Episode 25 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 25 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

شعراء سے معذرت کے ساتھ
شاعر کسی ملک کا ، کسی ملک کے ادب کا بہت بڑا سرمایہ ہوتے ہیں۔ معاشرے اور تہذیب کی پہچان ہوتے ہیں مگر ضروری نہیں ہمیشہ ایسا ہو بعض صورتوں میں کچھ بھی نہیں ہوتے۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ شاعر کیسے بنتا ہے شاعر بننے کی ریسپی کیا ہے؟ یا اگر کوئی شاعر بننا چاہے تو کس راہ کو اپنائے۔ کون سے مضامن رکھے کہاں داخلہ لے کہ وہ شاعر بن سکے تو اس کا جواب دینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
کیونکہ شعرا کی مختلف اقسام ہیں اور وہ سب مختلف انداز سے شاعر بنے ہوتے ہیں مثلاً
کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس صلاحیت سے بطور خاص نوازا ہوتا ہے اور یہ حضرات بہت اعلیٰ پائے کی شاعری کرتے ہیں یہ ”قدرتی شاعر“ کہلاتے ہیں۔ ان کو شاعر بننے سے روکا نہیں جا سکتا۔

(جاری ہے)

کچھ لوگوں کے والدین شاعر تھے تو اتفاقاً بچوں میں بھی یہ شوق منتقل ہو گیا جیسے موروثی بیماری والدین سے بچوں میں آتی ہے۔
اب خدا جانے یہ Sex linked منتقلی ہے یاAutosomal شاعری کی صلاحیت کی منتقلی Dominent جینز (Genes) کے ذریعے ہوئی یا Recessive genes کے ذریعے کچھ معلوم نہیں اس سلسلے میں ابھی تحقیق کی ضرورت باقی ہے۔ تاکہ والدین میں سے کوئی اگر یہ چاہے کہ بچے شاعر نہ ہوں تو بروقت سدباب کیا جا سکے۔ بحرحال شاعر والدین کے شاعر بچے موروثی شاعر کہلاتے ہیں ان کی شاعری ”گزارا“ ہی ہوتی ہے۔
بعض لوگوں کے ساتھ ایسا بھی ہوا کہ اچانک ”آمد“ شروع ہو گئی اور انہوں نے شاعری شروع کر دی اور اتفاقاً شاعر بن کر اتفاقیہ شاعر کہلائے۔
بعض لوگوں کے ساتھ قسمت نے داؤ پیچ کھیلے  کسی کو کسی کام میں ناکامی ہوئی  کوئی اپنا مقصد زندگی نہ پا سکا اور اس قدر دلبرداشتہ ہوا کہ زخمی دل سے شاعری کی صدا نکلی۔ جو درد جو چوٹ اس قسم کی شاعری میں ہے وہ کہیں بھی نہیں ایسے شعراء کو حادثاتی شاعر کہا جاتا ہے۔
ان کی شاعری کی اثر انگیزی اس شعر سے ملاحظہ کیجئے۔
بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
ان شعرا میں سے زیادہ تر محبوب کے موضوع کے علاوہ کسی اور چیز کا ذکر ہی نہیں کرتے ہر وقت ہر لمحہ حادثات کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور Unilateral (یک طرفہ) محبت او رشاعری دنیاوی فریضہ سمجھ کر انجام دیتے رہتے ہیں۔
کچھ لوگ طنز و مزاح کی شاعری کرتے ہیں بڑی تلخ حقیقتوں کو مزاح کی Coating میں پیش کرتے ہیں اور طنزیہ مزاحیہ شاعر کہلاتے ہیں۔
لہٰذا آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ شاعر بننے کیلئے مندرجہ بالا کوئی بھی طریقہ اپنایا جا سکتا ہے سوائے موروثی شاعر کے طریقہ کے کیونکہ والدین میں سے اگر کوئی شاعر نہیں تو یہ ناممکن ہے۔ مجبوری یہ ہے کہ والدین بدلے نہیں جا سکتے مگر باقی اقسام پر غور کرکے قسمت آزمائی کی جا سکتی ہے۔
مندرجہ بالا معلومات سے نتیجہ یہ نکلا کہ شاعر بننے کیلئے ضروری نہیں آپ انگلش میڈیم سکول میں داخلہ لیں یا اردو میڈیم سکول میں  آزادی ہی آزادی ہے جو مرضی مضامین رکھیں جس مرضی کالج میں داخلہ لیں۔ ویسے یہ بھی ضروری نہیں کہ تعلیم بہت زیادہ یا باقاعدہ حاصل کریں اس کے بغیر بھی گزارا ہو سکتا ہے۔
شاعر بننے کیلئے کسی کا بھی بچپن سے ہی ارادہ نہیں ہوتا نہ کسی کے بھی والدین کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ میرا بیٹا بڑا ہو کر شاعر بنے گا اس کیلئے عمر کی بھی کوئی قید نہیں نہ ہی overage ہونے کا ڈر ہے ضروری نہیں کہ آپ اگر اب تک شاعر نہیں بنے توکبھی بھی نہیں بن سکتے کیا معلوم آپ کب شاعر بن جائیں لہٰذا دل چھوٹا مت کریں کیونکہ زیادہ تر لوگ غیر ارادی طور پر اس کام (شاعری) کو شروع کرتے ہیں یا غیر ارادی طور پر اپناتے ہیں۔
کسی پیشے کو اپنا کر تو نوکری کرنی پڑتی ہے۔ مگر شاعر کو نوکری کیلئے مارا مارا نہیں پھرنا پڑتا  اخبار میں نوکری کے اشتہار نہیں پڑھنے پڑتے۔ انٹرویو نہیں ہوتا۔ مزے کی بات یہ کہ آپ کو نہ امتحان دینا پڑتا ہے نہ ہی اچھے نمبر لے کر اچھی پوزیشن حاصل کرنے کی فکر ہوتی ہے نہ ڈگری لینی ہوتی ہے نہ ترقی کی فکر ہوتی ہے نہ کوئی باس (Boss) نہ ماتحت ہر بندہ افسر ہوتا ہے۔
شاعر ہر وقت موقع کی تلاش میں ہوتا ہے کہ کوئی تو ملے جسے وہ اپنی شاعری سنا سکے اور اس وقت تک سناتا رہے جب تک وہ خود چاہے۔ مہمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آتا اپنی مرضی سے ہے مگر جاتا میزبان کی مرضی سے ہے جبکہ شاعر سنانے کی اجازت سامع سے لیتا ہے مگر جاتا اپنی مرضی سے ہے ان کے صرف شروع ہونے کی دیر ہے کہ آپ کب ان کو اپنا کلام سنانے کی اجازت دیتے ہیں۔
جب آپ نے اجازت دے دی تو تیر کمان سے نکل گیا پھر آپ کو کتنی دیر سننا ہے اور کیا سننا یہ آپ نہیں جانتے۔ شاعر کا زیادہ دھیان ”مکرر“ سننے پر ہوتا ہے شاعری سنانے پر نہیں۔ جتنے زیادہ ”مکرر“ ہونگے اتنا ہی شاعر خوش ہوگا اور سامع کے صبر کا امتحان اتنا ہی کڑا ہوتا چلا جائے گا پھر آپ کے حال پر اللہ ہی کو رحم آئے تو آئے۔
شاعری کے نزول کا کوئی وقت مقرر نہیں جس طرح گاہک اور موت کا کوئی وقت مقرر نہیں اسی طرح نزول کا (شاعری کی آمد کا) بھی کوئی پتہ نہیں کہاں؟ کس وقت؟ اور کس حالت میں شروع ہو جائے۔
مثلاً ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک شاعر صاحب نہا رہے تھے نہانے کے دوران آمد ہونا شروع ہو گئی ان شاعر صاحب نے اٹھ کر پوری غزل باتھ روم کی دیوار پر لکھی پھر غسل مکمل کیا۔
اسی طرح کا ذکر ہے کہ ایک روز زور دار بارش ہو رہی تھی شاعر صاحب اپنے کچے مکان میں بیٹھے موسم کے مزے لے رہے تھے کہ گھر کی چھت ٹپکنا شروع ہو گئی شاعر صاحب جہاں بیٹھے ہیں پانی ٹپک رہا ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اٹھ کر مرمت کرتے مگر انہوں نے اٹھنے کی زحمت نہ کی بلکہ وہیں بیٹھے بیٹھے غزل لکھ ڈالی اس ٹپکتی چھت پر۔
مدد کیلئے پکارتی ہوئی چھت پر تو غزل لکھی لذت دیتے ہوئے موسم کیلئے تو شاعر صاحب پر تو خدا جانے کتنا اور کب تک نزول ہوا ہو گا۔
ضروری نہیں کہ ہر شعر کا کوئی مطلب ہو کوئی خاص مقصد یا Central idea (مرکزی خیال) ہو بعض شعر صرف قافیے مل جانے کی بنا پر وجود میں آ جاتے ہیں بعض وزن پورا کرنے کے چکر میں وجود میں آ جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک شاعر کے دماغ میں یہ مصرعہ آیا۔
گلشن سے آ رہی ہے بوئے کباب
وہ ٹہلتے ٹہلتے یہ مصرع بار بار دہرا رہے تھے کہ شاید دماغ میں اس کا دوسرا مصرع آ جائے اور شعر مکمل ہو جائے اسی اثناء میں ایک بچہ پاس سے گزرا اس نے مصرعہ سن لیا اور جواباً بولا۔
کسی بلبل کا دل جلا ہو گا
ملاحظہ کریں یہ شعر کیسے کیسے مراحل سے گزر کر وجود میں آیا ایک شعر دو خالق  اس شعر کی پیدائش میں کمال ”تکے“ کا ہے۔
مقصد یا پیغام تو دور کی بات بعض اشعار تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی سر پاؤں ہی نہیں ہوتا مثلاً
بیان کیجئے جو ہر اندیشہ کی گرمی کہاں
اک خیال آیا تھا وحشت کا صحرا جل گیا
بھئی صحرا میں ہوتا ہی کیا ہے جلنے کیلئے اگر ایک خیال نے ایک صحرا جلا دیا تو ایک طرف تو یہ خطرے کی علامت ہے کہ دو چار اور (خیال) آ گئے تو دنیا ہی جل جائے گی اور دوسری طرف افسوس کا مقام ہے کہ جلانے کا یہ انوکھا طریقہ اس قدر دیر سے کیوں وجود میں آیا اگر یہ ایجاد پہلے ہو جاتی تو جاپان میں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے کی بجائے چند اشعار گرا دیئے جاتے اس سے فائدہ یہ ہوتا کہ صرف اس وقت کی موجود نسل جل کر راکھ ہوتی جبکہ آنے والی نسلیں تابکاری کے مضر اثرات سے بچ جاتیں۔
ہر شاعر اپنے آپ کو بہت زیادہ حساس کہتا ہے شاعری کو جذبات کے اظہار کا ذریعہ کہا جاتا ہے جبکہ زیادہ تر شعراء کی شاعری تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تقریباً ایک جیسی ہوتی ہے سب کا موضوع جذبات  پھول  پتے  موسم اور محبوب ہوتا ہے۔ بعض اشعار تو تخیل اور معصوم سی بلکہ کبھی کبھار فضول سی خواہش کے عکاس ہوتے ہیں مثلاً
مدّت سے آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے
غور کیجئے تو اتنا عرصہ یہ خواہش دل میں قید رکھنے کی قابل ستائش وجہ کوئی بھی سمجھ نہیں آتی نہ بلبل کی نسل ختم ہونے کا کوئی زمانہ ریکارڈ پر ہے اور نہ ہی باغ اجڑنے کا۔
باغ اجڑ بھی جائے تو بہاریں ہر سال آتی ہیں۔ جاتی آتی رہتی ہیں، مستقل غائب نہیں ہوتیں۔ شاید شاعر صاحب کو بلبل نے لفٹ نہیں کروائی۔
انداز اپنا اپنا ہوتا ہے ”تل“ کو کوئی بدنما داغ سمجھتا ہے کوئی قسمت کی علامت مگر ایک شاعر کا حسن نظر دیکھئے
اب میں سمجھا تیرے رخسار کے تل کا مطلب
دولت حسن پہ دربان بٹھا رکھے ہیں
تل Security guard (سکیورٹی گارڈ) کے فرائض سرانجام دے رہا کچھ اندازہ ہوا اس کی اہمیت کا۔
اب لمحہ فکریہ ہے ان لوگوں کیلئے جن کے رخسار پر تل نہیں یعنی ان کے حسن کی حفاظت کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔ انہیں چاہئے کہ سرمے یا کاجل سے یہ چوکیدار تعینات کر لیں ورنہ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی اور ہم لٹ گئے کیونکہ دولت حسن واحد دولت ہے جس کی حفاظت کیلئے بنک لاکر فراہم کرنے سے قاصر ہیں اور تمام سکیورٹی ایجنسیاں (Security Agencies) اپنی خدمات پیش کرنے سے معذور۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan