٹ رہے تھے۔ یا پھر ہم اِس َ ّمسرت کو شیلے کے اِس ز ِندہ ٴ جاوید مصر ِع سے ُپھوٹتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں: I shrieked and clasped my hands in ecstacy. اِسی طرح شمس آغا کے مشہور اَفسانے َسراب میں بھی ایک جگہ ہیرو‘ خارجی منا ِظر کے ٹکراؤ سے َ ّمسرت کی ایک ایسی ہی والہانہ َلہر ُمحسوس کرتا ہے : وہ رُک گیا اَور چاند کا چہرہ کانپتے ہوئے پانی میں جھلملانے لگا۔
اُس کا د ِل چاہا‘ ُوہ فرط ِ کیف سے چیخیں مارے… درخت بے حس و حرکت کھڑے تھے ‘ جھاڑیاں َدم روکے ہوئے تھیں‘ لانبی لانبی گھاس میں نمی آ گئی تھی‘ چاروں طرف جمود تھا اَور خاموشی … ہاں ُدور‘ کہیں ُدور، میلوں َپرے کوئی بنسری بجا رہا تھا ۔ اُس کا د ِل چاہا‘ ُوہ ّپتھر پر کھڑا ہو کر بنسری بجانے والے کو آواز دے‘ اُسے اپنے پاس بلا لے ‘ یا خود بنسری بن کراُس کے جاگتے ہوئے لبوں سے جا لگے اَور نغمہ بن کر‘ کائنات کو بھینچ کر‘ اپنے سینے سے لگا لے! آپ نے دیکھا، َ ّمسرت کی یہ لہریں کتنی تیز رفتار ہیں‘ اَور اِنھوں نے کس طرح ُمحسوس کرنے والوں کی ُروحوں کو ُمرتعش کر دیا ہے! ز ِندگی میں ایسے لمحات بہت کم آتے ہیں؛ بیشتر اَوقات تو ُروح کی پرواز‘ ماحول کی سنگین دیواروں ہی میں پھڑ پھڑا کر َرہ جاتی ہے۔
مگر َ ّمسرت کی اِس توضیح کے بعد یہ کہنا کہ ہر اِنسان اِسی َ ّمسرت کی تلاش میں ہے‘ غالباً صحیح نہیں ہو گا۔ َ ّمسرت کی اِن ُپر زور لہروں کو پانے کی شعوری یا غیر شعوری آرزو‘ ہر اِنسان کے ذ ِہن َرسا کی منزل نہیں‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک عام اِنسان َ ّمسرت کی اُن اَن ِ َگنت چھوٹی چھوٹی لہروں کا ّتمنائی ضرور ہوتا ہے جو ّلذت‘ سکون اَور تکلیف کے ّمدوجزر سے َپیدا ہوتی ہیں۔
علاوہ اَزیں چونکہ ”تکرار“ سے اِن میں سے ہر ّکیفیت کی ِ ّشدت میں اِنحطاط لازم آتا ہے اَور یہی تکرار آگے چل کر یکسانیت اَور ٹھہراؤ کی فضا َپیدا کر دیتی ہے‘ لہٰذا ہم شعوری یا غیر شعوری َطور پر اِس بات کی بھی آرزو کرتے ہیں کہ زمانے میں ّتغیر کو ثبات رہے اَور ّلذت‘ سکون اَور تکلیف کا ّمدوجزر قائم رہے۔ دراصل ہم اِنسان‘ فطری َطور پر تلو ّن پسند ہیں؛ ہم تبدیلی چاہتے ہیں‘ چاہے یہ تبدیلی ماحول میں ہو ‘ جسم میں یا خیالات میں ہو! اَور فی الحقیقت ہماری ز ِندگی ٹیڑھی لکیر نہ ہوتی تو ہم کبھی کے اِس سے اکتا گئے ہوتے، تھک ہار کر بیزار ہو چکے ہوتے؛ مگر بچپن‘ جوانی اَور بڑھاپے کی جسمانی اَور ذہنی تبدیلیوں سے دوچار ہو کر اَور گرد ِش فلک اَور ماحول کے ِنت نئے اِنقلاب کے طفیل‘ ہم نے خود کو جمود‘ ّتعطل اَور ز ِندگی کی سنگلاخ یکسانیت سے بچا لیا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اِنسان صرف ُسکون کی تلاش میں ہے ،بعض کا خیال ہے کہ اُسے صرف ّلذت چاہیے‘ بعض ٹریجڈی کو اُس کی منزل قرا ر دیتے ہیں لیکن درحقیقت اِنسان‘ اِن میں سے کسی بھی خاص ّکیفیت کا جویا نہیں؛ ُوہ تو ز ِندگی کے اُس ّمدوجزر کا خواہاں ہے جس کے طفیل ُوہ َ ّمسرت کی ہلکی ہلکی لہروں سے مستفید ہو سکے؛ ُوہ تو ز ِندگی کے ایسے سمندر کی تلاش میں ہے جس میں طوفان بھی آئے اَور جس پر سکوت بھی طاری ہو مگر جس کی سطح پر ّ ننھی ُ ّ منی لہریں ضرور مچلتی رہیں۔
بڑے پیمانے پر بھی دیکھیں تو ہمیں ُمحسوس ہو گا کہ فرد کی ز ِندگی لامتناہی ہوتی تو اِس ز ِندگی کا سارا ُحسن ‘اِس کی کشش اَور والہانہ َپن‘ اِس کی کرخت یکسانیت میں تحلیل ہوکر َرہ جاتا اَور حیات و َموت کی دُھوپ چھاؤں سے محروم ہو کر ز ِندگی خود سپاٹ اَور چٹیل ہو جاتی۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے : ہوس کو ہے نشاط ِ کار کیا کیا نہ ہو َمرنا تو جینے کا مزہ کیا اَور اگر ہم اِ س منطق کو تسلیم کر لیں کہ اِنسان ٹھہراؤ اَور یکسانیت سے ِکنارہ کش ہونے کا آرزو َمند ہے تو ہمیں ز ِندگی کے ہر اُس نظام کی پائیداری پر شک گزرے گا جس میں ّمدوجزر کے اِمکانات صفر کے برابر ہوں … اَور شک کیوں نہ ہو جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اِنسان غم کو برداشت کر سکتا ہے لیکن یکسانیت اَور ٹھہراؤ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ایمرسن نے ایک جگہ لکھاہے: ہم خوبصورتی میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن اُسے دیکھنے کے لیے ہمارے پاس آنکھیں نہیں۔ آنکھوں سے اُس کی ُمراد د ِل کا ُوہ َمیلان (response)ہے جس کے طفیل کائنات کا ُ حسن ،حقیقت کا َلبادہ اوڑھ لیتا ہے ۔ خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے ایک ّحساس د ِل کی ضرورت ہے ‘ ورنہ بیشتر لوگ تو و ِجدانی کیفیات سے اِس درجہ اجنبی ہوتے ہیں کہ کوئی خوبصورت منظر بھی اُن کی ُروحوں کو بلند نہیں کر سکتا اَور ُوہ ما ّدیت کے قصر سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکل سکتے ۔
اِس ضمن میں اُن ّسیاحوں کا تذکرہ بھی غیر مناسب نہیں جو پہاڑوں پر صرف تاش اَور کیرم کھیلنے‘ اَور پوسٹ آفس کے سامنے کھڑے ہوکر چلغوزے اَور بادام کھانے کے لیے جاتے ہیں… ایسے لوگ َ ّمسرت سے محروم رہتے ہیں‘ البتہ اِس محرومی سے گھبرا کر زیادہ سے زیادہ جسمانی ّلذت حا ِصل کر لینا چاہتے ہیں … فی الحقیقت خوبصورتی کو دیکھنا ‘ دُوسروں کو د ِکھانا اَور اُس سے لطف اَندوز ہونا ‘ بہت بڑی بات ہے اَور اِس کا راز یہ ہے کہ اِنسان کسی بھی چیز کو ایسی د ِلچسپی سے دیکھے گویا اُسے پہلی بار دیکھ رہا ہو… ایسا کرنے سے نئی نئی ُوہ باتیں اُس پر منکشف ہوں گی جنھیں ُوہ سطحی نظر میں نظر اَنداز کرگیا تھا۔
دراصل ِ ّجدت اَور تبدیلی ہی َ ّمسرت کی سب سے بڑی معاو ِن ہے اَور خوبصورتی جو َ ّمسرت کی مستقل رفیق ہے ‘ بذات ِ خود ایسے رنگوں کا اِمتزاج پیش کرتی ہے جو ہر آن بدلتے رہتے ہیں۔ اِسی طرح غائر نظر سے دیکھاجائے تو ہمیں ُمحسوس ہو گا کہ کائنات بھی ہرلحظہ تبدیل ہو رہی ہے ‘ اِس میں نیا پن آ رہا ہے ۔ صرف گہری نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے اَورہم سمجھ جاتے ہیں کہ َسردی کے بعد بہار اَور بہار کے بعد گرمی کیوں آ جاتی ہے! کائنات کی دُوسری اَہم تبدیلیوں سے قطع نظر اگر محض یہ موسمی تبدیلیاں ہی معر ِض ُوجود میں نہ آ ِتیں تو یکسانیت اَور ٹھہراؤ کے ماحول میں ہمارے خیالات اَور احساسات میں بھی تعطل اَور جمود َپیدا ہو جاتا اَور ہر چیز پر ایسی گھٹن کی فضا کا ّتسلط ہو جاتا جو ز ِندگی کے لیے مہلک ثابت ہوتا۔
ایک مشہور اِنشا پرداز نے ز ِندگی کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے: خواہشات ِ اِنسانی‘ فطرت کا ضروری ُجزو ہیں۔ اِنسان خواہش کرتا ہے اَور اَپنے افکار و احساسات کے لیے ایک منزل ّمتعین کر لیتا ہے ۔ تب اُس منزل کے لیے کشاکش اَور تگ و َدو میں مصروف ہو جاتا ہے‘ لیکن جب ُوہ منزل پر پہنچ جاتا ہے تو یہ دیکھ کر اُس کی حیرت کی اِنتہا نہیں رہتی کہ اُس منزل نے تو اُسے ُوہ تسکین ہی ّمہیا نہیں کی جس کا ُوہ طالب تھا ۔
دراصل اِسی دوران میں اُس نے ایک نئی منزل کی طرف اپنے احساسات کے دھارے کو موڑ لیا تھا ۔ غم زدہ لوگ ُوہ ہوتے ہیں جو یا تو ز ِندگی کے اِتنے نچلے مقام پر کھڑے ہوتے ہیں کہ اُنھیں اپنی خواہشات کی تکمیل کی اُمید ہی نہیں ہوتی؛ یا ُوہ لوگ جو ز ِندگی کے ز ِینے کے اُوپر والے اُس تختے پر کھڑے ہوتے ہیں جہاں ز ِندگی کی تمام سہولتیں مل جاتی ہیں اَور اُنھیں اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے کوئی بھی کشمکش نہیں کرنا پڑتی۔
کشا ِکش حیات کے متعلق یہ خیالات حرف ِ آخر کا درجہ رکھتے ہیں‘ اَور میرے اِستدلال کے سلسلے کو اِس حد تک تقویت پہنچاتے ہیں کہ َ ّمسرت کی اَن ِ َگنت چھوٹی چھوٹی لہروں سے مستفید ہونے کے لیے جس کشمکش اَور تگ و َ دو کو میں نے ضروری متصو ّ ر کیا تھا‘ اُسے یہ بھی ناقا ِبل اعتنا نہیں سمجھتے ۔ اَب ذرا اَور گہری نظر سے دیکھیں توہمیں ُمحسوس ہو گا کہ زیست کے َصحر ا میں َ ّمسرت ایک ایسی عمارت ہے جو تین۳ عظیم ُ ا ّلشاں ستونوں پر کھڑی ہے : (الف ) ُمعصومیت (ب) ّصحت (ج) خواب جہاں تک ُمعصومیت کا تعلق ہے‘اِس سلسلے میں یہ بات قا ِبل غور ہے کہ ذہنی ترقی اَور ُمعصومیت ایک دُوسرے کی ِضد ہیں یعنی جہاں ذہنی ترقی کا آغاز ہونے لگتا ہے‘ وہاں ُ معصومیت فنا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
اَب چونکہ ذہنی ترقی سے راز ہائے َسر َبستہ فاش ہوتے ہیں اَور راز ہائے َسر َبستہ ہی زیست کو خوشگوار اَور ُپرکشش بنانے کے محرک ہیں ‘ لہٰذا جب ”راز“ کے َپٹ ُکھل جاتے ہیں تو ز ِندگی سپاٹ اَور چٹیل نظر آنے لگتی ہے اَوراُس سے َ ّمسرت حا ِصل کرنے کے اِمکانات ُرو بہ زوال ہو جاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم بہ رضا و رغبت ز ِندہ ہی اِس لیے ہیں کہ کائنات ایک َسر َبستہ راز ہے‘ جسے اَفشا کرنے کے لیے ہمیں ز ِندگی بھر کبھی نہ ختم ہونے والی تگ و َدو کرنا پڑتی ہے ۔
بچپن میں گھر کے دروازے کے باہر ہمارے لیے ایک جہا ِن عجیب بستا ہے ۔ جب ہم ذرا بڑے ہو جاتے ہیں‘ ہمارا ّ ُتجسس ہمیں اُفق کی پہاڑیوں کے پار لے جانے کے لیے اکساتا ہے ؛ پھر ہم سمندروں کو ُ ُعبور کر کے اُن سے َپرے کی عجیب و غریب دُنیا کو دریافت کرنے کے ّمتمنی ہو جاتے ہیں؛ اَور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ہماری ّ متجسس نظریں اِس دُنیا سے َہٹ کر‘ اَجرا ِم فلکی کے َسر َبستہ رازوں کو فاش کر دینا چاہتی ہیں؛اَور حقیقت یہ ہے کہ اِسی ّتجسس ‘ اِسی تگ و َدو کا نام ز ِندگی ہے اَور یہ ُوہی ز ِندگی ہے جو َ ّمسرت کی سب سے بڑی معاو ِن ہے۔
تجربہ شاہد ہے کہ ُجوں ُجوں اِنسان اِرتقا کی مناز ِل طے کرتا جاتا ہے اَور اَپنے چاروں طرف پھیلے جہا ِن رنگ و ُبو کی لطافتوں اَور کثافتوں کا تجزیہ کرنے لگتا ہے‘ ُتو ں ُتوں اُس پر افسردگی کا غلبہ بھی بڑھنے لگتا ہے۔ شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ فطرت ِ اِنسانی‘ لطافت کو کثافت پر ترجیح دیتی ہے ‘ خواب کو حقیقت سے زیادہ پائیدار اَور َ ّمسرت انگیز تصو ّر کرتی ہے؛ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایک مذہبی رہنما‘ ایک سائنس داں کی بہ نسبت زیادہ لوگوں کو اَپنی طرف متو ّجہ کر لیتا ہے … اِس لیے کہ سائنس‘ ز ِندگی کی کرختی اَور ٹھوس َپن کو ُعریاں کرتی ہے اَور بڑے ہی حزم و احتیاط سے حیات کے معمول کو حل کرتے چلے جاتی ہے ۔
لیکن اِس کے برعکس مذہب‘ کائنات کے محمل کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے رازوں کی اَن ِگنت چلمنیں باندھ دیتا ہے اَور اِن چلمنوں پر تشبیہوں اَور اِستعاروں کی چمک دار جھالریں آویزاں کر دیتا ہے ؛ اَور اِنسان… ظاہری شان و شوکت کے سامنے سر ِ تسلیم خم کر دینے والا اِنسان… چپکے چپکے اَور خوشی خوشی رسوم و قیود کی سلا ِسل پہن لیتا ہے … مگر پھر بھی ُوہ اِس قید کو اُس آزادی پر ترجیح دینے میں اِس لیے حق بجانب ہے کہ ّمقدم ُ الذکر اُسے َ ّمسرت اَور آخر ُ الذکر ایک سنگلاخ اَور کرخت حقیقت ّمہیا کرتی ہے…یہی وجہ تھی کہ میں نے ُمعصومیت کو َ ّمسرت کا ستون قرار دیا اگرچہ مجھے اِس بات کا احساس تھا کہ یہ لفظ خاصا مبہم ہے اَور چند غلط فہمیوں کاموجب بن سکتا ہے۔
دراصل ُمعصومیت سے میری ُمراد د ِل کی وہ ّکیفیت تھی جب سارا جہان ایک ِطلسم ہوش ُربا نظر آئے اَور د ِل اُسے حل کرنے کے لیے ّ متجسس ہو۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ایک ُ معصوم ّبچہ یا گنوار‘ ایک جہاں دیدہ ُبوڑھے یا ترقی یافتہ اِنسان سے کہیں زیادہ َ ّمسرت حا ِصل کرے گا اگر اُسے پہلی بار ریل گاڑی یا جہاز میں چڑھنے کا موقع ّمیسر آئے… اِس کی وجہ یہ ہے کہ ز ِندگی میں َخلا کا احساس دُکھ کا ُموجب ہے… ایک ّبچے یا گنوار کے لیے زمین کے نیچے‘ آسماں سے اُوپر اَور زمین اَور آسماں کے مابین ‘ ہر چیز ایک ُپراَسرار دُھندلکے میں ملفوف ہے؛ ُوہ اپنے ُمحدود فکر و تخیل کی اِعانت سے ہر چیز کا اِدراک کرتا ہے اَور جب اُن میں سے کوئی بھی شے ُعریاں ہو کر‘ اُس کے سامنے آتی ہے تو اُسے ُوہ َ ّمسرت حا ِصل ہوتی ہے جس پر ہم ترقی یافتہ اِنسان بھی رشک کرسکتے ہیں ۔
ُمعصومیت اَورجہالت (جہالت جس سے میری ُمراد ز ِندگی کے راز ہائے َسر َبستہ کی بہتات ہے ) کے اَلفاظ یہاں ایک دُوسرے پر منطبق ہو جاتے ہیں اَور نتیجہ ُوہی نکلتاہے جو ہم نے شروع میں نکالا تھا یعنی راز (mystery) کا ُ و ُجود َ ّمسرت کا ُموجب ہے۔ یہاں ہم اِس بات کا بھی اِضافہ کر سکتے ہیں کہ راز، ُمعصومیت کا مر ُہو ِن ِ ّمنت ہے اَور ُمعصومیت ‘ایک ایسی ُچھوئی ُموئی ہے جسے ایک بار گنوا کر ہم دوبارہ نہیں پا سکتے۔
ہمارا جو قدم اِرتقا کی طرف اُٹھ جاتا ہے‘ وہ واپس نہیں پلٹ سکتا۔ البتہ ذرا احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے مجھے یہاں اِس بات کا بھی اِظہار کردیناچاہیے کہ میں َ ّمسرت حا ِصل کرنے کے لیے جہالت کا َعلم بردار نہیں ہوں اَور میری یہ آرزو ہے کہ اِنسان اگر خوشی کا جویا ہے تو اُسے اِرتقا کے باوجود ُمعصومیت کا دامن نہیں چھوڑنا ہو گا‘ ہر شے کو اُس نظر سے دیکھنے کی کوشش کرنا ہو گی گویا اُسے ُوہ پہلی بار دیکھ رہا ہو! مسرت کے دُوسرے بڑے ستون ” ّصحت“ کا تذکرہ کرنے سے قبل َمیں ُمعصومیت کی مندرجہ بالا بحث کو ختم کرتے ہوئے ا ِس کے متعلق اپنے مجموعی تاثر کو بیان کر دیناچاہتا ُہوں ۔
چنانچہ میں کہوں گا کہ معصومیت ‘بچپن کا ُ ّطرہ ٴ اِمتیاز ہے لیکن یہ جوانی میں بھی اپنی شان کو قائم رکھتی ہے۔ اگر ّبچہ‘ اپنی نکھری ُہوئی معصومیت کے طفیل، َ ّمسرت کی مچلتی ُہوئی َموجوں سے ہم َکنار ہو سکتا ہے تو جوان بھی اپنے اَطوار ‘میل جول‘ کاروبار‘ حتیٰ کہ ّمحبت میں‘ خلوص کی اُس بلندی پر پہنچ جاتا ہے جو ُمعصومیت کا دُوسرا نام ہے ۔
اِسی خلوص سے اُسے َ ّمسرت کا خزینہ ِملتا ہے لیکن جب دُنیا اُس کے خلوص کا جواب فریب سے دیتی ہے اَور اُسے تجربات و حواد ِث سے دُنیا کی ّعیاری اَور ّمکاری کے راز معلوم ہونے لگتے ہیں تو آہستہ آہستہ (لیکن یقینی طورپر) ُوہ بھی ہر شے کو شک اَور خوف کی نظروں سے دیکھنے لگ جاتا ہے … یہ شک اَور خوف زیادہ مہذب الفاظ میں ”جہاں د یدگی“ کہلاتا ہے۔
جہاں دیدگی ادھیڑ َپن میں پروا ن چڑھتی ہے اَور بڑھاپے میں خطرناک صورت اِختیار کر جاتی ہے‘ البتہ اِس کے طفیل اِنسان َ ّمسرت کے اُن ّمعطر جھونکوں سے بتدریج محروم ہوتے چلا جاتا ہے جو اُس کے خلوص اَور ُمعصومیت کی َپیداوار تھے۔ معصومیت کے بعد َ ّمسرت کے دُوسرے بڑے ستون ‘ ّصحت کی باری آتی ہے ۔ ّصحت اَور َ ّمسرت کا چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ اِن کا ر ِشتہ تو اِس قدر ناقا ِبل شکست ہے کہ ایک کا وجود دُوسرے کے بغیر قائم ہی نہیں َرہ سکتا ۔
آپ کو اَپنے ڈاکٹر کی ُوہ ضرب ُ المثل تو خوب یاد ہو گی کہ ایک ّصحت َمند ُروح ‘ صحت َمند جسم ہی میں َرہ سکتی ہے …اِس کی وجہ یہ ہے کہ جسمانی نظام کی ضعیفی یا معمولی سے معمولی خرابی کا بھی اِنسانی احساسات و خیالات پر بہت ُبرا اَثر پڑتا ہے ۔ مریضوں کے سلسلے میں ہر اِنسان کا تجربہ ہے کہ ُ وہ چڑچڑے اَور بدمزاج ہو جاتے ہیں اَور اُن کے لیے ز ِندگی کے عام ّمدوجزر سے َ ّمسرت حا ِصل کرنے کے اِمکانات ُروبہ زوال ہوجاتے ہیں۔
اِسی طرح بڑھاپے کے جسمانی اِنحطاط کا نمایاں اَثر اِنسان کے مزاج پر ضرور پڑتا ہے ۔ ضعیف جسم مقابلةً غم ‘ غصے ‘ نفرت اَور ایسی ہی دُوسری چیزوں کی آماج گاہ جلد بن جاتا ہے اَور اِنسانی ز ِندگی کے ُ وہ تمام َپٹ زنگ آلود ہونے لگتے ہیں جن سے گزر کر َ ّمسرت کی ُخو ُشبودار لپٹیں اِنسانی د ِل کے دروازوں پر دستک دیاکرتی ہیں۔ ضعیف جسم کے طفیل خیالات و احساسات کا مریضانہ صورت اِختیار کر جانا تو عام سی بات ہے لیکن غور سے دیکھیں تو ہمیں ُمحسوس ہو گا کہ ماحول کی تبدیلی کا بھی اِنسانی خیالات و احساسات پر زبردست اَثر پڑتا ہے۔
مثال کے َطور پر آپ کرشن چندر کے گرجن کی ُوہ شام یاد کیجیے جب ِسطح سمندر سے ہزاروں فٹ کی بلندی پر اِنسانی ّمحبت میں لازوال پاکیزگی اَور ر ِفعت آ گئی تھی‘ اَور اِس کامقابلہ ہزاروں فٹ نیچے ”ٹوٹے ہوئے تاروں“ کی سستی اَور خالص جنسی ّمحبت سے کیجیے … آپ کو اِنسانی خیالات پر‘ ماحول اَور فضا کی تبدیلی کا اَثر نمایاں َطورپر نظر آ جائے گا۔
ماحول کی تبدیلی تو ایک طرف ‘نفسیاتی تحقیقات نے یہاں تک بھی َکہ ‘دیا ہے کہ رنگوں کی تبدیلی سے اِنسانی ّحسیات میں حیرت انگیز اِنقلاب ُرونما ہونے لگتا ہے… مثلاً آسمانی رنگ‘ اِنسان کو اُداس کر دیتا ہے لیکن اِس کے برعکس ُسرخ اَور قو س قزحی رنگوں سے اِنسانی خیالات میں حرکت اَور ز ِندگی دوڑنے لگتی ہے اَور ٹھہراؤ اَور یکسانیت کا ُوہ تمام طلسم ٹوٹنے لگتا ہے جو َ ّمسرت کے لیے زہر ِ ہلاہل ہے۔
جہاں ایک ّصحت َمند ُروح کے لیے ایک ّصحت َمند جسم کی ضرورت ہے‘ وہاں ہم یہ اِضافہ بھی کر سکتے ہیں کہ ایک ّصحت َمند جسم کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ّصحت َمند ُروح بھی نہایت ضروری ہے۔ یہاں آڈن کے ُوہ الفاظ یاد کیجیے کہ خیالات کی پریشانی کا نتیجہ بیماری کی صورت میں بھی اِنسان پر ناز ِل ہوجایا کرتا ہے۔ بیماری تو خیر ایک بڑی بات ہے‘ حیاتیاتی َطور پر (biologically)بھی یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ خیالات اِنسان کے جسم پر ُبری طرح اَثر اَنداز ہوتے ہیں۔
مثلاً خطرے کا شعور ہونے پر د ِل کایک بارگی زور سے دھڑک اُٹھنا‘ یا ہجو ِم غم یا َموج َدر َموج َ ّمسرت کے طفیل ُبھوک کاکم ہو جانا یا آ ُنسووٴں کا اُمنڈ آنا‘ صاف َطور سے اِس اَمر کی ّغمازی کرتا ہے کہ ہمارے خیالات شعوری سطح پر اُبھر آنے کے بعد فی الفور ہمارے جسم پر اَثر اَنداز ہوتے ہیں۔ اِس سلسلے میں چونکہ ہمارے َ َعصبی نظام پر دباؤ پڑتا ہے اَورخون کی روانی متاثر ہوتی ہے‘ لہٰذا جسم کے ُوہ ِ ّحصے جو دُوسروں کی بہ نسبت زیادہ ّحساس ہیں( مثلاً آنکھ ‘ د ِل وغیرہ) ‘جلد ہی ہمارے خیالات کی زد پر آ جاتے ہیں ۔
پس جب یہ کہا جائے کہ َ ّمسرت ّصحت َمند جسم کی ہم ر ِکاب ہے اَور ایک صحت َمند جسم کی برقراری کے لیے ایک ّصحت َمند ُروح کی ضرورت ہے تو اِس سے ُمراد یہ ہوتی ہے کہ مسرت حا ِصل کرنے کے لیے اِنتہائی ضروری ہے کہ اِنسانی خیالات و احساسات ّصحت َمند ُ ُحدود کے مابین اپنے ّمدوجزر کو قائم رکھیں اَور کسی ایک سمت زیادہ جھک کر ز ِندگی کو غم و اَندوہ کی آماج گاہ نہ بننے دیں۔
لیلائے َ ّمسرت کے ُ ُحصول کی اِس ُپراَسرار اَور د ِلچسپ تگ و َدو میں جس تیسرے ستون کا ہمیں سہارا لینا پڑتا ہے‘ اُس کی اَساس ز ِندگی کے خوابوں پر کھڑی ہے … ز ِندگی… ُوہی آرزوؤں‘ اُمنگوں اَور اُمیدوں کا ایک خواب انگیز تانا بانا جس کی ڈور کا ایک ِسرا ہمارے د ِل سے بندھا ہے تو دُوسرے سرے سے ہم نے ِستاروں کے جھروکوں سے ناتا جوڑ رکھا ہے‘ اَور جب اِن جھروکوں میں آرزوؤں اَور اُمیدوں کی حسین اَور نازک اَندام پریاں کھڑے ہو کر‘ ُنقرئی قہقہے لگاتی ہیں تو ہمارے د ِل کی دھڑکنیں بھی سہ ‘ چند ہوجاتی ہیں۔
البتہ جب کبھی اِن میں سے کوئی ایک جھروکا ٹوٹ جاتا ہے تو د ِل غریب کو خاصے زور کا جھٹکا لگتا ہے اَور ُعمر ِ رواں کی کشتی تو ایک دفعہ نا ُخدا سے بھی بے نیاز ہو جاتی ہے۔ خواب ‘ ہماری حیات ِ مفلس کے ایسے رفیق و غم ُگسار ہیں کہ اِن کے بغیر کائنات کا بے رنگ و ُبو اَور ز ِندگی کی لطافتوں اَور ُخو ُشبوؤں سے ّمعر ّا ہوجانا کوئی بڑی بات نہ ہوگی۔
یہ خواب ہماری ہر آن بدلتی ز ِندگی پر کبھی آرزوؤں‘ ارمانوں اَور اُمیدوں کا رُوپ دھارے ‘ کبھی یادوں کا لطیف اَور نازک آنچل اوڑھے ‘ اَور کبھی َہوائی اُمنگوں کا لباس پہنے ‘ ہلکے گہرے اَور ُسرمئی بادلوں کی طرح ہر لحظہ چھائے رہتے ہیں۔ میں اُن ُصوفیوں یا ویدانتیوں کی بات نہیں کرتا جنھیں تمام ز ِندگی ایک خواب نظر آتی ہے ؛ میں تو اُ ن عام اِنسانوں کی بات کرتا ہوں جن سے اُن کے خواب چھین لیے جائیں ‘ جن سے اُن کی تسکین آور سوچ ہتھیا لی جائے‘ تو اُن کے ُمنہ ‘سے ایک ہلکی سی چیخ بھی نہ نکل سکے اَور ُوہ ُپھولوں کی طرح ُمرجھا کر‘ دو ِش َہوا پر پریشان ہو جائیں۔
خوابوں کے یہ لطیف اَور باریک آنچل ہماری ز ِندگی کے تمام اَدوار پر چھائے ہوئے ہیں۔ چنانچہ جہاں ہم اِن کی مدد سے اپنی ُعمر ِ َرفتہ کو آواز دیتے ہیں‘ وہاں اِنھِیں کے طفیل آنے والے مستقبل کو بھی رنگین اَور پر اَسرار بنا لیتے ہیں اَور جب کبھی ”حال“ اپنی گھٹا ٹوپ‘ کرخت یکسانیت کو لیے ہمارے سامنے آتا ہے‘ تو بھی ہم پا کر کھو کر‘پڑھ کر لکھ کر‘ جیسے بھی بن پڑے‘ اِنھِیں کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ز ِندگی کے کرخت َپن کے مقابلے میں خوابوں کی ُپراَسرا ر اَور َ ّمسرت انگیز دُنیا‘ ایک د ِلچسپ تضاد پیش کرتی ہے ۔ اَب ز ِندگی اپنی تمام تر کرخت اَور سنگلاخ یکسانیت کے ساتھ صرف ایک لمحے کے لیے پائیدار ہوتی ہے۔ یہ لمحہ جب گزر جاتا ہے تو ماضی بن جاتا ہے اَور ماضی کے دُھندلکوں میں اِس کے کرخت َپن کا بیشتر ِ ّحصہ تباہ ہو جاتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وقت کے بہاؤ کے ساتھ ز ِندگی کے نا ُسور بھی ُمعدوم ہونے لگتے ہیں… اَور ُوہی ایک زخم جو کسی وقت جان لیوا نظر آتا تھا‘ آہستہ آہستہ ُمندمل ہوتے ہوئے‘ ماضی کے ُپراَسرار دُھندلکوں میں تحلیل ہو کر َرہ جاتا ہے ۔
ز ِندگی کے اِس لمحے کے بعد آنے والے تمام لمحات، مستقبل کی امانت ہیں : اُن کے کرخت َپن کو اُمیدوں ‘ آرزوؤں اَور اَرمانوں کے لطیف آنچلوں نے چھپا رکھا ہوتا ہے ۔ البتہ جب ُوہ حال کے فانوس کے سامنے سے گزر کر‘ ماضی کی سمت بڑھنے لگتے ہیں تو نظر‘ اُن لطیف آنچلوں کو پار کر کے‘ اُن کی اصلی صورت پر بھی جا پڑتی ہے اَور د ِل کی اُمیدیں ٹوٹ کر آنکھوں میں ّشفاف سا ّبلوریں محل تعمیر کرنے لگتی ہیں۔
لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ لمحہ زیادہ پائیدار نہیں ہوتا‘ جلد ہی ماضی بن جاتا ہے‘ ُوہ خلش جو اِس ایک لمحے کے کرخت َپن سے َپیدا ُہوئی تھی‘ آہستہ آہستہ (ختم ہوتے ہوئے) ُمعدوم ہو جاتی ہے۔ دراصل کائنات کی تشکیل ہی کچھ اِس طرح ُہوئی ہے کہ ُوہ لوگ جن کی ز ِندگی میں حال کا یہ لمحہ بہت زیادہ ُوسعت کا حامل ہوتا ہے‘ یا جن کے حال کا فانوس اِتنا روشن اَور تیز ہوتا ہے کہ مستقبل اَور ماضی کے بیشتر ِ ّحصے بھی اُس کی زد پر آ جاتے ہیں‘ َ ّمسرت کے ُوجود سے کافی َحد تک تہی دامن َرہ جاتے ہیں … چونکہ ز ِندگی کی کرخت یکسانیت کو زیادہ دیر تک برداشت کرسکنا ناممکن ہے‘ لہٰذا ایسے لوگ شراب ‘ آرٹ‘ لیڈر ِشپ اَور ایسی ہی دُوسری چیزوں کی معاونت سے اِس کرخت َپن کو ُبھول جانے کی َ ِسعی جمیل کرتے ہیں اَور شاید اِسی کوشش میں اُن کی بقا کا راز َمضمر ہوتا ہے۔
یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ ُجوں ُجوں اِنسان کی ُعمر بڑھتی ہے‘ ُتوں ُتوں اُس کے مستقبل کے خواب کمزور اَور ضعیف ہونے لگتے ہیں اَور ماضی کے خواب اُبھر کر زیادہ نمایاں اَور ُپراَسرار ہو جاتے ہیں۔ جوانی میں ہمارے ِپیش نظر مستقبل کا وسیع آسماں ہوتا ہے جس میں ہم اپنی آرزوؤں اَور اُمنگوں کے پتنگ اَور کنکو ّے اُڑاتے ہیں اَور اِسی میں ہمیں بے پناہ َ ّمسرت ملتی ہے ۔
لیکن ُعمر کے ساتھ ساتھ مستقبل کے خوابوں کی جگہ ُپرانی یادیں لے لیتی ہیں اَور اِنسان اُنھِیں کو اَپنا اَثاثہ جان کر‘ زور سے اپنے سینے کے ساتھ چمٹا لیتا ہے۔ شاید میں مستقبل کے خوابوں کے ساتھ اِنصاف نہیں کر رہاکیونکہ ُعمر ِ رواں کے ساتھ مستقبل کے خواب بھی تو پائندہ رہتے ہیں‘ یہ الگ بات کہ اُن خوابوں کا مرکز ُوہی نہیں رہتا … پہلے اِنسان فقط اپنے متعلق سوچتا تھا‘ اب ُوہ دُوسروں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔
بقو ِل کرشن چندر … پھول اپنی کلی میں‘ َہرن اپنے نافے میں‘ عورت اپنی بیٹی میں‘ اپنی جوانی کی بہار دیکھتی ہے… اَور یہی چیز اُسے اُس َ ّمسرت سے ہم َکنار کر دیتی ہے جو اَپنی ذات پر مرکوز مستقبل کے خوابوں کی َپیداوار تھی۔ اگر ہم اِن خوابوں کے نفسیاتی پس منظر کی طرف ُر ُجوع کریں تو ہمیں تصویر کا دُوسرارُخ بھی نظر آ سکتا ہے اَور ہم اُن خوابوں کو بھی زیر ِ بحث لا سکتے ہیں جو َ ّمسرت کو تو تحریک نہیں دیتے مگر انجا ِم کار خواب بیں کو غم و اَندوہ سے ہم َکنار کر دیتے ہیں۔
چنانچہ نفسیاتی تحلیل کے مطابق جاگتے کے خواب (Day Dreams) شرم اَور جھجک سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ یہاں خواب دیکھنے والا ”خود ُکو زہ و خود ُکو زہ گر و خود َ ِگل ُکو زہ“ کے مصداق آپ ہی ہیرو‘ آپ ہی حاضرین اَور آپ ہی تمام پلاٹ کا خالق ہوتا ہے ۔ اِن خوابوں میں دُوسرے ِکردار بھی ظاہر ہوتے ہیں لیکن اُن کا ُوجود َسر تا پا ہیرو کے ُوجود کا َمر ُہو ِن ِ ّمنت ہوتا ہے۔
ہیرو کو خواب میں سے نکال دیجیے‘ تمام خواب ایک ّکچے گھروندے کی طرح دھڑام سے نیچے آ ِگرے گا! آرٹ اَور لٹریچر میں بھی ایسے نمونے بکثرت ملتے ہیں جو اِن خوابوں کے مشابہ ہیں: مثلاً فلمی کامیڈی یا اِسی وضع کا دُوسرا لٹریچر جس میں ہیرو آخرش کامیاب رہتا ہے۔ اِن نمونوں کی ہر د ِلعزیز ی کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ ایک طرح کے جاگتے کے خواب ہی ہوتے ہیں جن میں دیکھنے والا‘ ہیرو کو جذباتی َطورپر خود میں مدغم کر لیتا ہے… یہاں تک کہ ہیرو کے مصائب اُس کے اپنے مصائب بن جاتے ہیں اَور ہیرو کی کامیابی اُس کی اپنی فتح ! جاگتے کے خواب اکثر و بیشتر خواب بیں کی اُن خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں جو حقیقت میں ُپوری نہ ہو سکیں۔
مثلاً کمزور جسم کے لوگ خواب ہی خواب میں بڑے زبردست پہلوان بن کر حریف کو پچھاڑ دیتے ہیں‘ یا باؤلنگ کرتے ہوئے ایم سی سی کی ُپوری ٹیم کو دس پندرہ منٹ میں آؤٹ کر دیتے ہیں ۔ پھر جاگتے کے ایسے خواب بھی ہیں جو صرف ُمحبوبہ کے ِگرد ّچکر لگاتے ہیں… اُسے کسی پہاڑ کی چوٹی سے ِگرتے ہوئے بچا لیا جاتا ہے‘ یا ڈاکوؤں کے نرغے سے ُچھٹکارا د ِلایا جاتا ہے‘ اَور ُوہ خوش ہو کر خواب بیں کو اَپنے ملائم بازوؤں میں سمیٹ لیتی ہے: یا پھر جنسی خواب ہیں جو خطرناک مرا ِحل میں داخل ہو کر‘ جنسی خواہشات کی تکمیل کا با ِعث بن جاتے ہیں اَور اِنسان ز ِندگی کے اُن اَدوار میں داخل ہو جاتا ہے جو اُسے نیوراتی حالت اَور مستقل ذہنی کرب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
دراصل ہماری ز ِندگی میں ایسے کئی مقام آجاتے ہیں جہاں ہم حقائق کی سنگلاخ چٹانوں سے کترا کر ‘ خوابوں کی چھوٹی چھوٹی پگ ڈنڈیاں اِختیار کر لیتے ہیں۔ نفسیاتی لحاظ سے یہ خواب اِس لیے ضروری ہیں کہ یہ اُن خواہشات کی ِ ّشدت کو اِنحطاط پذیر کر دیتے ہیں جو حقیقت میں ُپوری نہ ہو سکیں : اَور اِس لیے بھی کہ آرزوؤں کی اصل تکمیل کی طرف یہ ایک ضروری قدم کی ّحیثیت رکھتے ہیں …یہاں تک کہ یہ نہ صرف ہماری ز ِندگی کو خوشگوار بنانے میں محرک ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ بسا اَوقات زیست کے کرخت َپن ‘ ٹھہراؤ اَور یکسانیت کو ُمعدوم کرتے ہوئے ہمیں َ ّمسرت کے آستاں پر بھی پہنچا دیتے ہیں۔
لیکن جب یہ خواب عام صحت َمند ُ ُحدود سے تجاوز کر کے‘ اُن مرا ِحل میں داخل ہو جائیں جہاں خواب بیں حقیقی دُنیا سے ذہنی َطورپر قطعاً الگ ہو جانے ہی میں اپنی عافیت دیکھے‘ اَور دُنیا کے ساتھ قدم ِملانے کے بجائے اپنے ہی خوابوں میں منجمد ہو کر َرہ جائے‘ تویہ ایسی خطرناک چیز بن جاتے ہیں جو بالآخر خواب بیں کو َ ّمسرت کے بجائے غم و اَندوہ سے ہم َکنار کر دیتی ہے اَور زیست کی اٹکھیلیاں ‘لڑکھڑاتے ہوئے قدموں میں تحلیل ہو کر َرہ جاتی ہیں۔
اُوپر میں نے خوابو ں کی دو۲ اَقسام کا ذ ِکر کیا ہے۔ ایک ُزمرے میں ُوہ خواب شامل ہیں جوماضی سے متعلق ہوتے ہیں اَوردُوسری قسم اُن خوابوں پر مشتمل ہے جن کی اَساس مستقبل پر قائم ہوتی ہے۔ ماضی کے ُوہ خواب جو کسی خاص خوشگوار لمحے کی یاد کوتازہ کر دیں‘ ہمارے لیے بے َحد َ ّمسرت اَفزا ہوتے ہیں۔ اِسی طرح مستقبل سے وابستہ ہماری اُمیدوں اَور آرزوؤں کے رنگ محل جب خوابوں کا َلبادہ اوڑھ کر ظاہر ہوتے ہیں تو د ِل فرط ِ َ ّمسرت سے دھڑک اُٹھتا ہے۔
تاہم َ ّمسرت مستقبل یا ماضی کے خوابوں میں نہیں‘ یہ اُس رفیق یا عزیز تریں ہستی کے ساتھ بیٹھ کر اُن لمحات کی یاد میں ہے جو ہم نے کبھی اکٹھے گزارے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب عاشق و ُمحبوب مل بیٹھتے ہیں تو اُنھیں گزرے ہوئے لمحات کا تذکرہ‘ قند ِ ّمکرر کامزہ دیتا ہے؛ اَور دو۲ ُپرانے دوست جب ایک لمبے عرصے کے بعد ز ِندگی کے کسی موڑ پر اکٹھے ہو جاتے ہیں تو ماضی کی اُن یادوں میں کھو جاتے ہیں جو دونوں کا سرمایہ ٴ حیات ہیں۔
اِسی طرح مستقبل کے خوابوں کا مزہ بھی اکثر و بیشتر مل کر خواب دیکھنے میں ہوتا ہے:یہ خواب بھی کسی عزیز دوست یا ہستی کی ّمعیت میں دیکھے جاتے ہیں اَور اِن کے دیکھنے سے ُ وہ احساس بیدار ہوتا ہے جو وقت اَور جگہ کی قید سے ماورا ‘ہر لحظہ پائیدار رہتا ہے ؛ اَور یہاں ہم کمال آہستگی سے اُس َمرغزار میں داخل ہوجاتے ہیں جسے ” ّمحبت “ کے ہمہ گیر لفظ سے مو ُسوم کیا جاتا ہے ۔
چنانچہ ّمحبت کا غائر نظر سے مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ُمحسوس ہو گا کہ جب تک یہ جذبہ قائم رہتا ہے‘ اِنسان پر چھا جانے والے آلام و اَفکار‘ تاریک تریں گوشوں میں دبک جاتے ہیں اَور اِنسان دُنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر اُس ُروحانی ُ ُسرور (bliss)میں تحلیل ہو جاتا ہے جو َ ّمسرت کا ِعطر ہے ۔ عورت اَور َمرد کی اِس کامیاب اَور َ ّمسرت آفریں ّمحبت کو کس طرح قائم رکھا جا سکتا ہے‘ یہ سوال الگ بحث کا طالب ہے … ہاں‘ اِتنا صاف ظاہر ہے کہ یہی ّمحبت جب عورت اَور َمرد کے تعلقات سے بلند ہو کر ‘و ّطنیت اَور بعد اَزاں آفاقیت کا لباس اوڑھ لیتی ہے تو د ِل کو لازوال َ ّمسرت سے مالا مال کر دیتی ہے اَوریہاں پہنچ کر بے اِختیار ہمیں اُس نظریے کی ّسچائی پر شک گزرنے لگتا ہے جس کی ُرو سے تمام تر َ ّمسرت کو صرف دولت کا ر ِہین ِ ّ منت قرار دیا گیا ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ فی زمانہ لواز ِم ز ِندگی حا ِصل کرنے کے لیے دولت کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن اِس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ محض روپے کی فراوانی سے اِنسان َ ّمسرت کی لہروں سے ہم َکنار ہو سکتا ہے … اگر یہ بات ہوتی تو دُنیا کے امیر تریں اشخاص زہروف (Zaharoff) ‘ہنری فورڈ(Henry Ford) اَور نظام دکن دُنیا کے سب سے زیادہ خوش باش لوگ ہوتے؛ اَور اگر یہ نہیں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ َ ّمسرت محض دولت ہی کی رفیق و غم ُگسار نہیں‘ اِسے بعض ایسی چیزوں کا بھی سہارا لینا پڑتا ہے جو د ِل کے ساغر کو َ ّمسرت و نشاط سے بھر دیتی ہیں اَورجن کا سلسلہ ایک مسکراتے ہوئے ُپھول سے لے کر ُمحبوبہ کی اَدائے د ِل نواز تک پھیلا ُہوا ہے۔
خاتمے سے پہلے َمیں َ ّمسرت کے متعلق مشہور فلسفی جج پی ایم ہبرٹ (P.M.Hubbart)کا ایک Convogation کے موقع پر خطاب قلم بند کر دینا چاہتا ُہوں جس کے خیال کے مطابق: اِس کلبلاتے ہوئے َدور میں جب کہ آلام و اَفکار کی پیچیدگیوں نے ایسی صورت اِختیار کر لی ہے کہ َ ّمسرت حا ِصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تگ و َدو کرنا پڑتی ہے ‘ چار۴ ایسے گروہ موجود ہیں جو اِسے ّمہیا کرنے کا ِبیڑا اُٹھانے میں ایک دُوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک گروہ سائنس دانوں کا ہے لیکن یہ لوگ اپنے مشن میں ُبری طرح ناکام رہے ہیں: اگریہ سالہا سال کی محنت کے بعد پنسلین ایسی حیرت انگیز دوا اِیجاد کر لیتے ہیں تو اِسی َدوران میں اِن کا کوئی بھائی بند اَیٹم بم اِیجاد کر کے اِنسان کے آلام و مصائب میں بے پناہ اِضافہ کر دیتا ہے۔ اِسی طرح ماہر ِین اِقتصادیات کا گروہ ہے لیکن یہ حیران کن حقیقت ہے کہ یہ گروہ اِنسان کو جس قدر َ ّمسرت مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے ‘ اِنسان بتدریج اُسی قدر اِقتصادی اُلجھنوں اَور پیچیدگیوں میں گرفتار ہوتے چلا جاتا ہے۔
یہی حال اُس تیسرے گروہ کا ہے جس پر سیاست دانوں کا ّتسلط ہے : اِس سلسلے میں زیادہ بحث و تمحیص کی ضرورت نہیں کہ لیگ آف نیشنز (League of Nations) کے ا ّولیں اِجلاس سے لے کر یو این او (UNO) کی آخری ر ّسا کشی تک چلے آئیے‘ آپ اَندازہ لگا سکیں گے کہ یہ گروہ اِنسان کو َ ّمسرت د ِلانے کا وعدہ تو کرتا ہے لیکن اُسے کہاں تک ُپورا کر سکا ہے ! آخری گروہ اُن رجعت پسند اَور کوتاہ بیں مذہب پرستوں کا ہے جو مذہب کو عالم گیر ّمحبت اَور َ ّمسرت کا محرک تو تصو ّر کرتے ہیں لیکن خود اِتنے ّمتعصب ہیں کہ دُوسروں کو ُوہ حقوق دینے پر رضا َمندہی نہیں جنھیں اپنے لیے جائز اَور ضروری خیال کرتے ہیں ۔
یہ خیالات ایک گہرے ّتفکر اَور پختہ شعور کا نچوڑ ہیں اَور اِنھیں ہم اِجتماعی ز ِندگی میں َ ّمسرت کے سوال کا ایک ز ِیرک اَور ّ صحت َمند جائزہ ضرور قرار دے سکتے ہیں!

Chapters / Baab of Musarrat Ki Talash By Wazir Agha