Episode 10 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 10 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

دلوں کی آواز
پرائیویٹ تفریحی چینلز کے آنے سے پرائیویٹ ڈرامہ پروڈکشن بہت زیادہ ہونے لگی۔ کیونکہ مارکیٹ میں Demand بہت زیادہ تھی اس لئے لوگوں نے اپنی پروڈکشن کمپنیاں اور پروڈکشن Houses بنا لئے۔
اسی اثناء میں ایک پروڈکشن کمپنی ایسی بھی بنی جس کا نام انگریزی حروف تہجی کے پہلے حروف پر مشتمل ہے۔ اس کمپنی نے اس قدر تیزی سے اس قدر زیادہ ڈرامے بنائے کہ لگتا تھا وہ ڈرامہ نہیں بناتے بلکہ دہی تیار کرتے ہیں یا شاید دہی تیار ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔
ان کی رفتار اس سے بھی زیادہ تھی اور ہے۔
اس کمپنی کے ڈراموں میں اس قدر یکسانیت ہے کہ ڈرامے کا Promo دیکھ کر ہی پتہ چل جاتا ہے کہ ڈرامہ کس کمپنی کا ہے۔
یہ کمپنی ایک وقت میں ایک ہی موضوع پر کام کرتی ہے ایک ہی قسم کے ڈرامے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک ہی وقت میں مختلف چینلز پر چلاتی ہے۔

(جاری ہے)

فنکاروں کا ایک مخصوص گروہ ان کے ساتھ کام کرتا ہے۔

وہی فنکار بار بار دیکھ کر ان کی شکل بھی رٹ جاتی ہے اور بلاتاخیر یہ بتایا جا سکتا ہے کہ کس فنکار کے چہرے پر Acne کے نشان کہاں اور کتنے ہیں۔ کس فنکار کی گردن پر کہاں تل ہے۔ کس فنکار کے چہرے پر زخم کے کتنے Scars کہاں کہاں ہیں۔ میک اپ آرٹسٹ بھی ایک ہی ہوتا ہے تمام ہیروز کا ایک ہی طرح کا میک اپ ایک ہی قسم کے شیڈز استعمال کرکے کیا جاتا ہے۔ ہیرو کا میک اپ دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ کس کمپنی کا ہیرو ہے۔
ایک ہی ہیروئن ایک وقت میں اس کمپنی کے مختلف ڈراموں میں کام کر رہی ہوتی ہے۔ اس کا ایک ہی Lipstick کا شیڈ تمام ڈراموں میں نظر آتا ہے کیونکہ لگانے والا ایک ہی، لگوانے والا ایک ہی اور وہی ایک دن میرا خیال ہے ایک ہی تیاری کے ساتھ ایک ہی ہیروئن ایک ہی دن ایک ہی کمپنی کے مختلف ڈراموں کے مختلف Scenes کی ریکارڈنگ ایک ہی میک اپ آرٹسٹ کے ساتھ یعنی ایک ہی لپ اسٹک Shade میں کرواتی ہے۔
ایک خاتون کی Orange کلر کی Lipstick سے ناظرین اس قدر تنگ آ گئے کہ سوچنے لگے کہ کسی طرح اس بچاری کو Lipstick کے دو تین شیڈز ہی بھیج دیں۔ کیونکہ ظلم تو دیکھنے والی آنکھ کو سہنا پڑتا ہے۔
یہ کمپنی جب ایک فنکار کے ساتھ Contract کر لیتی ہے تو اگلے 15,10 ڈراموں میں مرکزی کردار اسی سے کرواتی ہے۔ 6 ماہ سے ایک سال تک یا اس سے بھی زیادہ ایک ہی فنکار مسلسل Serious  کامیڈی  سوپ، سب طرح کے ڈراموں میں کام کر رہا ہوتا ہے۔
اس کی شکل دیکھ دیکھ کر ناظرین کو Nausea شروع ہو جاتا ہے۔ امتحان تو ناظرین کے حافظے کا ہوتا ہے۔ وہی ایک ہی مرکزی کردار کسی ایک ڈرامے میں باپ ہے تو 10 منٹ بعد لگنے والے ڈرامے میں بیٹا ہے۔ پھر آدھے گھنٹے بعد لگنے والے میں Hero ہے۔ تو اگلے میں ناکام عاشق۔ رول بھی ایک ہی جیسے دیتے ہیں اور حلیہ بدلنے کا وقت نہیں ہوتا۔ 
ایک صاحب نے کہا میں تو اس کمپنی کا صرف ایک ڈرامہ ایک وقت میں دیکھتا ہوں کیونکہ اگر ایک ساتھ اس کے ایک وقت میں چلنے والے تمام ڈرامے دیکھوں تو بجائے تفریح کے میرا بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے۔
یہ سوچنے سے کہ یہ کون سے ڈرامے کا کونسا کردار ہے۔ کس کردار کا کس کہانی میں دوسرے کردار سے کیا رشتہ ہے۔ ڈراموں میں فرق کرنا مشکل اور Story کو Follow کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ تمام ڈراموں کی کرداروں کی اور کہانی کی دماغ میں کھچڑی پک جاتی ہے جو کہ تفریح کی بجائے دردِ سر اور بلند فشار خون کا باعث بن جاتی ہے۔
ایک خاتون کو یہ کہتے دیکھا کہ اس کمپنی کے ڈرامے وہ اپنے والدین کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھتیں کیونکہ والدین کہانی اور کرداروں کے درمیان فرق نہیں کر سکتے اور ڈرامے کے دوران بار بار پوچھ پوچھ کر اتنا تنگ کرتے ہیں کہ سارا وقت ان کو سٹوری سمجھانے میں لگ جاتا ہے اور ڈرامہ دیکھنے کی بجائے بحث میں ہی سارا وقت گزر جاتا ہے۔
ایک صاحب ایک دن ذکر کر رہے تھے کہ میں اس کمپنی کے ڈرامے شروع شروع میں Follow کیا کرتا تھا ڈرامہ دیکھ کر اگر سو جاتا تو رات کو خواب میں وہی شکلیں نظر آتی اور سب ڈرامے اور کہانیاں مکس ہو کر کوئی ایک نئی Video خواب کی شکل میں میرے دماغ میں چلتی رہتی اور صبح اٹھ کر میں Fresh ہونے کی بجائے زیادہ تھکا ہوا محسوس کرتا۔ لہٰذا میں نے توبہ کی اس کمپنی کے ڈراموں سے تاکہ میں اپنی صحت اور تازگی برقرار رکھ سکوں۔
ایک ہی فنکار سے ایک ہی وقت میں اتنے رول کروائے جاتے ہیں کہ لگتا ہے 24 میں سے 20 گھنٹے کام کروایا گیا ہے۔ اداکاروں کی Hair cut تک بڑھی ہوئی صاف نظر آ رہی ہوتی ہے۔ ان بچاروں کو ریکارڈنگ سے فرصت ملے تو جا کر Hair cut کروائیں۔ لگتا ہے جب اس کمپنی کے ساتھ کام کرنے والے فنکار 6 ماہ یا سال بعد گھر جاتے ہوں گے تو شاید Production والوں کو اپنا کوئی بندہ فنکار کے ہمراہ گھر بھیجنا پڑتا ہوگا تاکہ فنکار اور فنکار کے شناختی کارڈ کی تصدیق کر سکے اور یہ کہ کہیں فنکار کسی غلط Address پر نہ چلا جائے کیونکہ مسلسل کام ہی کام کرکے بچارے کو گھر کا صحیح پتہ کہاں یاد رہتا ہے۔
حلیہ بھی تھکان کی وجہ سے کافی حد تک متاثر ہو چکا ہوتا ہے۔ یعنی اگر فنکار بچارہ تکے سے صحیح جگہ پہنچ بھی جائے تو گھر والوں کیلئے پہچاننا مشکل۔
لگتا نہیں کہ پاکستان 18 کروڑ آباد کا ملک ہے کیونکہ وہی دو چار ہیرو  تین چار ہیروئنیں  وہی دو تین مائیں اور چند ایک باپ ہر ڈرامے میں نظر آتے ہیں۔ اس کمپنی کے ڈرامے دیکھ کر لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں انسانوں کی شدید کمی ہے۔
کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس ملک میں بے شمار لوگ بے روزگار ہیں بے شمار لوگ موقع کی تلاش میں ہیں۔ بے شمار کا خواب ہے کہ وہ Acting کریں۔ اس کمپنی کی Products دیکھ کر لگتا ہے کہ Family planning سہولیات کی اب ہمارے ملک میں مزید کوئی ضرورت نہیں اس لئے اس شعبے کو ختم کر دینا چاہئے تاکہ نئے لوگ پیدا ہوں اور کچھ نئے چہرے دیکھنے کو ملیں۔
یہ کمپنی ایک فنکار کو ایک وقت میں اس طرح کاسٹ کرتی ہے کہ جیسے یہ دوبارہ کبھی Available نہ ہوگا۔
Now or never والی صورتحال نظر آتی ہے۔ اس سارے کھیل میں کمپنی کی سہولت ہوتی ہے۔ فنکار کو پیسہ مل جاتا ہے کیونکہ ایک دم اتنا کام مل جاتا ہے جبکہ فنکار ”رُل“ جاتا ہے اور اپنی Screen value کھو دیتا ہے۔ کمپنی کو تو صرف ڈرامے بنانے ہوتے ہیں اور بیچنے ہوتے ہیں۔ مصیبت تو دیکھنے والوں کیلئے ہے جو کہ امتحان میں پڑ جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے بنائے ہوئے ڈرامے خود بیٹھ کر 10 منٹ مسلسل دیکھیں تو انہیں عوام و ناظرین کے کرب کا اندازہ ہو۔
ایک انتہائی مناسب شکل و صورت کی خاتون جو کہ دیکھنے میں بیمار لگتی تھیں۔ اس کمپنی نے انہیں اتنا زیادہ کاسٹ کیا کہ میں نے بے شمار لوگوں کے منہ سے سنا کہ اس کو پتہ نہیں کیوں کاسٹ کر لیتے ہیں۔ وہ بھی انتہائی خوبصورت لڑکی کے رول میں حالانکہ اس کو صرف لڑکی کے رول میں کاسٹ نہیں کرنا چاہئے۔ دوران بحث ایک نے کہا شاید یہ معاوضہ کم لیتی ہے اس لئے یہ کمپنی اور اس کے ڈائریکٹر اس کو اپنے ہر ڈرامے میں مرکزی رول میں کاسٹ کرتے ہیں تو سننے والوں میں سے ایک نے جواب دیا کہ میرا خیال ہے کہ کم معاوضہ وجہ نہیں ہے بلکہ یوں لگتا ہے کہ وہ معاوضہ دیتی ہے کہ مجھے کاسٹ کرلو۔
حالانکہ اگر وہ صاحبہ پیسے بھی دے کہ مجھے کاسٹ کر لو تب بھی اسے کاسٹ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ٹی وی ڈرامہ دیکھنے والوں نے تو اس سے پیسے نہیں لئے کہ وہ اسے برداشت کریں۔ بحرحال وجہ کچھ بھی ہو وہ ایک خاتون اس قدر پے در پے کاسٹ کی گئی کہ ناظرین مجبوراً اسے دیکھ دیکھ کر قبول کرنے لگے وہ ناظرین کی نظروں میں جچنے لگی۔ کمپنی نے اداکارہ نہ بدلی ناظرین نے پسند اور رائے بدل دی۔ دن رات اتنے مرد ساتھی اداکاروں کی بیوی کا رول کیا کہ ایک دن گھر جا کر اصلی شوہر کو شوہر ماننے پر شک کرنے لگی کہ میں تمہاری بیوی کیسے ہو سکتی ہوں اس بچارے شوہر نے شادی کی تصاویر دکھا کر اسے یاد دلایا کہ وہ اصل میں اسی کی بیوی ہے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan