Episode 22 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 22 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

اقبال کے ملک میں یوم اقبال (2012ء)
نامور شخصیات تو بہت ہوتی ہیں مگر کچھ شخصیات عہد ساز ہوتی ہیں اور انتہائی قلیل مقدار ان شخصیات کی ہوتی ہے جو کہ عہد سے بے نیاز ہوتی ہیں یعنی ان کا پیغام و کام Timless ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک آفاقی شخصیت علامہ محمد اقبال کی ہے۔
علامہ کا پاکستان سے رشتہ خیال سے حقیقت تک کا ہے۔ خیال نہ ہوتا تو حقیقت بھی نہ ہوتی۔
آج یہ قوم یہ ملک نہ ہوتا۔ اس ملک کے خالق کو یہ قوم کس طرح دیکھتی ہے، کس طرح یاد رکھے ہوئے ہے۔ اس پر نگاہ ڈالتے ہیں۔
پہلی مشکل تو یہ ہے کہ یہ قوم بہت بری یادداشت کی مالک ہے۔ اس کو اس کی اپنی ہی محسن شخصیات کو یاد کروانے کیلئے چھٹی دینی پڑتی ہے۔ کم از کم چھٹی کے لالچ میں  چھٹی کا حساب لگاتے ہوئے ہی قوم کی نئی نسل کے ذہن میں ان کے دماغ کی data base میں محسن شخصیات کے نام Enter ہو جائیں۔

(جاری ہے)

ان شخصیات کے کارناموں  ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں  ان کے قوم کے سر احسان کا ذکر تو درکنار اب تو نام کی، شناخت کی، مصیبت پڑ گئی ہے۔
بحرحال علامہ اقبال کی وفات کی چھٹی تو پہلے ہی ختم کر دی گئی تھی کہ اچانک ان کی پیدائش کی چھٹی بھی ختم کر دی گئی تاکہ آنے والی نسلیں نام تک بھول جائیں۔ مگر ان کے بیٹے نے چھٹی بحال کروائی۔ اگر ان کا بیٹا نہ ہوتا  وہ (ان کا بیٹا) قانون دان نہ ہوتا تو ان کی قوم کو چھٹی منا کر لیڈران کو یاد رکھنے کی زحمت سے بھی محروم کر دیا گیا تھا۔
چھٹی تو دے دی گئی مگر شعور اقبال پیدا ہونے کے تمام امکانات ختم کرنے کے مکمل انتظامات کر دیئے گئے ہیں۔
اب نئی نسل صرف اقبال ڈے کے حوالے سے اقبال نامی شخص کو یاد رکھتی ہے، صبح دیر تک سوتی ہے  چھٹی کے دن کو چھٹی کے دن کی طرح مناتی ہے۔ انہیں نہیں معلوم کون اقبال تھا اس کا کارنامہ کیا تھا۔ کس طرح اقبال کی سوچ و خیال نے عمل کیا  اثر کیا۔
یہاں تک ہے کہ بعض لوگوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ”اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا“ سے کیا مراد ہے۔ ان کے خیال میں جس طرح وہ سب رات کو من چاہے خواب دیکھتے ہیں اس طرح اقبال ایک رات سو رہے تھے انہوں نے خواب میں پاکستان دیکھا۔ جو کہ کوئی کمال کی بات نہیں کیونکہ خواب آنے پر کسی کا اختیار نہیں۔ یہ خواب ہی تھا نا اقبال کو نہ آتا انہیں آ جاتا تو وہ بھی لوگوں کو بتا دیتے اور سننے والوں میں سے کوئی پاکستان بنا دیتا۔
ان کے نزدیک یہ سب ایک Matter of chance تھا یعنی by chance ہی اقبال کو سوتے میں آنے والے خوابوں میں سے ایک خواب پاکستان بنانے کا تھا۔ سادہ ترین الفاظ میں اسے کہا جائے گا کہ ”تکا“ لگ گیا۔
حالانکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے انہوں نے یہ خواب سوتے میں نہیں دیکھا تھا بلکہ جاگتے میں دیکھا تھا۔ جاگتے میں خواب دیکھنے کیلئے صرف آنکھ کا بیدار ہونا ضروری نہیں بلکہ ذہن اور روح کا بیدار ہونا زیادہ ضروری ہے۔
جس کا اہتمام علامہ کے ہاں بلند ترین درجہ میں تھا۔ علامہ کا یہ تصور محض ایک خیال نہ تھا۔ انسان جس چیز کی فکر کرتا ہے  پرواہ کرتا ہے، اس کے بارے سوچتا ہے۔ عقلمند انسان مسائل کی وجہ پر غور کرتا ہے اس کے حل کے بارے میں سوچتا ہے۔ علامہ اقبال مسلمانوں کی حالتِ زار پر فکر مند تھے۔ اسباب زوال پر غور کرتے تھے ان کے مستقبل کیلئے فکر مند تھے جو کہ بظاہر غلامی در غلامی نظر آتا تھا۔
مگر انہوں نے غور و فکر کیا تو انہیں یہ حل نظر آیا کہ مسلم اکثریت کے علاقوں کو الگ آزاد ملک بنا دیا جائے۔ یہ خیال صرف ان کو کیوں آیا؟ کروڑوں انسان بلکہ مسلمان اور بھی تو تھے کسی اور کو یہ خیال کیوں نہ آیا۔ کچھ خاص تھا اس شخص میں جو اوروں میں نہ تھا۔ اس شخص میں موجود یہ خصوصیت ہی اسے ممتاز کرتی ہے۔ یہ ممتاز شخصیت تمام مسلم امہ کیلئے خاص ہے۔
حدود و قیود اور زمان و مکان سے بے نیاز ایک آفاقی حیثیت کی مالک ہے۔ ایسی شخصیت جسے دنیا کے دوسرے ممالک Own کرتے ہیں۔ اسے ان حوالوں سے جانتے پہچانتے ہیں جن کا ہمیں شعور بھی نہیں۔ ہمیں شعور کیوں نہیں کیونکہ نہ تو خود کوئی یہ شعور حاصل کرنا چاہتا ہے اور نہ کوئی اپنی نسل کو یہ شعور پہنچانا چاہتا ہے۔ نہ حکومت  نہ ادارے  نہ افراد  نہ فرد خود۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ میڈیا کا دور ہے اور میڈیا اقبال کو جانتا پہچانتا نہیں۔ معاف کیجئے گا بات سخت ہے مگر سچ ہے چند اشعار Display کر دینے سے سینکڑوں میں سے صرف دو یا تین چینلز پر وہ بھی صرف اقبال ڈے پر نئی نسل تک ”اقبال“ پہنچانے کا ضامن نہیں۔ دیکھئے ذرا آپ کا اپنا میڈیا کس طرح اقبال ڈے مناتا ہے۔ پھر آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا یہ سب اطمینان بخش ہے۔
پاکستان میں دو طرح کے چینلز ہیں News اور Entertainment (تفریحی)۔
اقبال خبروں میں پیدا ہوتا ہے۔ مزرا اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب ہوتی ہے۔ ٹاک شوز میں بہت ہی کم اینکرز ایسے ہیں جو کہ اس دن بھی حب الوطنی کا مظاہرہ کریں اور اپنے پروگرام کا موضوع اقبال رکھیں۔ میزبان اقبال پر پروگرام کرے بھی تو اس پروگرام کا حال پھوہڑ مجبور بہو کے ہاتھ کے بنے ہوئے پہلے کھانے جیسا ہوتا ہے یعنی بدمزہ کیونکہ پروگرام میں آنے والے سیاستدانوں کو نہ تو علم ہوتا ہے نہ شعور وہ آتے آتے کسی سے اقبال کے کچھ اشعار لکھوا لاتے ہیں۔
میزبان پوچھتا کچھ ہے وہ جواب کچھ دیتے ہیں یعنی سوال گندم جواب چنا والا حساب ہوتا ہے اور اس دن پروگرام میں موجود دوسری پارٹی کے سیاستدانوں کے ساتھ الزام تراشی کرنا مشکل ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے پروگرام کا وقت پورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ سیاستدان موقع بے موقع اقبال کے اشعار بلاوجہ سنا سنا کر ان اشعار کی حرمت کا جنازہ نکالتے ہیں اپنی باری ٹرخاتے ہیں اور کھینچ کھانچ کر پروگرام کا وقت پورا کرتے ہیں۔
پڑھے جانے والے اشعار کا موٹا موٹا مطلب بھی نہیں سمجھتے ہوتے اس کی روح کو سمجھنا تو دور کی بات ہے۔ کیونکہ اگروہ صرف ظاہری مطلب بھی سمجھتے ہوں تو کم از کم شعر کو موقع محل کے مطابق استعمال کریں۔ جن سے وہ اشعار لکھوا کر لائے ہوتے انہوں نے اپنی جانب سے آسان ترین اشعار لکھے ہوتے ہیں مگر یہ لوگ (سیاستدان) ان کا بھی حلیہ بگاڑ دیتے ہیں اور سننے والے اگر درد ملک رکھتے ہوں تو پریشان ہو جاتے ہیں کہ ان سیاستدانوں کے ہاتھوں کیسے ملک کی تقدیر بدلے گی۔
تفریحی چینلز پر تو عالم ہی اور ہوتا ہے۔ ان میں زیادہ تر چینلز پر اقبال پیدا نہیں ہوتا یعنی وہاں نہ تو یوم اقبال کا ذکر ہوتا ہے اور نہ ہی اقبال کا وہ سب معمول کے مطابق اپنے پروگرامز کر رہے ہوتے ہیں۔ جس سے لگتا ہے شاید یہ چینلز پاکستان سے نہیں بلکہ کسی اور ملک سے آ رہے ہیں۔ اس قدر لاتعلقی اور بے رخی ہوتی ہے کہ یقین نہیں آتا مثلاً ایک مارننگ شو میں Cooking کا مقابلہ ہو رہا ہے۔
گھر میں کھانا اگر ایک دن نہ بنے تو گھر چل جاتا ہے مگر لگتا ہے چینل پر اگر ایک دن نہ پکے تو چینل کیلئے خطرناک تو ہے ہی ساری قوم کیلئے بھی خطرناک ہوگا۔ جو ظاہر کرتا ہے اس قوم کو ہر وقت کھانے کی فکر رہتی ہے۔ یہ پیٹ سے آگے سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
ایک دوسرے چینل پر روٹین کا پروگرام چل رہا ہے۔ عوام کو ایک سوال دیا گیا ہے کہ اس کا ہاں یا ناں میں جواب دیں۔
Live کالز کریں۔ فلاں فلاں انعامات جیتیں ایسے جیسے وہ کسی اور سیارے پر رہتے ہیں ان کو کیا لینا دینا زمین پر پیدا ہو کر تصور پاکستان دینے والے قومی شاعر سے۔
ایک تفریحی چینل پر ایک اداکارہ کو مارننگ شور میں بلایا گیا ہے ان سے مختلف جانوروں کی آوازیں نکلوائی جا رہی ہیں۔ ان کی اداکاری کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ ان کو مختلف چیزیں چکھا کر ان کی حس ذائقہ کو آزمایا جا رہا ہے۔
ان کے نزدیک یوم اقبال پر عوام کو ایسی تفریح مہیا کرنا ضروری ہے۔ یہ تو بالکل ایسے لگتا ہے جیسے آپ کے گھر انتہائی اہم مہمان آئیں اور آپ انہیں چھوڑ کر اپنا سٹور صاف کرنے لگ جائیں۔
ایک اور چینل پر ایک خاتون صبح صبح سب کو Exercise کروا رہی ہیں جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ Exercise کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا سانس لینا کیونکہ صرف سانس لینا ہی ایک ایسا کام ہے جسے ہر وقت ہر انسان ہر جگہ جاری رکھتا ہے۔
اگر اقبال ڈے پر خواتین کو Exercise نہ کروائی جاتی تو قومی حسن کو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ اتنا شدید تھا کہ اس کے آگے اقبال ڈے پر اقبال کے حوالے سے بات کرکے خواتین کی ذہنی صحت کا انتظام کرنا جو کہ ان کو جسمانی صحت و حسن سے بھی دوچار کر دیتا بے وقعت تھا۔
ہمارے ہی ایک چینل کا حال یہ ہے کہ وہ صبح سویرے لوگوں کو ان کی قسمتوں کا حال بتا رہے ہیں۔
اقبال ڈے پر ایک ماہر افرادِ قوم کو ان کے دلکش مستقبل کی نوید سنا رہے ہیں کسی کا کوئی ہاؤس روشن ہے تو کسی کا کوئی ستارہ اچھا سب کا مستقبل اچھا ہے اور اس کو مزید اچھا کرنے کیلئے مختلف پتھر تجویز کئے جا رہے ہیں۔ فلاں انگلی میں فلاں پتھر پہن لیں۔ یعنی قسمت کی خوشخبری میں جو کمی بتاتنے والے کے Software میں ہے اس کو انگلی میں پہنا گیا پتھر پورا کر دے گا۔ پتھر کو بت بنا کر امید لگا لی جائے یا انگلی میں پہن کر آس لگا لی جائے بات تو ایک ہی ہے۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نا امیدی
مجھے بتا تو سہی اورکافری کیا ہے

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan