Episode 33 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 33 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

عیادت دار نے تسلی دیتے ہوئے کہا فکر نہ کریں۔ ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ ناگواری سے دیکھتے ہوئے کہنے لگے ظاہر ہے تم تو یہی کہو گے (مریض نے جواب دیا)۔
عیادت دار نے مریض کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
”نہیں حوصلہ کریں آپ ٹھیک ہو جائیں گے انشاء اللہ۔“
مریض نے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ کر کہا۔
”کب ٹھیک ہونگا ہر کوشش تو بے کار ہے۔
صاحب ملاقات نے عرض کی۔
”اللہ نے چاہا تو جلد آپ کا مرض جاتا رہے گا۔“
(اتنا ہ سن کر مریض نے فوراً کہا)
”اگر اللہ چاہتا تو میں بیمار ہی نہ ہوتا بیمار کرکے ٹھیک کرنے کیلئے تو اللہ نے مجھے بیمار نہیں کیا۔ میرا کیا قصور تھا۔“
(اس انتہائی سوال کے آگے جواب دینا مشکل نہیں ناممکن تھا مگر صرف اتنا کہنا چاہا جتنا دین نے بتایا تھا اور یہ جواب نہ تھا بلکہ خبر تھی)۔

(جاری ہے)

عیادت دار نے بہت خاطر جمع کرکے کہا۔
”یہ مرض گناہوں سے پاک ہونے کا ذریعہ ثابت ہوگا۔“
یہ کہہ کر عیادت دار کا ارادہ ان کیلئے درد کی جگہ ہاتھ رکھ کر اور ہاتھ رکھنا ممکن نہ ہوتا تو بغیر ہاتھ رکھے دعا کرنے کا تھا جس کی وہ تیاری کرکے آئے تھے۔ ایسا کرنے ہی لگے تھے کہ مریض ہتھے سے اکھڑ گیا اور کہنے لگا۔
”کیا مطلب ہے آپ کا کہ میں گناہ گار ہوں اس لئے بیمار ہوں آپ اگر آج میری جگہ نہیں لیٹے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ پاک ہیں۔
گناہ نہیں کرتے  دودھ کے دھلے ہیں۔“
یہ تو بتائیں کہ
”آپ تیمار داری کرنے آئے ہیں یا مجھے میری بیمار کی وجہ اور فوائد بتانے یا آپ میرا اعمال نامہ دیکھ کر آئے ہیں۔“
عیادت دار ہکا بکا حالات کو قابو سے نکلتے دیکھ کر صرف اتنا کہہ پائے کہ
”آپ غلط سمجھے میرا یہ مطلب نہیں تھا۔“
(مگر کسی بھی بات کو سنے بغیر وہ مسلسل کہتے رہے اور مزید یہ کہا)۔
”آپ نے مجھے کب گناہ کرتے دیکھا اور ایسا میں کیا کرتا ہوں جو آپ نہیں کرتے۔“
اس سے تو بہتر تھا آپ نہ آتے۔ آپ تشریف لے جائیں اور جا کر اپنے اعمال پر نظرثانی کریں کہیں کل آپ پر آپ کے گناہوں کا Label یعنی بیماری نہ لگا دیا جائے اور ہاں جاتے ہوئے اپنا یہ سامان بھی ساتھ لے جائیں آپ کا کیا خیال ہے ہم آپ کا انتظار کر رہے تھے ان سب اشیاء کیلئے اللہ کا دیا ہمارے پاس بہت ہے۔
آخری الفاظ ”اللہ کا دیا ہمارے پاس بہت ہے۔“ واحد جملہ تھا جو کہ قابل اعتراض نہ تھا۔ اللہ تو اللہ ہے آخر اللہ نے ان سے بھی ان حالات میں اپنا شکر ادا کروا لیا اپنا آپ منوا لیا چاہے یہ سب انہوں نے روانی میں بغیر سوچے سمجھے اور عیادت دار کو نیچا دکھانے کیلئے کہا تھا۔
یہ مریض بے زار  چڑچڑا اور بدزبان ہو چکا ہے اس کی تو توقع تھی اور صاحب ملاقات اس کیلئے ذہنی طور پر تیار بھی تھے مگر وہ اس درجے تک بے لحاظ ہو چکے ہیں اس کا گمان بھی نہ تھا بحرحال اتنی دیر میں مریض کے گھر والے عیادت دار کو وہاں سے لے گئے۔
تقاضاء عیادت تو یہ تھا کہ مریض کے متعلقین سے بھی ہمدردی کا اظہار کیا جائے ان کے ساتھ جو تعاون کر سکتے ہوں وہ کیا جائے مگر یہ صورتحال اس کے برعکس تھی یہاں متعلقینِ مریض کو عیادت دار سے معذرت کرنی پڑ رہی تھی اور وہ تعاون و مدد لینے کی بجائے عیادت دار سے شرمندہ تھے۔
بہت دنوں کے بعد ایک بے تکلف دوست کی اچانک علالت کا علم ہوا۔ علم ہونے کے بعد خود کو روکنا تو درکنار تاخیر کرنا بھی مشکل تھا مگر تعلقات کی نوعیت ایس تھی کہ کوئی بھی Risk نہ لیا جا سکتا تھا۔
یعنی گزشتہ عیادتوں میں پیش آنے والی صورتحال اور ان کے نتائج خوفزدہ کر رہے تھے۔ یہاں تعلقات خراب ہونے کا Risk لینا تو کجا سوچنا بھی ناممکن تھا۔ یہ نقصان ناقابل تلافی ہوگا اس لئے اس نقصان کو ہونے سے روکنا ضروری تھا کیونکہ یہ واحد کام تھا جو کیا جا سکتا تھا (بغیر جائے گزارا نہ تھا)۔
جو احتیاطیں کی جا سکتی تھیں وہ یہ تھیں کہ بخار کے بارے میں سن کر اس کی افادیت نہ بتاؤں، تسلی نہ دوں بیماری کے گناہوں پر اثرات کا ذکر نہ کروں وغیرہ وغیرہ مگر پھر بھی وہاں جا کر کچھ تو ایسا ہوگا جو کیا جا سکتا ہوگا جو اب تک کیا نہ ہوگا پتہ چل گیا کہ کیا ہے جو کیا نہیں۔
”جب تم کسی مریض کی عیادت جاؤ تو اس سے اپنے لئے دعا کی درخواست کرو مریض کی دعا ایسی ہے جیسے فرشتوں کی دعا“ (یعنی فرشتے خدا کی مرضی پا کر ہی دعا کرتے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے) (ابن ماجہ)
انسان کو اس کے اپنے بارے میں اس کی بیماری، معاملات اور ذات کے بارے کچھ کہا جائے تو اسے برا لگ سکتا ہے جبکہ اس سے اس صورت میں کچھ مانگنا یعنی دعا کروانا برا نہیں لگے گا بلکہ اس طرح شاید اسے اپنی اہمیت اور اللہ کی قربت کا احساس ہوگا۔
Fool proof عیادت کی تیاری مکمل کرکے سکون و اطمینان کے ساتھ دوست کے ہاں گئے۔
ملاقات کے دوران کمال ضبط و احتیاط کا مظاہرہ کیا گیا پھر موقع مناسب سمجھ کر عیادت دار نے مریض سے دعا کیلئے کہا ”یہ کہنا“ تھا کہ وہ حضرت فوراً یوٹرن (Uturn) لے گئے ملاقات  ماحول  الفاظ  موڈ سب بدل گیا کہنے لگے۔
”بیمار میں ہوں تکلیف میں ہوں بجائے اس کے کہ تم میرے لئے کچھ کرو  دعا کرو  خدمت کرو  تمہیں اپنی پڑی ہے۔
حیران ہوتے ہوئے اس نے مزید کہا۔
”تم اتنے اچھے کہاں کہ صرف مجھے ملنے آ جاتے تمہارے جیسا خود غرض انسان آج بھی اپنی غرض کیلئے آیا ہے۔“
صاحب عیادت نے دوستی کا Edge لیتے ہوئے سمجھانے کیلئے کہا۔
”نہیں میں تو اس لئے کہہ رہا تھا کہ بیمار کی دعا قبول ہوتی ہے  مریض نے مزید حیرت سے کہا۔ٴٴ
”اچھا“ تمہیں کس نے کہہ دیا۔
اگر ایسا ہے اور میری ہی دعا قبول ہونی ہے تو میرے اپنے لئے قبول نہ ہو جائے پھر تو مجھے اب تک بالکل ٹھیک ہو جانا چاہئے تھا۔
صاحب عیادت نے Situation کو Diffuse کرنے کیلئے کہا ”ٹھیک ہے بابا نہ دو دعا۔ ناراض مت ہو۔ چھوڑو اس بات کو۔“
مریض دوست نے کہا۔
”میں تو خوش ہو رہا تھا تمہارے آنے سے۔ خود غرضی ظاہر کرکے تم نے میری ساری خوشی غارت کر دی حالانکہ تم میرے پاس آئے تھے تمہیں میرے فائدے اور حوصلہ بڑھانے کی بات کرنی چاہئے تھی۔
صاحب عیادت نے یہ سن کر خود سے پوچھا کہ کیا کہوں کہ اس کی یہ خواہش پوری ہو جائے تو اس میں اس سوال کا جواب تھا۔
حضرت زید بن ارقم کہتے ہیں کہ ایک بار میری آنکھیں دکھنی آ گئیں تو نبیﷺ میری عیادت کیلئے تشریف لائے اور کہنے لگے۔
زید!
تمہاری آنکھوں میں یہ تکلیف ہے تو تم کیا کرتے ہو؟
میں نے عرض کیا۔
صبر و برداشت کرتا ہوں۔
آپﷺ نے فرمایا
”تم نے آنکھوں کی اس تکلیف میں صبر و برداشت سے کام لیا تو تمہیں اس کے صلے میں جنت نصیب ہو گی۔“
اس نے مریض دوست سے کہا۔
”چلو ٹھیک ہے تمہارے فائدے کی بات کرتے ہیں۔“
اچھا جی! بس رہنے بھی دو جانتا ہوں تمہیں۔ مریض نے جواب دیا۔
دوست گویا ہوا
تم نے اس تکلیف میں ہمت و صبر سے کام لیا (اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ فوراً Response آیا)
اس کے علاوہ چارہ نہ تھا یہ مجبوری تھی۔
عیادت دار نے کہا
چلو ایسے ہی سہی تم نے تکلیف برداشت کی۔ تم اذیت سے گزرے اس کے صلے میں اللہ تمہیں جنت نصیب کرے گا۔
مریض نے کہا۔ اچھا۔
اسی لئے زندگی جہنم بن گئی ہے۔ وہاں نہ سہی جہنم یہاں آ گئی ہے۔ (بہت Extreme خیالات تھے)
تمہیں الہام ہوا ہے کیا؟ (ساتھ ہی ساتھ مریض نے سوال کر دیا)
دوستی کے تحت یہ کہا گیا (عیادت دار کی طرف سے)۔
”فضول باتیں کرکے اپنی جنت خراب نہ کرو۔ میرا دیکھو کاروبار نہیں چل رہا اور ان ملکی حالات میں کاروبار چلانا مزید مشکل ہو رہا ہے مجھے سمجھ نہیں آتی کیا کروں۔“
(اس طرح عیادت دار نے مریض کی توجہ دوسری طرف لگانے کی کوشش کی)
مریض نے کہا۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan