Episode 4 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 4 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

آزادی کے بعد
پاکستان میں میڈیا کے آزاد ہوتے ہی بہت سے پرائیویٹ چینلز کھل گئے۔ پرائیویٹ نیوز چینلز کے کھلتے ہی ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہر پاکستانی باخبر ہوتا مگر معاملہ کچھ اور ہوا ہر پاکستانی باخبر ہونے کی بجائے خوفزدہ ہو کر بے خبر رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ کسی بہت گھٹے ہوئے بے جا سختی کے ماحول سے جب کسی کو آزادی ملتی ہے تو اس آزادی کا اس خاندان کی لڑکیاں صحیح استعمال نہ جان کر مسائل میں پھنس جاتی ہیں اسی طرح ہمارے آزاد نیوز چینلز نے آزادی ملتے ہی اس کا استعمال کچھ اس انداز سے کیا کہ عوام باخبر ہونے کی بجائے خود ایک خبر بن گئے اور ان کے مسائل بھی جوں کے توں رہے۔
خواتین کو Empower کرنے کیلئے ایک ایسی ہوا چلی کہ ہر شعبے میں ہر جگہ خواتین ہی خواتین نظر آنے لگیں اسی طرح ان نیوز چینلز کے Talk shows کی میزبانی بھی خواتین کے سپرد کر دی گئی چونکہ یہ آزاد خاتون کی نمائندہ کے طور پر میزبانی کے فرائض انجام دے رہیں تھیں۔

(جاری ہے)

تو چینلز کی پالیسی یہ نظر آئی کہ میزبان خواتین کو مغربی طرز کے لباس میں پیش کیا جائے تاکہ وہ صحیح معنوں میں Empowered خاتون جو کہ مغرب کی ہے کا تاثر پیش کر سکے۔

 لہٰذا اس وقت جو بھی میزبان خواتین تھیں سب نے فٹنگ والے مغربی انداز کے لباس پہننے شروع کر دیئے کسی پر وہ لباس سج رہے ہیں یا نہیں۔ کسی کی شخصیت اس طرح کے لباس کے ساتھ موزوں لگتی ہے یا نہیں کسی نے نہ سوچا۔ تمام پلی پلائی پہلوان انداز کی خواتین کو کالرز  شرٹس اور کوٹ وغیرہ پہنا دیئے گئے۔ ہر چینل نے اس کو جدت اور کامیابی کی علامت سمجھا۔
یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ ان بیچاری خواتین کا جسم پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ میرے اوپر یہ ظلم نہ کرو۔ شکل دیسی، جسامت دیسی، انداز دیسی، مگر لباس ولایتی بالکل اس طرح لگتا ہے جیسے حافظ سوہن حلوے پر چاکلیٹ کا wraper چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہو۔
لباس کی تبدیلی کے بعد انداز کی تبدیلی کی باری آئی۔ انداز کا بے باک ہونا ضروری سمجھا گیا تاکہShow میں بلائے گئے مہمانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔
ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے ہر چینل دوسرے سے زیادہ مصالحہ دار پروگرام پیش کرنے لگا اور اس میں سارا انحصار Host پر ہوتا۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ عورت مغربی انداز میں کیسے پروگرام کرے کہ دیسی ہونے کا گمان نہ گزرے۔ جو سٹائل پیش کئے گئے ان میں تیز تیز بولنا  اونچی ٹون میں بولنا وغیرہ شامل تھا۔ ہاتھ اور بازو کا استعمال بہت زیادہ کیا جانے لگا۔
ان تمام تیاریوں کے بعد جو پروگرام پیش کئے جاتے ہیں ان کا منظر کچھ ایسا ہوتا ہے۔ ایک ایشیائی عورت  دیسی خدوخال کی حامل  لمبے کھلے بال جنہیں اچھی طرح استری کیا گیا ہو بکھرے ہوئے میزبان کے شانوں پر بکھیرے  مردانہ شرٹ  فٹنگ اور کالر والی (لگتا ہے جلدی میں گھر کے مردوں کے ہی کپڑے پہن آئی) پہنے کوٹ کے بٹن کھولے  آستین چڑھا کر میز پر جھکی تیز تیز بولنا شروع کرتی ہے۔
سارے مہمانوں کا تعارف کروانے تک ماحول کچھ ٹھیک ہوتا ہے اس کے بعد بحث شروع ہوتی ہے۔ بحث پر اختیار صرف موزوں بتانے اور پہلے مہمان کو دعوت کلام دینے تک ہی ہوتا ہے اس کے بعد تو مہمان جانیں اور عوام جانے والا حال ہوتا ہے۔
 میزبان کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ ماحول گرم رہے۔ کہیں کسی بات پر مہمان متفق نہ ہو جائیں کیونکہ اگر وہ متفق ہو گئے تو باقی پروگرام  کیا سب کی خیریت دریافت کرکے وقت پورا کریں گے۔
اب اس پروگرام کو، گفتگو کو اور ماحول کو گرم رکھنے کے بھی کچھ راز ہیں۔ یہ تمام تکنیک میزبان کو سکھائی جاتی ہے۔ جہاں میزبان کی اس تکنیک پر گرفت کمزور پڑتی ہے وہاں پروگرام کا پیش کرنے والا (ڈائریکٹر) میزبان کے کان میں کہتا ہے۔ کام ٹھنڈا پڑ گیا ہے لڑائی کرواؤ Rating گر رہی ہے۔ اس مرحلے پر عوام معصوم یہ سمجھتی ہے کہ یہ سب ہمارے درد میں پریشان ہو کر لڑ رہے ہیں اور میزبان کے کان میں لگا آلہ صرف Break پر جانے کیلئے پیغام موصول کرتا ہے حالانکہ ایسا نہیں یہ آلہ عوام کو تڑپانے کا پیغام بھی موصول کرتا ہے ورنہ Break پر تو وہ بغیر بتائے بھی جا سکتے ہیں کیونکہ وہ پیسے کمانے کیلئے Break پر جاتے ہیں۔
ماحول گرم رکھنے کیلئے میزبان خاتون جی تو فلاں صاحب فلاں کے نمائندے نے یہ کہا کیا یہ آپ مانتے ہیں؟ نقطہ یہ اٹھتا ہے کہ فلاں فلاں اس میں ملوث ہے جی آپ کیا کہیں گے؟ ایک ہی طرح کے فقرے بولتے ہوئے مہمانوں سے اس قدر تیزی سے تبادلہ خیال کر رہی ہوتی ہے کہ ایک مہمان کی بات ختم نہیں ہوئی ہوتی مگر اس بچارے نے جو کہا ہوتا ہے اس کی تصدیق وہ دوسرے سے کرانے لگتی ہے۔
 
کئی مہمان اکٹھے بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ آستین تو میزبان خاتون نے پہلے ہی چڑھائی ہوتی ہیں۔ بس تیز تیز ہاتھ اور بازو چلانے ہوتے ہیں جیسے ٹریفک کانسٹیبل ٹریفک کو روکنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے ہی میزبان خاتون کسی کو بولنے سے منع کر رہی ہوتی ہے اپنے بازو سے  کسی کو بولنے کیلئے کہہ رہی ہوتی ہے، کسی کو انتظار کرنے پر راضی کرتی ہے۔
اچانک تیزی سے گھوم کر ابھی آپ سے رائے لیتے ہیں وغیرہ کسی مہمان کو کہہ رہی ہوتی ہے۔ تمام مہمان اور میزبان اپنے اپنے انداز سے مصروف عمل ہوتے ہیں۔ میزبان خاتون کئی میل پر منٹ کی رفتار سے بولتی ہے۔ جتنے زیادہ الفاظ وہ جتنے کم وقت میں جتنی تیزی سے بولتی ہے اتنی ہی کامیاب میزبان سمجھی جاتی ہے۔ لگتا ہے خاتون نے پٹرول پی کر شو کا آغاز کیا تھا اور اب یہ اسی وقت چپ ہونگی جب اس پٹرول کا اثر ختم ہوگا۔
مگر اس سارے ہنگامے میں Break لی جانی ہوتی ہے کیونکہ جس قدر جلالی ماحول میں Break لی جائے گی اتنا ہی مہنگا اور نفع بخش Break ہوگا اور عوام کو اتنا ہی دکھ ہوگا Break پر جانے کا اور اتنا ہی عوام کی دلچسپی بڑھے گی Break کے بعد کا پروگرام دیکھنے میں۔ بہرحال اس سارے ماحول میں میزبان کچھ اس انداز اور سبک رفتاری سے Break لیتی ہے کہ لگتا ہے اس (میزبان خاتون) کو راکٹ پر بیٹھ کر Break پر جانا ہے اگر اسے چند لمحوں کی تاخیر ہو گئی تو کوئی اور اس راکٹ میں بیٹھ کر دوسری دنیا کی سیر کر آئے گا۔
بریک سے واپس آنے کے بعد ناظرین سے کہتی ہے چلتے ہیں اپنے مہمانوں کی جانب اور گفتگو وہیں سے دوبارہ شروع کرتے ہیں اس کے بعد میزبان خاتون اس قدر تیزی سے گردن کو جھٹکا دے کر دوسری طرف موڑتی ہیں کہ ان کی گردن کے مہرے ایک بار پھر اپنے سلامت بچ جانے پر شکر ادا کرتے ہیں۔ 
میزبان کے گردن کے مہروں کو دوبارہ نئی زندگی ملتی ہے اور مہمانوں کو دوبارہ موقع ملتا ہے پھر سے میدان میں اترنے کا۔
گفتگو کرتے کرتے پھر ماحول آگ پکڑ لیتا ہے۔ میزبان خاتون حتیٰ الوسع کوشش کرتی ہے کہ یہ گرمی برقرار ہے مگر ظاہری طور پر وہ تاثر دیتی ہے کہ وہ ایک انتہائی متوازن، مدلل اور تہذیب یافتہ پروگرام پیش کرنا چاہتی ہیں۔ اسی لئے کبھی کبھی وہ اچانک سے ہاتھ کے اشارے سے (پورے ہاتھ کا پنجہ اسی طرح فیصلہ کن انداز میں کسی ایک مہمان کو دکھا کر بس کرنے یا رک جانے کیلئے کہتی ہے) مہمان کے جذبات و کلام کے سیلاب کو رک جانے کا نوٹس اس قدر ایمرجنسی میں دیتی ہے جیسے اگر اب تاخیر ہو گئی تو سب کچھ بہہ جائے اور جیسے اس کے اشارے سے واقعی جذبات و کلام کی طغیانی رک جائے گی۔
 اس تمام صورتحال میں وہ (میزبان خاتون) وقتاً فوقتاً کاغذ پر کچھ لکھتی ہے۔ کبھی کانوں میں لگی ہوئی Ear device ہل جاتی ہے جسے بار بار ٹھیک کرنا پڑتا ہے۔ کبھی اپنے بالوں کو کانوں کے پیچھے کرتی ہے کیونکہ اس قدر طوفانی ماحول میں بالوں اور خیالات کو قابو میں رکھنا خاصا ذہانت اور سٹائل کا کام ہے۔ کبھی وہ مہمان کو روک پاتی ہے کبھی نہیں۔
پھر اچانک وہ گردن گھما کر (اپنی گردن کی سلامتی کو ایک بار پھر خطرے میں ڈال کر) ٹیلی فون پر لئے گئے مہمان سے گفتگو کرتی ہے۔ اس سے سوال کرکے اسے بولنے کا موقع دیتی ہے۔
 اگر تو مہمان اپنا نقطہ نظر رکھتا ہے تو سکون سے بات کرتا ہے اگر وہ پہلے سے جاری گفتگو سے اختلاف کرتا ہے اور اس ساری گزشتہ بحث کا دو ٹوک جواب دینا چاہتا ہے تو پھر وہ بھی تمام اداب و لحاظ کو بھول کر اکھاڑے میں اتر جاتا ہے۔
وہ بھی آخری موقع سمجھ کر بول رہا ہوتا ہے۔ سٹوڈیو میں موجود مہمان بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتے سب کے سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہوتے ہیں کہ اچانک مہمانوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر اپنے بال و گردن سنبھالتے ہوئے میزبان خاتون کیمرہ بدل کر ناظرین سے مخاطب ہوتی ہے اور پروگرام کے وقت کے ختم ہونے کی نوید سناتی ہے اور سکرین کی ایک سائیڈ پروگرام کا نام میزبان کا نام  پروڈیوسر کا نام وغیرہ وغیرہ آنے لگتے ہیں۔
اس طرح یہ پروگرام بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو جاتا ہے۔
 ناظرین میں سے کسی کا بلڈپریشر ہائی ہو جاتا ہے۔ کسی کا موڈ خراب ہو جاتا ہے۔ کسی کو ڈپریشن ہو جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے اس ملک کا کیا بنے گا۔ کوئی کہتا آج تو حد ہی ہو گئی مگر چینل والوں کو پتہ لگتا ہے کہ اس پروگرام کی Rating بہت ہائی گئی ہے۔ میزبان کی کامیابی کا سکہ بیٹھ جاتا ہے اور وہ اگلے پروگرام کیلئے مزید جوش و جذبے سے تیاری شروع کر دیتی ہے۔ اس تیاری میں سب سے پہلا کام وہ اپنی گردن پر مساج کرکے اور Neck exercsie کرکے کرتی ہے تاکہ یہ گردن اگلے پروگرام کے جھٹکے برداشت کر سکے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan