Episode 6 - Musarrat Ki Talash By Wazir Agha

قسط نمبر 6 - مسرت کی تلاش - وزیر آغا

مسرت اَور فلسفہ ۲ اگر آپ غور کریں تو فلسفے کے تین۳ پہلو آپ کو نمایاں َطور پر نظر آئیں گے۔ ایک ُوہ کہ جہاں اَمرو نہی اَور عمل و اخلاق کا ّتسلط ہے۔ اِس کے مبلغ ُوہ عظیم المرتبت لوگ ہیں جو جسمانی اَور ذہنی پاکیزگی کو رُوحانی تربیت کا پہلا اَور سب سے اَہم سبق قراردیتے ہیں۔ دُوسرا پہلو ُوہ ہے جہاں صرف فہم و خرد کی روشنی میں ز ِندگی اَور کائنات کا اِدراک ہوتا ہے ۔
یہ پہلو پیدائشی فلا ِسفہ کا ِ ّحصہ ہے اَور مغرب کے بیشتر فلسفی اِسی ُزمرے میں شامل ہیں۔ تیسرا پہلو ُوہ درمیانی دروازہ ہے جو رُوح اَور ما ّدے اَور عمل و تخیل کے سنگم پر واقع ہے اَورجس سے گزر کر‘ احساسی اَور ذہنی سطح پر کائنات کی لا ُمحدود وسعت کا اِدراک ممکن ہے ۔ یہ پہلو مشرق کے عارفوں اَور ویدانتیوں کی گزرگاہ ہے ۔

(جاری ہے)

فلسفے کا ا ّولیں پہلو‘ جس کااُوپر ذ ِکر ُہوا اَور جو بلند اخلاق اَور اعلیٰ اعمال کے زینے پر قدم رکھتے ہوئے آسمانی رفعتوں کی طرف پرواز کناں ہے ‘ دراصل مشرق اَور مغرب کے فلسفیانہ نظریات میں ایک ”قدر ِ مشترک“ کی حیثیت رکھتا ہے ۔

چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ مشر ق و مغرب کے قریب قریب ہر مذہب کے پیغمبر نے نفس کشی اَور اخلاقی بلندی پر زور دیا اَور ذہنی اَور جسمانی عشرتوں کو پروردگار ِ عالم تک رسائی حا ِصل کرنے کے راستے میں سنگلاخ چٹانوں کامتراد ِف جانا۔ غائر نظر سے دیکھیں تو فلسفے کے اِس پہلو پر تقدیر پرست تصو ّرات کا ّتسلط نمایاں نظر آئے گا‘ یعنی یہ خیال زیادہ اَہم ہو گا کہ یہ دُنیا فانی ہے لہٰذا اِس کی تمام تر َ ّمسرتوں اَور عشرتوں پر بھی فنا کے دُھندلکے چھائے ہوئے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ مذاہب میں ّجنت یعنی اَبدی َ ّمسرت کا تصو ّر بڑا واضح ہے ۔ مگر اَبدی َ ّمسرت کے لیے اُس ”کارزار“ سے بخیر و خوبی نکل آنا بھی ضروری ہے جو ز ِندگی کاجامہ اوڑھے اَور ہزاروں حسین و لطیف اَشیا کی ُصورت میں اِنسان کے دا ِمن د ِل کو قدم قدم پر اَپنی جانب کھینچ رہا ہے ۔ زیادہ صاف الفاظ میں فلسفے کا یہ پہلو موجودہ َ ّمسرت پر آئندہ َ ّمسرت کو ترجیح دیتا ہے اَور ز ِندگی کی عشرتوں سے ُمنہ ‘موڑنے اَور خود کو آرزوؤں اَور اُمنگوں سے چھٹکارا د ِلانے ہی کو رُوحانی ُ ُسرور اَور اَبدی َ ّمسرت کی سب سے اَہم شرط قرار دیتا ہے ۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِنسانی خواہش کے تند بہاؤ کے راستے میں (جسے شوپن ہار نے ُبھوکی خواہش کا نام دیا تھا) اِس فلسفہ ٴ حیات نے بند باندھ کر ایک طرح سے ُسوسائٹی کی بنیادوں کو مستحکم کیا اَور اخلاقی و سماجی اَقدار کو معر ِض ُوجود میں لا کر‘ اِنسان کو اَیسا مضبوط ضابطہ ٴ حیات مرحمت فرمایا جس کے بغیر شاید ہماری تہذیب کا اِرتقا آج سے کہیں پہلے رُک ُچکا ہوتا۔
لیکن اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ فلسفے کے اِس پہلو نے جب ُروز ّ مرہ ز ِندگی کے حلقے سے نکل کر‘ رُوحانی بلندی کو اَپنی منزل کا ِستارہ بنایا اَور اِس منزل تک پہنچنے کے لیے ایک طویل نفس ُکشی تجویز کی تو اِنسانی َ ّمسرت کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا اَور ز ِندگی سمٹ کر ایک تاریک سے خول میں مقید ہونے لگی۔ چنانچہ عجم میں ُصوفی اِزم کے اِرتقا اَور ہندوستان میں یوگ اَور بھگتی کی تحریک اَور مہاتما ُبدھ کے فلسفہ ٴ حیات نے ُروز ّ مرہ ز ِندگی سے اِنسان کو منحرف ہونے اَور ز ِندگی کی ایک ایسی طویل شاہراہ پر گام َزن ہونے کی ترغیب دی کہ جس کے خاتمے پر تو ِنروان کا َچراغ روشن تھا لیکن جس پر سفر کے دوران میں اُداسی اَور بے بسی کے ِسوا کچھ نہیں تھا۔
البتہ ِنروان سے ُمراد خواہش کا خاتمہ تھا اَور خواہش چونکہ آلام ومصائب کا منبع تھی‘ لہٰذا خواہش کے خاتمے پر ہی سکو ِن قلب اَور اَبدی َ ّمسرت کا حصول ممکن تھا۔ درحقیقت یہ طریق منفی َ ّمسرت کا علم بردار تھا اَور اِس پر عمل َپیرا ہونے کے لیے طویل نفس ُکشی اَور غیر فطری ز ِندگی کی ضرور ت تھی۔ فلسفے کے اِس پہلو کا ایک رنگ یہ بھی تھا کہ اِس نے طالب یعنی اِنسان کو حقیر و ذلیل قرار دیا اَور صرف مطلوب یعنی خالق کو اُن اَرفع خصوصیات کا مظہر جانا جنھیں پانے کے لیے طالب کے لیے اَز بس ضروری تھا کہ ُوہ اپنی اِنفرادیت کو یکسر تج دے اَور صرف مطلوب کی خوشنودی کو اَپنے ِپیش نظر رکھے۔
چنانچہ بیشتر اَوقات اِس فلسفہ ٴ حیات کی بدولت ُخدا کو کائنات میں ُوہی مقام حا ِصل ہو گیا جو اُس زمانے میں کسی ملک کے بادشاہ کو حا ِصل تھا‘ اَور اِنسان کا فرض یہ قرار پایا کہ ُوہ ز ِندگی کی رعنائیوں سے ُ منہ ‘موڑ کر‘ ُخدا کے آستانے تک پہنچنے کی َسعی کرے۔ اس سلسلے میں اسد المحاسبی کے یہ الفاظ قا ِبل غور ہیں: خدا نے اپنے جویا کے لیے خود اَذ ّیتی تجویز کی ہے تاکہ اُس کی رُوح تربیت پا سکے۔
لوگ اُس اِنسان کی عظمت کا اَندازہ نہیں کر سکتے جس کے ذہن میں ِسوائے پروردگار ِ عا َ لم کے دُوسرا کوئی خیال نہ ہو‘ جو ہر لحظہ آسمانی خوف کے تحت آنکھوں میں آ ُنسو بھرے‘ اِنتہائی عجز و نیاز کے ساتھ بسر اَوقات کر رہا ہو… جس کے بال بکھرے ہوئے ہوں‘ َسر میں خاک ہو‘ گریباں چاک ہو اَور جسے اِس بات کا خیال بھی نہ آئے کہ اُس کا لبا س تار تار ہے ‘ جو اکیلا ‘اجنبی اَور تنہا ہو… اِسی طرح جلال الدین رومی، ایک جگہ رقم طراز ہیں : ایک دفعہ کا ذ ِکر ہے‘ ابراہیم نے کہ تخت پر جلوہ اَفروز تھا، محل کی َچھت پر بھاری قدموں کے چلنے کی آواز سنی۔
اُس نے اُٹھ کر کھڑکی میں سے پکارا… کون ہے ‘ کون ہے ؟ سپاہیوں نے اپنی گردنیں خم کر د ِیں اَور کہا … حضور ہم ہیں اَور تلاش کر رہے ہیں۔ کیا تلاش کر رہے ہو؟… ابراہیم نے پوچھا۔ حضور‘ اُونٹ تلاش کررہے ہیں… اُنھوں نے جواب دیا۔ ابراہیم نے حیرت سے کہا …بیوقوفو! کیا کبھی کسی نے َچھت پر اُونٹ کی تلاش کی ؟ حضور! …اُنھوں نے اِطمینان سے جواب دیا… ہم تو آ پ کے ِ نقش قدم پر چل رہے ہیں ؛ آپ بھی تو تخت پر بیٹھے ُخدا کی تلاش کر رہے ہیں… ظاہر ہے کہ ُخدا کے حضور پہنچنے کا یہ طریق خود اَذ ّیتی کے خارزار سے ہو کر گزرتا ہے اَور فلسفے کے اِس پہلو کے گہرے رنگ کا غماز ہے ۔
ُبدھ اِزم اَور بھگتی کی تحریکوں میں بھی خود اَذ ّیتی کا یہ رنگ نمایاں ہے اَور یوگ کی ورزشیں بھی بڑی َحد تک اِسی طرز ِ عمل کا اِظہار ہیں۔ فلسفے کا یہ پہلو جو عام ز ِندگی میں تو اَمر ونہی اَو ر ِحسن اخلاق کے تابع ہے‘ جب رُوحانی فتوحات کی مہم پر نکلتا ہے تو اِنسان کے پاؤں میں قواعد و اخلاق کی بھاری سلا ِسل ڈال دیتا ہے ‘ اَور اِنسان سے رُوحانی عظمت کے حصول کے لیے ذہنی اَور جسمانی‘ ہر طرح کی قربانی طلب کرتا ہے ۔
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اِنسان اکثر و بیشتر راہ و ر ِسم منزل ہاکو ”منزل“ کامتراد ِف سمجھ بیٹھتا ہے اَور محض ُزہد و اِ ّتقا کو زندگی کا آخری مرکز اَور ُخدا تک رسائی کا وا ِحد ذریعہ قرار دے دیتا ہے ۔ چنانچہ اصل منزل تو گم ہو جاتی ہے اَور ُزہد و پارسائی کے طفیل ایک نچلے درجے کی تمکنت اَور ُرعونت جنم لے لیتی ہے ۔ رُوحانی مسرت کے راستے میں یہ بہت بڑی رُکاوٹ ہے ۔
بات دراصل یہ ہے کہ ُ خدا تک رسائی کے لیے خود اَذ ّیتی اَور نفس ُکشی کا راستہ کافی طویل ہے اَور بہت کم لوگ اِس ”صراط ِ مستقیم“ پر سے صحیح و سالم گزر سکتے ہیں۔ ُصوفیا کرام میں رابعہ بصری‘ ایسی برگزیدہ ہستیوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے جادہ ٴ منزل کو تو کم اَہمیت دی لیکن منزل پر اَپنی نگاہیں برابر مرکوز رکھیں: خدا ! اگر میں تیری عبادت اِس لیے کروں کہ مجھے جہنم کا خوف ہو تو مجھے جہنم میں ڈال دے ؛ اَور اگر میں تیری عبادت اِس لیے کروں کہ مجھے ّجنت کی آرزو ہو تو مجھے ّجنت میں داخل نہ ہونے دے؛ لیکن میں تجھے صرف تیرے لیے چا ُہوں تو اَے ُخدا ‘اپنے ِحسن لازوال سے مجھے ہرگز محروم نہ رکھنا! پھر بھی ُخدا تک پہنچنے اَور رُوحانی ملاپ حا ِصل کرنے کا یہ راستہ‘ ایک منفی راستہ ہے اَوریہ کرم یوگ اَور بھگتی کے مشکل مقامات سے گزر کر گیان تک پہنچتا ہے: نتیجتہً ایک طویل نفس ُکشی‘ رُوحانی ُ ُسرور کے اِمکانات کو رُوبہ زوال کر دیتی ہے ۔
فلسفے کا دُوسرا پہلو‘ جس کے ترجمان مغرب کے بیشتر فلا ِسفہ ہیں اَور جس کے طفیل صرف فہم و خرد کی روشنی میں کائنات کا اِدراک ہوتا ہے‘ ایک علیٰحدہ بحث کا طالب ہے؛ اِسی لیے ہم ایک علیٰحدہ باب میں اِس پر گہری نگاہ ڈال چکے ہیں۔ یہاں ہم صرف اِس بات کا اِعادہ کرنے پر اِکتفا کریں گے کہ اِس پہلو نے الفاظ کے ”اِندرجال“ اَور ”دلیل وماورائے دلیل“ کے ُچونے گارے سے جو رنگ محل تعمیر کیا ہے‘ وہ ہمارے ذہنی تناؤ (Mental Tension) کو آ ُسودہ کرکے ہمیں َ ّمسرت ضرور بہم پہنچاتا رہا ہے … یہ مسرت اُس َ ّمسرت سے شدید مماثلت رکھتی ہے جو کسی ریاضی داں کو اُس وقت حا ِصل ہوتی ہے جب وہ ریاضی کے کسی مشکل سوال کو کافی تگ و َدو کے بعد حل کر لیتا ہے ۔
لیکن یہ َ ّمسرت شاید اُس رُوحانی َ ّمسرت کی رفعت کو نہیں پہنچتی جو فلسفے کے تیسرے پہلو یعنی د ِل و دماغ کی مشترکہ کاو ِشوں کا نتیجہ ہے اَور جو اِنسان کوخیالات و احساسات کی ایک سطح سے یک لخت‘ لاشعوری طریق سے‘ خیالات و احساسات کی ایک بلند تر سطح پر لے جا کر احسا ِس بحر آسا (Oceanic Feelings)سے ہم َکنار کر دیتی ہے ۔ آئیے‘ اَب فلسفے کے اِسی تیسرے پہلو کی طرف متو ّجہ ہوتے ہیں! ایک طرح سے دیکھا جائے تو فلسفے کا یہ پہلو جو ویدانت اَورعرفان کے اَرفع تصو ّرات کی اَساس پر اُستوار ہے‘ بعض حلقوں میں خا ّصا بدنام ہو ُچکا ہے ۔
اِن حلقوں نے اِس اَنداز ِ نظر کو فرار کا راستہ قرار دیا ہے اَور اُس حسین تجربے سے یکسر اِنکار کر دیا ہے جو عارف یا ویدانتی کی رُوحانی عظمت کا تنہا تماشائی ہے لیکن جسے ُوہ بدقسمتی سے ٹھوس حقائق کی طرح د ِکھانے سے قا ِصر ہے ۔ موجودہ زمانے میں کسی شے کا ُوجود اُس وقت تک مانا نہیں جاتا جب تک کہ اُسے ّ حسیات یا سائنسی آلات سے ثابت نہیں کیا جاتا … اِسی لیے یہ لوگ عارف یا ویدانتی کے رُوحانی تجربے کو ایک افیونی کے خواب سے زیادہ اَہمیت نہیں دیتے اَور اِس سے حا ِصل شدہ گہری َ ّمسرت کو اِنفرادی اَور اِجتماعی دونوں لحاظ سے بیکار بلکہ مضر قرار دیتے ہیں۔
لیکن ُوہ شاید اِس بات کو نظر اَنداز کر جاتے ہیں کہ ہماری ّحسیات نہ صرف کمزور ہیں بلکہ اِن کی تعداد بھی بہت ُمحدود ہے اَور جہاں تک سائنسی آلات کاتعلق ہے‘ ہم ابھی تک ایک بحر ِ ذ ّخار کے ِکنارے پر کھڑے، کھلونوں سے کھیل رہے ہیں۔ اگر ہمیں کسی طرح ایک مزید ِحس عنایت ہوجائے تو شاید ہمیں یہ کائنات ایک نئے رُوپ میں نظر آئے۔ اِسی طرح‘ ہو سکتا ہے کہ کل کو ایک اَیسا سائنسی آلہ اِیجاد ہوجائے جو ز ِندگی کے متعلق ہمیں نئے نئے اِنکشافات بہم پہنچائے اَور ہم کائنات کی لا ُمحدودیت کا نئے طریق سے اِدراک کرنے میں کامیاب ہو جائیں … کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آسمان کے نیچے اَور زمین کے اُوپر ابھی بہت سی ایسی چیزیں (Phenomenae)بھی ہیں جنھیں ہماری آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں اَورہمارے کان ُسن نہیں سکتے لیکن ہمارے د ِل و دماغ کی عظیم قو ّتوں کو جن کے ُوجود کا احساس ہے… عارف یا ویدانتی کا رُوحانی تجربہ بھی ہمارے دل و دماغ کی اِنھِیں قو ّتوں کا ایک کرشمہ ہے اَور اِس کامزہ ُوہی شخص چکھ سکتا ہے جس نے خود اِن مناز ِل تک رسائی حا ِصل کی ہو۔
اِس رُوحانی تجربے کی گہرائیوں تک اُترنے اَور اِس سے بے اَندازہ َ ّمسرت حا ِصل کرنے کے لیے ویدانت کے فلسفے کی روشنی میں‘ کائنات کی لا ُمحدودیت کا علم حا ِصل کرنے اَور اُس لا ُمحدودیت کو ُمحسوس کرنے کی اَشد ضرورت ہے ۔ اُپنشد میں ویدانت کے نظریے کو ایک کہانی کے رُوپ میں اِس طرح پیش کیا گیا ہے: جب سوتیکا بارہ۱۲ برس کا ُہوا تو اُسے ایک عا ِلم کے پاس بھیج دیا گیا جہاں ُوہ چوبیس۲۴ برس کی ُعمر تک ٹھہرا۔
تمام وید‘ دُنیا کے تمام علوم‘ اُس نے وہیں حا ِصل کیے ۔ جب ُوہ واپس َلوٹا تو باپ نے پوچھا: سوتیکا… میرے بچے! تو نے اِتنے علوم حا ِصل کیے‘ کیا تو نے وہ علم بھی پڑھا جس کے طفیل ہم ُوہ سن سکیں جو ُسنا نہیں جا سکتا‘ وہ دیکھ سکیں جودیکھا نہیں جا سکتا اَور ُوہ جان سکیں جو جانا نہیں جا سکتا؟ وہ علم کیا ہے پتا جی!… سوتیکا نے حیرت سے پوچھا۔
باپ بولا …اُس سامنے والے درخت کا ایک پکا ُہوا پھل لے آ! لیجیے! اِسے کاٹ دے! کاٹ لیا۔ تجھے کیا نظر آیا؟ کچھ بیج۔ اِن میں سے ایک بیج کو کاٹ دے! کاٹ لیا۔ اِس میں کیا نظر آیا؟ کچھ بھی نہیں۔ باپ نے کہا …بیٹا‘ یہی تو تیری غلطی ہے ! تجھے ُوہ ُگودا کیوں نظر نہیں آیا جس میں درخت کا سارا ُوجود سمایا ُہوا ہے ؛ ُوہ جو ساری حقیقت کا ِعطر ہے… ُوہی تو ّسچائی ہے ؛ ُوہی تو حقیقت ہے ! اَور سوتیکا‘ میرے ّبچے ‘وہ ُتو ہے … تت توام آسی! وہ ُتو ہے (That Thou Art)‘ویدانت اَور عارفانہ تصو ّرات کا پہلا سبق ہے۔
اِس سے ُمراد یہ ہے کہ وسیع و بے َکنار‘ لا ُمحدود و لازوال کائنات ‘جو آغاز و انجام سے بے نیاز اَور زماں ومکاں سے ماورا ہے … فقط ُتو ہے لیکن ” ُتو“ سے ُمراد ایک فرد کا ُمحدود جسم نہیں… ” ُتو“ ُوہ زبان ہے جس سے کائنات کی لا ُمحدودوسعت اپنا اِظہار کرتی ہے ۔ مگر ”وہ ُتو ہے“ صرف خطابت کے لیے ویدانت میں مستعمل ہے‘ ورنہ ایک ہی قدم اُٹھانے پر یہ فقرہ حیرت انگیز ُسرعت کے ساتھ ”وہ َمیں ہوں“ (آہم برہم) میں تبدیل ہو جاتاہے اَور کائنات کی زبان سے نکلی ُہوئی آواز بن جاتا ہے…یہی عارفانہ تصو ّرات اَور ویدانتی اَفکار کا ِعطر ہے : ہرگز مجھے نظر نہیں آتا وجود غیر عالم تمام ایک بدن ہے میں دیدہ ہوں اِس سلسلے میں ویدانت نے اَشیا کو اِرتقا کے تین۳ مدار ِج یعنی تموگن‘ رجوگن اَور ستوگن میں پیش کیا ہے ۔
تموگن سے ُمراد ُوہ اَشیا ہیں جو حرکت نہیں کر سکتیں‘ لیکن ُمحسوس کر سکتی ہیں: مثلاً نباتات ۔ رجوگن سے ُمراد ُوہ اَشیا ہیں جو حرکت بھی کر سکتی ہیں اَور ُمحسوس بھی کر سکتی ہیں: مثلاً چرند پرند۔ ستوگن آخری منزل ہے ؛ اِس سے ُ مراد ُوہ اَشیا ہیں جو حرکت بھی کرتی ہیں ، ُمحسوس بھی کرتی ہیں اَور سوچ بچار بھی کر سکتی ہیں: مثلا ً اِنسان ۔ گویا سوچ بچار کی صلا ّحیت ہی ایسی چیز ہے جو اِنسان کو نباتات اَور حیوانات سے ممیز کرتی ہے … دیکھا جائے تو یہی ز ِندگی کااِرتقا اَور حیات کا سب سے بڑا معجزہ ہے ۔
لیکن سوچنے کی صلا ّحیت جب قو ّت ِ احساس اَور تحرک سے لیس ہوکر نکلتی ہے تو کائنات کی اُس عظیم قو ّت کا رُوپ دھار لیتی ہے جس کے سہارے ُکل کا احساس و اِدراک ممکن ہے ۔ ز ِندگی اِرتقا کے مندرجہ بالا تینوں مدار ِج پر تو مشتمل ہے لیکن اپنا بہترین اِظہار صرف اِنسان کے ذریعے کر سکتی ہے‘اِس لیے جب اِنسان رُوحانی اَور احساسی ترقی کی آخری چوٹی پر پہنچ جاتاہے تو لامحالہ اُن اَجزا کی بھی آواز بن جاتا ہے جو ابھی تموگن اَور رجوگن کے اَدوار سے گزر رہے ہیں۔
اَور جب اِس آواز میں خود آگہی َپیدا ہوتی ہے اَور اِنسان اپنی خودی کو پہچانتا ہے تو معاً اُس کا احساس ‘ایک ُمحدود جسم سے پھیل کر‘ اُس وسیع و لا ُمحدود کائنات کا بھی اِحاطہ کر لیتا ہے جس کا ُوہ نمایاں اِظہار ہے… اَیسا کرنے سے ُوہ احسا ِس بحر آسا معر ِض ُوجود میں آتا ہے جو بیشتر جسمانی و ذہنی َ ّمسرتوں سے اَرفع اَور لطیف ہے اَور جسے ویدانتی ایک حسین تجربے یعنی ُخدا کے ساتھ و ِصال کے َ ّمسرت آفریں لمحے سے یاد کرتے ہیں اَور جو اُن کے بقول‘ اِنسانی ز ِندگی کی سب سے بڑی جیت ہے ۔
یہ خود آگہی‘ ایک طویل ذہنی اَور رُوحانی تربیت ہی سے َپیدا ہو سکتی ہے ۔ ِعشق حقیقی کے تدریجی اِرتقا کو جہاں خالص علمی نقطہ ٴ نظر سے شرون (علم الیقین)‘ منن(عین ُ الیقین) اَور ندھیا سن (حق ُ الیقین ) کے مختلف مدار ِج سے ظاہر کیا گیا ہے‘ وہاں اِس کے جذباتی ّمدوجزر کو بھی تین۳ مختلف مناز ِل یعنی ودیک ‘ ویراگ اَور مموکشتا تفویض کی گئی ہیں۔
ودیک سے ُمراد َست کو اَ َست سے‘ فانی کو غیر فانی سے اَور سچ کو جھوٹ سے ممیز کرنا ہے ۔ دُوسری منزل ُوہ ہے جب اِنسان پر کسی ناگہانی حاد ثے یا عزیز تریں شخص کی اچانک َموت کی وجہ سے دفعةً دُنیا کی بے ثباتی کا راز فاش ہوتا ہے تو اُس کے د ِل میں اِس دُنیا کے لواز ِم کے خلاف زبردست نفرت کا جذبہ کر َوٹیں لینے لگتا ہے اَور اُسے دُنیا جہان کی ہر شے رنگینیوں اَور لطافتوں سے محروم نظر آنے لگتی ہے ۔
یہ جذبہ اُس بیزاری‘ بدمزگی یا ویراگ کی حالت کو ظاہر کرتا ہے جو ِعشق حقیقی کی طرف ایک اَہم اِقدام ہے اَور جس کا اِشارہ پاتے ہی اِنسانی جذبات سنیاس کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں ۔ ِ عشق حقیقی کی تیسری حالت مموکشتا کا مطلب خوا ِہش نجات ہے ۔ زیست کے آلام و اَفکار سے نجات حا ِصل کرنے کی یہ خواہش ایک ایسی محیط و بسیط ہستی کو اَپنی منزل کا ِستارہ بنا لیتی ہے جو اُسے دُنیاوی خلش اَور بے رنگ و ُبو ز ِندگی کے بجائے لا اِنتہا َ ّمسرت اَور ناقا ِبل بیاں ّلذت سے ہم َکنار کر سکے ( ّلذت اَور ُصوفیانہ تصو ّرات اَز مصنف مشمولہ اَدبی دُنیا‘ جولائی ۱۹۴۷ء)۔
لیکن فلسفے کے دیگر نظریوں کے برعکس ویدانت کے مطابق یہ لا ُمحدود ہستی‘ جس کے ساتھ و ِصال بے اَندازہ رُوحانی َ ّمسرت کا ضامن ہے‘ کوئی علیٰحدہ مستقل ہستی نہیں‘ یہ فرد کی شا ِن کلی کی ایک صورت ہے۔ چنانچہ ویدانت کا سارا نظریہ ایک ہی نقطے پر رقصاں ہے ؛ یعنی شا ِن ُجزوی سے شا ِن کلی کی طرف برق رفتار پیش قدمی… تمام صاحب ِ کمال عارفوں اَورویدانتیوں نے اپنے اپنے رنگ میں اِس پیش قدمی کو ُوہ روشنی قرار دیا ہے جس نے اُنھیں ایک احسا ِس بحر آسا سے ہم َکنار کر کے اُن کی غم و اَندوہ سے بھرپور ُجزوی ز ِندگی کو ختم کر دیا اَو راُنھیں سکون و َ ّمسرت کی ُکلی ز ِندگی َعطا کر دی ۔
عارف یا ویدانتی کے مطابق ہمارے مسلسل کرب و اَلم کا با ِعث ُوہ غلط زاویہ ہے جس سے ہم زندگی اَور کائنات کو دیکھتے ہیں اَور جس کی وجہ سے عظیم و لا ُمحدود کائنات اَور اِس کی بے پناہ قو ّتوں کے مقابلے میں ہمیں اپنی ُمحدودیت‘ فنا اَور تہی دستی کا ُبری طرح احساس ہوتا ہے ۔ پس غور سے دیکھاجائے تو ہماری بیشتر ذہنی و جسمانی صعوبتوں کا با ِعث ُوہ احسا ِس کمتری و کم مائیگی ہے جو قدم قدم پر ہماری راہ میں حائل ہے اَور جو ہمیں مستقل َطور پر اِس بات کا احساس د ِلاتا ہے کہ ہم فطرت کے ہاتھوں میں محض کٹھ پتلیاں ہیں جو اَنہونی خواہشات اَور اَن دیکھے طبعی رُجحانات کے اِشاروں پر ناچتے ناچتے‘ تاریکی سے برآمد ہوتی ہیں؛ تھوڑی دیر روشنی میں ناچ د ِکھاتی ہیں اَور پھر ناچتے ناچتے تاریکی میں گم ہو کر فنا ہو جاتی ہیں۔
فنا ہو جانے کا یہ خوف‘ تہی دستی کا یہ احساس اَور کمتری و کمزوری کا یہ پہلو دراصل ہماری َ ّمسرت کا سب سے بڑ ا حریف ہے‘ اَور ویدانت کا دعویٰ ہے کہ ُوہ ہمیں ایک ہی َجست میں اِس تاریک َخول سے اُوپر اٹھا کر‘ ایک ایسے ِسنگھا ِسن پر بٹھا دیتا ہے جہاں کائنات کی اَندھی قو ّتیں ہمیں اپنی گرفت میں ُمحسوس ہوتی ہیں اَور ہم فنا اَور کمتری سے بلند ہو کر ایک عظیم و لا ُمحدود قو ّت میں نہ صرف تحلیل ہو جاتے ہیں بلکہ اُس کے ترجمان بھی بن جاتے ہیں۔
لا ُمحدودیت کا یہ علم‘ ویدانت کا نہایت نمایاں پہلو ہے … ُوہ پہلو جو ہمیں رُوحانی تجربے کی مسرتوں کی طرف گام َزن کر سکتا ہے ۔ لیکن کیسے؟ وہ اِس طرح کہ (ویدانت کے مطابق) یہ ساری کائنات جس کا اِدراک ہم اپنے حوا ِس خمسہ سے کرتے ہیں، محض مایا (سراب) ہے لیکن ہم اِس کی غیر مستقل کیفیات ومظا ِہر میں اِس درجہ محو ہو چکے ہیں کہ ہمیں ُوہ حقیقت نظر نہیں آتی جو اِن سب کے ِپس ُپشت ز ِندہ و قائم ہے؛ بعینہ جس طرح سمندر کو دیکھتے ہوئے ہمیں صرف اُن موجوں کا احساس ہوتا ہے جن کی اپنی کوئی حقیقت نہیں ‘ اَور اُس سمندر کو ہم بھول جاتے ہیں جو حقیقت ہے اَور جس سے موجیں جنم لیتی ہیں اَور جس میں آخرش تحلیل ہو جاتی ہیں۔
اِس مسئلے پر ویدانت نے ایک اَور طرح سے بھی روشنی ڈالی ہے ؛ وہ اِس طرح کہ اِنسان ہر رات خواب کے رنگ محل بناتا ہے اَور ایک فرد کے لباس میں اُس کی مختلف مناز ِل سے گزرتے ہوئے‘ خوشی اَور غم سے نبرد آزما ہوتا ہے ۔ چونکہ خواب کے َدوران میں اُسے اپنی خواب ِبیں حیثیت کا علم نہیں رہتا‘ لہٰذا وہ اِنتہائی سنجیدگی سے ہر چیز کو ٹھوس حقیقت سمجھتا ہے اَور اُسے ایک لمحے کے لیے بھی ُشبہ نہیں ہوتا کہ یہ سب خواب ہے ۔
غور سے دیکھا جائے تو خواب کے دو۲ پہلو ہوتے ہیں… نا ِظر (Subject) اَور منظور (Object) ۔ ناظر سے ُمراد ُوہ ہستی ہے جو خواب ِبیں کے ہمزاد کا رُوپ دھار کر ‘خواب کی فضا میں متحرک رہتی ہے اَور خوشی و غم سے نبرد آزما ہوتی ہے‘ اَور منظور سے ُمراد خواب کے ُوہ تمام دُوسرے عنا ِصر و مظاہر ہیں جن کا خواب کے نا ِظر کو سامنا ہوتا ہے ۔ ویدانت کے مطابق یہ کہنا غلط ہے کہ خواب کا نا ِظر ہی خواب کا خالق ہے۔
دراصل خواب کے نا ِظر اَور منظور دونوں غیر حقیقی ہیں اَور دونوں کا ُوجود محض خواب ِبیں کی رو ِشنی طبع کا ر ِہین ِ ّمنت ہے ۔ خواب ِبیں کے غم و اَندوہ کا با ِعث صرف یہ چیز ہوتی ہے کہ ُوہ وقتی َطور پر اَپنی ہستی کو فراموش کر بیٹھتا ہے اَور خود کو خواب کے نا ِظر سے ہم آہنگ کر لیتا ہے ۔ مگر جس لمحے اُسے ُمحسوس ہوتا ہے کہ ُوہ خواب دیکھ رہا ہے‘ اُسی لمحے خواب کا سارا گھروندا (جو نا ِظر و منظور پر مشتمل ہے) ‘نیچے آ ِگرتا ہے۔
اِسی طرح جاگتے کی دُنیا بھی نا ِظر و منظور پر مشتمل ہے ؛ لیکن عام َطور پر فلا ِسفہ سے غلطی یہ ُہوئی ہے کہ اُنھوں نے اِس دُنیا کے نا ِظر و منظور کو بھی حقیقی تصو ّر کر لیا ہے اَور اِس بات کو فراموش کر دیا ہے کہ خواب کے نا ِظر و منظور کی طرح‘ بیداری کے نا ِظر ومنظور بھی غیر حقیقی ہیں‘ اَور دونوں کا ُوجود اُس خواب ِبیں ‘ اُس ّسچے آتما کا مر ُہون ہے جو اگرچہ ساری کائنات کے ِپس ُپشت وا ِحد ز ِندہ حقیقت ہے لیکن جو بظاہر نا ِظر و منظور میں َبٹ کر ُمحدود ہو گیا ہے ۔
ویدانت کے مطابق فرد کے آلام و مصائب تب تک ختم نہیں ہوں گے جب تک کہ و ُہ نا ِظر و منظور دونوں سے بلند ہو کر کائنات کا جائزہ نہیں لے گا؛ اَور جب اَیسا ُہوا تو اُسے صاف ُمحسوس ہو گا کہ کائنات کی تمام اَشیا‘ تمام کیفیات اَور تمام ِکردار (حتیٰ کہ اُس کا جسم بھی )‘ اُس کی ہستی کے لا ُمحدود پھیلاؤ میں سمٹے ہوئے ہیں اَور وہ خود ہی کائنات کی ہر شے میں جلوہ گر ہے ۔
یہاں میں اپنے ایک بزرگ کی بیاض سے چند جملے رقم کرتا ُہوں: نا ِظر و منظور میرے ہی خیال کی دو۲ شاخیں ہیں۔ اپنے ہی خیال سے میں ایک طرف نا ِظر ہو کر بھاستا ُہوں۔ اپنے ہی خیال سے میں دُوسری طرف منظور ہو کر نمودار ہو رہا ُہوں۔ خیال بھی فرضی‘ من گھڑت… دونوں شانیں بھی من گھڑت‘ نیند کے با ِعث ُپرش اپنے آپ کو نا ِظر( یعنی کرتا بھوگتا جیو )مان رہا ہے… کیا معنی کہ اپنے آپ کو ایک علیٰحدہ ہستی مان رہا ہے ! نتیجہ … کثرت انیک ہستیوں کا بھان! اگر اپنے آپ کو دیاپک انے یعنی سب میں موجود دیکھے تو نتیجہ … وحدت ‘ایکتا کا بھان ! سوامی رام تیرتھ اِس اَہم نکتے کے متعلق رقم طراز ہیں: جس ایک لمحے اِنسان کو احساس ُہوا کہ ُ وہ ُکل ہے تو سمجھئے کہ اُسی لمحے ُوہ اپنی حقیقت کو پا گیا۔
اَب ُوہ آزاد ہے… تمام خطرات سے محفوظ؛ہر خوف سے بے نیاز؛ ہر رنج ‘ ہر دُکھ سے آزاد! آہ‘ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک ہی غیر ُمحدود قو ّت‘ تمام اَشکال میں اپنا رُوپ د ِکھا رہی ہے؛ تمام شخصیتوں‘ تمام ُصورتوں میں جلوہ گر ہے… میں ہی ُوہ غیر ُ محدود قو ّت ُہوں کہ جس کے تخیل نے یہ لیلا رچائی ہے ! اَشکال اَن ِ َگنت ہیں‘ رُوح ایک ہے اَور ُوہ رُوح ” َمیں“ ُہوں ۔
اینتھونی (Anthony) نے محض جذبات میں‘ بروٹس (Brutus) نے محض شان و شکوہ میں اَور سیزر (Caesar)نے محض حصو ِل مملکت میں َ ّمسرت کی تلاش کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ا ّول الذکر کو ذ ِ ّلت ملی ‘ دُوسرے کو نفرت اَور آخر الذکر کو ناشکر گزاری؛ اَور ہر ایک بغیر َ ّمسرت حا صل کیے فنا ہو گیا… … سچ ہے، محض انکشاف ِ ذات (آتم انوبھو) ہی میں َ ّمسرت کا سارا خزینہ پوشیدہ ہے ۔
اِس بات کا علم حاصل کرو کہ ِسوائے تمھارے اَور کوئی چیز موجود نہیں اَور کوئی چیز موجود َرہ ہی نہیں سکتی کیونکہ تم ہی لا ُمحدودیت کا وا ِحد اِظہار ہو ۔ اَب اپنی لا ُمحدودیت کو ُمحسوس کرو! سوامی رام تیرتھ کا ایک اَور فقرہ ہے: God is like a circle whose centre is everywhere, but circumference nowhere: realize that and you are free! لا ُمحدودیت کے علم کے ساتھ ساتھ‘ لا ُمحدودیت کا یہ احساس ہی ُوہ پہلو ہے جس نے عارفانہ تصو ّرات کو اِمتیازی صورت عطا کی ہے اَور یہی ُوہ مقام ہے جہاں جسم و رُوح اَورفہم و احساس کا حسیں اِمتزاج ممکن ہے ۔
ویدانت کے مطابق ّسچائی کی یہ دریافت‘ ّسچائی کا یہ احساس ہی ہمارے اُن تمام دُکھوں کا وا ِحد علاج ہے جو ایک ُجھوٹی َ ُنمود کے با ِعث معر ِض ُوجود میں آتے ہیں۔ اب اگر ہم پلٹ کر اَپنی تحقیقات پر ایک بھرپور نظر ڈالیں تو ہمیں ُمحسوس ہو گا کہ ّمحبت ‘ آرٹ‘ زندگی اَور فلسفے میں َ ّمسرت کے بہترین لمحات ُوہی ہوتے ہیں جب اِنسان اپنی اِنفرادی ہستی کو یکسر فراموش کر کے‘ ایک اِجتماعی کیفیت میں تحلیل ہو جاتا ہے۔
نتیجتہً ایسی ایسی حیرت انگیز چیزیں معر ِض ُوجود میں آتی ہیں جو نہ صرف اپنے خالق کے لیے باعث ِ َ ّمسرت و راحت ہوتی ہیں بلکہ اپنی شدید اِجتماعی کیفیت کے با ِعث ہزاروں لاکھوں افراد کو بھی مسرت سے ہم َکنار کر دیتی ہیں۔ مگر جونہی اِنسان خود فراموشی کی کیفیات سے ُمحدود خودی کے قفس میں پہنچتا ہے‘ یہ سارا طلسم ٹوٹنے لگتا ہے ۔ کائنات جو بذات ِ خود ایک حیرت انگیز معجزہ ہے، کسی مقصد (motive) یا مقصدی کاوِش کا نتیجہ نہیں؛ یہ بے پایاں خود فراموشی کی پیداوار ہے … ُوہی خود فراموشی کہ جس میں اَبدیت کے سارے عنا ِصر موجود ہیں اَور جس میں تحلیل ہو کر خود اِنسان بھی اَبدیت کا مظہر بن جاتا ہے ۔
عارفانہ تصو ّرات کا منتہا بھی اِنسان کو اُسی کیفیت کی اَبدی ر ِفاقت بہم پہنچاتا ہے جس کی جھلک اُسے ز ِندگی کی اِرتقائی کیفیات ( ّمحبت‘ آرٹ اَور فلسفے) میں َوقتاً َفوقتاً ملتی تھی اَور جس کا ُوجود اگرچہ لمحاتی ہوتا تھا، لیکن جس کے طفیل اِنسان کو رُوحانی ُ ُسرور کے لازوال لمحات ضرور اَرزانی ہو جاتے تھے۔ یہ بات واضح ہے کہ عارف کا یہ حسین تجربہ‘ لا ُمحدودیت کے ساتھ اَبدی و ِصال کی یہ کیفیت‘ محض اِنفرادی َ ّمسرت کی َ علم بردار نہیں‘ یہ اپنے نتائج کے طفیل عا َلم گیر اِنسانی َ ّمسرت کی کفیل بھی ہے… ُ وہ اِس طرح کہ جو د ِل ایک بار رُوحانیت کے اِس جام سے سرشار ُہوا‘ ُوہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اِنسان سے اُس شدید ّمحبت کا َعلم بردار بن گیا جسے آفاقیت کے ہمہ گیر لفظ کے ِسوا دُوسرے کسی نام سے مو ُسوم نہیں کیا جا سکتا… ایسے اِنسان کو رنگ ‘ نسل اَور ُ محدود مذہبی اَور طبقاتی َمیلانات کی ُوہ ُ ُقیود و ُ ُحدود بے معنی نظر آتی ہیں جو فرد کو فرد سے نفرت ِسکھا کر ز ِندگی سے َ ّمسرت کی آخری رمق بھی چھین لینے کے درپے ہیں اَور جنھوں نے کچھ عرصے سے اِنسان کی ُپرکیف کائنات کو بے برگ و بار کر دیا ہے ۔

Chapters / Baab of Musarrat Ki Talash By Wazir Agha