Episode 17 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 17 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

کوئی اپنے ایوارڈ کو بچوں کے نام کرتا ہے۔ وہ ایک سانس میں ہی تمام بچوں کے نام لے دیتے ہیں  تمام عوام کو ان کی ذاتی دلچسپیوں اور بچوں کی تعداد کا اندازہ ہوتا ہے اور اس طرح عوام سے چھپانے والی چیز ظاہر کر دی جاتی ہے۔ جس سے عوام کو کوئی Conrern نہیں ہوتا۔ حالانکہ یہ کام تو گھر جا کر کیا جانا چاہئے۔ اگر دیکھا جائے تو نقطہ یہ سامنے آتا ہے کہ آپ شرمسار ہوں ان بے شمار کاموں کیلئے جو آپ اب تک کر چکے ہیں جو کہ اس کوالٹی کے نہ تھے کہ سراہے جاتے۔
غرور میں تو فوراً آ جاتے ہیں۔ مگر شرم آکر نہیں دیتی۔ 
بعض لوگ سٹیج پر آکر شکریہ ادا کرنے کی رسم کو اس قدر طول دیتے ہیں کہ خدا کی پناہ یاد کرکے رک رک کر نام اور رشتے بتا بتا کر شکریے ادا کرتے ہیں اور لسٹ ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔

(جاری ہے)

ماں باپ، بہن بھائی، شوہر ساس دوست احباب بیوی بچے فلاں فلاں کا شکریہ۔ حالانکہ یہ ایوارڈ ایک کردار ادا کرنے پر دیا جا رہا ہوتا ہے جو کہ صرف ایک شخص نے ادا کیا ہوتا ہے نہ کہ اس شخص کو پروان چڑھانے والوں کیلئے ہوتا ہے۔

بس صرف (آیا) Maid، سکول اور سکول ٹیچرز کے نام کوئی نہیں لیتا۔ پھر سمجھ آتی ہے کہ یہ صاحب یا صاحبہ تو اس قدر لوگوں میں پھنسے ہوئے تھے اسی لئے اتنی دیر سے کچھ اچھا کر پائے کہ ایوارڈ کے مستحق قرار دیئے گئے پھر ان پر غصہ آنے کی بجائے ہمدردی محسوس ہونے لگتی ہے۔
بہت کم خواتین ایسی ہوتی ہے بلکہ آٹے میں نمک کے برابر ہونگی جو ایوارڈ لے کر اس کو شوہر کے نام کریں یا اپنی کامیابی میں شوہر کا حصہ تسلیم کریں جبکہ زیادہ تر یا اکثر مرد حضرات ایوارڈ لینے کے بعد اس کو اپنی بیوی کے نام کر رہے ہوتے ہیں یا اس کامیابی کا سہرا اس قدر کلی طور پر بیوی کے سر باندھ دیتے ہیں کہ ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ اداکاری تو شوہر نے کی (جس کی بدولت ایوارڈ ملا) اس میں کمال بیوی کا کیا ہوا مگر پھر سمجھ آتا ہے کہ بیوی وہاں Audicne موجود تھی واپس جاکر مرد کو اسی کے ساتھ بیٹھنا تھا۔
یہ ظاہر کرتا ہے مرد اپنی بیویوں سے زیادہ خائف ہوتے ہیں بہ نسبت عورتوں کے جو اپنے شوہروں کو اپنی کامیابی سے دور رکھتی ہں۔ اور مرد/ شوہر حضرات اپنے گھروں کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے ایسی Statement دیتے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی چال ہے جو کہ دکھلاوے کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں اور گھروں کا سکون یا اپنا سکون برباد ہونے سے بچا لیا جاتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ عظیم بننے کیلئے کیا کیا حربے استعمال کرتے ہیں اور اپنی عظمت کے جھنڈے سٹیج پر کیسے گاڑتے ہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں۔
I dedicate this award to all the Nominations & contestents.
یہ جملہ Loosers (جو کہ پہلے سے غصے میں ہوتے ہیں کہ ان کو ایوارڈ نہ ملا اور وہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ یہ فیصلہ جانبدار نہ ہے وغیرہ وغیرہ) کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے کیونکہ یہ کہہ کر Winner سٹیج سے اترتا ہے اور ایوارڈ گھر لے جاتا ہے۔
Looser بچارے ایوارڈ نہ ملنے کی تکلیف تو سہہ چکے ہوتے ہیں مگر یہ جھٹکا ان کو زیادہ اذیت دیتا ہے کہ ایوارڈ بھی لے لیا اور عظمت کے مینار کی چوٹی پر براجمان بھی ہو گئے۔
اس کے بعد تالیاں بجانا مشکل نہیں ہوتا بلکہ اس کی جگہ انڈے اور ٹماٹر مارنے کو دل چاہتا ہے۔ مگر ہاتھ پھر بھی حرکت ہی (تالیوں کی) ظاہر کر رہے ہوتے ہیں اور دل خون کے آنسو رو رہا ہوتا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ اس میں پوری ٹیم کا ہاتھ ہے۔ ہمارے کیمرہ مین فلاں فلاں حتیٰ کہ Tea boy تک… وغیرہ وغیرہ یہ سب کہہ کر وہ زور دار تالیوں کی گونج کا انتظار کر رہا ہوتا ہے جبکہ Viewer سوچتا ہے کہ سب کو معلوم ہے کہ Programmes اور ڈرامے کیسے بنتے ہیں کسی کا خیال یہ نہیں ہوتا کہ بغیر ٹیم  بغیر کیمرہ مین وغیرہ وغیرہ کے یہ Product یا کوئی بھی Product بن سکتی ہے یا بن گئی ہے اور Tea boy وغیرہ کو یہاں سٹیج پر خراج تحسین پیش کرکے دکھلاوے کیلئے اپنا قد بڑا کرنے سے بہتر ہے آپ ان لوگوں کے ساتھ اپنے رویے بہتر کریں اور اپنے عمل و زبان سے ان کو اس طرح زخمی نہ کریں جس طرح کرتے ہیں۔
کچھ لوگ جب ایوارڈ لینے پہنچ جاتے ہیں تو آپے سے باہر ہو جاتے ہیں یہ لوگ Unknown لوگوں اور رشتوں کے نام لے کر ان کیلئے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ فلاں فلاں نے میرا ساتھ دیا حالانکہ عوام نے کسی کو ان کے ساتھ  ساتھ دیتے نہیں دیکھا ہوتا اور نہ ہی ان کی اس میں دلچسپی ہوتی ہے۔ بلکہ عوام کو وقت ضائع کرنے پر غصہ آتا ہے کہ کیا ان کو نہیں پتہ کہ یہ Perfromance award ہے۔
Assistance Award نہیں ہے۔ کیا وہ آپ کی جگہ Perform کر رہا تھا جو آپ اس کی تسبیح پڑھ رہے ہیں۔ گھر جا کر چاہے اس کو پوچھیں تک نہ اور وہی شخص آپ کے غرور سے زخمی ہونے والا شخص ہو مگر عوام کا سر کھا جاتے ہیں اپنی عظمت کا سحر قائم کرنے کیلئے۔
کچھ حضرات ایوارڈ لے کر ذکر مشکلات ایسا شروع کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اس Project کی تیاری میں فلاں فلاں مسائل تھے۔
فلاں چیز مشکل ہوئی فلاں ناممکن تھی۔ مگر اس طرح کیا سب کہ پتہ بھی نہ چلا وغیرہ وغیرہ ان سب جملوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہاں اتنے Problems اور ملا کیا یہ ایک ایوارڈ جیسے وہ حق دار تو دو ایوارڈز کے تھے مگر دیا ایک گیا اور وہ یہ زیادتی معاف نہ کریں گے۔
ایک انداز اپنی تعریف کروانے کا یہ بھی ہے کہ ایوارڈ لینے والا آغاز گفتگو اس طرح کرتا ہے کہ جب مجھے یہ رول آفر ہوا تو میں سمجھتا تھا کہ میں یہ رول نہیں کر سکوں گا پھر فلاں نے مجھے کہا کہ آپ کر سکتے ہیں میں پھر ڈر رہا تھا مگر فلاں نے مجھے Confidence دیا اور میں یہ کر سکا فلاں فلاں کا شکریہ کہ انہوں نے مجھ پر Beleive کیا۔
تب Viewers سوچتے ہیں اوہو تو اتنے لوگوں نے کھینچ کر اس سے یہ کام کروایا۔ اس قدر دھکا سٹارٹ آدمی ہے یہ۔ یہ شخص جس کو خود پر اعتبار نہیں اس کو ایوارڈ دے دیا گیا جب یہ عوام کے سامنے خود کو بے پردہ کر رہا ہوتا ہے تو دل چاہتا ہے اس بے وقوف سے ایوارڈ واپس لے لیا جائے کیونکہ اس میں اس کا کوئی کمال نہ تھا۔ پھر دکھ ہوتا ہے کہ یہ ایوارڈ خواہ مخواہ ہی ضائع کیا گیا۔
ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ خاموشی کے پیچھے حماقت بھی ہو سکتی ہے اور لیاقت بھی ہو سکتی ہے یہ شخص چپ کرکے ایوارڈ لے جاتا تو وہ اور ایوارڈ ایک دوسرے کے ساتھ برے نہ لگتے مگر بول کر اس نے اپنا پول کھو دیا اور جس عزت کے تحت اس کو ایوارڈ دیا جا رہا تھا اس کو 50% سیل پر لگا دیا۔
جو بہت زیادہ عظمت کا مظاہرہ کرتا ہے وہ اپنا ایوارڈ وہیں سٹیج پر سب کے سامنے کسی دوسرے کو دے دیتا ہے۔
معلوم نہیں وہ سٹیج سے اتر کر واپس لے لیتا ہے یا ہمیشہ کیلئے دے دیتا ہے اس طرح وہ جیوری کی بے عزتی سب کے سامنے کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے فیصلے کی نفی کر رہا ہوتا ہے اور آئندہ کیلئے ان کو اپنا دشمن بنا رہا ہوتا ہے یا شاید اسے ایوارڈ پسند نہیں آیا ہوتا اور وہ دیکھتے ہی اسے دوسرے کو دینے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ اس طرح عزت کئی گناہ ہو جاتی ہے اور مری بھیڑ خدا کے نام کرکے لوگوں کو بے اندازہ تالیاں بجانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
کچھ ایوارڈز بلا مقابلہ بھی کچھ بزرگ اداکاروں کو دیئے جاتے ہیں جن کے نہ تو پراڈکٹ کا ذکر کیا جاتا ہے اور نہ وجہ بتائی جاتی ہے ایوارڈ دینے کی۔ لگتا یہ ہے کہ ان لوگوں کو شاید بوڑھا ہونے کا ایوارڈ دیا جا رہا ہے کیونکہ ان میں مقابلے کی سکت تو رہی نہیں اور آگے شاید عمر بھی کم ہی رہ گئی ہے۔ شاید موقع بھی ان کو کم ہی ملے اور ویسے بھی بہت انتظار کر لیا کہ شاید یہ لوگ ایسا کام کرلیں کہ قابل ستائش ہو مگر جب امید دم توڑنے لگی تو بلا وجہ ہی ایوارڈ دینے کی Category بنا ڈالی۔
مگر مروتاً یا تکلفاً دیئے جانے والے ان ایوارڈز کو لینے والوں میں سے زیادہ تر کے دماغ خواہ مخواہ آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔
ان لوگوں سے (ایورڈز لینے کے بعد) جب ان کے تاثرات لئے جاتے ہیں تو بعض لوگ اتنی بڑی باتیں کرتے ہیں کہ ان کی باتوں کے سامنے ان کی اپنی عمر کم لگتی ہے۔ کچھ تو بوکھلا جاتے ہیں کچھ اتنے زیادہ لوگوں کے نام لیتے ہیں کہ بہت وقت لگ جاتا ہے کیونکہ وہ بھول جاتے ہیں (بھولنے کی بیماری کی وجہ سے) اور ایک ایک نام کئی بار لیتے ہیں بعض پورے خاندانی سلسلے کی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتے ہیں بعض اپنے Grand children کو یاد کرنے لگتے ہیں حالانکہ ان بچوں کو ان کا پتہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ بوڑھا انسان گھر کی سب سے فالتو چیز تصور کیا جاتا ہے جس کیلئے سب اہم ہوتے ہیں مگر وہ کسی کیلئے اہم نہیں ہوتا۔
بعض بزرگ اداکار اس کو یعنی مائیک کے ہاتھ آ جانے کو آخری موقع تصور کرتے ہیں عوام سے رابطے کا جبکہ حاضرین محفل اور ناظرین بور ہو رہے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کاش کوئی پکڑ کر ان کو نیچے اتار دے۔ ایک بزرگ خاتون گھنٹہ لگا کر سٹیج پر پہنچی اور آکر ایوارڈ اپنی بیٹی کے نام کر دیا۔ دیکھنے والوں کو اس قدر غصہ آیا کہ اس کیلئے ایک گھنٹہ انتظار کروانے کی کیا ضرورت تھی یہ کام تو وہیں بیٹھے بیٹھے بھی ہو سکتا تھا یا گھر جا کر بھی کیا جا سکتا تھا۔
شاید ان کے آپس کے تعلقات ٹھیک نہ ہوں جو یہاں اس فورم کے سہارے کی ضرورت پڑی۔ دل چاہتا تھا کہ ان کو ابھی تک کی تمام تر ناکامیوں کیلئے displeasure Letter of دیں اور یہ کہ ان کی سزا کا تعین ہونا چاہئے کہ عوام نے تمام عمر ان کے اچھے کام کا انتظار کرکے تنگ آکر بلاوجہ ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا۔ برداشت تو عوام نے کیا ان کے تمام عمر کے کام کو۔ سلام تو ہر طرح پھر عوام کو ہے برداشت کرنے پر بھی اور اعزاز دینے پر بھی۔
Host جب بھی کسی کو (Winners کو) ایوارڈز دینے کیلئے سٹیج پر بلاتا ہے۔ تو اس کا تعارف اس قدر یکسانیت اختیار کر جاتا ہے کہ اس کی مفلسی الفاظ پر رونا آتا ہے۔ مثلاً وہ ہر ایک کا تعارف Very talanted کہہ کر کرواتا ہے جبکہ کسی کو بھی صرف talanted کہہ کر نہیں بلاتا تو دل چاہتا ہے کہ ایوارڈ ان سے دلوانے کی بجائے ان کو بھی دے دیئے جائیں۔ جب Host نے کسی کو extra ordinary عزت حاضرین محفل سے دلوانی ہو تو وہ کہتا ہے آپ ان سے بہت پیار کرتے ہیں اور اپنی تالیوں کی گونج سے ان کو Welcom کرکے آج آپ ان کو بتا دیں کہ آپ ان سے کتنا پیار کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اس قدر motivational specch کے باوجود لوگوں کی تالیوں کی Speed میں بہت کم اضافہ ہوتا ہے اور لوگ تالیاں بھی ایسے بجاتے ہیں جیسے اس عمل میں بجلی استعمال ہوتی ہے اور بل بہت زیادہ آنے کا ڈر ہے۔
جبکہ دوسری طرف Host مہمان سے کہہ رہا ہوتا ہے دیکھا سب آپ سے کتنا پیار کرتے ہیں حالانکہ ہزاروں میں سے صرف سینکڑوں نے اپنے ہاتھوں کو زحمت دی ہوتی ہے ورنہ جتنے وہاں لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اگر حقیقتاً سب کو خوشی ہو رہی ہوتی اور سب اپنے پیار کا اظہار تالیاں بجا بجا کرتے تو مسئلہ پڑ جاتا۔
یہ قوم مرے ہوئے لوگوں کو بہت خراج تحسین پیش کرتی ہے اور بہت دل کھول کر کرتی ہے۔ لگتا ہے ان کو مرنے کا ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر کام اچھا تھا تو زندگی میں ایوارڈ کیوں نہ دیا گیا کیونکہ مرنے کے بعد تو آکر اس نے کوئی Performance نہیں دی۔ یہ سب ایوارڈ ضائع کرنے کے مترادف ہے کیونکہ اگلی نسل اس شخص کی اول تو ہال میں بلکہ ملک میں ہی موجود نہیں ہوتی اور اگر ملک میں موجود ہو بھی تو اس قدر بے نیاز ہوتی ہے کہ ایوارڈ تک لینے نہیں آتی کیونکہ ان کا رشتہ تو دنیا سے جا چکا ہوتا ہے جس کو اس ایوارڈ نے خوشی دینی ہوتی ہے۔
ویسے بھی مرنے والے کا کام اہم ہوتا ہے جسے لوگ یاد رکھتے ہیں۔ایوارڈ کو تو لوگ بھول جاتے ہیں۔ ایوارڈ صرف گھر میں جگہ لیتا ہے جبکہ کام عوام کے ذہنوں میں جگہ بناتا ہے جو کہ دیرپا ہوتی ہے۔ جس کے بعد ایوارڈ بے وقعت ہوتا ہے۔
شاید زندہ لوگوں کو سراہنے کیلئے بڑا ظرف چاہئے جس کی ہمارے ملک میں بہت کمی ہے۔ اسی لئے زندہ لوگوں کو خراج تحسین کیلئے مرنے کا انتظار کرنا چاہئے اور ان کو چاہئے کہ پہلے ہی سے اپنی زندگی میں اولاد اور گھر والوں کو نصیحت کر جائیں کہ اگر مجھے کسی وجہ سے ایوارڈ دیا گیا تو فلاں فلاں پیغام دینا۔
ایک صاحب اہل دانش تھے انہوں نے اپنی اولاد سے کہا کہ اگر میرے مرنے کے بعد ایوارڈ دیا گیا تو جا کر شکریہ ادا کرنا اور لینے سے انکار کر دینا اور فلاں فلاں کو یہ ایوارڈ دے دینا تاکہ اس کو میری طرح ایوارڈ لینے کیلئے دنیا سے نہ جانا پڑے اور اس کو زندگی ہی میں خوشی اور مقام دونوں مل جائیں اور وہ اس ایوارڈ کے فائدے اور اثرات کے مزے لے سکے۔ کیونکہ بیٹا اولاد کیلئے والدین تو مرنے کے بعد دیئے گئے ایوارڈ کے بغیر بھی بہت اہم ہوتے ہیں ان کو والدین کے ایوارڈ سے concern نہیں ہونا چاہئے۔ لہٰذا یہ سوچنا کہ کوئی اور انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے نہ جائے تم ایوارڈ لے کر ضائع کرنے کی بجائے کسی اور کو دے کر اس کی ذات اور زندگی سنوار دینا۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan