Episode 32 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 32 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

دلبرداشتہ ہو کر لوٹتے ہوئے اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہو رہا تھا کہ جانا ہی نہیں چاہئے تھا۔ کیا حاصل ہوا نہ مریض کو کوئی فائدہ ہوا نہ اس کی پریشانی اور مایوسی کم ہوئی میں بھی شرمندہ ہوا میں نے جو کہا تھا نہ وہ غلط تھا کیا میرا جانا غلط تھا؟ اسی ادھیڑ بن میں ناکامی کی وجہ سمجھ نہ آ رہی تھی۔ مگر حاصل سمجھ آ گیا۔
جب کوئی مسلمان اپنے کسی بھائی مسلمان کی عیادت کو جاتا ہے تو وہ لوٹتے وقت تک جنت کے باغات سے میوہ خوری کرتا ہے۔
(مسلم)
ملاقات تلخ تھی مگر پھل جنت کے باغات کی میوہ خوری تھا۔ ان میوؤں کی لذت کے احساس میں ملاقات کی تلخی کم ہو گئی۔
ایک پرانے کلاس فیلو جو کہ بہت وہمی تھے مگر کبھی دوست تھے پھر ان کے ساتھ تعلیم کے اختتام پر شدید لڑائی ہو گئی اس لڑائی کے بعد دوبارہ ملاقات نہ ہو سکی ان کی بیماری کا ایک دوست سے پتا چلا۔

(جاری ہے)

مذکورہ لڑائی کی وجہ سے وہمی دوست دوبارہ کلاس فلو بن چکا تھا اس کے باوجود سن کر بہت افسوس ہوا دل ملنے کو بے چین تھا مگر اس کے رویے کی فکر تھی کہ وہ کیسے Behave کرے گا اچھا  برا یا بہت برا۔ وقت بہت بڑا مرہم ہے شاید وہ بھول گیا ہو شاید بھولا نہ ہو تھوڑا نرم ہی پڑ گیا ہو۔ سوچ بچار کے باوجود جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ نہ جانے میں کسک تھی اور جانے میں Double gain تھا روٹھے کو منانے کا اور بیمار کی عیادت کرنے کا۔
تعلقات کی بحالی کا اس سے بہتر موقع نہ مل سکتا تھا۔ دنیا کے لحاظ سے فائدہ دوستی نظر آتا تھا اور آخرت کے لحاظ سے جنت۔ مگر اس ملاقات کو جو کہ بہت اہم تھی۔ Special بنانے کے لیے کیا جائے کہ اس کیلئے بہترین ہو۔ تکلیف میں مبتلا شخص کیلئے تکلیف سے نجات بہترین تحفہ ہے۔
حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ نبیﷺ جب کسی مریض کی عیادت کو جاتے تو اس کے سرہانے بیٹھتے تھے اس کے بعد سات بار فرماتے تھے۔
”میں عظیم اللہ سے جو عرش عظیم کا رب ہے سوال کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفا بخشے۔“
آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ دعا سات بار پڑھنے سے مریض ضرور شفا یاب ہوگا الا یہ کہ اس کی موت ہی آ گئی ہو۔ (مشکوٰة)
اس دعا میں صحت یابی کا یقین تھا اس لئے یہ دعا یاد کر لی اور سات بار پڑھنے کا ارادہ کر لیا۔ ملنے چلے گئے اس کی تکلیف دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔
تو رسمی عیک سلیک کے بعد وہی کرنے لگے جو کرنے آئے تھے جو بہترین تحفہ اس ملاقات کا ہو سکتا تھا۔خاموشی سے گن کر سات بار پڑھنے میں مصروف تھے کہ دوست نے ہلتے ہونٹ دیکھے اور انگلیوں کو گنتے دیکھا تو اک دم بھڑک پڑا ”تم کیا پھونکیں مار رہے ہو اتنے عرصے بعد تم یہی کرنے آئے ہو۔ میں Accident سے بچ کیوں گیا مارنا چاہتے ہو۔“
نہیں نہیں کیا کہہ رہے ہیں ایسا نہیں ہے میں تو دعا کر رہا تھا میں کیوں تمہیں مارنا چاہوں گا۔
میں تو تمہاری صحت یابی کیلئے تمہیں دعا دے رہا تھا۔“ (عیادت دار نے واضح کیا) کیوں تم کوئی پیرو مرشد ہو یا میں نے تمہیں دعا کیلئے کہا؟ (مریض نے فوراً دوسرے کے منہ پر دے مارا)۔
نہیں میں نے کب کہا کہ میں پیر و مرشد ہوں عیادت دار بمشکل اتنا ہی کہہ پائے مگر دوسری طرف سے فائر آیا۔
کیا تم اللہ سے مل کر آئے ہو الہام ہوا ہے یا اپنے بارے میں شدید خوش فہمی ہو گئی ہے کہ مجھے تمہاری دعاؤں کی ضرورت ہے اور دوسرے یہ کہ میں تمہاری دعاؤں سے ٹھیک ہو جاؤں گا کیونکہ تم کوئی بہت پہنچی ہوئی ہستی ہو نہیں بلکہ یوں کہو!
تم قبر کی بجائے مریض پر فاتحہ پڑھنے آئے ہو (عیادت دار نے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی چاہی مگر موقع نہ مل سکا اور مریض مسلسل بغیر سنے ہی بولتا رہا)۔
”تمہاری ایسی دوستی سے تو ناراضگی ہی بہتر ہے دوبارہ مت آنا ٹھیک ہی کہتے ہیں فطرت نہیں بدلتی اتنے سال گزر گئے مگر تم ویسے کے ویسے ہی ہو۔“
مفاہمت و مذاکرات کے تمام دروازے وہم و شک کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد بغیر صفائی کا موقع دیئے بند کر دیئے گئے اور ثابت ہو گیا کہ کسی کے دل سے بدگمانی دور کرنے سے زیادہ مشکل کوئی کام نہیں۔
پرانی ناراضگی دور کرتے کرتے مزید نئی بدگمانی بھی پیدا ہو گئی۔ Double gain کے چکر میں Double loss ہو گیا۔
مشکل کام مشکل ترین ہو گیا معاملہ ناراضگی سے بدگمانی اور نفرت کی حد تک پہنچ گیا۔ نماز بخشوانے گئے تھے الٹا روزے بھی گلے پڑے۔
حساب کتاب کر رہا تھا کہ بے عزتی بھی ہوئی معاملہ بھی پہلے سے زیادہ بگڑ گیا اور وہ کلاس فیلو (جو کبھی دوست تھا) جو کہ صرف ناراض تھا اب غلط فہمی کا شکار بھی ہو گیا۔
ساری Excitement کا جنازہ نکل گیا۔ Morale گر گیا۔ شرمندگی اور پچھتاوا ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھا کہ یہ پکار یہ خیال صحرا میں پانی مل جانے کی طرح ملا۔
حضرت ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا۔
”جب کوئی بندہ اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے یا اس سے ملاقات کیلئے جاتا ہے تو ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے تم اچھے رہے تمہارا چلنا اچھا رہا  تم نے اپنے لئے جنت میں ٹھکانہ بنا لیا۔
(ترمذی)
جنت میں یہ ٹھکانہ بہت مشکل سے بنا۔ ٹھیک ہی کہتے ہیں جنت مر کر ہی ملتی ہے۔ آج اپنی انا مار کر مجھے یہ ملی۔ جنت ملنے کی خوشی میں فیصلہ کیا کہ دعا دل ہی دل میں پڑھنی چاہئے تھی اور گنتی بھی انگلیوں پر نہیں گننی چاہئے تھی بلکہ ذہن میں رکھ کر یہ کام کرنا چاہئے تھا۔ 7 مرتبہ ہی تو گننا تھا کوئی لمبا چوڑا حساب کتاب تو تھا نہیں۔
یہ ساری بدمزگی اپنی ہی وجہ سے ہوئی آئندہ اس سے گریز کا عزم کر لیا۔
دن گزرتے گئے ایک عزیز کی ایسی بیماری کی خبر ملی کہ انہیں شدید درد ہے جو کہ کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہوتا ادویات کی بھاری مقدار بھی بے اثر اور وہ تکلیف سے بے حال۔ عزیز تھے جانا ضروری تھا ان کی بے بسی نے انہیں بے حد چڑچڑا کر دیا تھا۔ گھر والے بھی ان کے غصے اور بے بسی سے پریشان تھے۔
ان کی عیادت بہت مشکل تھی کیونکہ گزشتہ عیادتوں کا تجربہ اور مریض کے حالات سب مل کر ایک ایسی عیادت کی پیش گوئی کر رہے تھے جو کہ کچھ بھی ہو سکتی تھی۔ یہاں دینی حق سے زیادہ دنیاوی رسم و راہ کے تحت جانا تھا۔ مگر نیت اور تیاری دینی تقاضوں کے مطابق ہی کی۔
نبیﷺ جب مریض کے پاس پہنچتے تو پوچھتے کہ کہیے کیسی طبیعت ہے؟“
پھر تسلی دیتے اور فرماتے۔
”گھبرانے کی کوئی بات نہیں اللہ نے چاہا تو یہ مرض جاتا رہے گا اور یہ مرض گناہوں سے پاک ہونے کا ذریعہ ثابت ہوگا۔“
اور تکلیف کی جگہ پر سیدھا ہاتھ پھیرتے یہ دعا فرماتے۔
”خدا یا اس کی تکلیف کو دور فرما  اے انسان کے رب اس کو شفا عطا فرما۔ تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیرے سوا کسی سے شفا کی توقع نہیں۔ ایسی شفا بخش کہ بیماری کا نام و نشان نہ رہے۔
اب تو یہ بھی سوچا کہ ان ساری باتوں میں سے مریض کسی بات پر React کر سکتا ہے۔ اس کو تکلیف کی جگہ ہاتھ رکھنا برا لگ سکتا ہے۔ دعا پڑھنے پر وہم ہو سکتا ہے دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ لہٰذا اس عیادت جلے نے فیصلہ کیا کہ وہ دعا دل ہی دل میں پڑھیں گے تاکہ کوئی شک نہ کرے دوسرے ہاتھ رکھنے کی بجائے اشارةً یا اگر ماحول و حالات مناسب نہ ہوا تو اشارہ کے بغیر ہی دعا دل میں پڑھ کر درد کی جگہ پر بغیر ظاہری پھونک کے بھیج دیں کیونکہ دعا اللہ نے سننی ہے اور وہ بغیر میڈیم کے پہنچ جاتی ہے۔
اگر موقع محل مناسب ہوا تو درد کی جگہ ہاتھ رکھیں گے ورنہ اس کے بغیر ہی باقی احکامات کے مطابق عیادت کریں گے۔ ان تمام تر حفاظتی انتظامات اور تیاریوں کے بعد دل میں ایک احساس تحفظ تھا کہ اس ملاقات کا مزہ ہی اور ہوگا کیونکہ غلطی کی گنجائش نہ تھی (اپنی دانست میں ایسا تھا)۔
رشتہ داری کے تحت ان کی بیماری کے حساب سے ان کیلئے کھانے کے تحالف لے کر گئے ملاقات شروع ہوئی طبیعت پوچھی گئی حسب توقع انہوں نے اپنی تکلیف و بے بسی کا ذکر کیا اور کہا سب تمہارے سامنے ہے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan