Episode 24 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 24 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

جبکہ علامہ اقبال کے ہاں قائداعظم کا کیا مقام ہے یہ بھی نوجوان نسل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ جس روز قائداعظم نے علامہ اقبال سے ملنے جانا تھا علامہ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ آج مجھ سے ایک عملی شخصیت ملنے آ رہی ہے۔ میں ایک فکری شخصیت ہوں اور وہ ایک عملی شخصیت ہیں۔ عملی شخصیت ہونا فکری شخصیت ہونے سے دس گنا زیادہ مشکل ہے۔ علامہ اقبال نے ہی قائداعظم سے ہندوستان آنے کی اور سیاست میں دوبارہ حصہ لینے کی درخواست کی۔
جو کہ انہوں (قائداعظم) نے قبول کی۔ اس طرح علامہ اقبال نے مسلمانوں کو شعور و لیڈر دونوں دیئے پھر خود تو وہ عالم ارواح میں چلے گئے۔ مگر جس کے سپرد کرکے گئے اس نے ان کے خواب کو تعبیر دے دی۔ مسلمانوں کے فائدے کیلئے دونوں میں کس قدر تعاون تھا اور آج کے سیاستدان ذاتی مفاد کے لیے دوسروں کو کمزور کرنے کیلئے اپنے ہم عصروں کا سیاسی حال و مستقبل تباہ کرنے کے لیے رات دن مصروف ہیں اور ملک کی جڑیں مسلسل کاٹ رہے ہیں۔

(جاری ہے)


سیاسی تعاون  نظریاتی ہم آہنگی اور منزل مقصود کی سچی لگن کا جو عملی نمونہ علامہ اقبال اور قائداعظم کے درمیان تھا۔ وہ نوجوان کو‘ بچوں کو بتانے کی ضرورت ہے۔ صرف چند اشعار کی، کچھ نظموں اور غزلوں کی گائیکی کے پروگرام نئی نسل تک پہنچا دینے سے (جن کا وہ صرف ردہم سمجھتے ہیں مطلب اور سپرٹ نہیں) اس نسل کا حق ادا نہیں ہوتا۔
نئی نسل کو‘ نسل حاضر کو بتائیں کہ شاہین اور عقاب ایک ہی ہے۔
اقبال شاہین کی مخصوص پانچ خصوصیات کی بنا پر اپنے جوانوں کو شاہین بنانا چاہتے تھے۔ شاہین بلندی پر پرواز کرتا ہے، مردار نہیں کھاتا (مرا ہوا شکار نہیں کھاتا بلکہ خود شکار کرتا ہے) گھونسلا نہیں بناتا  دوران پرواز بھی اس کی نگاہ بلند ہوتی ہے۔ یعنی وہ بلندی پر بھی مزید بلندی کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ قائداعظم کو گھوڑا پسند تھا۔
کیونکہ گھوڑے کی گردن ہمیشہ اوپر کی طرف ہوتی ہے کبھی بھی جھکی ہوئی  مڑی ہوئی یا زمین کی طرف نہیں ہوتی۔ سر اٹھا کر رکھنے اور کھڑا ہونے کی بدولت گھوڑا قائداعظم کو پسند تھا۔
غور کیجئے دونوں لیڈران کی پسند پر، ان کی حکمت پر، دونوں کو بلندی کی طرف مائل سر اٹھا کر جینے والی مخلوق پسند تھی جبکہ ان کی قوم بین الاقوامی بھکاری بن کر رہ گئی ہے میڈیا کے ذریعے بچوں کو شاہین بنانے کی کوشش کریں۔
شاہین کی خصوصیات بتائیں اور پیدا کرنے کی مشق کریں تاکہ یہ بچے بڑے ہو کر اپنے زور بازو پر یقین کریں خود شکار کریں مرا ہوا شکار یعنی سفارش اور تعلقات پر گزارا نہ کریں یہ دوران پرواز بلند نگاہ ہوں گے خود دار ہوں گے تو رشوت نہ لیں گے جس رزق سے پرواز میں کوتاہی آتی ہو گی اس پر موت کو ترجیح دیں گے۔
جو چیز دماغ نہ جانتا ہو اس کو آنکھ دیکھ نہیں سکتی۔
مرد مومن کو کوئی جانتا ہوگا تو اس کو Idealize کرے گا اور مرد مومن بننے کی کوشش کرے گا۔ شاہین بننے کے بعد مرد مومن بننا بہت آسان ہے شاہین کی خصوصیات پیدا ہو جائیں تو انسان کے اندر خود ہی مرد مومن بننے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ پھر یہ سفر خود بخود بڑھتا چلا جاتا ہے۔ کیونکہ دولت یقین ہی اصل دولت ہے جو اس منزل کی طرف رواں دواں رکھتی ہے۔
اقبال تو انسان کو حسن عمل و کردار کی اس بلندی تک پہنچنے کا راستہ دکھاتے ہیں کہ جہاں ان کے مطابق
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جائے۔
جبکہ آج صورتحال یہ ہے کہ:
ابلیس اپنی پاکدامنی پر شرمندہ ہے۔
ہم اقبال کو جانتے نہیں اس لئے اس کے افکار و نظریات کی اہمیت سے واقف نہیں۔ اقبال نے قدیم و جدید تمام علوم کا مطالعہ کیا۔ عظمت قرآن کا جو انکشاف علامہ پر ہوا وہ بیسویں صدی میں کسی پر نظر نہیں آتا  قرآن کی حقانیت پر جس قدر علامہ کو یقین تھا اسے بھی کہیں ڈھونڈا نہیں جا سکتا دوسری قومیں اقبال سے فیض پا رہی ہیں۔
کوئی اقبالیات میں Phd کی ڈگری دے رہی تو کوئی قوم ان کی احسان مند کہ انہوں نے (اقبال نے) ان کو مولانا رومی سے روشناس کروایا۔ وہ اظہار احسان مندی کیلئے ان کی علامتی قبر بنا کر بیٹھے ہیں اور ہم حقیقی قبر رکھتے ہوئے بھی اقبال کی حقیقی قوم ہوتے ہوئے بھی اور اس کے احسان (اس کے ملک) میں رہتے ہوئے بھی اس کے احسان مند نہیں۔
اقبال سے فیض یاب ہونا تو دور کی بات ہم تو ایک دن بھی اسے ڈھنگ سے یاد نہیں کر سکتے۔
ہم ایسا نہیں کر رہے تو پریشان حال ہیں۔ ہمیں اقبال کی ضرورت ہے اقبال کو ہماری ضرورت نہیں۔ اقبال کو تو دنیا تسلیم کر رہی ہے اپنے اپنے انداز سے۔ اقبال اس قوم کا محتاج نہیں بلکہ یہ قوم اقبال کی محتاج ہے۔ اس کے پاس کوئی Replacement کوئی Alternative نہیں۔
پہلے ملی نغموں میں یہ پیغام دیا جاتا تھا کہ ”کر دیں گے عمل سے بھی ثابت“ یعنی یہ نہ سمجھیں ”کہ ہم دن ہی منایا کرتے ہیں۔
“ لیڈران کی روحوں سے عمل کے وعدے کئے جاتے تھے اور یقین دلایا جاتا تھا کہ ہم صرف دن (یوم پیدائش و وفات) ہی مناتے ہوئے آپ کو یاد نہیں کرتے بلکہ عملی طور پر بھی آپ کی افکار پر عمل پیرا ہیں۔ اب تو دن منانا بھی چھوڑ دیئے یاد کرنا بھی چھوڑ دیا عمل تو ہم کب کا ترک کر چکے اب تو فکر بھی کھو دی۔ فکر ہو گی تو عمل ہوگا۔ فکر دینا شروع کریں گے تو عمل کی امید ہوگی۔
میڈیا پر دن منانا اس لئے چھوڑ دیئے گئے کیونکہ میڈیا پرائیویٹ چینلز (سوائے PTV کے) پر مشتمل ہے پرائیویٹ چینلز Business کر رہے ہیں اور Business Rating سے چلتا ہے۔ زیادہ Rating آتی ہے تو زیادہ کمرشلز آتے ہیں چینل کو نفع ہوتا ہے۔ اقبال پر کیا گیا پروگرام Rating نہیں دیتا۔ بکتا نہیں اس لئے اقبال چینلز پر چلتا نہیں۔ Rating اور مال بنانے کے چکر میں مال بنا لیا جاتا ہے اور شناخت گنوا دی جاتی ہے۔
چینل مالکان یہ نہیں سوچتے کہ اگر اسی طرح رہا تو ان کی آئندہ نسلیں ان کے چینل کہاں چلائیں گی۔ یہ ملک ہے تو اس میں ان کے چینل چل رہے ہیں۔ کیا وہ اپنے چینل کسی اور ملک میں چلا سکتے ہیں اور کما سکتے ہیں۔ نہیں ہرگز نہیں۔ اس ملک کی سلامتی اور مضبوطی ان کیلئے  ان کی نسلوں کیلئے مال بنانے کیلئے اور چینل چلانے کیلئے بھی اشد ضروری ہے۔ چینلز مالکان کو سوچنا چاہئے کہ جس تھالی میں کھا رہے ہیں اس کی حفاظت کی فکر کریں نہ کہ وہ اس میں چھید کریں گے۔
میڈیا موثر ترین طاقت ہے جس کے نتائج سب سے جلد آتے ہیں۔ اس کا استعمال صحیح انداز سے قوم پر اثر کرنے کا سب سے چھوٹا Short cut ہے۔ حکمرانوں پر تنقید کرنے کی بجائے، جلے کٹے پروگرامز کرنے کی بجائے  شور مچانے کی بجائے امید دلانے کا آغاز کریں۔ آپ حکومت نہیں بدل سکتے اپنا عمل بدلیں دوسروں کے دل بدلیں۔ دل بدل گئے تو انسان بدل جائیں گے اور حکمران و عوام سب ٹھیک ہو جائیں گے۔
سب کچھ منائیں Valantine`s ویک بھی منائیں  شادی ویک بھی منائیں مگر ساتھ ساتھ اقبال ویک اور قائد ویک وغیرہ بھی منائیں۔
اس دور کے تقاضوں کے مطابق اقبال ویک اور قائد ویک منائیں صرف عمر رسیدہ بزرگوں کے سپرد اقبال ڈے کو‘ قائد ڈے کو نہ کریں۔ بچوں  نوجوانوں  جوانوں  بزرگوں سب کے سب کو شامل کرکے یہ سب کریں۔ مثلاً
بچوں کا  اقبال کی نظموں کی Singing کا مقابلہ کروایا جا سکتا ہے۔
دھنیں بنانے کا مقابلہ کروایا جا سکتا ہے۔ Painting کا مقابلہ کروایا جا سکتا ہے۔
نوجوانوں میں شاہینِ اقبال کے نام سے پروگرامز کروائے جا سکتے شاہین آف Year کا مقابلہ کروایا جا سکتا ہے جو کہ ہر سال تبدیل ہوگا۔ اس میں مختلف عمر کے  مختلف Categories کے نوجوانوں میں مقابلہ کروایا جا سکتا ہے۔
مثلاً Artist's competition میں اقبال کے شاہین کو Paint کرنے کا مقابلہ کیونکہ شاہین کی مختلف خصوصیات کو نوجوان جانتے ہوں گے تو مختلف انداز سے اس کو Paint کریں گے۔
اس طرح Glamorize کرکے علم دیں پھر تربیت کریں تو عمل میں بھی آ جائے گا۔
علامہ کی  قائد کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر مختلف انداز سے پروگرام کئے جا سکتے ہیں۔ حصول خودی  بلندی خودی  معراج خودی وغیرہ وغیرہ مرد مومن پر بحث کی جا سکتی ہے۔ اس کو مختلف طریقوں سے لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے کسی ایماندار کانسٹیبل کو سرٹیفکیٹ  انعام  شیلڈ وغیرہ دی جا سکتی ہے لوگوں کو سوچنے پر اکسائیں۔
ان ہفتوں کو منانے سے پہلے (یعنی اقبال ویک  قائد ویک وغیرہ وغیرہ) خوب Advertising کی جائے ایک ڈرامہ دکھانے سے پہلے اس قدر Advertising کی جا سکتی ہے تو ان شخصیات کے دن منانے کیلئے کیوں نہیں کی جا سکتی۔
Super model ڈھونڈنے کیلئے چینلز سارا پاکستان پھر سکتے ہیں تو Super shaheen ڈھونڈنے کیلئے کیوں نہیں۔ Mega star ڈھونڈ سکتے ہیں تو Mega child star (جو کہ علامہ اقبال یا قائد کے ویک کے ہو) کیوں نہیں ڈھونڈے جا سکتے۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ ان پروگرامز میں اہم شخصیات، Celebrities کو‘ ان کے بچوں کو شامل کیا جائے۔ اچھے اداروں کے طالب علموں کو شامل کیا جائے مثلاً IBA اور LUMS وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کو شامل کرنے سے Rating بھی آئے گی۔ کمرشلز بھی ملیں گے اور لوگوں تک اچھے ہلکے پھلکے اور دلچسپ اندز میں معلومات اور پیغام بھی پہنچے گا۔ لوگ چینل تبدیل نہیں کریں گے۔
مشہور اداروں کے  مشہور لوگوں کے ذریعے اقبال  اقبالیات  قائد کو Status symbol بنا دیں تو خود بخود سب تبدیل ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس قوم کا Ideal اس کا ہیرو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اقبال و قائد کے علاوہ ان کا کوئی Ideal اور ہیرو ہونے کا مستحق نہیں۔ اس قوم کو یہ شعور میڈیا دے سکتا ہے۔
میڈیا اس قوم کو نچا سکتا ہے تو شعور کیوں نہیں دے سکتا میڈیا کے ہیرو قوم کو شعور دیں تاکہ وہ تفریح کیلئے ناچیں دوسروں کے اشاروں پر نہیں، غیرت بیچ کر نہیں۔
یہ کام مشکل ہے مگر نامکن نہیں۔ ذرا سی نم چاہئے۔ کیونکہ یہ مٹی بہت ذرخیز ہے۔ یہ قوم میڈیا کے ذریعے دوسرے ملکوں کی زبان بغیر سکھائے سیکھ رہی ہے۔ میڈیا اقبال کے الفاظ بولے گا قائد کے افکار سکھائے گا تو کیوں قوم نہیں سیکھے گی۔ ضرور سیکھے گی۔ اس کیلئے صرف اور صرف میڈیا کو ذرا سی نم بننا ہوگا۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan