Episode 26 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 26 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

بعض شعراء شعر میں اس قدر مبالغہ آرائی کرتے ہیں کہ ناقابل برداشت ہوتی ہے مثلاً
کل شب فراق یار میں رویا میں اس قدر
بستر پہ ہو گیا مرے پانی کمر کمر
اب آپ ہی سوچیں کیا اس قدر آنسو ممکن ہیں کہ شاعر کا بستر سوئمنگ پول بن جائے شاعر کے Lacrimal gland (آنسو پیدا کرنے کے غدود) نہ ہوئے آنسوؤں کا ڈیم ہو گئے۔
شاعر بہت بااختیار ہوتے ہیں ان کے اختیارات کی کوئی حد، کوئی قید، کوئی گریڈ نہیں، ہوتا نہ ہی کسی کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں جس مرضی چیز کو جس مرضی طرح سے بیان کریں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے ایسا کیوں سوچا یا یہ کیسے ممکن ہے یا یہ کہ آپ اپنے کہے کو ثابت کریں مثلاً
اس صورت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
شاعر کو محبوب کی بری ادائیں بھی اچھی لگتی ہیں اس کی آواز جو کہ لپکتے ہوئے شعلے جیسی لگ رہی ہے اس سے جلنے سے بچنے کی بجائے اس پر پیار آ رہا ہے۔

(جاری ہے)

ایسی ناری محبت شاعر صرف شاعری میں ہی کر سکتا ہے۔
شاعر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ بدنمائی کو خوشنمائی ، بدصورتی کو خوبصورتی ، بدقسمتی کو خوش قسمتی بنا سکتا ہے کیونکہ اس پر کوئی Values لاگو نہیں ہوتیں۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے ایک شخص بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضر ہوا کہ حضور میری بیٹیاں واجبی صورت کی ہیں ان کی شادی نہیں ہوتی بادشاہ ذہین آدمی تھا اس نے ایک شاعر کی ڈیوٹی لگائی کہ تم ان لڑکیوں کے حسن پر شاعری کرو شاعر نے ان لڑکیوں کے بال ، رخسار ، قد ان کے سانولے پن غرض کہ ہر چیز کے بارے میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے اور ایسی ایسی تشبیعات اور استعارات استعمال کرکے ان کے حسن کی شان میں قیصدے لکھے کہ رشتوں کی قطاریں بندھ گئیں۔
کچھ اندازہ ہوا آپ کو شاعر کے اختیارات اور اسکی طاقت کا۔
شاعری کے جہاں مثبت اثرات ہیں وہاں یہ منفی اثرات بھی رکھ سکتی ہے اس کا دارو مدار شاعر پر ہے۔ اس کے جذبات اس کی آرزو پر ہے مثلاً
عشق کا مزہ ہے تب، ہوں وہ بھی بے قرار
آگ ہو دونوں طرف برابر لگی ہوئی
حد ہو گئی صرف مزہ لینے کی خاطر کسی کو تکلیف میں ڈالنا چاہتے ہیں کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ کوئی انسان دوسرے کو صرف وہی دے سکتا ہے جو اس کے اپنے پاس ہو ان شاعر صاحب کے پاس بے قراری اور آگ ہے اور یہ ہی دونوں چیزیں دوسرے کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔
خاصا انسانیت شوز شعر ہے۔ یہ شعر نوجوان نسل کو بے راہ روی پر ڈالنے کیلئے کافی ہے۔ تمام نوجوان حضرات آگ لگا بیٹھے تو ملک تو جل جائے گا اور تو اور فائر بریگیڈ والے بھی آگ کی زد میں آ جائیں گے۔ اس قسم کے اشتعال انگیز شعر لکھنے سے شعراء کو اجتناب فرمانا چاہئے کیونکہ غلط بات زیادہ جلدی اور گہرا اثر رکھتی ہے۔ اس شعر پر بے ساختہ لب کہہ اٹھتے ہیں۔
”شاعر یار تنگ نہ کر“
شاعر حضرات شاعری کو روحانی مرتبہ ظاہر کرنے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں مثلاً
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
خوش فہمی کی انتہاء ہے صاحب آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ فرشتوں کو وضو کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ ان کی فکر چھوڑیں اور اپنا دامن نچوڑ کر سکھا لیجئے کہیں سردی سے نمونیا نہ ہو جائے کیونکہ فرشتے تو ویسے بھی وضو سے ہیں۔
شاعر خود سے بات کرنے کیلئے‘ کتھارس کیلئے بھی شاعری کا سہارا لیتے ہیں۔ ذاتی تخریب کاری کا یہ نمونہ حاضر ہے۔
ٹوٹا ہوں کچھ ایسے کہ بکھرنا بھی نہ آیا
اور بکھرا ہوں کچھ ایسے کہ سمٹنا بھی نہ آیا
حقیقت میں یہ موصوف ایسے ہیں کہ انہیں کچھ بھی کرنا نہ آیا اسی لئے انہوں نے شاعری شروع کر دی۔
ہر شاعر کی Time, space & person کی Orientation اپنی اپنی ہوتی ہے۔
ان کا دن رات کا، موسموں کا، بارش، برسات کا اپنا ہی نظام ہوتا ہے سدا ایک سا نہیں رہتا حتیٰ کہ ہر شعر میں بدلتا رہتا ہے مثلاً
کیوں روشنی ظلمت سے چرا لیتی ہے نظریں
ڈھل جاتا ہے دن کس لئے ہر رات سے پہلے
ایک اور جگہ کچھ ایسے کہا گیا
اور پھر دل میں تیری یاد کا برپا ہے تلاطم
آنکھوں میں جھڑی لگ گئی برسات سے پہلے
ان کے موسموں کا ٹائم ٹیبل اس قدر fast (تیز) ہے کہ برسات سال میں نہیں دن میں کئی مرتبہ آتی ہے۔
دن رات کا نظام  موسموں کا بدلنا  بارش و خشکی دریا و سمندر اللہ کی نشانیاں ہیں اہل عقل کیلئے۔ تاکہ غور کیا جا سکے اور توحید پر ایمان لایا جا سکے مگر شاعروں کا نظام لیل و نہار  بارش و ہوا  بہار و خزاں ان کے اندر کی بے قراری ان کی منزلِ عشق اور ان کے انجام محبت کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے۔
شاعر کیلئے سب سے بڑافائدہ یہ ہے کہ اسے NAB (نیب) کا ڈر نہیں کیونکہ شاعری میں رشوت ہوتی نہیں غبنِ جذبات  فراڈِ احساسات پر پکڑ نہیں۔
بلکہ وہ اس وقت انعام کا مستحق ہے جب شاعر اپنے شعر کے ذریعے بہت سے اداس چہروں پر مسکراہٹ پھیلا دیتا ہے جیسا کہ
حسینوں کو بنایا ہے خدا نے اپنے ہاتھوں سے
ہم کم بخت تو ٹھیکے پہ بنوائے گئے ہیں
کیسے شاعر نے اپنے بارے میں بات کرکے حسینوں کو خوش کر دیا۔
قیامت کے ذکر سے ہمیشہ خوف آتا ہے مگر شاعر نے اس انداز سے ذکر قیامت کیا ہے کہ بڑا سے بڑا قنوطی بھی مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔
نمونہ حاضر ہے۔
کہتے ہیں قیامت آئے گی ہم مر جائیں گے
ہم بھی بڑے چالاک ہیں منجی تھلے وڑ جائیں گے
یادِ محبوب میں غرق شاعر کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے
اچھا خاصہ بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
میں میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
دیکھیں ذرا کس قدر قابل رحم حالت ہے شاعر بچارے کی کہ وہ اپنے وجود کا حدود اربعہ ہی بھول چکے ہیں۔
کچھ شاعر حضرات تو الفاظ کا اتنا خوبصورت استعمال کرتے ہیں کہ جو بات ہم بڑی بڑی تقریروں اور بھاری دلیلوں سے نہیں سمجھا سکتے وہ اس کو صرف اور صرف ایک شعر میں سمجھا دیتے ہیں مثلاً
جتنے بھی لفظ ہیں مہکتے گلاب ہیں
لہجے کے فرق سے انہیں تلوار مت بنا
دیکھا کیسے اک انتہائی نازک حقیقت کو بہت موثر انداز میں پیش کیا گیا۔
بحرحال شاعری طاقت رکھتی ہے اس کی طاقت سے قوموں کو جگایا جا سکتا ہے ان کی قسمتیں بدلی جا سکتی ہیں اور ان کو آزاد جیسی نعمت سے ہمکنار کروایا جا سکتا ہے۔
شاعر جو محسوس کرتا ہے عرض کر دیتا ہے اور خدمت لوح و قلم کرتا ہے۔
ہم خدمت لوح و قلم کرتے رہیں گے
دل پہ جو گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan