Episode 35 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 35 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

ایک دن Accident ہو گیا۔ پرودگار نے جان بچالی اور بعد از علاج معذوری سے بھی بچا لیا۔ مگر یہ سب جہاں بہت کچھ دے گیا ، سکھا گیا یہ احساس بھی دلا گیا کہ بستر پر لیٹ کر بے کار رہ کر مریض بے زار ہو جاتا ہے۔ اس کا وقت نہیں گزرتا خود وہ کہیں جا نہیں سکتا ایسے میں دورانِ بیماری آنے والے وہ لوگ بہت اچھے لگے جنہوں نے کوئی دلخراش بات نہ کی، جنہوں نے تسلی دی ہمت بندھائی اور آٹے میں نمک کے برابر وہ لوگ جنہوں نے مدد کی ان کو تو بھولنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا (کیوکہ کوئی بیٹا حتیٰ کہ کوئی مرد گھر میں نہ تھا جو کہ بیوی اور بیٹی کی مدد کر سکتا) صحیح کہتے ہیں کہ مشکل وقت میں بنے ہوئے رشتے مخلص اور پائیدار ہوتے ہیں۔
جو لوگ جلد چلے جاتے اور شور شرابہ نہ کرتے ، تانک جھانک سے پرہیز کرتے وغیرہ جو صرف بیماری کے دنوں میں آئے اور بیمار اور بیماری تک محدود رہے ان کا آنا اچھا لگا مگر ایسے لوگ بہت کم تھے۔

(جاری ہے)


یہ کم لوگ یہ سکھا گئے کہ سنت کے تحت کی گئی تیمار داری اور عیادت اچھا اور دیر پا اثر رکھتی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس، فرماتے ہیں کہ
”مریض کے پاس زیادہ دیر نہ بیٹھنا اور شور و شغب نہ کرنا سنت ہے۔
اس طرح اپنے اندر موجود عیادت کا معمہ پھر حل کی تلاش کی فرمائش کرنے لگا دوبارہ زور پکڑ گیا بیماری اللہ کے قریب کر دیتی شاید اسی لئے یہ رگ تجسسِ عیادت پھر پھڑکنے لگی۔ آخر معاملہ کیا ہے اسلام جس چیز کو دوسرے کا حق کہتا ہے۔ حق کی ادائیگی کا طریقہ بتاتا ہے اس پر ثواب و نجات رکھتا ہے اس پر میرا تجربہٴ عیادت حیران کن واقعات اور سوالات کے انبار کے ساتھ میری یاداشت کا حصہ بنتا ہے۔
دین میں بیماری کو گناہوں سے دھلائی کہا گیا اعمال نامہ کے اس Detergent کا ذکر مجھے مشکل اور ناقابل فہم صورتحال سے دوچار کرتا ہے جبکہ حضرت علی جب کسی بیمار کے پاس جاتے تو باقاعدہ مبارکباد دیتے کہ تمہارے گناہ بخش دیئے گئے۔
یہ امتزاج سمجھ میں نہ آتا تھا کیونکہ اسلام دین فطرت ہے۔ صحیح اورقابل عمل ہے، کہیں نہ کہیں کوئی غلطی ضرور ہو رہی تھی۔
اس Recipe (ترکیب عیادت) میں بہت سے اجزاء Missing ہیں بہت سے اجزاء نہ سہی کوئی نہ کوئی اہم جزو ضرور Missing ہے جو یہ ڈش ٹھیک نہیں بن رہی اور جو بن رہی ہے لذیذ ہونے کی بجائے بدمزہ ہے۔ نگلنے کی بجائے تھوک دینے کو دل کرتا ہے۔
اسی اثناء میں ایک نوجوان کی (ہفتہ پہلے ہونے والی) موت کی خبر ملی۔ اس کے والد سے ملنے کے دوران جو کچھ دیکھا سنا وہ کبھی نہ دیکھا تھا نہ سنا تھا نہ ہی اس کی توقع تھی۔
اکلوتے نوجوان بیٹے کی موت پر اتنا صبر اور نہ ملال نہ شکوہ اس سے زیادہ ناقابل یقین یہ کہ وہ شخص اللہ کا مشکور تھا۔ بقول اس کے اللہ کی چیز تھی اس نے دی تھی اس نے واپس لے لی۔ اللہ نے اپنی چیز واپس لی تھی میری نہیں۔ میں اس سے شکوہ کروں اس کو ناراض کروں۔ نہیں ہرگز نہیں۔ بلکہ اس کا شکر کہ اس نے اپنی عطا کے قابل سمجھا اور اولاد دی اور اولاد بھی ایسی جو کہ نیک فرمانبردار اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنی جو کہ باعث شرمندگی و پریشانی نہیں بلکہ باعث فخر بنی۔
اتنے بڑے حادثے پر باپ کا ایسا ردعمل مجھے میرے تمام سوالوں کا جواب دے گیا۔ ایک معمہ جو حل نہ ہوتا تھا حل ہو گیا جو اہم جز Recipe (ترکیب عیادت) میں missing تھا وہ مل گیا۔ وہ تھا علم کی کمی، تربیت کا فقدان اور ایمان کی کمزوری۔
ترکیب عیادت پر‘ طاقتِ عیادت پر شک (جو کہ حالات و واقعات سے‘ لوگوں کے ردعمل سے پیدا ہوا تھا) ختم ہو گیا۔ یقین پہلے پختہ یقین‘ اورپھر ایمان میں بدل گیا۔
اب ایمان کے تحت اس کو زندگی کا لازمی حصہ بنانے کا عزم کرکے عمل شروع کر دیا۔
زندگی گزرنے لگی خوش و خرم، بہتر اور بہتر تر ہوتی گئی بہت برسوں بعد ہسپتال میں ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جس کا تصور بھی نہ کیا جا سکتا تھا کہ ایسی جگہ ان حالات میں ملاقات ہو گی میں تو اسے دیکھ کر پریشان ہوا جبکہ وہ مجھے دیکھ کر حیران بلکہ بہت حیران ہوا۔
اس کی حیرت کی وجہ یہ تھی کہ یہ وہ ہی دوست تھا جو کہ مجھے عیادت کیلئے جانے پر قائل کرتا تھا جو کہ مجھے کبھی ثواب کا لالچ دیتا کبھی دوسرے فوائد بتانے کی (دنیاوی) کوشش کرتا۔ جس کے سامنے میں والد کی بیماری کے دوران آنے والے عیادت داروں کے ہاتھوں پریشان ہونے کی شکایت کرتے ہوئے عیادت داروں کی اس عیادت کو انکی ڈرامہ بازی کہتا تھا جو کہ مریض اور گھر والوں سب کیلئے تکلیف کا باعث بنتی تھی۔
جبکہ میں پریشان اس لئے تھا کہ یہ دوست تو باہر چلا گیا تھا مگر آج یہاں open heart surgery کے مریض کے طور پر لیٹا تھا۔
دوست نے اپنی حیرت کے تحت پوچھا یہاں کیا کر رہے ہو کون بیمار ہے کیونکہ گھر کے کسی فرد کی بیماری کے علاوہ تمہیں کوئی چیز یہاں نہیں لا سکتی۔ (اس نے کہا)
اسے بتایا گیا کہ
نہیں گھر کا کوئی فرد بیمار نہیں۔
پھر تم یہاں کیا کر رہے ہو میرا مطلب ہے تم خود بیمار ہو بتاؤ کیا مسئلہ ہے۔
شوگر ، بلڈپریشر ، کچھ اور (اس کے ساتھ ہی کہا)
حالانکہ تم بیمار لگ تو نہیں رہے۔
ہاں ٹھیک لگ رہا ہے تمہیں میں بیمار نہیں ہوں۔
شوگر بلڈپریشر وغیرہ بھی نہیں ہے۔ (حقیقت بتائی گئی)۔
دوسری طرف سے جواب آیا اچھا! بڑے خوش قسمت ہو۔
حالانکہ آنٹی انکل میرا مطلب ہے کہ تمہارے والدین دونوں کو شوگر تھی اور انکل کی دل کی بیماری اور فالج خاصے لمبے چلے تھے اور ان کا انتقال بھی Heart attack سے ہوا تھا۔
سننے والے نے کمال اطمینان سے بتایا۔
”ہاں بس جو اللہ کی مرضی اس کا شکر کہ اس نے بچا رکھا ہے۔“ میری چھوڑو اپنی سناؤ کیا ہوا کیسے ہوا کب ہوا۔ (سوال کر کے گفتگو کا رخ بدلا گیا)
ہسپتال میں موجود شخص نے کہا۔
”کیا سناؤں عرصے سے دل کا مریض ہوں علاج فائدہ نہیں دے رہا اب Surgery ہوگی سب تمہارے سامنے ہے۔ (ساتھ ہی سوال کر دیا)۔
کیا کر رہے آج کل؟
کاروبار… یک لفظی جواب آیا
کونسا… بلا تاخیر پوچھا گیا۔
وہی جو شروع سے کر رہا ہوں… بے نیازی سے کہا گیا یہ جملہ مریض کو یقین نہ دلا سکا مگر اس وقت جب میں ملک سے گیا تھا تو تم کاروبار ختم کرنے کا سوچ رہے تھے اور Partner سے بھی تنگ تھے۔ (مریض نے انکشافاً یاد دلایا)
ہاں مگر میں نے پھر Partnership ختم کر دی تھی اور اکیلے ہی اپنا ذاتی کاروبار کیا۔ دوست نے توثیق کر دی۔
اچھا بڑی ہمت کی تم نے اس قدر خراب ملکی حالات میں اکیلے اتنا بڑا رسک لے کر۔
(مریض یقین کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔)
ہاں! رسک تو لینا پڑتا ہے۔ دوست نے Risk کی تصدیق کرتے ہوئے کہا
پھر کیسا رہا۔ مریض نے تجسس سے پوچھا۔
اچھا رہا بلکہ اچھا ہوتا گیا اب تو بہترین ہے سب (دوست نے ایک ساتھ سب کہہ دیا) تعجب کی بات ہے۔ پاکستان آنے کے بعد ملنے والے تم پہلے شخص ہو جو یہ کہہ رہے ہو ورنہ سب کے کاروبار کم ہوئے زیادہ تر تو ختم ہو گئے۔
اللہ کا بڑا شکر ہے (دوست نے بات سمیٹے ہوئے کہا) ساتھ ہی بات بدلنا چاہی اچھا گھر والوں کی سناؤ۔
اس کے بعد روزانہ اس دوست سے صبح ملنے جاتا اس کی حیرت کہ میں اس قدر باقاعدگی سے عیادت کرتا ہوں اور بغیر کسی دوسرے کام کے وہاں صرف عیادت کی غرض سے جاتا ہوں روزانہ اس کو سوال کرنے پر مجبور کرتی جو کہ میں روزانہ ٹال دیتا۔ بات بدل دیتا پھر اسے میری زندگی میں کامیابی، کاروبار کی ترقی اور صحتِ قابلِ رشک سب پر رشک آتا۔ اس کی حیرت بڑھتے بڑھتے تجسس بن گئی اور اتوار کے دن جان چھڑانا مشکل ہو گیا کیونکہ دفتر نہ جانا تھا جبکہ اس کا اصرار و تجسس مجبور کر رہے تھے کہ آج اگر انکار کیا تو دوست کی ناراضگی کا خدشہ ہے جو کہ ناقابل برداشت نقصان ثابت ہو گی۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan