Episode 21 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 21 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

مجھے یہ بالکل اچھا نہیں لگتا کہ جس طرح بچے ماں کا انتظار کرتے ہیں کہ آکر انہیں تیار کروائے اس طرح شوہر بیوی کا انتظار کرے کہ آکر مجھے تیار کروا کے دفتر بھیجے۔ جو شخص خود تیار نہیں ہو سکتا وہ اور کیا کرے گا۔ ویسے بھی بچپن میں بھی میں تیار ہونے کا کام خود کرتا تھا اور آج بھی خود ہی کرنا پسند کرتا ہوں۔
بیوی نے شوہر کو دیکھا کہ وہ انتہائی مہارت سے ٹائی لگا لیتے ہیں نہ ہی ان کو کسی دن ٹائی لگانے میں مشکل ہوئی نہ ہی غلطی ہوئی۔
مگر پھر بھی بیوی نے Practice کی کہ ٹائی کی Knot کس طرح لگائی جا سکتی ہے۔ بیوی نے مکمل مہارت حاصل کرنے کی کوشش کی ٹائی لگانے میں کہ مبادا کسی دن ضرورت پڑ جائے خدا نخواستہ ہاتھ پر چوٹ وغیرہ لگ جائے  بازو یا کندھے میں درد ہو جائے وغیرہ مگر ایسے دن کے آنے کی دعا نہ کی جا سکتی تھی صرف تیاری کی جا سکتی تھی وہ کرلی گئی اور موقع کی تلاش تھی کہ ایک دن شوہر کا پٹھا چڑھ گیا۔

(جاری ہے)

بیوی کو اپنی عقلمندی پر رشک آیا کہ اس نے تمام تیاری مکمل کر رکھی تھی ٹھیک ہی کہتے ہیں علم و ہنر کبھی ضائع نہیں جاتے۔ بیوی مسلسل خود ستائشی میں مصروف تھی کہ اس نے دیکھا کہ شوہر ٹائی لگائے بغیر دفتر جانے کو تیار مگر بیوی کا احسان لینے کو نہیں۔ بیوی ابھی اس shock سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی کہ شوہر نے کہا شرٹ کے بٹن بند کر دو (کیونکہ وہ بٹن بند کرنے کی کوشش میں ناکام ہو چکے تھے) ٹائی لگائے یا پہنے بغیر تو دفتر جایا جا سکتا تھا مگر شرٹ پہنے بغیر نہیں اور نہ ہی کھلے بٹنوں کے ساتھ۔
بیوی اس اچانک ملنے والی خوشی میں اس قدر گم ہو گئی (کیونکہ غیر متوقع خوشی تھی) کہ بٹن غلط بند کر دیئے۔ شرم کے مارے شوہر کی طرف نہ دیکھا اور خیال آیا کہ کاش کانوں کو بھی بند کیا جا سکتا آنکھوں کی طرح۔ اس کے بعد دل کی گہرائیوں سے شکر ادا کیا کہ آج شوہر نے ٹائی نہ لگانے/ پہننے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس میں تو جان کا خطرہ تھا اگر وہ ٹائی کی knot (گرہ) زیادہ کس دیتی اور اسے ڈھیلا کرنے میں دیر ہو جاتی تو بیوہ ہونے کا انجام اس قدر خوفناک تھا کہ اس کے مقابلے میں بغیر Romance والی زندگی بہت بھلی لگی۔
آج Romance نہیں ہے تو کل ہو جائے گا لیکن اگر بیوہ ہو جاتی تو Romance اور شوہر دونوں سے ہاتھ دھونے پڑتے لہٰذا 50% نقصان پر ہی (یعنی بغیر Romance کے) گزارا کرنا بہتر تھا۔
وقت اپنی رفتارِ عام سے گزر رہا تھا کوئی مسئلہ نہ تھا مگر مزہ بھی نہ تھا۔ پھر دل میں امنگ نے کروٹ لی کہ وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ بہتری کیلئے کوشش کی جائے پرانی کہاوت ہے کہ مرد کے دل کا راستہ پیٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔
اس راستے پر سفر کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ منزل مقصود کہاوت کے مطابق پا لی جائے۔
نئی Dishes بنانے کا ارادہ کیا۔ انتہائی شوق سے Dish try کی مگر صحیح نہ بنی کیونکہ ریسپی Recipe code کے ذریعے حاصل کی گئی تھی اس میں ایک step miss کر دیا گیا تھا اس لئے Dish ٹھیک نہ بنی۔ دوبارہ TV سے مکمل Recipe دیکھ کر try کی مذکورہ Dish شوہر کے آنے پر serve کرتی تھی کہ پتہ چلا کہ آج وہ کہیں اور invited ہیں۔
کھانا کھا کر آئیں گے۔ ڈش کی عمر کم تھی وہ شوہر کے آنے تک یا اگلے کھانے تک Presentable نہ رہی پھلوں نے پانی چھوڑ دیا لہٰذا محنت ضائع ہو گئی۔
کچھ دن بعد شوہر کی مصروفیات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پھر کوشش کی۔ شوہر وقت مقررہ پر گھر بھی آ گئے مگر آکر جو اعلان انہوں نے کیا وہ مایوس کرنے کیلئے کافی تھا۔ آج میں کھانا نہیں کھاؤں گا صرف کھچڑی بنا دو اس طرح کچھ دن یونہی پیٹ کی خرابی میں گزر گئے۔
اس کے بعد جس دن یقین تھا کہ آج گھر پر ہی کھانا کھائیں گے اور پیٹ بھی بالکل ٹھیک ہے انتہائی شوق سے کھانا بنایا اور آج دل تک پہنچنے کا راستہ سڑک کی بجائے موٹروے محسوس ہو رہا تھا اور منزل مقصود کے سنگ میل پر چشم زدن لکھا تصور ہی تصور میں نظر آ رہا تھا۔ سفر کرنا کبھی بھی اچھا نہ لگتا تھا مگر آج اس سفر کا انتظار تھا کہ کب یہ شروع ہو۔
ڈور بیل کی آواز سنائی دی شوہر کو Receive کرنے گئی مگر مہمانوں کو Receive کرکے لوٹی وہ بھی میکے کے۔ شوہر سمجھے کہ شاید میکے کے استقبال میں، اعزاز میں یہ اس قدر اہتمام کیا گیا ہے اور شوہر پر یہ تاثر نہ جا سکا کہ یہ انتظامِ خاص تو ان کیلئے تھا۔
مگر کوشش جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ایک دن انتہائی منفرد انداز سے مغز بنانا سیکھا اور بنا ڈالا کہ جتنی بھی طرح کا کھایا ہوگا ایسا نہ کھایا ہوگا۔
جب کھانے کیلئے کہا تو جواب ملا کہ میں یہ نہیں کھا سکتا۔ میرا کولیسٹرول ہائی رہتا ہے۔ مگر اس عمر میں تو یہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ شوہر نے کہا مجھے اسی عمر میں یہ مسئلہ ہے۔ بیوی نے سوال کیا کہ آپ نے کبھی بتایا نہیں شوہر نے کہا اس میں بتانے والی کیا بات ہے۔ Contagious disease (اچھوت کی بیماری) تو ہے نہیں جس سے کوئی خطرہ ہوتا۔ خاندانی مسئلہ ہے اور میں نہیں چاہتا کہ زبان کا چسکا پورا کرتے کرتے میں زندگی ہسپتال میں گزاروں بے شک موت تو وقت مقررہ پر ہی آئے گی۔
بیوی کچن میں کام کر رہی تھی کہ شوہر کچن میں پانی لینے گیا دیکھا کہ لیموں نچوڑا جا رہا ہے تو سوال کر ڈالا کہ کیا بن رہا اپنے لئے۔ وہ سوال کے آخری حصے (اپنے لئے) پر چونک گئی تو شوہر نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا کہ لیموں سے میرا تو گلا خراب ہو جائے گا اس لئے تم کھانا تمہیں پسند ہے۔
بیوی نے کولیسٹرول کم کرنے والی چیزوں کو پکانے کا فیصلہ کیا کہ شاید کچھ بہتری آ سکے۔
شوہر نے دال کھا کر کہا تم تو دالیں بھی اس طرح بناتی ہو جیسے کڑاھی بنائی جاتی ہے۔ یہ Cholesterol کم کرنے کیلئے کھائی جاتی ہیں مگر جس طرح تم بناتی ہو اس طرح تو یہ خود کولیسٹرول کا ڈھیر ہیں۔ بات تو ان کی ٹھیک تھی کیونکہ Cooking Expert کی ریسپی کے مطابق اس میں بھگار  مکھن وغیرہ ڈالے گئے تھے۔ اس چیز پر تو غور ہی نہیں کیا گیا تھا سارا فوکس اچھی دال بنانے کی طرف تھا ویسے بھی کیسٹرول سے پاک دال تو صرف ابلی ہوئی دال ہوتی ہے جسے بنانا کوئی کمال نہ تھا اور نہ ہی اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل کئے جا سکتے تھے۔
اس Hit & trial method کو جاری رکھتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اور بھی کوششیں کرنی چاہئیں یعنی Simultaneously او رطریقے بھی آزمانے چاہیں تاکہ Double اور جلدی اثر ہو کیونکہ صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ بیوی ابھی اس ادھیڑ پن میں تھی کہ شوہر شکل لٹکائے گھر آ گیا۔ معمول کی نسبت چہرے پر Display شدہ تاثرات زیادہ خراب دکھائی دیئے تو پوچھنے پر پتہ چلا کہ سر میں درد ہے اور فرمائش کی گئی کہ چائے بنا دو۔
چائے بناتے ہوئے بیوی کو شوہر کا سر درد Blessing is disguise لگا۔ اچانک دماغ میں جھماکہ سا ہوا کہ کیوں نہ سر دبانے کی آفر کی جائے یہ واقعی ہی Blessing ہے۔ ادھر چائے اثر کرے گی ادھر سر دبانا اثر کرے گا یوں لگا کہ جیسے منزل خود چل کر پاس آ گئی ہو اور کہہ رہی ہو کہ مجھے گلے لگا لو۔ بہت دل لگا کر چائے بنا کر پیش کی اور موقع دیکھتے ہی سر دبانے کی آفر کی۔
خیال تھا کہ اس آفر کا استقبال بہت دل و جان سے ہوگا (کیونکہ نزاکت حالات یہی اشارہ دیتی تھی) مگر جواب آیا کہ دبانے سے کیا ہوگا درد تو سر کے اندر ہو رہا ہے جہاں دبانے کا اثر تو کیا دوا کا اثر بھی پہنچ جائے تو بڑی بات ہے مجھے دوا کی ضرورت تھی جو کہ میں کھا چکا ہوں۔
کیا سوچا تھا کیا ہو گیا یہ تو صرف کہنے سننے کی باتیں ہیں کہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں سے دلوں میں جگہ پیدا ہو جائے۔
اسی اثناء میں شوہر نے آرام کی فرمائش کرکے کمرے سے نکل جانے کو کہا اور اس طرح Routine سے زیادہ دوری پیدا ہو گئی۔ نماز بخشوانے گئے تھے۔ الٹا روزے بھی گلے پڑے۔
دن گزرتے گئے مذکورہ حربے جاری تھے کہ اضافی خدمت کے خیال نے دل میں کروٹ لی کہ واپسی پر (یعنی شوہر کے گھر آنے سے پہلے) کپڑے نکالے ہوئے ہوں۔ عمل شروع کیا تو سننے کو ملا یہ کیا کیا تم نے؟ باتھ روم میں کپڑے لٹکا دیئے ان پر چھینٹے پڑ جاتے ہونگے ایسے کپڑے پہننے کو کہاں دل کرتا ہے۔
آئندہ ایسا کرنے سے پرہیز کیا۔ مگر کمرے میں کسی قسم کے چھینٹے پڑنے کا خطرہ نہ تھا۔ اس لئے کپڑے نکال کر کمرے میں لٹکا دیئے تو کہنے لگے شلوار قمیض کیوں نکال رکھی ہے۔ مجھے تو Tea shirt اور جینز پہننی تھی۔ آئندہ tea shirt اور جینز نکالی ہوئی تھی تو شوہر اس قدر دیر سے گھر آئے کہ کہنے لگے آدھی رات کو میں یہ پہنوں گا۔ sleeping suit پہنا اور سو گئے۔ اگلی بار وقت کی مناسبت سے موقع ذہن میں رکھ کر کپڑے نکالے تو شکایت کی گئی کہ یہ کیا تم کپڑے کمرے میں بکھیر دیتی ہو۔
کپڑے باہر کیوں پڑے ہوتے ہیں؟ کمرا بکھرا ہوا برا لگتا ہے الماری سے کپڑے نکال کر بستر پر ڈالنے میں کیا حکمت ہے۔ بستر سے اٹھانے اور الماری سے نکالنے میں زیادہ فرق نہیں ہے۔
عجیب مصیبت ہے ہر چیز کا اثر الٹا ہوتا ہے ان سارے معاملات کی کامیابی اور مطلوبہ نتائج کا حصول صرف ایک شخص کی محنت و کاوش سے نہیں ہوسکتا۔ اس کیلئے دوسرے شخص (شوہر) کے ساتھ Understanding کی کم از کم مقدار کا ہونا ضروری تھا۔
جس کیلئے کی جانے والی ہر کوشش بے اثر تھی۔ موڈ کا پتہ ہونا ضروری تھا جو کہ آج تک سمجھ نہ آیا تھا۔ ہر judgement ہر اندازہ غلط ثابت ہوتا۔ اصل بات یہ کہ تعاون و لحاظ ناپید تھا۔ کیونکہ لحاظ و تعاون سے ہی under standing کا آغاز ہو سکتا ہے اور under standing کے بعد ہی موڈ کے مطابق معاملات۔ زندگی و شادی سنبھالے اور نبھائے جا سکتے ہیں جبکہ یہاں تو حال یہ تھا کہ بات مشرق کی کریں جواب مغرب ملتا، فاصلہ کم ہونے کی بجائے اور زیادہ ہو جاتا، مایوسی بڑھ جاتی۔
صرف ایک چیز تھی جو ابھی تک دیکھی نہ تھی باقی تو ہر طرح سے ہار چکی تھی۔ وہ رہ جانے والی چیز بیماری تھی۔ اس پر بھی خوش فہمی نہ تھی ہلکی سی امید تھی کہ صحت مندی میں انسان کا دماغ آسمان میں ہوتا ہے اگر یہ بیمار ہو گئے اور مجھے تیمار داری کا موقع ملے تو پھر دیر نہ لگے گی اس برف کے پگھلنے میں مگر اس سب کیلئے دعا نہ کی جا سکتی تھی مبادا توبہ ہی نہ کرنی پڑ جائے۔
انتظار ختم ہوا ایک دن شوہر بیمار ہو گئے شدید بخار اور زکام ہو گیا بیوی انتہائی جوش و خروش کے ساتھ سوپ بنا کر لے کر گئی (خوب دل لگا کر بہترین سوپ بنایا گیا تھا)۔ وہ سوپ پلانے کیلئے آگے بڑھی تو جواب ملا
یہ کیا کر رہی ہو؟
میں خود ہی پی لیتا ہوں۔ (شوہر نے کہا)
میں نے سوچا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں میں پلا دیتی ہوں۔ بیوی نے جواب دیا۔
مگر میرے ہاتھ تو ٹھیک کام کر رہے ہیں۔ ہاتھوں میں تو بیماری نہیں ہے نہ ہی چوٹ لگی ہے۔ یہ سننے پر سمجھ آیا کہ یہ جو ڈراموں فلموں کہانیوں میں سوپ پلایا جاتا ہے سب بے کار دکھلاوا ہے اور ہاں ظلم تو یہ دکھا کر کرتے ہیں کہ صرف 3,2 چمچ سوپ پلا کر ہی فائدہ ہو گیا۔ انتہائی کمزوری اور بیماری جس کا شور مچایا جا رہا ہوتا ہے صرف 2 چمچ سوپ سے دور ہو جاتی ہے پینے والا پلانے والے کا مشکور و قدر دان اور محبوب بن جاتا ہے۔
پچھلے سارے مسئلے ختم ہو جاتے ہیں۔ جبکہ یہاں ذرا سی سرد مہری کم ہو کر نہیں دے رہی۔ پتہ نہیں کون سے بے وقوف مرد ہیں جو کہ بٹن لگوا کر نہ صرف خوش بلکہ متاثر ہو جاتے ہیں اور اتنے ہو جاتے ہیں کہ بیوی کو دوبارہ کبھی بٹن لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ چند چمچ سوپ پی کر ہی مطلوبہ نتائج اس قدر تیزی سے مل جاتے ہیں کہ بیوی باقی سوپ پینے پر اصرار نہیں کرتی کیونکہ وہ صرف متاثر و موم کرنا چاہتی ہے زیادہ سر پر چڑھانا نہیں چاہتی ویسے بھی
 Excess of every thing is bad
زندگی اور کہانی میں فرق ہوتا ہے۔
وہاں Writer کے اختیار میں سب کچھ ہوتا ہے۔ دکھائے جانے والے شوہر پر hold اور control ان کا ہوتا ہے وہ شوہر اپنی مرضی سے نہیں بلکہ دوسروں کی مرضی سے دوسروں کے الفاظ کہہ رہا ہوتا ہے۔ یہ آزاد شوہر کہاں کسی کے تاثر اور حصارِ جذبات میں آنے والے ہوتے ہیں۔ خواہ مخواہ لوگوں کو Fantasy دکھا دکھا کر ان کا دماغ خراب کرتے ہیں اور ان کی زندگی کو مشکل بناتے ہیں۔
یہ سب کوششیں اصلی شوہر پر کرنا بے کار ہے ویسے بھی تمام ضروریاتِ زندگی پوری ہو رہی ہیں۔ کوئی مسئلہ نہیں کوئی برا سلوک، روک ٹوک اور پریشانی نہیں۔
یہ سب کافی ہے خوش رہنے کیلئے ویسے بھی شوہر اور ہیرو میں فرق ہوتا ہے۔ شوہر صرف شوہر بن جائے تو بہت ہے اسے ہیرو بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی ہیرو جیسی توقعات وابستہ کرنی چاہئیں کیونکہ ہیرو نے تھوڑی دیر کیلئے شوہر بننا ہوتا ہے اور اصلی شوہر نے تمام عمر شوہر رہنا اور بننا ہوتا ہے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan