Episode 3 - Musarrat Ki Talash By Wazir Agha

قسط نمبر 3 - مسرت کی تلاش - وزیر آغا

مسرت … عام ز ِندگی میں ”ایک بات ہے بھابی“! ”کیا“؟ …بھابی نے دھاگا دانتوں سے کاٹتے ہوئے ُپوچھا۔ ”پنسل بناتے ہوئے ذرا زخم لگ گیا ہے “… اُس نے اُنگلی آگے کر دی‘ ُخون ُبوند ُبوند زمین پر ٹپکنے لگا۔ ”اوہ…! یہ تو گہرا لگا ہے“ …بھابی گھبرائی۔ لیکن ُوہ اِطمینان سے‘ ویسے ہی کھڑا رہا۔ بھابی ّپٹی ڈھونڈ رہی تھی اَور اُسے کتنا مزہ آ رہا تھا … اُس کا جی چاہا کہ ُعمر بھر اُس کا ُخون ُیوں ہی بہتا رہے اَور بھابی آہ کاش…اِسی طرح گھبرائی ُہوئی ‘ ّپٹی ڈھونڈتی رہے ! (”شکست“ از شمس آغا) اِسی ّکیفیت کو جسے ایک وقت اِنسان اَبد ّیت سے ہم َکنار دیکھنا چاہتا ہے‘ فانٹی نیلی نے َ ّمسرت کانام دیا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ّکیفیت نہ تو اَبد ّیت کی حامل ہوتی ہے اَور نہ ہی اِس کا ِسحر اَبد ّیت کی فضا میں قائم َرہ سکتا ہے … ُمحبوب بچھڑ جاتا ہے ‘ ُپھول ُمرجھا جاتے ہیں‘ شفق ُگم ہو جاتی ہے ‘ نغمہ تھم جاتا ہے‘ اَور َ موت کا ِعفریت ایک شاداں و فرحاں ز ِندگی کو نگل جاتا ہے … اَور ُیوں ُوہ ایک لمحہ جو سمٹ کر اِنسان کا قیمتی اَثاثہ بنا تھا، منتشر ہوتے ہوئے نا َپید ہونے لگتا ہے۔

(جاری ہے)

ویسے بھی اِس لمحے کی َ ّمسرت آفریں کیفیت ‘وقت کے سنبھالے سے ذرا بے نیاز ہوکر‘ ٹھہرنا پسند کرے تو اِس کی ِ ّشدت میں فوری ّتغیر ُنمودار ہونے لگتا ہے حتیٰ کہ اِس کی ِسحرکاری ُمعدوم ہوتے ہوتے فنا ہوجاتی ہے اَور اِنسان َچونک کر بیدار ہو جاتا ہے ۔ فی الواقعہ کسی َ ّمسرت بھرے لمحے کی خوبی اُس کی طوالت میں نہیں‘ اُس کے اِختصار میں ہے۔
یہاں تھوڑی دیر کے لیے َ ّمسرت کی منفی اَور مثبت کیفیات کا تجزیہ کر لینا ضروری ہے ‘تاکہ َ ّمسرت کی ما ّہیت اَور اِس کے ز ِندگی پر اِطلاق کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔ مشہور چینی مصنف لن یوٹانگ کے مطابق َ ّمسرت ‘ اکثر و بیشتر، منفی اَجزا سے مر ّکب ہوتی ہے؛ یعنی ہماری ُروز ّمرہ ز ِندگی میں غم یا مصیبت کے فقدان کا قیمتی لمحہ، َ ّمسرت آفریں کیفیات کا حامل ہوتا ہے۔
دُوسرے لفظوں میں‘ ہماری ز ِندگی اَفکار و حواد ِث کے بوجھ تلے اِس قدر سہمی سمٹی رہتی ہے کہ جب کبھی کوئی سہارا مل جاتا ہے‘ یا یہ بوجھ چند گریزاں لمحوں کے لیے شانوں سے نیچے آ رہتا ہے‘ تو ُمحسوس ہوتا ہے گویا ہمیں َ ّمسرت کا خزینہ مل گیا ہے ۔ اِس کی ایک مثال اُس مشہور مصنف کا ِ ّقصہ ہے‘ جس نے غروب ِ آفتاب کے وقت کسی َسرسبز ٹیلے پر سے ایک ریل گاڑی کو گزرتے دیکھا تو اُسے ُمحسوس ُہوا گویا ہزاروں اَفکار و آلام‘ ریل کے ڈ ِ ّبوں میں بند‘ اُس کے سامنے سے گزرتے ہوئے ُروپوش ہو گئے ہیں … یہ منفی َ ّمسرت ز ِندگی کے اُس ڈرامے کے ہر ڈراپ ِسین پر ہمارے پیش نظر ہوتی ہے اَور ہم اِس کے چند گھونٹ پی کر‘ اپنی تشنہ و َدرماندہ ُروحوں کو تازہ َدم کر لیتے ہیں ۔
لیکن اِس کے مقابلے میں ایک مثبت َ ّمسرت بھی ہے جسے حا ِصل کرنا یا جس میں ڈوب کر َرہ جانا ‘ہر کس و ناکس کا کام نہیں … یہ َ ّمسرت صرف اُن لوگوں کو اَرزانی ہوتی ہے جو نہ صرف ایسے موقعوں کے جویا رہتے ہیں (جن کے طفیل ُوہ اُسے ُمحسوس کر سکیں) بلکہ جو خود اَپنی َسعی سے ایسے موقعوں کو معر ِض ُوجود میں آنے کی تحریک بھی دیتے ہیں۔ یہاں ہیزلٹ (Hazlitt)کے مشہور مضمون Going on a Journey کے یہ الفاظ یاد کیجیے: آسمان نیلا اَور ّ شفاف ہو ۔
زمین پر َ ّحد ِ نظر تک سبزہ بچھا ُہوا ہو ۔ ایک لچکتی‘ بل کھاتی پگ ڈنڈی اُفق تک َدوڑتے چلی گئی ہو اَور مجھے تین۳ گھنٹے کی َسیر کے اِختتام پر لذیذ کھانا ملنے کی توقع ہو… ممکن نہیں کہ میں خوشی سے ِتھرکنا نہ شروع کر ُدوں۔ ایسے لمحوں میں ‘ میں ناچتا ُہوں ‘ ُکودتا ُہوں اَور خوشی سے گانا شروع کر دیتا ُہوں۔ مثبت َ ّمسرت کے اِن لمحات کو ایک اَورمصنف نے ُیوں تحریر کیا ہے: جب مو ِسم گرما کی ایک اُداس شام کو میں اُفق پر گہرے سیاہ بادل کو ِگھرتے ہوئے دیکھتا ُہوں اَور مجھے یقین ہوتا ہے کہ برسات کا گرجتا، گنگناتا بادل‘ چندہی لمحوں میں محیط ہو کر‘ برسنے لگے گا تو میں گھر سے نکل کر دورکھیتوں میں چلاجاتا ُہوں اَور پھر بار ِش میں بھیگا، کپڑوں کو پانی سے شرابور کیے‘ گھر َلوٹتا ُہوں… اُس وقت مجھے ّسچی َ ّمسرت کا شدید احساس ہوتاہے۔
لیکن اِس سے یہ نتیجہ اَخذ کرلینا بھی مناسب نہیں کہ َ ّمسرت کوئی تلاش ہونے والی یا بیرونی اَشیا سے لپک کر اِنسان کے سراپے پر ّ مسلط ہو جانے والی چیز ہے ۔ ّسچی بات تو یہ ہے کہ اِنسان کے اَندر ایک ُپراَسرار سی َروشنی ہے جو بیرونی اَشیا کو بھی منو ّ ر کر دیتی ہے ۔ روشنی، َ ّمسرت کا ِعطر ہے: اَشیا یا واقعات َ ّمسرت کا منبع نہیں۔ ہماری َ ّمسرت تو اُس ذہنی ّکیفیت سے عبارت ہے جو اَشیا کو ایک نئی ز ِندگی اَور انوکھا رنگ تفویض کرتی ہے ۔
اگر کسی شخص کا د ِل خوش ہے تو اُسے فضا‘ ماحول ‘ ز ِندگی اَور آسمان ‘ پہاڑ اَور سمندر‘ ہر چیز سے َ ّمسرت پھوٹتے ہوئے نظر آئے گی؛ لیکن اِس کے برعکس ایک رنجیدہ د ِل کو ہر چیز پر تاریکیاں اَور ہر شے میں بھیانک گہرائیاں نظر آتی ہیں۔ سوامی رام تیرتھ کے متعلق مشہور ہے کہ اُن کی قلبی واردات کچھ اِس قسم کی َ ّمسرت سے ہم َکنار تھی کہ تبسم اُن کے ہونٹوں سے اُترتا ہی نہیں تھا اَور ُوہ جس کسی سے بولتے‘ اُسے ُمحسوس ہوتا کہ َ ّمسرت سوامی کے ہر ُموئے بدن سے نکل نکل کر فضا کو َبہجت سے لبریز کر رہی ہے ۔
روز ّمرہ ز ِندگی میں آپ کو کوئی نہ کوئی اَیسا شخص ضرور ِملا ہو گا جس کے ہونٹوں پر لرزتا ُہوا تبسم ‘اُس کی د ِلی طمانیت کا ّغماز ہو گا؛ اُس کے قہقہوں میں جان ہو گی؛ اُس کی حرکات و سکنات سے بھرپور ز ِندگی مترشح ہو رہی ہوگی؛ اَور اُس سے مل کر‘ اُس سے باتیں کرکے‘ ُیوں ُ محسوس ُہوا ہو گا گویا کوئی برقی َرو آپ کے سراپے میں سرایت کر گئی ہے ۔
یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک َ ّمسرت کی اَہمیت اُس کے حصول میں نہیں‘ اُس کی تقسیم میں ہے ۔ ایسے لوگوں کے مطابق‘ دیکھنے کی بات یہ نہیں کہ آپ نے ز ِندگی میں خود کتنی َ ّمسرت حاصل کی‘ اصل بات یہ ہے کہ آپ نے کس قدر َ ّمسرت دُوسروں کو مرحمت فرمائی ۔ چنانچہ ُوہ برملا کہتے ہیں کہ ایک خوبصورت نظم ‘ایک خوبصورت مکان کی بہ نسبت بہت زیادہ اَہم ہے … اِس لیے کہ خوبصورت مکان، محض اپنے مکین یا چند اَفراد کو َ ّمسرت بخشتا ہے جبکہ ایک خوبصورت نظم ،کروڑوں زخموں پر پھاہا رکھ کر‘ اِجتماعی َ ّمسرت میں بے مثال اِضافے کا موجب ثابت ہوتی ہے۔
تاہم اِس سے میری ُمراد ہرگز یہ نہیں کہ َ ّمسرت‘ چندرما کی طرح، تاریک وادیوں اَور گہری گھاٹیوں کو‘ اَپنی نورانی کرنوں سے‘ ِسحر اَنگیز تابندگی تو َعطا کرتی ہے لیکن خود ماحول سے متاثر نہیں ہوتی۔ چاند‘ وادیوں پر بھی اُسی طرح چمکتا ہے جس طرح کہ صحراؤں پر؛ لیکن یہ وادیوں کا ُحسن ہی تو ہے جو چاند کے ُحسن کو دوبالا کر دیتا ہے ! نظر ِ عمیق اِس بات کی گواہی دے گی کہ ماحول ، َ ّمسرت کی مختلف کیفیات پر‘ نئے نئے ڈھنگ سے اَثر اَنداز ہوتا ہے ۔
اِس کی ایک مثال شہری اَور دیہی ز ِندگی کاموازنہ ہے ۔ شہری ز ِندگی کی اِمتیازی خصوصیت ہنگامہ اَور کشمکش ہے: نتیجتہً َ ّمسرت کی نو ّعیت بھی ہنگامی اَور گریز پا ہوتی ہے …یہاں َ ّمسرت زیادہ تر منفی کیفیات کا مر ّکب ہوتی ہے … دفتر کے د ِن بھر کے جھمیلوں اَور فریب ‘ ریاکاری اَور بجھی بجھی ز ِندگی کے طویل وقفوں کے بعد‘ بچو ں کے ُمعصوم قہقہے یا سینما کی متحرک تصاویر‘ کسی علمی و اَدبی مجلس میں شرکت یا محض چند اَیسے دوستوں کی صحبت کہ جن کے خیالات و احساسات ایک جیسے ہوں ۔
اِس کے برعکس دیہات میں سکون اَور خاموشی کا َدور َدورہ ہوتا ہے… یہاں کائنات‘ اپنی تمام تر رنگینیوں میں ملبوس اَور فطرت‘ اپنی تمام تر سحر کاریوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے… یہاں سمندر کی وسعت ‘ کوہساروں کی بلندی‘ شفق کی رنگینی اَور طوفانوں کا خروش ہوتا ہے؛ اَور اِس کے ساتھ ہی ساتھ ایک عجیب سی طلسمی خاموشی‘ جس کا سحراَنگیز تانا بانا اِنسانی احساسات کو اَسیر کرلیتا ہے… اِس ماحول میں‘ اِنسانی َ ّمسرت کی نوعیت بھی تبدیل ہو جاتی ہے؛ مسرت کی مثبت کیفیات اُبھرنے لگتی ہیں؛ اَور اِنسان (بشرطیکہ ُ وہ خوشی حاصل کرنے کے قابل ہو )‘ قدم قدم پر کسی شفق کے ُروبرو‘ کسی پہاڑ کے سامنے ‘ کسی وادی میں پہنچ کر‘ یا محض ایک اُڑتے ہوئے بادل کے ریشمیں آنچل کو دیکھ کر ‘ ایسی َ ّمسرت محسوس کرتا ہے جسے بیان کرنا بھی مشکل ہے ۔
پس َ ّمسرت پر ماحول کے اَثرات سے اِنکار ممکن نہیں۔ لیکن جب ہم َ ّمسرت کو‘ اِس کی منفی اَور مثبت کیفیات سے ماورا ،ایک مجموعی حیثیت سے جانچتے ہیں تو ہمیں بے اِختیار لن یوٹانگ کے اُس نظریے کا قائل ہونا پڑتا ہے جس کے مطابق َ ّمسرت کا راز کسی خاص ماحول کی نہیں‘ ہر ماحول کی ز ِندگی سے لطف اَندوز ہونے میں ہے… قطع نظر اِس سے کہ یہ ز ِندگی شہری ہے یا دیہی‘ ہنگامی ہے یا سکوں بیز‘ امارت کی بلندی پر ہے یا غربت کی گہرائی میں ‘ دوستوں کے قہقہوں میں ہے یا تنہائی کی مسکراہٹ میں … ! اَوریہاں اِس سنجیدہ بحث کے درمیان اگر ز ِندگی کے چند بظاہر غیر اَہم ِکرداروں کا تذکرہ بھی قا ِبل قبول ہو تو میں اپنے گاؤں کے دو۲ ایسے اَشخاص کا ذ ِکر ضرور کروں گا جنھیں حیات سے شدید وابستگی نے دو۲ انوکھے نظریوں کا خالق بنا دیا ہے… اِن میں سے ایک کا نام چڑت رام ہے اَور یہ اچھوت ہے‘ اَوردُوسرے کا نام دلاور خاں ہے اَور یہ مسلمان ہے … چڑت رام جس وقت یہاں آیا‘ اُس کی ُعمر پندرہ۱۵ برس سے زیادہ نہیں تھی۔
اُس وقت بھی ُوہ ّیکہ و تنہا تھا اَور آج بھی اکیلا ہے ؛ اُس وقت بھی اُس کے پاس کچھ نہیں تھا اَور آج بھی و ُہ تہی دامن ہے ؛ لیکن اُس کی ز ِندگی ایک انوکھی َ ّمسرت سے ہم َکنار ضرور ہے ۔ چڑت رام پچھلے چالیس۴۰ برس سے گدھے کی ِبلاناغہ سواری کرتا رہا ہے اَور یہی سواری اُس کی ز ِندگی کا حا ِصل ہے ۔ گدھے کے گلے میں گھنگرو ڈالے‘ جب ُوہ اُس پر سوار ہو کر َسیر کو نکلتا ہے تو فرط ِ َ ّمسرت سے اُس کا چہرہ ُسرخ ہو جاتا ہے اَور اُس کے ُمنہ ‘سے مارے خوشی کے چیخیں نکلنے لگتی ہیں۔
ویسے بھی اُس کی ز ِندگی پر ”بچپن“ ّمسلطہے اَور ُوہ اپنی مختصر اَور ُمحدود دُنیا میں ّبچوں کی سی َ ّمسرت حا ِصل کرتا ہے (Blessed are the idiots, for they are the happiest people on earth - Loatse) … ایک نیا گدھا ‘ چند گھنگرو ‘ ریل گاڑی کا سفر اَور چڑیا گھر کی َسیر… یہی اُس کے خواب ہیں اَور اِن خوابوں کی تکمیل ہی اُس کی ز ِندگی کا سب سے نمایاں مقصد ہے ! اِس کے برعکس د ِلاور خاں ایک جہاں د ِیدہ شخص ہے … اِتنا جہاں د ِیدہ کہ ُوہ کوشش کرتا ہے‘ دُوسرے اُسے احمق ہی خیال کریں۔
د ِلاور کی َ ّمسرت کا راز اُس کے فلسفہ ٴ حیات میں ہے جو میری رائے میں لن یوٹانگ کے فلسفہ ٴ حیات سے بہت قریبی مماثلت رکھتاہے مگر اَپنی شدید اِنفرادیت کی ِبنا پر اُس سے انوکھا بھی ہے۔ د ِلاور کو ّے سے لے کر ُمرغ تک‘ ہر چیز کو نہایت رغبت سے کھا جاتا ہے… اُس کا قول ہے کہ َپر سیاہ ہوں یا سفید‘ اُن کے نیچے گوشت کی رنگت ایک جیسی ہوتی ہے۔
یہ شخص ‘ہر چیز سے ایک ُپراَسرار سمجھوتا کرنے کا عادی ہے اَور برملا َکہ ‘اُٹھتا ہے: میں مانتا ہوں کہ” الف“ ّسچا ہے لیکن ”ب “ بھی ُجھوٹا نہیں… اِنسان کی َپیدائش پر ُوہ خوش ہوتا ہے اَور اُس کی َموت پر قہقہے لگانا شروع کر دیتا ہے۔ اُس کے پاس سینکڑوں روپے ہوں‘ تو بھی؛ اَور اُس کی جیب یکسر خالی ہو‘ تو بھی‘ اُس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ یکساں َطور پر جاذب ِ نگاہ رہتی ہے … یہی قناعت اُس کے ِکردار کا مابہ ‘ الامتیاز ہے اَور اِسی کے طفیل اُس کی َ ّمسرت پائیدار عنا ِصر کی حامل ہے ! ز ِندگی سے متعلق اِن دونوں نظریوں کو یکجا کر دیجیے یعنی ایک کی ُمعصو ّمیت کو دُوسرے کی بے نیازی کے ساتھ ِملا دیجیے‘ آپ کو ِلن یوٹانگ کے اُس نظریہ ٴ حیات کا خاکہ نظر آنے لگے گا جس کے مطابق َ ّمسرت کا راز ز ِندگی کو سنجیدہ اَ ّہمیت دینے میں نہیں‘ محض ُروز ّمرہ ز ِندگی سے ُلطف اَندوز ہونے میں ہے ۔
اَب اگر غور کریں تو روز ّمرہ ز ِندگی سے لطف اَندوز ہونے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ِاِنسان اِس ز ِندگی کو حقیقی (Real)تصو ّر کرے۔ مسلمانوں کے دُنیاوی َطور پر بہت زیادہ ترقی نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُنھوں نے کبھی اِس ز ِندگی کو ُپوری اَہمیت نہ دی‘ ُوہ عقبیٰ کے تصو ّر ہی کو اَہم سمجھتے رہے اَور حیات بعد ِ َ موت کو حقیقی اَور سچی کیفیات کی حامل خیال کرتے رہے۔
یہی حال ُبدھ َمت کے َپیروؤں کا ہوا… اُنھوں نے تو اِس ز ِندگی کے تمام تر لواز ِم سے قطعی طورپر ُمنہ موڑ لیا: چنانچہ اُن کا مذہب ایک نمایاں نفی (The Great Negation) کا مظہر ہو گیا اَور ُوہ ز ِندگی کے ہنگاموں کو تیاگ کر تاریک گپھاؤں ‘ راہب خانوں اَور پہاڑوں اَورجنگلوں کی تنہائیوں میں دبک کر َ رہ گئے اَور اُنھوں نے اَپنی تمام تر توجہ کو ِنروان پر مرکوز کر لیا۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ ُوہ اَپنے اِس نظریہ ٴ حیات کی بدولت نیچر کے زیادہ قریب آ گئے‘ اَور اُنھیں قدرتی منا ِظر اَور کائنات کی اَندھی قو ّتوں سے براہ ِ راست متکلم ہونے اَور ُیوں ایک انوکھی مسرت حا ِصل کرنے کے بڑے بڑے موقعے بھی مل گئے ؛ لیکن آخرش یہ ایک طرح کا فرار ہی تھا۔ ُوہ دراصل ”ز ِندگی“ سے بھاگ گئے تھے اَور غم و آلام کو زبردستی ُبھلا کر ”سکون“ حا ِصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے (اگرچہ یہ اَمر بحث طلب ہے کہ یہ سکون دائمی کیفیات کا حامل تھا بھی کہ نہیں)۔
اُن کے مقابلے میں دیکھئے تو کنفیوشزم (Confucianism)تھا جس کے مطابق ز ِندگی کا مقصد ز ِندگی ہی سے لطف اَندوز ہونے میں تھا اَور جو فرار کی بہ نسبت ز ِندگی ہی سے ہم َکنار ہونے کو زیادہ اَہمیت تفویض کر رہا تھا… یہاں بھی نیچر کا ُوجود تھا بلکہ بہت بڑا ُوجود تھا جس سے محظوظ ہونا مشروط تھا لیکن ز ِندگی سے فرار کو تحریک نہیں دی گئی تھی ۔ اِس نظریے کے مطابق ز ِندگی ‘ خاموشی اَور ہنگامے ‘ شہر اَور دیہات ‘ آ ُنسوؤں اَور قہقہوں کا ایک د ِلکش اِمتزاج تھی اَور اِس کے مد ّوجزر سے َ ّمسر ت حا ِصل کرنا اِنسان کا سب سے بڑا مقصد تھا۔
چنانچہ لن یوٹانگ نے اپنے نظریہ ٴ حیات کو اِسی فلسفے پر اُستوار کرتے ہوئے‘ اِس بات پر زور دیا ہے کہ مسرت حا ِصل کرنے کے لیے ُروز ّمرہ ز ِندگی سے لطف اَندوز ہونا ضروری ہے … ز ِندگی جو اَمیر اَور غریب ‘ چور اَور سادھ ‘ بیاہ اَور َ موت ‘ َپیدائش اَور بیماری اَور طوفان ‘ زلزلے‘ بار ِش اَور شفق … اِن سب کے خوشگوار اِمتزاج سے عبارت ہے ۔
اِسی ز ِندگی میں َ ّمسر ت کا خزینہ پنہاں ہے ۔ صرف غائر نظر کی ضرورت ہے اَور ہم بڑی آسانی سے اِس کی رنگینیوں اَور رعنائیوں اَور اِس کے خوشگوار ّمدوجزر سے مسرت کی دولت حا ِصل کر سکتے ہیں ۔ اَور چونکہ اِس ز ِندگی کا سب سے بڑا مظاہرہ ایک اَوسط درجے کے ”گھر“ میں ہوتا ہے ‘ اِس لیے( لن یوٹانگ کے بقول) گھر ہی مسرت کا مرکز ہے اَور گھر کی ُپرسکوں فضاہی مسرت کی سب سے بڑی معاو ِن ہے ! اَب اگر ہم اِس نکتے پر غور کریں تو ہمیں ُمحسوس ہو گا اَور روز ّمرہ کا معمول بھی اِس بات کی گواہی دے گا کہ گھر کی چار دیواری سے باہر تو اِنسان پر سنجیدگی اَور ڈ ِسپلن کے موٹے موٹے پردے ّمسلط رہتے ہیں لیکن جونہی ُوہ گھر (ایک اَوسط درجے کے ُپرسکوں گھر) میں داخل ہوتا ہے‘ یہ تمام باتیں یکسر دُھل جاتی ہیں اَور ُوہ محبت‘ ہمدردی ‘ سکون اَور آرام کی فضا کو خود سے ہم آہنگ پاتا ہے ۔
یہاں نہ تو اُسے دقیق سیاسی اَور اِقتصادی مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے اَور نہ ہی کسی منجمد معاشرت کے مخصوص آداب اَور کسی دفتری فضا کے قواعد و ضوابط اُس کے لیے کوئی اَہمیت رکھتے ہیں۔ یہاں ُوہ آرام د ِہ کپڑوں میں ملبوس ،قطعی آزادی اَوراِطمینان سے‘ ِگرد و پیش کا جائزہ لیتا ہے اَور پھر اُس کی بیوی کی خوش آمدید کہتی ُہوئی مسکراہٹ ‘ پیار اَور ہمدردی اَور ّبچوں کے ُمعصوم قہقہے اَور اُس کی آمد پر د ِلی خوشی کا مظاہرہ … یہ تمام چیزیں اُسے سنگلاخ حقائق اَور تھکا دینے والے اَفکار و آلام کی دُنیا سے بلند کر کے‘ ایک حسین اَور َ ّمسر ت آفریں فضا میں لا کھڑا کرتی ہیں اَور ُوہ ز ِندگی کا مصنوعی‘ تنگ جامہ اُتار کر‘ خلوص کا ڈ ِھیلا ڈھالا لباس زیب ِ تن کر لیتا ہے ۔
مگر اِس َ ّمسر ت کا تمام تر دارومدار اِس بات پر ہے کہ عورت اَور مرد کی ز ِندگی پائیدار ّمحبت پر اُستوار ہو‘ ورنہ وقت کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ ایک تاریک سی افسردگی کا َپیدا ہونا اَور اُن کے د ِلوں کو یوں راکھ کر دینا کہ کریدنے سے مسکراہٹ کی چنگاری تک نہ مل سکے‘ کوئی غیر اَغلب بات نہیں۔ البتہ ُوہ لوگ جنھیں اِس بات کا علم ہے کہ ز ِندگی کی َ ّمسر ت گھر کے سکون کی ر ِہین ِ ّمنت ہے‘ اَور یہ کہ گھر کا سکون ایک دُوسرے کے مزاج کے ّمدوجزر کا قریب سے جائزہ لینے اَور وقت کے مطابق درست رو ّیہ اِختیار کرنے میں ہے‘ اچھا ماحول َپیدا کرنے میں بڑی َحد تک کامیاب ہوجاتے ہیں ۔
ویسے اِزدواجی ز ِندگی کی اُستواری کے لیے مرد کی متحمل مزاجی خاص َطور پر نہایت ضروری ہوتی ہے کیونکہ عورت کے ِکردار اَور مزاج میں طبعاً ّمدوجزر کے اِمکانات زیادہ ہوتے ہیں اَور ُوہ مرد کی بہ نسبت بہت جلد جذبات کا سہارا لے لیتی ہے۔ ایک مصنف نے عورت کے مزاج کو سمندر سے تشبیہ ‘ دی ہے … ایک ایسا سمندر کہ جس میں کبھی طوفان آجاتا ہے اَور کبھی سکون چھا جا تا ہے ۔
چنانچہ ُوہ لکھتا ہے: مرد کی دانش َمندی اِسی بات میں ہے کہ ُوہ خود کو ایک ّملاح کے طریق پر چلنا سکھائے تاکہ جب طوفان اُٹھے تو ُوہ اپنی کشتی کے بادبان ِگرا دے ‘ خاموش ہو جائے : اِنتظار کرے کہ طوفان گزر جائے اَور موافق ہوا اُس کی کشتی کو صحیح سمت میں کھینا شروع کر دے! لیکن اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ َمرد خود کو صرف عورت کی ُسوسائٹی اَور گھر کی فضا ہی میں خوش رکھ سکتاہے۔
ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں تلواروں کی جھنکار‘ توپوں کی گرج ‘ پہاڑوں کی بلندی اَور مقابلے کی فضا میں مسرت کا شدید احساس ہوتا ہے ۔ تاہم یہ لوگ بھی ز ِندگی کے سارے لمحات ایک ہی فضا میں بسر نہیں کر سکتے … بلاشبہ کسی شام اپنے گھر َلوٹتے ہیں‘ لباس تبدیل کرتے ہیں اَور خود کو اَپنی بیوی کے ساحرانہ حسن کے حوالے کر دیتے ہیں … اَب عورت کا راج ہے‘ عورت کی دُنیا ہے… یہاں پیار ہے ‘ جذبات ہیں‘ ہمدردی اَور مسرت ہے !! مسرت اَور محبت اِنسان کے جسمانی اَور رُوحانی اِرتقا کے مدار ِج کا غائر مطالعہ کیا جائے تو ُمحسوس ہو گا کہ حیوان کے برعکس اِنسان کو نہ صرف نسبتاً لمبے اَور غیر محفوظ بچپن سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ اُسے اپنی جسمانی اَور ذہنی ترقی کے مابین توازن کی کمی سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے ۔
ُوہ ُیوں کہ اِنسان ذہنی َطور پر تو جلد ہی اپنے ماحول کا اِدراک کر لیتاہے لیکن جسمانی تکمیل کی آہستہ روی کے با ِعث اپنے ناموافق حالات کا مقابلہ کرنے کی تاب‘ دیر تک نہیں لا سکتا۔ چنانچہ ایک نمایاں احسا ِس کمتری جنم لیتا ہے جو بتدریج اُس کے احسا ِس تنہائی کا محرک بنتے چلا جاتا ہے ۔ اِنسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ُمحسوس ہوگا کہ زندگی کے آغاز میں جب اِنسان کو ایسی ہی صورت ِ حال کا مقابلہ کرنا پڑا اَور ایک احسا ِس کم مائیگی و تنہائی اُس پر ّمسلط ہو گیا تو ُوہ اَز خود اُن قوانین اَور حربوں کی طرف راغب ہو تے چلا گیا جن کے طفیل ُوہ اِس غیر محفوظ صورت ِ حال سے َپیدا شدہ کمتری اَور تنہائی کے احساسات کا مقابلہ کر سکتا… یہ ضرورت اُس کے طبعی رُجحانات کا جامہ اوڑھ کر قبیلہ پسندی‘ قو ّت ِ اِظہار اَور ّمحبت کے احساسات کی صورت میں نمودار ہوئی جن کی مدد سے اِنسان ‘تہذیب و ّتمدن کی طویل شاہراہ پر گام َزن ُہوا۔
مگر احسا ِس تنہائی کا جو مرض ہزار ہا سال قبل محض حیاتیاتی اَثرات کے تحت نمودار ُہوا تھا‘ آج اِنسانی َ ّمسرت کا سب سے بڑا دُشمن بن ُچکا ہے: اگرچہ اِس کا مقابلہ کرنے کے لیے اِنسان کے پاس مجلس‘ آرٹ اَورمذہب کے علاوہ بھی مصروفیت کے سینکڑوں حربے موجود ہیں لیکن شاید ّمحبت ہی ُوہ وا ِحد کیفیت ہے جس کی مدد سے اُس نے اِس مرض پر زیادہ سے زیادہ فتح حاصل کی ہے … اَور اِس فتح کا اَنداز بھی نرالا ہے ۔
نفسیاتی َطور پر یہ احسا ِس تنہائی جو حیات ِ اِنسانی کے ا ّولیں اَدوار کی یادگار ہے‘ اب اِنسانی ذہن کا جزو ِ لاینفک بن ُچکا ہے ۔ چنانچہ آج اِنسان‘ انبوہ میں رہتے ُ ہوئے بھی‘ خود کو تنہا ُمحسوس کرتا ہے۔ موجودہ ز ِندگی کی مصروفیات ( َسیرو تفریح‘ رقص و موسیقی ‘ سیاست اَور لیڈر شپ اَور اَن ِ َگنت دُوسرے مسائل) کے باوجود اُسے اپنی ز ِندگی کے کھوکھلے َپن کا شدید احساس ہے ۔
اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں ایک لمحاتی کیف کے ِسوا اُسے کچھ بھی ّمہیا نہیں کرتیں ‘ اَور اُن سنگین دروازوں اَور سنگلاخ دیواروں والے ز ِندان کے تو قریب بھی نہیں پھٹکتیں جن کے اَندر اُس کی رُوح ایک خانماں برباد شہزادے کی طرح قید ہے … یہ قفس اُس کے اِیغو ( ُمحدود خودی) کا قفس ہے جس کی تعمیر میں اُس کے ہزار ہا برس کے دشمن‘ احسا ِس تنہائی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے ۔
چنانچہ بظاہر تو ُوہ ُسوسائٹی کا فرد ہے… کلبوں‘ ریستورانوں اَور سیرگاہوں میں گھومتا ہے ؛ آرٹ اَورموسیقی اَور سیاست اَور جنگ میں ِ ّحصہ لیتا ہے ؛ لیکن بنیادی َطور پر اِیغو کی چار دیواری میں اِس ُبری طرح سے قید ہے کہ ہزار کوشش کے باوجود بھی اپنی رُوح کو کسی دُوسری رُوح سے ہم آہنگ نہیں کر سکتا … ہزار کوشش پر بھی اپنے قفس کے اُن زنگ آلود دروازوں کو نہیں کھول سکتا جن سے گزر کر مسرت کی َلپٹیں اُس کے نہاں خانہ ٴ د ِل کو معطر کرسکیں۔
ہاں‘ ایک چیز اُسے اِس قید سے رہائی د ِلاتی ہے اَور اُس کے اِیغو کی منجمد دیواروں کو ِگرا کر‘ اُسے کسی دُوسری رُوح سے اِس طورسے ہم آہنگ کر دیتی ہے کہ غیریت کے سارے مظاہر پاش پاش ہو جاتے ہیں … یہ ہے اِنسانی محبت… ُوہ لطیف کیفیت جس کے سحر میں اَسیر ہو کر‘ دو۲ د ِل ایک ہی تال پر دھڑکتے ہیں … ُوہ کیفیت جو زماں و مکاں کی ُ ُحدود سے ماورا ہے اَور جس کے طفیل ایک اِنسان‘ دُوسرے اِنسان کو اَپنے د ِل میں جگہ دے کر‘ اَور اُس کے سامنے اپنے د ِل کی ساری کیفیات کو بے نقاب کر کے ‘ صدیوں ُپرانے احساس تنہائی سے چھٹکارا پاتا اَور ُیوں اپنی حیات کی ُمحدود تنہائی کو شادیانے بجاتی ز ِندگی سے ہم آہنگ کر لیتا ہے… شایدیہی وجہ ہے کہ کسی ُمحبوب ہستی کا قرب‘ اَشیا میں نئے معانی َپیدا کر دیتا ہے؛ کوہساروں اَور وادیوں کی د ِل نوازی بڑھ جاتی ہے؛ رقص اَور موسیقی کی َلہروں میں ایک نیا تمو ّج َپیدا ہو جاتا ہے؛ اَور آسماں کی نیل ُگوں چادر کے نیچے ہر شے ایک لطیف کیفیت میں بسے ہوئے نظر آنے لگتی ہے ۔
لیکن ُ محبوب ہستی کا یہ قرب (اگرچہ بے پایاں مسرت کا موجب ہے)‘ کچھ عرصہ گزر جانے پر اَور ماحول کی یک رنگی کے طفیل‘ اپنی ِ ّشدت کھونے لگتا ہے۔ یہ چیز ّمحبت کے خوش نما َپودے کو آہستہ آہستہ گھن کی طرح کھوکھلا کرتے چلے جاتی ہے حتیٰ کہ ایک صبح اِنسان پر یہ راز فاش ہو جاتا ہے کہ اُس کے د ِل میں اپنے محبوب ساتھی کے لیے ُوہ ّمحبت ہی باقی نہیں رہی جو آغاز میں تھی ۔
ّمحبت کے سفر کا یہ موڑ بڑا خطرناک ہوتا ہے اَور دیکھا جائے تو اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ دوا کی پہلی خوراک کی طرح ّمحبت‘ شروع میں تو کافی اَثر اَنگیز تھی مگر مسلسل قرب سے اِنسان اِس کا اِتنا عادی ہو گیا کہ آ ِخرش ایک روز یہ قطعاً بے اَثر ہو کر َرہ گئی۔ اِس مسئلے پر مزید غور کرنے سے ُمحسوس ہوتا ہے کہ کسی ہستی کو اَپنانے کی شدید خواہش ‘جسے ہم ُپورا کرنا چاہتے تھے‘ بنیادی َطور پر ُوہی احسا ِس تنہائی تھا جس کا ذ ِکر ہم اُوپر کر آئے ہیں اَور اِسی احسا ِس تنہائی سے چھٹکارا پانے کے لیے اِنسان ایسی ہستی کی طرف راغب ُہوا جس کے ساتھ ُوہ رُوحانی اَورجسمانی طور پر ایک ہو سکتا۔
ّمحبت کا پہلا ملاپ تو بڑا َ ّمسر ت اَفزا تھا؛ لیکن خواہش کی تکمیل ‘ خواہش کی َموت ثابت ُہوئی اَور آہستہ آہستہ ُمحبوب ہستی اُس کشش سے محروم ہوتے چلے گئی جس نے ّمحبت کے ا ّولیں شعلوں کو تحریک دی تھی ۔ دراصل ّمحبت کی یہ اذ ّیت ناک َموت‘ جس سے َ ّمسر ت کے سوتے بھی خشک ہو جائیں ‘ ہماری اَپنی غلط ذہنی کروٹ کا نتیجہ ہے ۔ ”حصول“ سے پہلے ّمحبت کے ایام بالعموم اِتنے مختصر ہوتے ہیں کہ ّمحبت میں تھکن َپیدا ہی نہیں ہو سکتی۔
اِزدواجی ز ِندگی میں شب و روز ایک جگہ َرہ کر اَور ایک دُوسرے کے لیے کھلی کتاب کا درجہ اِختیار کر لینے کے بعد ہی اَیسا مقام آتا ہے کہ اکتاہٹ کے آثار َپیدا ہونے لگتے ہیں۔ چنانچہ اِزدواجی ز ِندگی کی َ ّمسر ت کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ َمرد اَور عورت میں اِتنا گہرا اِختلاف َپیدا نہ ہو جائے کہ دونوں ایک َچھت کے نیچے سونے کی ّتمنا ہی چھوڑ دیں‘ وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ دونوں کے خیالات‘ َ میلانات اور ز ِندگی کے متعلق نظریات میں ُوہ یک رنگی بھی نہ آنے پائے کہ دونوں ایک دُوسرے کے لیے ایک کھلی کتاب کا درجہ اِختیار کر جائیں اَورایک کے لیے دُوسرے میں کوئی نئی بات ہی باقی نہ رہے۔
پس ُوہ تمام لوگ جویہ آرزو کرتے ہیں کہ اُن کی ُمحبوبہ اُن کی اپنی نمایاں خصوصیات کا مکمل نمونہ ہو ‘ محض خود پرستی کا ِشکار ہوتے ہیں‘ لہٰذا ز ِندگی کی َ ّمسر توں سے بالعموم محروم َرہ جاتے ہیں ۔ دراصل عورت اَور َمرد کے مزاج‘ کردار اَورنظریات میں ہلکا ہلکا اِختلاف اُنھیں ایک دُوسرے کے لیے ُپرکشش بنانے میں محرک ثابت ہوتا ہے اَورچونکہ اِختلاف اَور ُبعد (چاہے ُوہ کسی قسم کا ہو)‘ اِنسان میں احسا ِس تنہائی کو اُبھارتا ہے ‘ اَور اَزبسکہ احسا ِس تنہائی کا ر ّد ِ عمل دُوسری ہستی کو اَپنانے کی صورت میں نمودار ہوتا ہے‘ لہٰذا عورت اَور مرد میں یہ خفیف سا ُبعد اُن کی ّمحبت کی ِ ّشدت کو کبھی اِنحطاط پذیر نہیں ہونے دیتا اَور ُ وہ َ ّمسر ت کی خوشبوؤں سے ہمیشہ لطف اَندوز رہتے ہیں۔
عورت اَور َمرد کا یہ ُبعد ایک لحاظ سے ضروری بھی ہے… ُوہ اِس طرح کہ یہ ُبعد نہ ہوتا تو اَپنانے کی خواہش ہی کیسے َپیدا ہوتی ! اگر ہم اِس مسئلے کو حیاتیاتی َطور پر (Biologically) حل کرنا چاہیں تو ہمیں یہ معلوم کر کے تعجب ہو گا کہ ز ِندگی کے آغاز میں َمرد اَور عورت ایک ہی جسم میں موجود تھے۔ پھر ُجداہوئے اَور تب سے شب و روز اِس خلیج کو ُپر کرنے اَور ایک دُوسرے سے مل جانے کی تگ و َدو میں بری طرح مصروف ہیں۔
مندرجہ بالا ”ہائی سیکشوئل تھیوری آف لائف“ کے جواز میں یہ نکتہ بھی قا ِبل غور ہے کہ آج بھی َمرد کے جسم میں عورت کے جسم کے بعض نشانات موجود ہیں‘ بعینہ جس طرح عورت کا جسم َمرد کے جسم سے بعض اُمور میں مطابقت رکھتا ہے… نہ صرف جسمانی َطور پر بلکہ خیالات‘ احساسات اَور جذبات کی دُنیا میں بھی یہ ہم آہنگی موجود ہے۔ اگرچہ َمرد کے تمام تر رُجحانات کو فکر (Thought)کا سہارا نصیب ہے اَور عورت کے رُجحانات کو احساس (Feeling) کا‘ پھر بھی یہ اِمتیازی نشان اِس قدر غیر واضح ہے اَور اِن دونوں کی ُ ُحدود اِس قدر اُلجھی ُہوئی ہیں کہ َ مرد میں نسوانیت اَور عورت میں َمردانہ َپن کے نمایاں رُجحانات سرایت کر گئے ہیں۔
عام طور پر یہ خیال تقویت اِختیار کر ُچکا ہے کہ عورت‘ مرد سے ایک ”نمایاں برتری“ کی طالب ہے؛ لہٰذا ُوہ پسند کرتی ہے کہ َمرد میں جسمانی طاقت اَور ذہنی برتری کا لازوال سرمایہ موجود ہو اَور ُوہ (یعنی عورت) اُس کے ہاتھوں میں بے بس ہو جائے ۔ اِسی طرح کا یہ خیال بھی بڑا عام ہے کہ َمرد‘ عورت سے ”نسوانیت“ کا طالب ہے اَور ُوہ نہیں چاہتا کہ عورت ”سپاٹ اَور ٹھوس“ ہو جائے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ رُجحانات کا بالعموم عا َلم یہی ہے ؛ لیکن گہری نظر سے دیکھیں تو تصویر کا دُوسرا رُخ بھی سامنے آ جاتا ہے‘ اَور ہم دیکھتے ہیں کہ عورت‘ َمرد میں کسی نہ کسی َحد تک نسوانیت اَور لچک کی بھی طالب ہوتی ہے اَور َمرد‘ عورت میں ایک َحد تک سختی اَور برداشت کا بھی جویا ہوتا ہے۔ اِس سے عورت اَور َمرد کی متضاد خصوصیات کو ایک دُوسرے کے قریب آنے کے مواقع ملتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی کم دِلچسپ نہیں کہ عورت ‘ َمرد میں زیادہ زنانہ َپن کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے اَور َمرد، عورت کی زیادہ ”جرأت“ کو اَچھا نہیں سمجھتا۔ حیر ت ہے کہ فرد کے لیے ُوہی خصوصیت جس کا ُوہ خود مظہر ہے ‘ دُوسری صنف میں زیادتی اِختیار کر نے پر ناقا ِبل برداشت ہو جاتی ہے ! بہرحال اِس بات سے اِنکار مشکل ہے کہ ُپر َ ّمسر ت اِزدواجی ز ِندگی اَور ّمحبت کے لیے َمرد میں ایک َحد تک نسوانیت کا ہونا ضروری ہے: بعینہ جس طرح عورت میں َمردانہ َپن کے بعض عنا ِصر کا ُوجود لازمی ہے ۔
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جہاں َمرد‘ احساسات کا سہارا لے کر‘ گھر کے اُمور مثلاً ّبچے کی نگہداشت‘ عورت سے پیار وغیرہ میں نمایاں د ِلچسپی لیتا ہے‘ وہاں عورت اپنے پراَسرار اَور مبہم احساسات سے بلند ہو کر‘ َمرد کے ٹھوس معاملات میں د ِلچسپی لینے لگتی ہے اَور ُیوں اِزدواجی ز ِندگی کی بنیادیں مضبوط ہو جاتی ہیں۔ جیسا کہ اُوپر لکھا گیا‘ خیالات اَور احساسات میں نمایاں فرق ہے یعنی َمرد کی دُنیا بنیادی طور پر فکر کی دُنیا ہے… تاریخ بھی اِس بات کی شاہد ہے کہ َمرد نے فی الواقع سائنس‘ فلسفے‘ ِطب اَور ز ِندگی کے دُوسرے شعبوں میں جو حیرت انگیز ترقی کی‘ ُوہ اُس کے تخیل کے غیر مبہم سلسلے کی ر ِہین ِ ّمنت تھی؛ علاوہ اَزیں یہ اُس کا تخیل ہی تھا جس کے طفیل اُلجھی ُہوئی ز ِندگی نے توا ُزن اَور اعتدال کی سلجھی ُہوئی صورت اِختیار کی اَور اِنسان اِرتقا کی طرف تیزی سے گام َزن ہو گیا۔
اِس کے برعکس عورت کی دُنیا‘ بنیادی طور پر احساسات و جذبات کی دُنیا تھی‘ اِسی لیے اُس کی ز ِندگی اَز َسر تا پا بدلتے ہوئے رُجحانات ‘ مبہم کیفیات اَور اِستقلال کے فقدان کی ّغماز رہی ۔ اِس سلسلے میں عورت کو چاند سے تشبیہ ‘ دی جا سکتی ہے… یہ اِس لیے کہ فی الواقع عورت کے ِکردار میں چاند کی سی پیہم تبدیلی موجود ہے اَور ِکردار کی اِسی سیماب دار کیفیت کے با ِعث‘ ُوہ سامنے آنے کے بجائے پس منظر میں رہی ہے۔
ویسے بنیادی طور پر عورت، فطرت کی صحیح ترجمان ہے ؛ تسلسل کی محرک ہے اَور تخلیق کرتی ہے… اِسی لیے کائناتی مسائل میں اُسے زیادہ وقعت حا ِصل ہے۔ َمرد تو محض کٹھ پتلی ہے جواَپنے فرض کی اَدائی کے بعد فطرت کے لیے بے معنی ہو جاتاہے۔ حیاتیاتی طور پر بھی دیکھا گیا ہے کہ مادہ کی ز ِندگی نہ صرف َنر سے طویل تھی بلکہ اِ ّتصال کے بعد بیشتر صورتوں میں َ نر‘ فی الفور ختم ہو گیا جبکہ مادہ تخلیق کو مکمل کرنے کے لیے زیادہ عرصے تک ز ِندہ رہی ۔
اب چونکہ َ مرد کے بغیر تخلیق ممکن نہیں تھی‘ اِس لیے فطرت نے عورت کو شروع ہی میں ُوہ سب کچھ ودیعت کر دیا جس کے بغیر ُوہ َمرد کو اَپنے حلقہ ٴ دام میں جکڑنے سے معذور تھی۔ چنانچہ اُس کی نزاکت و شعریت ، حسن و اَدا اَور اُس کے ِگرد شعر و نغمہ سے بنی ُپراَسرار‘ خواب اَنگیز فضا نے مرد کو اَپنے طلسم ہوش رُبا میں اَسیر کر لیا اَور اُس کی تمام تر جسمانی اَور رُوحانی قو ّتوں کو ”تخلیق حیات“ کے مقصد کی تکمیل کے لیے آلہ ٴ کار بنانے کی سعی کی مگر اِس کارد ّ ِ عمل بھی ضروری تھا‘ چنانچہ مرد، عورت سے فرار کی طرف مائل ہو گیا۔
یہ چیز نہ صرف ا ّولیں قبائل میں ملتی ہے جہاں عورت کو ممنوع (Taboo) قرار دے دیا جاتا تھابلکہ مذہب کی بیشتر روایات بھی اِس کی تصدیق کرتی ہیں۔ یہیں سے اخلاق کے اُس پہلو کی اِبتدا ُہوئی جس کے مطابق جنسی َمیلانات کو گناہ ِ عظیم تصو ّر کیا گیااَور عورت کے ساتھ ملاپ کو ُجرم سمجھا گیا (واضح رہے کہ آدم  اَیسا جلیل ُ القدر پیغمبر بھی اِسی ِبنا پر فردوس کی پاکیزہ فضا سے باہر نکلنے پر مجبور ُہوا تھا)۔
دراصل اِس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ َمرد شروع ہی سے جسم پر رُوح کی فتح کا قائل تھا اَور عورت چونکہ بنیادی طور پر جسم اَور اُس کے لواز ِم اَور جسم کی تخلیق کی ضامن تھی‘ لہٰذا اُسے گناہ کی َ علم بردار تصو ّر کیا گیا۔ جادُو کے زمانے سے اَب تک ڈائن کا جو تصو ّر ہم تک پہنچا ہے‘ وہ بھی نمایاں طور پر ایک ایسی عورت کا تصو ّر ہے جو جنسی خواہش کے َدور سے گزر رہی ہوتی ہے اَور جس سے فرار اِختیار کرنے کی واضح طور پر ترغیب دی گئی ہے ؛ یعنی یہ کہ جب ڈائن آواز دے تو ٹھہرنا اَور ُمڑ کر دیکھنا خطرے سے خالی نہیں۔
دراصل خطرہ ُیوں َپیدا ُہوا کہ َمرد نے اگر ایسی عورت کو دیکھ لیا تو عورت کی جنسی کشش ‘ َمرد کے تمام اِرادوں کو شل کر دے گی اَور وہ اُس کے سحر میں اَسیر ہو کر‘ اَپنے اعلیٰ عزائم کو تکمیل تک پہنچانے سے قا ِصر َرہ جائے گا۔ عورت سے یہ فرار آج بھی ہماری سوسائٹی میں موجود ہے ۔نظم جو اِنسان کی لاشعوری خواہشات کی ترجمان ہے‘ اِس حقیقت کو بدرجہ ٴ اتم نمایاں کرتی ہے اَور عورت کے ”ز ِندان“ سے محفوظ رہنے اَور اُس کی دُنیا سے کنارہ کش ہونے کی ایک واضح خواہش اِس سے جھلکتے ہوئے نظر آتی ہے ۔
ویسے عام اِزدواجی ز ِندگی میں بھی دیکھا گیا ہے کہ بے َلوث محبت کے باوجود کچھ عرصے کے بعد َمرد‘ عورت کے حسیں دام سے کم اَز کم لمحاتی طور پر فرار حاصل کرنے اَور کھلی فضا میں لمبے لمبے سانس لینے کی زبردست تحریک سے ضروردوچار ہوتا ہے ۔ دُوسری طرف عورت کا مسلک یہ رہا ہے کہ ُ وہ َمرد کو اپنے ّتسلط سے باہر نہیں جانے دیتی۔ عورت کا قانون بنیادی طورپر مجتمع کرنے (To bind together) کا قانون ہے اَور ُوہ نہیں چاہتی کہ َمرد اُس کے بازوؤں کے مخملیں حلقے سے باہر نکل جائے ۔
اَور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر َمرد، عورت کی مخملیں بانہوں سے آزاد ہونے کی خواہش نہ کرتا تو آج اُس کے خیال کا اِرتقا اَور اُس کی تہذیب کی عمارت فطرت کی ا ّولیں َحیوانی سطح کے نیچے ہی دبی رہتی… ُوہ اِس لیے کہ عورت جذبات‘ احساسات اَور طبعی رُجحانات کی ترجمان ہے اَوریہ چیزیں فطرت کی َحیوانی صورت کے زیادہ قریب ہیں۔ تاہم عام اِزدواجی ز ِندگی میں یہ بات بھی گہری تو ّجہ کے لائق ہے کہ جہاں عورت ایک خاص َحد تک َمرد کو اَپنے حسیں دام میں جکڑ کر‘ اُ س سے فطرت کے مقا ِصد کی تکمیل میں مدد لیتی ہے ‘وہاں ُوہ اِس مقصد کی تکمیل کے بعد َمرد سے ایک لمحاتی گریز بھی ضرور اِختیار کرلیتی ہے۔
چنانچہ اِزدواجی ز ِندگی کی مسرت کی قاتل دو۲ چیزیں ہیں … َمرد کا لمحاتی فرار اَور عورت کا لمحاتی گریز کہ اِن کی غلط تفہیم سے کتنے ہی لوگوں کی ز ِندگیاں بربادی اَوربے بسی کی تصویر بن گئیں۔ اگر َمرد‘ عورت کے ِکردار کے متعلق ُپوری واقفیت رکھتے ہوئے یہ سمجھ لے کہ اُس کا لمحاتی گریز ایک حیاتیاتی مسئلہ ہے جس سے مفر نہیں اَور عورت ‘ َمرد کے فرار کو اُس کے فطری رد ّ ِ عمل کا عکس سمجھ کر اِغماض و درگزر سے کام لے تو کوئی وجہ نہیں کہ بربادی کے قعر ِ عمیق میں ِگرتی ُہوئی ز ِندگیاں‘ آ ِخری تنکے کا سہارا لے کر ہی صحیح و سلامت باہر نہ نکل آئیں اَور ز ِندگی کی مسرتیں اِنحطاط پذیر ہونے کے بجائے فزوں تر نہ ہوتے چلی جائیں! جیسا کہ ہم جانتے ہیں‘ ّمحبت کے دو۲ مدار ِج ہیں … تلاش اَور ُ ُحصول‘ اَور یہ دونوں مدار ِج اِنسان کو َ ّمسر ت کے کیف زا لمحات بہم پہنچانے میں پیش پیش ہیں ۔
ُمحبوبہ کو حا ِصل کرنے کی تگ و َدو اگرچہ مختصر ہوتی ہے اَور بیشتر اَوقات ‘آ ُنسوؤں اَور سسکیوں کے تسلسل میں جاری رہتی ہے‘ تاہم اِسے اُمیدوں اَور آرزوؤں کی پریاں سنوارتی ہیں اَوریہ ننھے ننھے خطرات سے بھی نبرد آزما ہوتی ہے‘ اِس لیے مجموعی طور پر َ ّمسر ت بخش ثابت ہوتی ہے۔ یہاں میرا جی کی ُوہ مریضانہ ّمحبت بھی یاد رہے جو حصول ہی سے بے نیاز تھی: یہ اَور بات کہ ایسی محبت میں بھی ّلذت کا ُ ُعنصر شامل ہوتا ہے۔
میرا جی نے خود کہا ہے : ّ ُ َ ہاں جیت میں کوئی نہیں نشہ‘ یہ بات ہے جیت سے دوری کی جو راہ رسیلی چلتا ہوں‘ اس راہ پہ چلتا جانے دے! دُوسری طرف ّمحبت کا آخری مقام جسے ”حصول“ کہنا چاہیے‘ سنگ ِ بنیاد کا درجہ رکھتا ہے اَوراگریہ کہا جائے کہ آخر ِ کار ّمحبت اِسی سنگ ِ بنیاد پر اُستوار ہوتی ہے‘ تویہ کوئی مبالغہ آمیز بات نہیں ہوگی؛ لیکن حیرت زا بات یہ ہے کہ َمرد نے حصول کو محض ”جنسی ملاپ“ سمجھا ہے اَور اِس بات کو قطعاً فراموش کر دیا ہے کہ جنسی ملاپ ‘ رُوحانی ملاپ کے بغیر تسکین بہم نہیں پہنچاتا اَور بیشتر اَوقات ز ِندگی کو عام اِنسانی َ ّمسر ت سے بھی محروم کر دیتا ہے ۔
دراصل َمرد کا یہ فطری رُجحان کہ عورت کے جسم سے ّلذت کا حصول اُس کا ”حق“ ہے ‘ اُ س کی بدقسمتی کی علامت بن جاتا ہے کیونکہ فی الواقعہ ّمحبت میں حق یا دباؤ کو قطعاً وقعت حاصل نہیں۔ یہاں اِس بات میں کوئی فائدہ اَور رُوحانی ُ ُسرور نہیں کہ آپ نے کیا کچھ ُچرایا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ آپ نے کیا تحفہ قبول کیا اَور اگر واقعی آپ کو عورت سے ّمحبت تحفتہً ملی ہے تو یقینا آپ بڑے ہی خوش قسمت اِنسان ہیں ۔
دُوسرے ُوہ لوگ َ ّمسر ت سے محروم رہتے ہیں جو اِس بات کو فراموش کر جاتے ہیں کہ صنف ِ مخالف سے محض ّلذت کا حصول ایک غلط نظریہ ہے اَوریہ کہ اِس کے برعکس صنف ِ مخالف کو مسرت بہم پہنچانا ہی ّصحت َمندی کا نشان ہے ۔ اَب اگر دونوں فریق اِس ناقا ِبل فراموش اُصول کو ّمد ِنظر رکھیں اَور خود غرضی اَور ذاتی تسکین کے رُجحانات کو ثانوی حیثیت دے دیں تو یقینا جسمانی اَور رُوحانی ُ ُسرور کے لازوال لمحے اُن کے لیے متا ِع بے بہا بن سکتے ہیں۔
ّمحبت میں جسمانی اَور رُوحانی ملاپ کا یہ پہلو اِس قدر اَہم ہے کہ اِس سے متعلق چند مزید سطور کا اِضافہ یقینا قا ِبل قبول ہو گا ۔ چین میں زمین کوموٴنث اَور آسمان کو مذکر قرار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ چینیوں کے مطابق عورت، ُوہ تاریک زمین ہے جو ہر شے کو جسم َعطا کرتی ہے اَور َمرد، ُوہ آفتاب ہے جو اِس تخلیق میں مدد بہم پہنچاتا ہے۔ فی الواقعہ َمرد اَور عورت کاملاپ ‘ آسمان اَور زمین ‘ رُوح اَور جسم‘ تخیل اَور احساس کاملاپ ہے ۔
اِس ملاپ میں َمرد‘ َروشنی کی طرف ُپشت کر کے ‘خود کو تاریکی میں مدغم کر دیتا ہے اَور عورت اُس تاریکی کا سینہ چیرتے ہوئے‘ آسمانی ر ِفعتوں کی طرف پرواز کرنے لگتی ہے۔ چنانچہ َمرد اَور عورت کے اِس جسمانی ملاپ میں ُوہ رُوحانی قدریں بھی سمٹ آتی ہیں جو ز ِندگی کا ِعطر ہیں اَور جن کے بغیر ز ِندگی ٹھوس اَور سپاٹ رہتی ہے ۔ مناسب ہو گا اگر یہاں َمیں مشہور چینی خاتون‘ میڈم کو آن کی ُوہ بے مثال نظم بھی درج کر ُدوں جو اُس نے اپنے ( ّمجسمہ ساز) شوہر کو اُس وقت لکھی تھی جب وہ کسی دُوسری عورت کی طرف مائل ہو گیا تھا اَور جسے پڑھ کر ُوہ اِس قدر متاثر ُہوا تھا کہ دُوسری عورت سے قطع تعلق کرکے‘ شا ِعرہ (یعنی اپنی بیوی) کے پاس واپس آ گیا تھا… یہ نظم عورت اَور َمرد کے جسمانی اَور رُوحانی ملاپ کی نہایت قا ِبل قدر مثال ہے : آج میرے اَور تیرے درمیاں بعد کیسا…فاصلہ باقی کہاں؟ لے ذرا مٹی کی اِک چکنی ڈلی ڈال پانی، گوندھ اِس کو زور سے اور بنا دو۲ ُبت ‘ حسین و لاجواب ایک ُبت کی شکل ہو تیری طرح دوسرا بت ہو مرا… بت شکن بن کر اِنھیں اَب توڑ دے ڈال پانی ‘ گوندھ پھر اِن کو ذرا اب بنا پھر دونوں بت ایک اَپنا…اِک مرا اب مرے بت میں ہے کچھ تیرا وجود او ر ترے بت میں ہے کچھ پیکر مرا زیست کی وہ کون سی طاقت بتا تجھ کو کر سکتی ہے مجھ سے اَب جدا ! بہرحال ّمحبت میں جسمانی ملاپ کے سلسلے میں اِس بات کو مد ّ ِنظر رکھنا لازمی ہے کہ عورت کی دُنیا جذبات و احساسات کی دُنیا ہے اَورجب اُسے ّمحبت کے َدوران میں اِس بات کا ذرا سابھی شک ہوجائے کہ َمرد اُسے محض ایک جسم سمجھتا ہے ‘ اَورجسم سے محض ّلذت کے حصول کا طالب ہے‘ تو ُوہ ایک بے جاں پتلی بن کر َرہ جاتی ہے اَور َمرد، بسا اَوقات یہ دیکھ کرحیران َرہ جاتا ہے کہ ُوہ تو ّپتھر کے ایک بت سے بغل گیر ہے … ُیوں عورت کا اِنتقام ُپورا ہوجا تا ہے اَور ُوہ زیر ِ لب مسکراتے ہوئے خود سے کہتی ہے: اُسے صرف میرا جسم درکار تھا‘ وہ اُسے مل گیا‘ اِس کے ِسوا میں نے اُسے کچھ نہیں دیا … دیکھا جائے تو یہ شکست صرف َمرد کی شکست نہیں ‘ یہ َ مرد اَور عورت کی باہمی ز ِندگی میں مسرت کی بھی شکست ہے ۔
غائر نظر سے دیکھا جائے تو ُمحسوس ہو گا کہ عورت اَور َمرد کی باہمی ز ِندگی میں ”پیار حا ِصل کرنا“ اَور ”پیار ّمہیاکرنا“ خا ّصے اَہم نکات ہیں اَور ّمحبت کی کامیابی کا تمام و کمال اِنحصار اِن کے مناسب حل پرہے ۔ یہ احساس کہ کوئی ہمیں پیار کرتا ہے‘ بے اَندازہ مسرت کا حامل ہے…اِس میں کوئی شک نہیں…اَور خاص طور پر ُوہ لمحات تو آسمانی ہوتے ہیں جب اِنسان ُمحبوب کی تمام تر شفقت اَور ّمحبت کامرکز قرار پاتا ہے ۔
اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ُمحبوب کو پیار کرنے میں جولطف و َ ّمسر ت ہے‘ عام ز ِندگی میں اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی؛ اَور یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہو کہ لطیف تریں َ ّمسر ت اُس ّمحبت میں پنہاں ہے جو بیک وقت حا ِصل بھی کی جاتی ہے اَور نچھاور بھی … ّمحبت جس میں اتنی اَز خود روانی (spontaneity) ہوتی ہے کہ طالب ومطلوب کا اِمتیاز یکسر اُٹھ جاتا ہے اَوردو۲ مختلف ہستیاں ‘ رُوحانی اَور جسمانی ملاپ کے با ِعث‘ ایک ایسی تیسری اِجتماعی شخصیت میں نمودار ہوتی ہیں کہ دونوں کے درمیان کوئی تفریق باقی نہیں َرہ جاتی ۔
مغرب کے مشہور ّمفکر برٹ رینڈرسل(Bertrand Russell) نے اِس سلسلے میں ایک نکتہ پیش کیا ہے جو ہم سب کے لیے ِمشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اِس ّمفکر کے مطابق ّمحبت سے دو۲ طرح کی َ ّمسر ت حاصل کی جا سکتی ہے : فرض کیجیے‘ آپ ایک بادبانی جہاز میں سفر کر رہے ہیں ۔ سامنے آپ کو سا ِحل کا ایک حسین و د ِل فریب منظر نظر آتا ہے اَور آپ یک لخت اُس منظر کی سحر اَنگیز تابندگی سے مسحور ہو کر‘ سا ِحل کے لیے پیار کی ایک َلہر محسوس کرتے ہیں ۔
اِس پیار میں آپ کو ایک عجیب طرح کی َ ّمسر ت کا احساس ہو گا۔ اَب فرض کیجیے‘ آپ کا یہ جہاز تباہ ہو گیا ہے اَور عین اُس وقت جب آپ ز ِندگی اَور َموت کی کشمکش میں مبتلا ہیں‘ آپ کو ساحل نظر آ جاتا ہے : آپ فوراً َ ّمسر ت کی ایک والہانہ َلہر ُ محسوس کریں گے؛ لیکن یہ مسرت ‘ پہلی َ ّمسر ت سے قطعاً مختلف ہو گی کیونکہ یہ سا ِحل کی خوبصورتی کی وجہ سے نہیں‘ یہ سا ِحل کے طفیل َموت سے محفوظ رہنے کی وجہ سے ہے ۔
یہی حال اِنسانی ّمحبت کا َہے ۔ اگر آپ ُمحبوب کو اِس لیے چاہتے ہیں کہ اِس چاہت میں آپ کو ایک نئی مسرت ملتی ہے تو یقینا آپ کی یہ َ ّمسر ت اَرفع ہے ؛ لیکن آپ ُمحبوب کو اِس لیے پیار کرتے ہیں کہ اِس سے آپ اَپنے غم و آلام کو فراموش کر سکیں تو یہ محض ایک فرار ہے اَور نتیجتہً اِس سے حا ِصل شدہ مسرت‘ دائمی اَقدار کی حامل نہیں ہو سکتی ۔ آ ِخر میں مجھے َ ّمسر ت کی اُس انوکھی کیفیت کا تذکرہ کرنا ہے جو اِزدواجی ز ِندگی کے اُس مقام پر نمودار ہوتی ہے جہاں َمرد اَور عورت‘ اپنے جسموں اَور رُوحوں کا حیرت انگیز ملاپ ایک تیسری ہستی میں دیکھتے ہیں … ُیوں کہ نہ تو عورت دعویٰ کر سکتی ہے کہ یہ تیسری ہستی یعنی ّبچہ تمام کا تمام اُس کی تخلیق ہے اَور نہ ہی َمرد دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ فقط اُس کی تخلیق ہے ( ّمحبت کا تدریجی اِرتقا اَز مصنف)۔
اَب بچے کے لیے َمرد اَور عورت کی ّمحبت اِس لیے اَہم ہے کہ اِس کی نوعیت ّمحبت کی عام کیفیات سے قطعاً مختلف ہوتی ہے ۔ َمرد اَور عورت کی باہمی ّمحبت میں حسن اَور کشش کو دخل ہوتا ہے ۔ دوست کے لیے ّمحبت اُس کی خصوصیات کی ِبنا پر ہوتی ہے ۔ اگریہ کشش جاتی رہے یا خصوصیات میں نمایاں تبدیلی آ جائے تو محبت کی چنگاریوں کے َسرد پڑ جانے کا بھی احتمال ہے؛ لیکن اِس سب کے برعکس جب والدین اپنے ّبچے سے محبت کرتے ہیں تو یہ محبت مستقل اَقدار کی حامل ہوتی ہے۔
ویسے ”حیوانی ز ِندگی “ میں بھی ّبچے کے لیے شفقت بڑی نمایاں ہے اَور اُس جنسی ّمحبت سے یکسر مختلف ہے جو مثلاً َنر اَور مادہ ایک دُوسرے کے لیے محسوس کرتے ہیں ۔ اِنسانی ز ِندگی میں کنبے کی َبقا اَور َ ّمسر ت کاسارا دار و مدار اُس ّمحبت اَور شفقت میں ہے جو والدین اَور ّبچوں کے ما َبین اُستوار ہوتی ہے ۔ لیکن شاید ّبچے کی ّمحبت میں والدین کی بے پناہ مسرت کا راز احسا ِس َبقا (Sense of Immortality) میں ُ َمضمر ہے۔
ُوہ ُیوں کہ ز ِندگی کی فانی کیفیات شروع ہی سے اِنسانی غم و اَندوہ کا با ِعث رہی ہیں … ُوہ فانی کیفیات جن کے ِپیش نظر اِنسان ز ِندگی سے شدید وابستگی َپیدا کرنے سے قا ِصر رہا ہے ۔ اُس کی ز ِندگی غیر َمرئی نہیں‘ اُسے ہر لحظہ فنا ہو جانے ‘ کھو جانے ‘ حرف ِ غلط کی طرح ِمٹ جانے کا خطرہ درپیش رہتا ہے … ایسے میں ز ِندگی سے کیا َ ّمسر ت حا ِصل ہو سکتی ہے ! لیکن اِس غم سے نجات د ِلانے میں اُس ّمحبت اَور شفقت نے ضرور ِ ّحصہ لیا ہے جو وہ اَپنے ّبچوں کے لیے ُمحسوس کرتا ہے اَور جس کے با ِعث اُسے اِس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ُوہ فانی نہیں ‘ وہ بہتی ُہوئی شاداں و فرحاں ز ِندگی کی ایک َموج ہے … وہ اُس تسلسل کا ِ ّحصہ ہے جو اَزل سے اَبد تک جاری رہتاہے‘ جسے کبھی فنا نہیں اَور جس سے ز ِندگی کی ساری رعنائیاں عبارت ہیں۔
چنانچہ اَیسا اِنسان خود کو کائنات کا ایک ضروری ُجزو سمجھتے ہوئے‘ اُس کی لازوال مسرتوں کا رس نچوڑ لیتا ہے اَور اُسے اِس بات کا خیال بھی نہیں آتا کہ کسی روز اُس کا یہ جسم فنا ہو جائے گا‘ اَور خیال بھی کیونکر آئے جب ُوہ جانتا ہے کہ ُوہ اُن لوگوں سے شدید طور پر وابستہ ہے جو اُس کی اپنی تخلیق ہیں اَورجو ز ِندگی کے اِس تسلسل کی ڈور کو کبھی ٹوٹنے نہیں دیں �

Chapters / Baab of Musarrat Ki Talash By Wazir Agha