Episode 7 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 7 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

”نام“ کون رکھے گا
پیدا ہونے کے بعد بچہ جس چیز کیلئے دوسروں پر سب سے زیادہ Dependent ہوتا ہے وہ اس کا ”نام“ ہے۔ کوئی بھی بچہ اپنا نام خود نہیں رکھ سکتا۔ یہ وہ چیز ہے جو ہر بچے نے ہمیشہ دوسروں سے لی۔ بھوک لگے تو رو کر بچہ دودھ تو مانگ سکتا ہے مگر نام نہیں۔ جیسا ملے (نام) اسی پر تمام عمر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ چاہے پسند ہو یا نہ ہو۔
مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ نام رکھے کون؟ بعض اوقات یہ معاملہ بہت آسانی سے طے پا جاتا ہے جبکہ بعض اوقات بہت ساری طاقتیں مل کر بھی اس معاملے کو حل نہیں کر پاتی اور بچے کا نام کئی بار تبدیل کیا جاتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ نام رکھنے کا اختیار کس کے پاس ہے۔ دوسری بات یہ کہ بچے کے والدین کا گھر میں کیا مقام ہے یعنی خاندان میں بچے کے والدین اپنے بہن بھائیوں میں کس نمبر پر آتے ہیں ان کی خاندان میں کیا حیثیت ہے۔

(جاری ہے)

خاندان کے پہلے جوڑے کے بچے کا نام رکھنا ہے یا آخری جوڑے کے (بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے نمبر پر آنے والے) کے بچے کا۔ تیسری بات جو کہ اہم ہے وہ ہے بچے کا اپنے بہن بھائیوں میں نمبر کیا ہے یعنی پہلا ہے آخری ہے یا درمیان میں ہے۔

سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ نام رکھنے کا اختیار کس کے پاس ہے۔ مختلف صورتوں میں یہ اختیار مختلف Authorities کے پاس ہوتا ہے۔
پہلی Authority بچے کے والدین ہیں۔ Ideal صورتحال یہ ہے کہ والدین نے مشترکہ پسند سے نام سوچ رکھا ہوتا ہے کیونکہ اس کام کیلئے ان کے پاس کئی ماہ کا وقت ہوتا ہے اگر بیٹی ہوئی تو یہ نام رکھیں گے۔ اگر بیٹا ہوا تو یہ نام رکھیں گے۔
اس صورت میں سب راضی خوشی اس فریضہ سے سبکدوش ہوتے ہیں۔
کچھ Cases میں ایسا ہوتا ہے کہ والدین میں سے کسی ایک کو کوئی نام بہت شدت سے پسند ہوتا ہے اور اس کی ہمیشہ سے یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کا فلاں فلاں نام رکھے۔ اگر وہ اس معاملے میں سپر پاور کا درجہ رکھتا ہو اور اپوزیشن کمزور ہو (یعنی شریک حیات) یا Friendly opposition ہو تو بلاتاخیر بچے کا نام رکھ دیا جاتا ہے۔
اگر خوش قسمتی سے شریک حیات اس پسند پر راضی ہو تو بھی خواہش پوری ہو جاتی ہے۔ اگر شریک حیات کلی طور پر رد کرے دے تو خواہش سینے میں دفن کر دی جاتی ہے۔
اگر بچے کے والدین میں ہی اتفاق رائے مشکل ہو تو صورتحال مختلف ہوتی ہے۔ جہاں جس کا جتنا زور چلتا ہے چلا لیتا ہے۔ کوئی ایک پارٹی (والدین میں سے کوئی ایک) ایک مرتبہ Withdraw کرتی ہے  دوسری مرتبہ Withdraw کرتی ہے  مگر تیسری مرتبہ اعلان بغاوت کر دیتی ہے۔
اگر مرد Dictator ہو تو عورت کو خاموشی سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔ وہ ایک مرتبہ خاموش رہتی ہے۔ دوسری مرتبہ کوشش کرتی ہے اپنی منوانے کی شنوائی نہیں ہوتی۔ تیسری یا چوتھی مرتبہ جب اس کا صبر ختم ہو جاتا ہے تو وہ خود سارا اختیار لے لیتی ہے۔ مثلاً بچے کو ویکسنیشن کیلئے لے کر گئی اور اپنی مرضی کا نام لکھوا دیا اور کہا کہ بس اب یہی نام ہے۔
اگر عورت Dictator ہو تو وہ خود نام رکھ لیتی ہے۔
مرد کو انفارم کر دیتی ہے۔ مرد اعتراض نہیں کرتا کہ چلو اس کا حق ہے اس نے اتنی تکلیف اٹھائی ہے نام بھی اسی کی پسند کا ہونا چاہیے۔ دوسری مرتبہ بھی جب ایسا ہوتا ہے تو خاوند برداشت نہیں کرتا اعتراض کرتا ہے مگر عورت کو کہاں کسی کی ماننے کی عادت۔ وہ یہ حق دینے کو کہاں تیار اور وہ یہ حل پیش کرتی ہے کہ ٹھیک ہے آپ بھی اپنی پسند کے نام کی پرچیاں ڈالیں اور میں بھی ڈالتی ہوں اور پہلے یعنی بڑے بچے سے پرچی اٹھوا لیتے ہیں جو بھی نام ہوگا (پرچی پر لکھا ہوا) وہی دونوں کو بخوشی منظور کرنا پڑے گا۔
خاوند بچارے کو مکمل انکار کے سامنے پرچیوں والا Option پھر بھی درمیانی راستہ لگتا ہے اور وہ اس طریقے پر صبر کر لیتا ہے۔ اپنی مرضی اور انا کو دبا لیتا ہے۔ مگر جب تیسرا بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی انا اسے شیر بنا دیتی ہے اور وہ یہ سوچتا ہے کہ آخر یہ بچے میرے بھی ہیں تو میں ان کے نام کیوں نہیں رکھ سکتا۔ وہ جوش مردانگی میں مکمل طور پر آزادی سے بغیر کسی سے مشورہ کئے بچے کا نام خود رکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس نے ٹھیک کیا۔
کیونکہ یہ بچے عورت جہیز میں تو نہ لائی تھی کہ سارے اختیارات ہمیشہ اسے ہی دیئے جائیں۔ اس طرح تیسری مرتبہ اس نے عورت کی ایک نہ سنی بلکہ اسے سنائی بس پھر کیا تھا یہ تیسرا بچہ آخری بچہ ثابت ہوا۔
یہ سب وہ خاندان تھے جہاں والدین واقعی کلی طور پر خود مختار ہوتے ہیں۔ وہ کوئی بھی نام رکھ لیں تو اعتراض کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ مگر بعض جگہوں پر والدین کلی طور پر خود مختار نہیں ہوتے یا جزوی طور پر خود مختار ہوتے ہوئے وہ کیسے مکمل خود مختاری کے مزے لوٹتے ہیں اور کسی پر ظاہر بھی نہیں ہونے دیتے۔
یہ بھی بہت بڑا فن ہے دیکھتے ہیں یہ ڈرامہ کیسے کھیلا جاتا ہے۔
بچہ پیدا ہونے کے بعد والدین سب سے اچھے اچھے نام بتانے کو کہتے ہیں۔ ننھیال و ددھیال سب جگہ جوش و خروش سے نام ڈھونڈنے جا رہے ہوتے ہیں دوستوں  ساتھیوں سے پوچھا جاتا ہے۔ Inter net سے مدد لی جاتی ہے۔ کتابیں خریدی جاتی ہیں۔ جو بھی اس کام میں سستی دکھائے یا عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرے بچے کے والدین اس سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں جیسے وہ انہی کے بتائے گئے نام کے منتظر ہوں۔
 بحرحال ہر سطح پر لسٹیں تیار ہوتی ہیں بچے کے والدین جو واحد کام کر رہے ہوتے ہیں وہ مسلسل سب کا morale ہائی رکھنے کا کر رہے ہوتے ہیں اور ایسی کمال supervision کرتے ہیں کہ سب کے سب بخوشی یا مجبوراً انتہائی تندھی سے لسٹیں تیار کرتے ہیں۔ اتنے خشوع و خضوع سے تو ووٹر لسٹیں بھی تیار نہیں ہوتیں جس قدر خشوع و خضوع سے ناموں کی فہرستیں بنتی ہیں کیونکہ ماں باپ کی مسلسل Motivation جو کردار یہاں ادا کرتی ہے ایسا کوئی strong stimulus ووٹرز لسٹوں میں نہیں ہوتا۔
آخر کار جب یہ فہرستیں ماں باپ کو پیش کی جاتی ہیں تو وہ اس سطح پر بھی نمبر بنانے اور دوسروں کو خوش کرنے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ وہ تمام ناموں کی خوش دلی سے تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کو (فہرست دینے والوں کو) ان میں سے سب سے زیادہ کون سے نام پسند ہیں۔ یعنی Short listing بھی انہی کی مرضی سے کی جاتی ہے۔ اب آتا ہے اصل مرحلہ Short list کئے گئے چند ناموں سے سب کے ساتھ (سب ناموں کے ساتھ) دو، دو ہاتھ کرنے کا۔
یہ کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ کسی بھی نام کو کوئی بھی نقص نکال کر با آسانی رد کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً اس نام کا مطلب اچھا نہیں۔
یہ نام پکارنا مشکل ہے۔
اس نام کے بگڑ جانے کا خطرہ ہے۔
یہ نام کوئی پورا نہیں بلائے گا آدھے نام سے گناہ ملے گا۔
اس نام کے رکھنے سے سب صرف فلاں نک Name سے پکاریں گے اور اصل نام کوئی بھی نہ لے گا۔
یہ نام اسلامی نہیں۔ نام غیر اسلامی ہو تو کہتے ہیں اسلامی نہیں  نام اسلامی ہو تو دس اور طرح کے مسائل پیدا کر دیتے ہیں کوئی نام بھاری لگتا ہے کوئی ہلکا۔
کوئی بڑا ہوتا ہے تو چھوٹا چاہیے ہوتا ہے۔ چھوٹا ہو تو ”حلق میں اٹکتا ہے“ کہہ کر ٹھکرا دیا جاتا ہے۔بحرحال جان چھڑانے کے ہزار طریقے سینکڑوں راستے۔ والدین کمال ہوشیاری سے ان سب راستوں اور طریقوں کو استعمال کرتے ہیں۔
والدین اپنی مرضی سے سوچا ہوا نام رکھ لیتے ہیں۔ ننھیال والے اور ددھیال والے نام ڈھونڈنے اور بتانے کی کوششوں میں ہی اس قدر تھک چکے ہوتے ہیں کہ بعد میں رکھا گیا نام کوئی بھی ہو وہ اعتراض کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔
یہ وہ صورت تھی جہاں والدین نے مل کر سب کو بے وقوف بنا لیا مگر کچھ جگہوں پر گھی اتنی سیدھی انگلی سے نہیں نکلتا وہاں ماں باپ اپنی پسند کا نام رکھ لیتے ہیں اور لڑکا اپنے گھر والوں سے کہہ دیتا ہے کہ بچے کی ماں نے نام رکھا ہے اسے پسند تھا میں اس کی بات تو نہ ٹال سکتا تھا۔
لڑکی اپنے گھر والوں سے کہتی ہے کہ باپ کو یہ نام پسند تھا میں تو مجبور تھی۔
دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ بچے کے والدین میں سے کوئی ایک طاقتور پوزیشن میں ہوتا ہے اپنی منوانا چاہتا ہے جبکہ زمانے میں یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں ہمارے درمیان بہت انڈرسٹینڈنگ (Under standing)ہے تو ایسی صورت میں طاقتور پارٹی اپنی پسند کا نام رکھ لیتی ہے اور کمزور پارٹی اس کا سہرا اپنے سر باندھتی ہے کہ یہ کام میں نے کیا ہے۔
 اکثر عورت اپنی من مانی کرتی ہے شوہر کہتا ہے کہ یہ نام میں نے رکھا ہے۔ لڑکے کے گھر والوں کو (جو کہ سب سے زیادہ اعتراض کر رہے ہوتے ہیں یا جنہیں خاموش کروانا اور جس کے آگے بہو کے نمبر بنانا سسرال میں ضروری ہوتا ہے) لڑکا خود سارا الزام اپنے سر لے کر خوش کرتا ہے۔ وہ اپنی بے عزتی کی زرہ بیوی کی عزت پر چڑھا کر بیوی کو خوش کرتا ہے اور اپنے گھر والوں کو اپنی بیوی سے ناراض ہونے سے بچاتا ہے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan