Episode 28 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 28 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

زیادہ تر لوگ زندگی من پسند عہدوں پر گزارنے کی خواہش رکھتے ہیں مگر جب ان کی خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو وہ دلبرداشتہ ہونے کی بجائے اپنے بچوں کے نام ان عہدوں کے ناموں پر رکھ دیتے ہیں اور خودہی اپنے بچے کو اپنے من پسند عہدے پر فائز کر لیتے ہیں۔ اس طرح نہ تو ان کے بڑے ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے نہ ہی Risk ہوتا ہے کہ بچہ بڑا ہو کر اتنا ہونہار نکلے گا یا نہیں اور تو اور بچے کا احسان نہیں لینا پڑتا۔

اس کی مثالیں وزیر خان ، ملکہ ، بادشاہ گل ، غلام بی بی وغیرہ ہیں جن ماں باپ نے سب بچوں کے نام اس سوچ کے ساتھ رکھے ہوتے ہیں ان کا گھر، گھر نہیں دربار لگتا ہے۔ کچھ والدین کی خواہش اس سے بھی زیادہ واضح ہوتی ہے وہ اپنے بچوں کے نام ڈاکٹر  کیپٹن  کرنل وغیرہ رکھ دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

ایک صاحب کا نام ان کے گھر والوں نے کرنل رکھ دیا نام کا اثر رنگ لایا وہ واقعی فوج میں بھرتی ہو گئے اور انہیں کیپٹن کے عہدے سے اپنے Carrier کا آغار کرنا پڑا ان کا نام کیپٹن کرنل بنتا تھا۔

یہ نام کم غلطی زیادہ لگتا تھا کہ شاید کہنے والے نے غلط کہا یا سننے والے نے غلط سنا مگر یہ Mess نہیں واقعی نام تھا۔
ایسا ہی ایک نام پاکستانی تاریخ میں نشان حیدر پانے والے کا ہے ان کا نام کیپٹن کرنل شیر خان تھا۔ کیپٹن ان کا عہدہ اور کرنل شیر خان ان کا نام تھا۔ انہوں نے نشان حیدر لے کر ثابت کر دیا کہ ان کے والدین یا بزرگوں نے ان کا نام بالکل صحیح رکھا تھا بلکہ انہوں نے تو نام سے بھی کئی گنا بڑھ کر کارنامہ کر دیا۔
”نام“ کی ”بزرگوں“ اور ”ملک“ سب کی لاج رکھ لی۔ زندگی کی معراج اور عہدے کی انتہا پالی۔ نشان حیدر دنیاوی زندگی کی معراج ہے اور شہادت اخروی انتہا ہے۔
اسی قاعدے کے تحت رکھا گیا ایک نام خلیفہ بی بی ہے جو کہ حسین امتزاج ہے عہدے اور Gender کا طاقت اور مسکینی کا۔
کچھ ناموں کے آخر میں ”ے“ لگی ہوتی ہے یہ نام زیادہ تر عورتوں کے ہوتے ہیں مثلاً علیزے  شانزے  روشانے  فرشتے وغیرہ وغیرہ ان ناموں کا Sound effect بہت منفرد ہے ان ناموں کو ادا کرنے پر لگتا نہیں یہ ایک انسان کا نام ہے بلکہ ان کو پکارنے پر لگتا ہے کہ جیسے لوگوں کے ایک گروپ کا نام ہے۔
ان ناموں کے Sound effect میں اس قدر اجتماعیت ہے کہ ذہن کو سمجھانا پڑتا ہے کہ نہیں نہیں بہت سارے نہیں بلکہ ایک ہی بندہ اس پر اکتفا کئے ہوئے ہے۔
بعض ناموں کو سن کر لگتا ہے بے زاری سے رکھے گئے ہیں اور نام رکھنے والوں نے نام رکھتے ہوئے کچھ نہ دیکھا صرف اور صرف Gender (جنس) کو دیکھا اور وہی نام کے طور پر تجویز کرکے رکھ بھی دیا۔ مثلاً عورتوں کا نام خاتون بی بی، نساء خان جبکہ مردوں کے نام حضرت خان  حضرت گل وغیرہ وغیرہ ان لوگوں کو بے نام Category میں ڈالنا زیادہ بہتر ہے۔
یہ لوگ اپنے نام کے ذریعے اپنی Gender کا اعلان کرتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ چلتے پھرتے لوگوں کو Warn کر رہے ہوتے ہیں کہ میں صرف اور صرف ایک عورت ہوں کسی شک شبہ میں مبتلا نہ ہونا جبکہ مرد حضرات (اپنے ایسے ناموں کے ذریعے) مردانگی کا Certificate ماتھے پر سجائے پھر رہے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے ناموں سے لگتا ہے کہ ان والدین نے (یا نام رکھنے والوں نے) نام ڈھونڈنے کی زحمت تو درکنار سوچنا بھی گوارا نہیں کیا۔
اس ذمہ داری (نام رکھنے کی) کو مصیبت سمجھ کر بے زاری سے گلے سے اتار پھینکا۔
کچھ والدین بچوں کے نام نمازوں کے ناموں پر رکھ دیتے ہیں ”عشاء“ نام رائج العام ہے عشاء کے بہت زیادہ عام ہونے کے بعد لوگوں کی جدت پسندی نے انہیں عصر  مغرب بھی ناموں کے طور پر رکھنے پر مجبور کر دیا مزید اس دوڑ میں آگے بڑھتے ہوئے لوگوں نے فجر نام بھی رکھا فجر قرآن پاک کی سورہ کا نام بھی ہے اور صبح کی نماز کا بھی۔
نمازوں میں پڑھی جانے والی سب سے زیادہ مشکل نمازیں فجر اور عشاء کی ہیں۔ راقم الحروف نے ابھی تک ”ظہر“ کسی کا نام کہیں سنا۔ ماں باپ بچے کا نام نماز کے نام پر (یا قرآن کی سورہ عصر اور فجر کے نام پر) رکھ کر بچے کو نمازی نہیں بنا سکتے (زیادہ تر یہ نام نمازی بنانے کیلئے رکھے بھی نہیں جاتے) اس کیلئے تعلیم و تربیت کی ذمہ داری نبھانی پڑتی ہے۔
تب ہی قبر میں پوچھے جانے والے سوال کی تیاری ممکن ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں مگر نام رکھ لینے سے اور یہ کہ ان کے نام کو پکارتے ہوئے اس نماز کا ذکر کئی بار ہوتا ہے ثواب ملتا ہو اور اگر اس طرح بھی ثواب ملتا تو یہ سب سے آسان طریقہ تھا مخلوق خدا کا استعمال کرتے ہوئے ثواب حاصل کرنے کا۔ کہ دوسرے آپ کو نام سے بلائیں آپ کا نام پکاریں اور ثواب آپ کے کھاتے میں کیونکہ انسان اپنے نام کو کم پکارتا ہے اور زیادہ سنتا ہے۔
بعض لوگوں کی کفایت شعاری تو نہیں کہنا چاہئے کنجوسی بلکہ بخیلی کی عادت اس قدر پکی ہو چکی ہوتی ہے کہ وہ بچوں کے نام رکھتے ہوئے بھی اس پنجرے سے باہر نہیں نکل پاتے وہ بچوں کے نام رکھتے ہوئے بیٹے کے نام کے آگے ”ہ“ لگا کر اگلی پیدا ہونے والی بیٹی کا نام رکھ دیتے ہیں Change the gender کے اس فارمولا پر عمل کرتے ہوئے وہ صرف بیٹے کا نام رکھنے پر وقت ضائع کرتے ہیں اور بیٹی کے پیدا ہونے پر انہیں اس زحمت سے نہیں گزرنا پڑتا بلکہ یہ پہلے سے طے شدہ یعنی Understood ہوتا ہے۔
بیٹی کے ساتھ یہیں سے غیر مساویانہ سلوک کا آغاز ہو جاتا ہے اس کو نام بھی اس کا اپنا نہیں دیا جاتا۔ ایک ایسی کثیر اولاد فیملی سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ان کے ہاں بچے اس ترتیب سے پیدا ہوتے تھے کہ ایک بیٹا ایک بیٹی پھر بیٹا پھر بیٹی ان کے اپنے ہی بچوں کو (یعنی بہن بھائیوں کو) اپنے نام دیکھتے ہوئے یہ فارمولا سمجھ آ گیا۔ وہ ایک دن بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ اب جو ہماری بہن آئندہ پیدا ہو گی اس کا نام فلاں یعنی ”چھوٹے بیٹے کا نام +ہ“ ہو گا۔
نام بازار میں نہیں بکتے کہ خریدنے پر خرچ ہوتا ہو اور ماں باپ مجبوراً پرانے ناموں کو Fresh کرکے استعمال کرتے ہوں۔ نام کی باسی دال کو تازہ بھگار ہر بار لگانے کی وجہ سمجھنا مشکل ہے۔
بعض لوگوں کے نام ان کے نام کی بجائے ان کی Social Responsibilty ظاہر کرتے ہیں جیسے خیر النساء یعنی تمام عورتوں کی خیر  اس قدر خیر سمیٹے ہوئے بندے کو بندہ سمجھنے کی بجائے خیر کا بنک سمجھنا چاہئے۔
کچھ نام Social Intention کہہ لیں یا خوش فہمی کو ظاہر کرتے ہیں جیسا کہ عید النساء  وقار النساء۔
دنیا اور بندوں کے بارے میں تو لوگ Possessive ہوتے ہی ہیں مگر اللہ کے بارے میں Over possessive ہو جاتے ہیں جیسا کہ ”اللہ رکھا“ ”اللہ رکھی“ جیسے نام سننے میں آتے ہیں حالانکہ باقی تمام کو بھی اللہ ہی نے رکھا ہوا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ خوش فہمی کا شکار ہوتے ہوتے اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ بچے کا نام خیر دین  خیر بخش رکھ دیتے ہیں۔
یعنی پوری امت  پورے دین کی خیر ایک انسان کے سپرد کر دی جاتی ہے۔
بعض لوگ بچوں کے نام قافیے ملا کر رکھتے ہیں اس قافیے کو آپ اس فیملی کا Family code سمجھ لیں تو زیادہ بہتر ہے اگر اس فیملی کوڈکو بیٹوں (sons) پر Apply کیا جا رہا ہو تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی مگر اگر صرف بیٹیاں پیدا ہو رہی ہوں تو ماں باپ ایک موقع پر آکر بیٹیوں کی مسلسل پیدائش کی وجہ اس Continuation of family code کو سمجھ لیتے ہیں اور وہ موجودہ نئی بیٹی کا نام گزشتہ قافیے سے نکل کر (یعنی Out of family code) رکھتے ہیں تاکہ یہ سلسلہ ٹوٹے اور آئندہ بیٹی پیدا نہ ہو مگر یہ تدبیر شاذو نادر ہی کام کرتی ہے۔
قافیے ملا کر رکھے نئے نام ٹرین کے ڈبوں کی طرح لگتے ہیں جب بیٹیاں آنا بند نہیں ہوتیں تو لوگ قافیہ ملائے بغیر نام رکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ٹرین کا اگلا ڈبہ نہیں لگایا تاکہ ٹرین کی لمبائی روکی جا سکے مگر اکثر قافیے یا ڈبے بدلنے سے بھی فرق نہیں پڑتا اور بیٹیاں روکنے کی یہ زمینی منصوبہ بندی آسمانوں تک اثر نہیں رکھتی۔
کچھ ماں باپ بچے سے اپنی محبت کا اظہار نام کے چناؤ میں بھی کرتے ہیں اور وہ اس محبت کو صرف اپنی ذات اور بچے تک محدود نہیں رکھتے بلکہ انہیں ان کا بچہ سب انسانوں میں بہترین لگتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے اس خیال کا اظہار بچے کے نام کے ذریعے ہو بچے کو صرف بہترین بچہ نہیں  نہ ہی اس علاقے میں بہترین سمجھتے ہیں بلکہ وہ اس کے یکتا ہونے کا دائرہ وسیع سمجھتے ہیں۔
وہ بچے کو کل عالم میں اچھا اور The best سمجھتے اور ثابت کرتے ہیں اور اس Territorial برتری کو بچوں کے نام عالمگیر  جہانگیر ، عالم زیب ، شاہجہان وغیرہ رکھ کر ثابت کرتے ہیں۔ یعنی اس بچے کے پیدا ہونے سے صرف والدین ہی کا نہیں بلکہ پورے عالم اور جہاں کا فائدہ منسلک کر دیا جاتا ہے جبکہ ”عالم“ اور ”جہاں“ کے ساتھ ”آرا“ لگا کر اس کو زنانہ مقاصد کیلئے (لڑکیوں کے ناموں کے طور پر) استعمال کیا جاتا ہے اور پورے عالم و جہاں کی مستفید کرنے کی نیکی کا انتظام کیا جاتا ہے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan