Episode 34 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 34 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

اچھا کاروبار نہیں چل رہا اسی لئے تم نے لوگوں کو قسمت کا حال بتانا شروع کر دیا ہے جنت ملے گی وغیرہ۔ لگتا ہے تم طوطے سے فال نکلوانے والا کاروبار شروع کرنا چاہ رہے ہو۔
عیادت دار خوش ہوا کہ اس کی دھیان بٹانے والی کوشش کامیاب ہو گئی یہ واحد کامیابی تھی جو آج حاصل ہوئی تھی۔
اسی اثناء میں کاروبار میں جن صاحب سے شراکت تھی۔ وہ علیل ہو گئے عرصہ سے علاج کروا رہے تھے۔
مگر اب علالت اس درجہ پر تھی کہ ہسپتال میں داخل (Admit) تھے۔ انسان برے تجربے سے حاصل ہونے والا سبق کبھی نہیں بھولتا۔ سوچ رکھا تھا کہ نہ ہی اپنے لئے دعا کروانی ہے نہ تسلی دینی ہے نہ ہی تکلیف کے اجر اور فوائد کا ذکر کرنا ہے۔ پھر سوچنے لگا کہ یہ سب نہیں کرنا تو میں وہاں جا کر کروں گا کیا۔ صرف ملاقات کروں گا ثواب کماؤں گا اور واپس آ جاؤں گا۔

(جاری ہے)

ہسپتال جا کر پتہ چلا کہ شریکِ کاروبار کے دونوں گردے فیل ہو چکے ہیں وہ لوگ Renal transplant کیلئے Donor ڈھونڈ رہے ہیں جو کہ مل نہیں رہا کیونکہ Tissue matching نہیں ہو رہی بہن بھائی اور دیگر خاندان کے افراد گردہ دینے کیلئے تیار نہیں یہ صاحب دوران ملاقات گھر والوں رشتہ داروں کی بے رخی و بے حسی کا ذکر کر رہے تھے۔ موت سامنے نظر آ رہی تھی۔ جس سے بچنے کا علاج تھا نہیں۔
راستہ مل نہ رہا تھا۔ صاحب عیادت جو کہ تہیہ کرکے آئے تھے کہ کوئی بات نہ کریں گے صرف عیادت کا ثواب کما کر واپس آ جائیں گے۔ یہاں یہ سب سن کر محسوس کرنے لگے کہ میں کتنا خود غرض ہوں ثواب کے لالچ میں یہاں آیا ہوں اور خاموش ہوں حالانکہ اللہ نے ایسی صورت کیلئے ایک راہ بتا رکھی ہے۔
تمہارے لئے شفاء کے دو مظہر ہیں شہد اور قرآن۔ (ابن ماجہ مسندرک العام)
فوراً خیال آیا ان کو تو شوگر کا مرض تھا جو کہ
ان کی گردوں کی خرابی کی بڑی وجہ بنا تھا۔
مگر اللہ نے اپنے بندے کو کسی حال میں بھی تنہا نہیں چھوڑا ابھی بھی قرآن سے شفا لی جا سکتی تھی۔
بہترین دوائی قرآن ہے۔ (ابن ماجہ)
اس کے بعد یوں لگا کہ کہ جیسے بہت بڑے مسلے کا بہت آسان اور قابل عمل حل مل گیا ہو۔ لہٰذا اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے مقصد عیادت پانے کیلئے ثواب کی خود غرضی ایک طرف رکھ کر عزت نفس کی حفاظت سے بے پروا ہو کر کہا۔
”قران سنا کرو۔“
(ابھی مزید بتانا تھا کہ کیوں سنا کرو کیسے اور کونسی سورة سنا کرو کس یقین سے کیا حاصل کرنے کیلئے سنا کرو)
مہلت نہ ملی یہ سب بتانے کی کیونکہ
اس بہترین دوا کے استعمال کے مشورے پر ان کا Reaction چشم زدن میں آیا۔
”کیوں میں کوئی مرنے لگا ہوں اور جان کنی مشکل ہو رہی ہے۔ تمہیں یہ نزع کا وقت لگ رہا ہے۔
جو قرآن سننے کے مشورے دے رہے ہو۔“
نہیں ایسا نہیں میں تو آپ کی صحت یابی کیلئے کہہ رہا تھا عیادت دار نے تصحیح کرنا چاہی۔
مگر مریض ماننے کو تیار نہ تھا اور کہنے لگا۔
”نہیں تم میری موت کا انتظار کر رہے ہو اور یہ بے صبری تم سے چھپائے نہیں چھپ رہی۔“
یہاں رہ کر کچھ بہتر ہونا ممکن نہ تھا اس لئے واپسی کے علاوہ چارہ نہ تھا آج بہت دکھ ہوا اور اس تازہ تکلیف نے پچھلی تمام تلخ یادوں کو جگا دیا نظروں کے سامنے پچھلی تمام Videos گھومنے لگیں۔
پچھتاوا پریشان کر رہا تھا۔ بھول نہ پا رہا تھا کہ کسی نے یہ سوچا کہ میں اس کی موت چاہتا ہوں اس سے زیادہ برا گمان کیا ہو سکتا ہے مگر قصور میرا تھا کہ میں وہاں گیا اور یہ سب سنا۔ کیا پایا پتہ نہیں مگر آج گنوایا بہت تھا۔ نفع و نقصان کے حساب کتاب میں مصروف دماغ کو یاداشت نے یہ پیغام بھیجا۔
جب کوئی شخص مریض کی عیادت کیلئے جاتا ہے تو وہاں پر دریائے رحمت میں اس وقت تک بیٹھارہتا ہے جب تک کہ وہاں رہا بلکہ وہ اس دوران دریا میں ڈبکیاں لگاتا رہا۔
(مالک احمد)
انسان نفع و نقصان پر ہر چیز تولتا ہے نقصان بے عزتی، بدگمانی نظر آ رہا تھا تو پچھتاوا ہو رہا تھا جب Balance sheet نفع (Credit) کی طرف گئی تو Gain نے برے لفظوں کا برا اثر زائل کرنا شروع کر دیا۔
Profit, loss کے اس کاروبار میں جب دنیا اور عزت ڈوبتی نظر آئی تو پشیمانی و رنج تھا مگر جب دریائے رحمت میں بیٹھنے اور اس میں ڈبکیاں لگانے کا نفع ملا تو کچھ اور نہ چاہئے تھا ویسے بھی جب اس دریا میں غوطے لگائے جا رہے تھے۔
دوسرا اس وقت کیا کہہ رہا تھا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سسر صاحب (بیوی کے والد) بوڑھے تھے بیمار رہے تھے بیٹے ان کے دنیاوی معاملات میں مصروف تھے ان کی طبیعت کی خرابی کا سن کر انہیں دیکھنے جایا گیا۔ حال پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ صبح سے طبیعت بگڑ رہی ہے اور ٹانگوں میں درد ہے۔ صاحب عیادت نے سسر کی تیماری داری اس پہلو سے کرنے کی کوشش کہ مریض کے مختلف کام کئے جائیں گھر والوں کیلئے آسانی پیدا کی جائے وغیرہ وغیرہ۔
لہٰذا انہوں نے سسر کی ٹانگیں دبانا شروع کر دیں ۔کیونکہ دوا انہیں دی جا چکی تھی اور درد ختم نہ ہوا تھا اور ان کے بیٹوں سے معلومات لی جا چکی تھیں نہ ہی وہ گھر پر تھے اور نہ ہی ان کا اپنے والد کو ہسپتال لے جانے کا کوئی فوری پروگرام تھا وہ انتظار کر رہے تھے کہ ان کے والد گھر پر ہی ادویات سے ٹھیک ہو جائیں۔
سسر صاحب نے کچھ دیر بعد عرض کی۔
میرے بیٹے ہیں میرا خیال رکھنے کیلئے تم میری ٹانگیں نہ دباؤ۔ میرے بیٹے ہیں میری خدمت کیلئے۔
بزرگ کی بات کا برا نہ منانے کا سوچ کر انہوں نے کہا
”میں بھی تو آپ کا بیٹا ہوں  مجھے بھی تو خدمت کرنی چاہئے۔“
رہنے دو پرائی اولاد کب کسی کی بنی ہے تمہیں کوئی غرض ہوگی جو یہاں آ کر یہ سب کر رہے ہو۔ (بزرگ نے کہا)
سسر کی غلط فہمی دور کرنے کیلئے کہا
”نہیں ایسا نہیں ہے آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔
بزرگ گویا ہوئے
”تم یہ نہ سمجھنا میں کچھ جانتا نہیں تمہارا کاروبار نہیں چل رہا تمہیں یقینا پیسوں کی ضرورت ہو گی اس لئے مجھے خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہو شاید تم یہ نہیں جانتے کہ میں سب کچھ بیٹوں کے نام کر چکا ہوں اور وہ آتے ہی ہونگے۔ مجھے ہسپتال لے جانے کیلئے۔“
سسر کی بات پر غصہ آنے کی بجائے ان پر ترس آیا کیونکہ ان کے بیٹے ان کو ہسپتال لے جانے کا کوئی ارادہ نہ رکھتے تھے۔
جب ان کے بیٹوں سے اس بارے میں بات کی تھی تو ان کے ماتھے پر ناگواری کے بل اس قدر واضح تھے کہ یادداشت سے محو نہ ہوئے اور جو انہوں نے کہا تھا وہ اس سے بھی زیادہ ہوش ربا تھا۔
”ابا تو ہسپتال جا کر علاج کے بعد سو جائیں گے اور ہم وہاں ساری رات جاگتے رہیں گئے۔“
(اس لئے گھر میں Symptomatic علاج پر ہی گزارا ہو رہا تھا)
باپ جن بیٹوں کو اتنا عزیز رکھتا تھا کہ زندگی میں سب کچھ ان کے نام کر دیا بیٹے اپنا کچھ وقت اور آرام بھی اس باپ کے نام کرنے کو تیار نہ تھے۔
عیادت پسند نہ تھی مجبوراً خود کو راغب کیا کہ دوسرے کا حق ہے جو چیز دوسرے کا مجھ پر حق ہے وہ میرا فرض ہے۔ اس فرض کی ادائیگی خوف‘ خوشی  اجر ہر جذبے کے تحت کرکے دیکھی‘ بہتر سے بہترین کی کوشش کی۔ خود غرضی سے بے غرضی کا سفر طے کیا۔ مجبوری سے شروع ہونے والی چیز تجسس اور پھر مشن بن گئی مگر حاصل کچھ نہیں۔ ہر جگہ جاکر نئی ہی طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا صبر و برداشت کرنا پڑتا اور عیادت سے حاصل شدہ اجر و ثواب اور رضائے الٰہی کے رخصت ہونے کا ڈر (دوران ملاقاتِ مریض ہونے والے حالات و انکشافات پر لغزش زبان اور ردعمل کے ضبط سے نکل جانے پر) اس کے حصول کی خوشی سے اتنا زیادہ ہوتا کہ غالب آ جاتا۔
لہٰذا وہ جذبہ نہ رہا اور اس Puzzle کو حل کرنے کا کوئی طریقہ سمجھ نہ آتا جوش عیادت ختم ہو گیا۔ مگر علم عیادت حاصل ہو گیا۔ شدتِ ایمان اس معمہ پر سوال کرتی رہتی۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan