Episode 14 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 14 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

کچھ لوگ ان معاملات کو یعنی عیادت داری وغیرہ کو Blessing in disguise کے طور پر لیتے ہیں یعنی اگر بیمار کے گھر کسی کو رشتہ دیکھنا ہے تو عیادت دار بن کر مریض کے گھر جاتے ہیں تو مریض اور اس کے گھر والوں کو ان کی والہانہ بے وقت محبت دیکھ کر حیرت و پریشانی ہوتی ہے کہ ان کو کیا ہوا یا پھر اگر عیادت دار کے جاننے والوں نے رشتہ دیکھنا ہو تو وہ عیادت دار کے ساتھ چپک کر مریض کے گھر جاتے ہیں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے ہیں۔
گھر والے سوچتے ہیں کہ ان کو کیوں اتنا غم و تکلیف ہے ہماری بیماری کی کہ صحت مندی کے بعد بھی مزاج پرسی ایسے انداز سے کر رہے ہیں کہ کسی نے بیماری کے دوران بھی ایسے نہ کی تھی۔
کسی سے اچانک شدید غرض پڑ جائے یعنی ضرورت کے وقت گدھے کو باپ بنانا پڑ جائے تو لوگ یہ کام زیادہ کرتے ہیں اس بہانے سے مریض کے پاس جاتے ہیں مریض کی بیماری کا پتہ نہیں ہوتا مگر دکھ بہت ہوتاہے۔

(جاری ہے)

جاکر عیادت کچھ اور بیماری سمجھ کر کر دیتے ہیں جبکہ اصل میں بیماری کوئی اور ہوتی ہے کیونکہ ان کا فوکس نہ تو بیمار ہوتا ہے نہ اس کی دلجوئی نہ ثواب نہ آخرت کا خیال بلکہ ان کے دل و دماغ میں تو ان کا دنیاوی فائدہ گھوم رہا ہوتا ہے۔
کسی کی سن گھن لینی ہو۔ اپنی سنانی ہو تو یہ بہترین موقع ہوتا ہے کیونکہ بغیر Invitation کے جانا ہوتا ہے اور Venue کا پتہ ہوتا ہے بیمار کے گھر والے اس کا کتنا ہی خیال کیوں نہ رکھ رہے ہوں کچھ رشتہ دار کبھی نہیں بخشتے اور وہ سارے زمانے میں بیمار کے گھر والوں کی خود ساختہ بے حسی کا چرچا کرتے پھرتے ہیں کہ ان کے گھر رشتہ نہ کرنا کیونکہ انہوں نے تو اپنی ساس کو لاوارث لوگوں کی طرح ڈال رکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔
کچھ لوگ باقاعدہ Record رکھتے ہیں کہ ہمارا فلاں بیمار ہوا وہ بندہ آیا وہ نہیں آیا آئندہ اس کے ہاں جانا ہے اور اس کے ہاں نہیں جانا۔ باقاعدہ تعلقات Redesign کئے جاتے ہیں نئی Domestic foreign policy بنائی جاتی ہے۔ آئندہ فلاں سے نہیں ملنا جبکہ کچھ لوگ تو باقاعدہ بعد میں گلہ کرتے ہیں لڑائی کرتے ہیں اور نہ آنے والے کو Shut up call دیتے ہیں تعلقات مزید خراب ہو جاتے ہیں۔
گھر والے بیماری کی حالت میں بھی چوکنے اور چوکس رہتے ہیں تعلق توڑنا ہو تو اسے بہانا بنا لیتے ہیں جان چھڑانے کا۔
کسی سے تعلق جوڑنا ہو تو اسے نتھی ہونے کا موقع جانا جاتا ہے چھینک بھی آ جائے تو تیمار داری اس قدر جذبے اور لگاؤ سے کی جاتی ہے لگتا ہے کہ مریض کی open heart surgery ہوئی ہے۔
غرض یہ کہ یہ ایسا موقع ہے کہ بنے ہوئے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔
بگڑے ہوئے بن جاتے ہیں نئے رشتے قائم ہو جاتے ہیں پرانے ٹوٹ جاتے ہیں۔ کہیں دلوں میں جگہ پیدا ہو جاتی ہے اور معاملات سنور جاتے ہیں۔ کچھ رشتہ دار جو امیر ہوتے ہیں غریب رشتہ داروں کے ہاں عیادت کیلئے جانا Avoid کرتے ہیں کہ کہیں علاج کیلئے پیسے نہ مانگ لیں۔ بھائی بہنوں کی، ان کے شوہروں کی عیادت کو جاتے گھبراتے ہیں اور زیادہ تر تو جان چھڑاتے ہیں کہ کہیں بہتر اور مکمل علاج کروانے کیلئے جائیدا میں حصہ نہ مانگ لیں اس طرح وہ رشتے جو کسی طرح بھی نہ ٹوٹ سکتے تھے بلا تردد ٹوٹ جاتے ہیں۔
بہت قلیل مقدار ایسے لوگوں کی بھی دیکھنے میں آئی ہے اگر ان پر کوئی سخت بیماری آ جائے تو بہت غیر متوقع طریقے سے React کرتے ہیں وہ بیماری کو نہ تو اللہ کی طرف سے سمجھتے ہیں اور نہ ہی اللہ پر شفا کا یقین کرتے ہیں خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے زندگی کو کبھی Seriously نہ لیا ہو۔ جو ہر وقت لوگوں پر تنقید کرنے اور ٹھٹھے اڑنے میں مصروف رہتے ہوں ان کو یہ بات ہضم کرنا مشکل ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ ایسا ہوا۔
ان کو Complex ہوتا ہے کہ ابھی میری عمر ہی کیا تھی جو مجھ پر یہ بیماری آ گئی اپنے سے بڑے بہن بھائی عزیز رشتہ دار برے لگتے ہیں ان کو ایک ہی خیال آتا ہے کہ why me فلاں مجھ سے بڑا ہے فلاں کی بسیار خوری کی عادت ہے فلاں موٹاپے کا شکار ہے مگر پھر بھی اس بیماری سے محفوظ ہے جبکہ میں مبتلا ہوں۔ ایسے شخص کو لوگوں کا تیمار داری کرنا اظہار ہمدردی کرنا برا لگتا ہے اور ان کا روا کردہ سلوک عیادت دار کے ساتھ ایسا ہوتا ہے جیسے بیماری جا تو اس کی اپنی طرف رہی تھی مگر انہوں نے زبردستی اس کا رخ ان کی طرف موڑ دیا۔
ایسے شخص کی بیماری میں جو بھی رشتہ دار بہن بھائی عیادت داری کریں اس کا خیال رکھیں اسے ان پر غصہ آتا ہے اور سوچتا ہے کیا شکلیں بنا بنا کر آکر مجھے دکھا رہے تکلیف تو مجھے ہے ان کو تو نہیں۔ دوسروں پر غصہ آتا ہے اور حسد ہوتا ہے جبکہ جو لوگ رشتہ دار عزیز ایسے شخص کی عیادت داری نہ کریں ان کی طرف ان کا اور زیادہ ادھار نکلتا ہے کہ انہوں نے مجھے اتنی اہمیت بھی نہ دی کہ میرا حال ہی پوچھ لیتے میں نے ان کو اب اپنے عزیز رشتہ داروں کی List سے خارج کر دیا ہے۔
یہ بیمار بیماری سے زیادہ خود اپنا بیڑہ غرق کر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں یہ میرا تماشا دیکھنے آئے ہیں میری بے بسی کا مذاق اڑانے آتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب نہیں ہوتا یہ سب اس کے اپنے ذہن کی اختراع ہوتی ہے جو کہ اس کے نفس و جسم کو اور زیادہ لاغر کر دیتی ہے اور بیماری کیلئے گرتی ہوئی دیواروں کو دھکا دینا اور آسان ہو جاتا ہے۔
دوسری صورتحال یہ بھی ہے کہ مریض Coma اور فالج کا شکار ہے گھر والے پریشان بھی ہیں۔
مصروف بھی  دعا گو بھی  تیمار دار بھی۔ ایسے مریض کو سنبھالنا اس کا خیال رکھنا صرف وہی جانتا ہے جو اس میں مبتلا ہے۔ اس سب کے ساتھ مریض کے عزیز رشتہ دار جو کہ تیمار داروں اور عیادت داروں کے روپ میں آزمائش بن کر آئے دن دور دراز علاقوں سے آتے ہیں طویل قیام کرتے ہیں اور پھر اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ بیماری تو انسان کی اپنی خطاؤں کا نتیجہ ہوتی ہے ہر برائی اور تکلیف انسان کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوتی ہے۔
ضرور اس نے (بیمار نے) ایسے کچھ کام کئے ہونگے جس کی بدولت آج یہ اس حالت میں پڑا ہے۔ آپ لوگ ان کی معافی کا انتظام کریں تاکہ ان کی مشکل آسان ہو وغیرہ وغیرہ ایسے شخص کو گھر میں برداشت کرنا اس کا لحاظ کرنا کس قدر مشکل ہے صرف وہ جانتا ہے جو اس سے گزرتا ہے۔ ان کی زبان کے ڈر اور مریض کے ساتھ رشتے کی وجہ سے گھر والے چپ کر جاتے ہیں یا مناسب انداز میں ٹال دیتے ہیں کیونکہ منہ توڑ جواب دے کر وہ نئے محاذ نہیں کھولنا چاہتے۔
ویسے بھی ایسے مریض کی صحت یابی کے امکانات کم ہوتے ہیں کچھ دوسرے کہہ کر گھر والوں کی ہمت توڑ دیتے ہیں۔ گھر والوں کی تیمار داری میں مدد کروانے کی بجائے ان کو احساس دلایا جاتا ہے کہ صرف تم لوگ ہی تو ان کی اولاد نہیں ہو جو دن رات ان کی خدمت کر رہے ہو فلاں اولاد کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ ان کو اپنے گھر لے جائیں یا یہاں آ کر اپنا فرض پورا کریں۔
 
ان کی خدمت کریں  صرف تمہاری ہی تو ذمہ داری نہیں ہے فلاں تو فلاں جگہ (دوسرے ممالک یا شہروں میں قیام پذیر اولاد کیلئے کہا جاتا ہے) مزے کر رہا ہے تمہیں نرس اور آیا بنایا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ یعنی مکمل مرچ مصالحہ لگایا جاتا ہے گھر والوں کو نفسیاتی  روحانی اور معاشرتی طور پر خوب جھٹکے دیئے جاتے ہیں۔ بیماری کو وارثت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
جس کی منصفانہ تقسیم کو تمام اولاد میں ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ یہ نقاط اٹھانے والے بظاہر مخلص اور ہمدرد بنے ہوتے ہیں مگر ان کا وجود فتنہ اور ان کے مشورے جلتی پر ڈالا جانے والا تیل ہوتے ہیں۔ ایک خاتون کے شوہر کو Heart attack ہوا اس کو مندرجہ بالا تمام مسائل کا سامنا کرنا پڑا اس نے ان تمام سوالات اور اعتراضات سے ایسا سبق سیکھا کہ آئندہ جب ان کے شوہر کی open heart surgery بھی ہوئی تو انہوں نے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔
پوری فیملی جو کہ عاجز آ چکی تھی اس جدوجہد میں شامل تھی۔ کوئی اگر فون پر بات کرتا حال احوال پوچھتا تو وہ ٹال دیتے کبھی کہتے کہ Signals نہیں آ رہے سلام دعا کے بعد Signals غائب ہو جاتے لوگوں نے Land line پر فون کرنا شروع کیا تو Distortion کا بہانہ بنا دیتے اور اگر کوئی اس طرح بھی جان نہ چھوڑتا تو فون کا Cradle دبا دیا جاتا۔
مریض کو کبھی بھی بات نہ کرنے دیتے۔
پلان کے مطابق مریض نہ ہی موبائل فون Attend کرتا اور نہ ہی Land line call۔
کسی سے کہہ دیا جاتا کہ باتھ روم میں ہے کبھی بتایا جاتا کہ مسجد گئے ہیں، کبھی اطلاع دی جاتی کہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ جب نماز کا وقت نہ ہوتا تو سونے کا بہانہ بنا دیا جاتا کبھی کہہ دیا جاتا کہ دفتر گئے ہیں، ابھی تک دفتر سے نہیں آئے جب ہر طرح بات رہ جاتی تو دفتر کے کام سے دوسرے شہر گئے ہوئے ہیں کہہ کر جان چھڑائی جاتی۔
جب کچھ خون کے رشتہ دار ان سب بہانوں سے تنگ آ گئے اور ان کی خدمت میں پیش کئے گئے بہانے بار بار دہرائے گئے تو ان کو شک ہونا شروع ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ مزید آگے چل کر پریشانی شروع ہوئی اور بڑھتی گئی تو رشتہ دار جو کہ مریض کے قریبی عزیز تھے انہوں نے کہنا شروع کیا کہ ہم نے دفتر سے پتہ کیا ہے وہ چھٹی پر ہے اس وقت کسی نماز کا بھی وقت نہیں اگر وہ سویا ہوا نہیں اور باتھ روم سے واپس آ چکا ہے تو اس سے بات کروا دیں۔
اس صورت میں اگر بہانہ کیا جاتا تو فون کرنے والوں کا اگلا قدم یہ ہوتا کہ وہ گھر تشریف لے آتے جو کہ کسی صورت قابل برداشت نہ تھا لہٰذا عزیزوں کے گھر آنے سے بچنے کیلئے ان کی مریض سے بات کروا دی جاتی (کیونکہ سمجھ تو وہ سب چکے تھے)۔
 مریض سب سے زیادہ well trained تھا وہ ہشاش بشاش آواز میں بات کرتا اگر اگلے کو آواز بدلی ہوئی لگتی اور اسے صحت میں خرابی کا شک گزرنے لگتا تو یہ کہتے کہ زکام میں آواز بدل جاتی ہے اور جب زکام کا بھی پردہ رکھنا چاہ رہے ہوتے (جن سے ڈر ہوتا کہ زکام کی بھی عیادت نہ کرنے چل پڑیں) تو بتاتے کہ سو کر اٹھے ہیں اس لئے آواز بھاری لگ رہی ہے۔
اگر بے وقت سوتے پائے جاتے اور فون پر خیریت دریافت کرنے والا بے وقت سونے کی وجہ پوچھ لیتا کو کہتے کہ سونے کو دل چاہ رہا تھا۔ وہ کوئی بھی اور وجہ بتا کر خیریت دریافت کرنے والے کو اپنی بیماری کا شک تک نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔
بیماری میں تائب ہونے کی بجائے یہ جھوٹا ڈرامہ کھیلنے کا تماشا مبالغہ آرائی نہیں یقین کریں راقم الحروف نے حقیقتاً ایسا ہی دیکھا ہے۔
اس سب کی وجہ عیادت کے رائج العام سیاسی معاشرتی اور معاشی پہلو ہیں یہ ایک ایسی Social deal بن گئی ہے جس کو ذاتی فائدہ اور نقصان کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ پھر دنیاوی و ذاتی خود غرضی کی بنیاد پر اس کاروبار عیادت میں Investment کی جاتی ہے۔ یعنی نیت کی خرابی اور جن صورتوں میں نیت خراب نہیں ہوتی وہاں نیت میں اخلاص کی کمی ذمہ دار ہے اس صورتحال کی۔
صرف رسمِ عیادت رہ گئی ہے روح کھو گئی ہے۔ روح کیوں کھو گئی ہے کیونکہ عمل بدل گیا ہے جیسا عمل عیادت ہونا چاہئے ویسا نہیں رہا۔ جب عمل ویسا نہیں رہا تو اس درخت پر پھل بھی نہیں لگتا یا جو کبھی لگتا ہے وہ بے کار اور بے تاثیر ہوتا ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ مریض سے مزاج پرسی کیلئے جانے والا عیادت دار نہیں رہا بلکہ وہ مہمان بن گیا ہے عیادت دار کا کام مریض اور لواحقین کیلئے آسانیاں پیدا کرنا ہوتا ہے جبکہ مہمان کا کام خدمت کروانا۔
آج اپنا فرضِ عیادت (دوسرے مسلمان کا حق عیادت) ادا کرنے کیلئے جانے والا مہمان نوازی کروانے میں مصروف ہے۔ اگر مہمان نوازی کروانے کو دل چاہ رہا ہو تو صحت مند لوگوں کے گھر جایئے۔ عیادت کے ثواب میں مہمان نوازی کا لطف اٹھا کر ایک ٹکٹ میں دو مزے لوٹنے کی بدولت ہی آج معاشرہ اس نہج پر کھڑا ہے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan