Episode 40 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 40 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

ایک اور تفصیل جو عوام تک بلا تاخیر پہنچائی جا رہی ہوتی ہے وہ ہے فلاں پھل skin کے لیے اچھا ہے، فلاں بالوں کے لیے بہترین ہے۔ فلاں سبزی کھائیں۔ فلاں وقت فلاں فلاں سلاد کھانے میں لازمی شامل رکھیں۔ فلاں جوس پئیں۔ فلاں جوس میں فلاں فلاں چیزیں ملا کر اتنی مرتبہ لیں۔ Skin کے لیے کون کون سے پھل اچھے ہیں، کس کو کھانے سے رنگ نکھرتا ہے۔ کس کو کھانے سے جھریاں نہیں پڑتیں اور کون سے پھل کا فائدہ لگانے میں ہے فلاں سے Skin tone بہتر ہوتی ہے۔
فلاں سے Taning جاتی رہے گی۔ جہاں تک پھل کھانے کا تعلق ہے غور کیا جائے تو کوئی پھل بھی جلد کے لیے برا نہیں نقصان دہ نہیں ہے بشرطیکہ موسم کا، تازہ، صاف ستھرا اور اعتدال کے ساتھ کھایا جائے۔ مگر میڈیا والے کان کھا جاتے ہیں، الجھا کے رکھ دیتے ہیں عوام کو۔

(جاری ہے)


چینلز اور ان کے پروگرامز دیکھ کر ایک اور اندازہ ہوتا ہے کہ عوام پر جادو کروایا گیا ہے۔
سب تو سحرزدہ ہیں۔ معلوم نہیں سحر کروایا کس نے ہے؟ جن پر سحر اثر اندازر نہیں ہوا ان پر برے اثرات ہیں۔ جو بُرے اثرات کی زد سے بچ گئے ہیں وہ بندشوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ جو بندشوں کی قید میں ابھی تک نہیں آئے ان کے ستارے پریشان کن پوزیشن میں ہیں اور خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔ جن کی گھنٹیاں ابھی بجی نہیں انہیں جنون نے گھیر رکھا ہے۔ جن تک ابھی جن نہیں پہنچ پائے وہ منفی طاقتوں کی لپیٹ میں ہیں۔
ان سب سے محفوظ صرف ایک ہی شخص ہے جو اس وقت چینل پر بیٹھا ان تمام مسائل کی نشانیاں، وجوہات اور اپنے علم اور متکبہ فکر کے مطابق ان کے حل بتا رہا ہے۔ اب تو یہاں تک سہولت ہو گئی ہے کہ گھر بیٹھے فون کریں اپنا نام، والدہ کا نام اور دیگر ضروری معلومات بتا کر لمحوں میں پتہ کروائیں کہ آپ کس کی لپیٹ میں ہیں سحر کی، نحوست سیارگان کی، بندش کی یا منفی اثرات کی، نظر بند کی یا جنات کی اور اگر لپیٹ میں نہیں ہیں تو ان سب سے کتنی دُور ہیں۔
اور آپ کو یہ دوری قائم رکھنے کے لیے کیا کرنا ہے اور اگر داخل ہو گئے ہیں، لپیٹ میں آ گئے ہیں تو واپسی کب اور کیسے ممکن ہے۔
ایک اور انتہائی اہم اور انوکھی سہولت جو کہ عوام کو گھر بیٹھے مہیا کر دی گئی ہے وہ قسمت کا حال بتانے کی ہے۔ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔ آپ کے لیے کیا کرنا اچھا ہے۔ کیا کرنا فی الحال مناسب نہیں۔ کون سا فیصلہ کرنا چاہیے کون سا نہیں اب صرف ایک فون کال کے، ایک SMS کے، ایک Face book page کو Likeکرنے کے فاصلے پر ہے۔
کوئی زحمت، کوئی دقت، کوئی دیر نہیں۔ کہاں اٹھ کر جا کر دست شناسوں کو ہاتھ دکھانے پڑتے تھے، طوطے سے فال نکلوانی پڑتی تھی، اور حساب کتاب لگوانے یعنی زائچے بنوانے پڑتے تھے۔ لاکھ کوشش کے باوجود بھی اس طرح لی گئی معلومات میں Human Error کا Chance موجود رہتا تھا۔ مگر اب تمام ذمہ داری کمپیوٹر اور Soft ware نے سنبھال لی ہے۔ غلطی کے امکانات صفر ہو گئے ہیں۔
اور تو اور نہ زحمت نہ انتظار۔
ایک اور ادنیٰ سی خدمت یہ بھی کی جاتی ہے کہ عوام کو اس کے حقوق بتائے جاتے ہیں اور حق لینے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ فون کالز پر عوام کے مسائل سنے جاتے ہیں اور حل کیے جاتے ہیں چٹکیوں میں بغیر کسی تاخیر کے… اس کے علاوہ ناظرین کو ہر کوئی اپنے انداز سے اپنی پسند کے مطابق درس دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ سب کے اخلاق سنوارنے کی ذمہ داری آج اس نے پوری کر دی اور ایسے میں اپنے اخلاق سنوارنے کے لیے اس کے پاس وقت نہ بچا۔
مگر کیا کیا جائے اپنی قربانی دے کر ہی دوسروں کا بھلا کیا جا سکتا ہے۔
ایک نئی چیز جو کہ آج کل سننے میں آ رہی ہے وہ Name Therapy ہے۔ یہ ماہر حضرات بتاتے ہیں کہ نام کے انسان کی زندگی پر کیا اثرات ہیں۔ نام کا فلاں حصہ ہٹا دیا جائے تو زندگی میں بہتری آ جائے گی۔ پورا بدل دیا جائے تو کتنا زیادہ فائدہ ممکن ہے وغیرہ وغیرہ یعنی آئندہ آنے والے وقتوں میں ماں باپ کو رکھے گئے نام کا بھی بچوں کو حساب دینا پڑے گا۔
عوام یہ اور اس سب سے ملتا جلتا بہت کچھ ہر وقت ہر روز گھنٹوں سنتے ہیں۔ ظاہر ہے سن کر اگر کچھ بھول جاتے ہوں گے تو کچھ یاد بھی رکھتے ہوں گے، کچھ پر عمل بھی کرتے ہوں گے۔ بلکہ سالوں سے کر رہے ہوں گے (کیونکہ سالوں ہو گئے میڈیا کا یہ حال ہوئے) اور آئندہ کچھ سال بھی اگر یہ سب اسی تسلسل اور جذبے سے جاری رہا تو آئندہ پاکستان ایسا ہو گا۔
سب لوگ Slim اور Smart ہو چکے ہوں گے۔
سب گھروں میں سلاد کھایا جاتا ہو گا۔ سب کے سب Calculator بن چکے ہوں گے۔ کھاتے کم اور کھانے کے بارے میں سوچتے زیادہ ہو ں گے اور ہر وقت حساب کتاب لگاتے رہے ہوں گے Calories کا۔ آدھی بھوک Calories کا حساب کرنے میں ختم ہو جاتی ہوگی اور باقی آدھی بھوک تجویز شدہ کھانا دیکھ کرا ڑ جاتی ہو گی کیونکہ سلاد اور Bran Bread کھانا کوئی ایسا خوشگوار تجربہ نہیں جس پر خوش ہوا جائے۔
مجبوراً بھی انسان یہ چیزیں کچھ عرصہ کھا سکتا ہے ہمیشہ نہیں۔ بازار میں ملنے والی Bran Bread میں تو پھر بھی میدہ کی Mixing ہوتی ہے، چینی کا استعمال بھی کسی حد تک کیا گیا ہوتا ہے۔ یہی حال Bran Flakes کا بھی ہے۔ اس طرح ان بازاری اشیاء میں بھی Calories کے بڑھ جانے کا ڈر موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا صحیح Diet کرتے ہوئے اعلیٰ درجے کی Smartness کے لیے گھر میں ہی Bran کی روٹی بنا کر کھائی جائے۔
دل نہ راغب ہوتا ہو اسے کھانے کی طرف تو یہی سوچ لیں کہ اب تک اپنی زندگی میں آپ نے جتنی گندم ابھی تک استعمال کی تھی، چھان چھان کر جتنا آٹا کھایا تھا، میدہ استعمال کیا تھا اور سوجی کے مزے لیے تھے۔ ان سب سے اترنے والا چھلکا، بھوسہ یا چھان جو کہ آپ نے ضائع کیا تھا اب اسے کھانے کا وقت آ چکا ہے اور باقی تمام عمر آپ اسے یعنی چھان کھائیں گے۔
کوئی نا انصافی، کوئی ظلم نہیں اور کسی خود ترسی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ آدھی عمر آپ نے گندم کا صرف چھان ضائع کیا۔ اب آدھی عمر آپ گندم کا صرف اور صرف چھان، بھوسہ یا Bran کھائیں تا کہ حساب برابر ہو سکے اور جتنا رزق یعنی جتنی گندم آپ کو دنیا میں آ کر استعمال کرنی تھی اس کا حساب پورا ہو سکے، برابر ہو سکے کیونکہ قانونِ قدرت ہے کہ کسی کے نصیب کا رزق کوئی دوسرا نہیں کھا سکتا۔
لہٰذا آپ کے نصیب کا Bran آپ کو خود ہی کھانا چاہے جب مرضی کھائیں۔ جنہوں نے پہلے نہیں کھایا وہ بعد میں کھائیں مگر کھانا ضرور پڑے گا تاکہ آپ کے مقدر میں درج گندم کا کوٹہ پورا ہو سکے۔ کیونکہ سنا ہے کسی بھی انسان کو موت اس وقت تک نہیں آتی جب تک اس کے رزق کا ایک بھی دانہ دنیا میں باقی رہتا ہے۔ ایک دانے تک کی گنجائش نہیں ہے اور آپ اتنے سارے دانوں کا چھلکا (بھوسہ) دنیا میں چھوڑنا چاہتے ہیں۔
لہٰذا عزرائیل کو بھی الجھن سے بچانے کے لیے گندم کے کھاتوں کا بے باک ہونا ضروری ہے۔
کچھ لوگوں کے لیے تو Bran کی گھر کی بنی روٹی میں بھی Calories کے مطلوبہ مقدار سے بڑھ جانے کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہو گا کہ ان حضرات کو اتنے زیادہ Bran کی بھی ضرورت نہیں۔ ان کے لیے تو صرف Bran کی ”پھکی“ ہی کافی ہو گی۔ صرف یہ Calculation کرنی ہو گی کہ یہ ”پھکی“ کتنے وقت لینی ہے۔
قسط نمبر41

موٹاپا ختم ہو جائے گا تو بیماری ختم ہو جائے گی۔ بیماری نہ رہے گی تو ہسپتال کی کیا ضرورت باقی رہ جائے گی لوگوں میں Depression نہ ہو گا۔ لوگ خوش رہتے ہوں گے، مسکراتے ہونگے۔ ہنستے کھیلتے نہ ہونگے کیونکہ کھیلنے کے لیے تو Calories درکار ہوتی ہیں جو کہ لوگ پہلے ہی Burn کر چکے ہونگے اور اتنی Burn کر چکے ہوں گے کہ چلنے ے قابل کہاں رہ گئے ہوں گے۔
سب سے بڑی روزگار سروس اس دور میں ”سہارا سروس“ ہو گی۔ لوگ ڈیزائنرز ڈریس پہنے سہارا لیے چلتے ہوں گے۔ مگر Slim اور Smart ہونگے۔ سہارا لے کر نہ بھی چلتے ہونگے تو سہارا سروس کے Employee کو ضرور Hire کر کے ساتھ رکھتے ہوں گے کہ خدا معلوم کب کہاں ضرورت پڑ جائے۔ کیونکہ اتنی Smartness کا بوجھ کبھی کبھی ایک اکیلے انسان کے لیے سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب اس سے بھی زیادہ زمانہ مزید آگے ترقی کرے گا تو خوراک Calculated Calories کے ساتھ Tablets کی شکل میں دستیاب ہو گی۔
لوگوں کو صرف یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کتنی Tablets کتنے وقت کھانی ہیں حتیٰ کہ Bran کی ”پھکی“ سے بھی جان چھوٹ جائے گی کیونکہ وہ بھی Tablets کی شکل میں مارکیٹ میں آ چکی ہو گی۔ خواتین کی کھانے پکانے حتیٰ کہ سلاد تیار کرنے بھی خلاصی ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ بھی اگر کبھی باورچی خانے کا رخ کرنا پڑے گا بھی تو مرد حضرات اس ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے یا مجبوراً سر انجام دیا کریں گے کیونکہ ان کی جلد اور ان کا حسن اتنا Heat Laible نہیں جتنا کہ خواتین کا۔
سب کے جادو اتر چکے ہوں گے اور دوبارہ جادو کروانے کی کسی میں جرأت نہ ہو گی۔ نحوستِ سیّارگان کا اثر زائل ہو چکا ہو گا۔ بندشیں کھل چکی ہوں گی۔ برے اثرات اچھے اثرات میں بدل چکے ہوں گے۔ منفی قوتیں مثبت قوتوں سے نیوٹرل ہو چکی ہوں گی۔ جنات انسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر اپنی بستیوں، اپنے ویرانوں میں واپس جا چکے ہوں گے۔
سب کے سب اپنی قسمت کا حال جانے بیٹھے ہوں گے۔
جن کو اچھا حال معلوم ہوا ہو گا وہ خوشی سے پاگل ہو جائیں گے اور جن کو آنے والے وقت میں پیش آنے والی پریشانی کا علم ہو گا وہ پریشانی آنے سے پہلے خوف سے نیم پاگل حتیٰ نیم مردہ ہو جائیں گے۔ استخارہ سینٹر کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ لوگ خوشی اور غم کی انتہاؤں پر ہوں گے۔ بے عمل اور بے فکر یا فکر مند رہ رہ کر بے حس ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے پوشیدہ رکھا ہے سب۔
مومن گزرے ہوئے دن کو یاد نہیں کرتا اور آنے والے دن کے لیے سعی و کوشش کے بعد توکل کرتا ہے۔ فیصلہ سازی کے لیے صلوة الحاجت اورا ستخارہ سے مدد لیتا ہے۔ عمل سے زندگی کو جنت یا جہنم بناتا ہے۔
ریا ناموں کا قصہ تو پہلے یہ ہو گا کہ لوگ Name Therapist سے مشورہ کر کے ان کی ہدایات کے مطابق زندگی کی مطلوبہ آسانیوں، خواہشات کی تکمیل اور کسی حد تک مسائل کے حل کے لیے اپنے ناموں میں تبدیلیاں کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ ماں باپ کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے کہ آپ کے رکھے گئے نام کی وجہ سے زندگی کے اتنے سال اتنے مسائل رہے۔
جن (مسائل) سے نجات ان کو نام میں تبدیلی اتنے سالوں کے بعد کر کے حاصل کرنا پڑ رہی ہو گی۔ اسی اثناء میں جب نام میں تبدیلی کرنے والے صاحب کی خواہشات تبدیل ہوں گی اور زندگی کے معاملات بدلیں گے تو نئی صورت حال کے مطابق نام میں نئی تبدیلی درکار ہو گی۔ اس طرح ساری عمرنام وقفے وقفے سے Change ہوتا رہے گا اور نیا نام نئے فائدے سے فیض یاب کرتا رہے گا۔
ذاتی طور پر تو یہ بڑی فائدہ من Practice ہو گی مگر معاشرتی طور پر بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ ہر کچھ عرصے بعد ہر ایک نے نام بدلا ہوا ہو گا اور معاشرتی معاملات اور لین دین میں دشواری سے زیادہ سخت Confusion کا سامنا ہو گا۔ کیوں کہ نام بھی آئے دن موبائل فون کی Sim کی طرح تبدیل ہونگے اور ایک ایک شخص کے کئی ناموں کی لمبی Name History ہو گی۔
چینلز جو کہ اپنی دانست میں Mentor کا بھی رول ادا کر رہے ہیں، تو ان کی زبانی نصیحتوں کے زیرِ اثر سب ایک دوسرے کو معاف کر چکے ہونگے۔
قسمتیں تو پہلے ہی سنور چکی تھیں، اخلاقیات بھی سنوار دی گئی ہو گی۔ پرانے مسائل حل ہو چکے ہوں گے۔ نئے مسائل پیدا ہی نہ ہونے دئیے گئے ہوں گے۔ صحت ہی صحت ہو گی۔ سب اخلاقِ حسنہ کے مالک ہونگے۔
سب کے پیٹ اندر جا چکے ہونگے۔ جن کے کچھ باہر رہ گئے ہوں گے یا جن کے اندر جا کر دوبارہ باہر آ گئے ہونگے یا جن کے پیٹ ڈھیٹ ہونگے وہ مزید جدت کے ساتھ پیٹ کی واپسی کا انتظام کرنے میں دن رات جتے ہونگے۔
اس وقت تک Mind Science اتنی عام ہو چکی ہو گی کہ لوگ اس علم کی بنیادی تدبیر جس میں پیٹ وہیں رہتا ہے جہاں رہنا چاہیے پر عمل پیرا ہونگے۔ وہ نسخہ کیمیا یہ ہے کہ پیٹ سے سانس لیا جائے، پیٹ سانس لینے کے ساتھ اندر اور باہر اپنی آمدورفت جاری رکھے۔ اس کے علاوہ عادت بنا لی جائے کہ پیٹ ہر وقت کمر کے ساتھ لگا رہے۔ ایسا کرنا مشکل کام ہے کیونکہ ایسا کرنے کے لیے ہر وقت دھیان اسی طرف رکھنا پڑتا ہے۔
جیسے ہی دھیان ہٹا فوراً پیٹ کمر سے جدا ہو کر باہر بھاگنے کی کرتا ہے۔ ویسے بھی اس طرح اس Position میں بات کرنا دِقت آمیز ہوتا ہے۔ مگر جب مشن ہی پیٹ کی کمر کے ساتھ پکی دوست کروا کے اس کو اندر اس کی دوست کے پاس ہی رکھنا ہو تو سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا یعنی لوگ بولیں گے نہیں اور دھیان و ذہن میں صرف تصور پیٹ کے بیٹھے رہیں گے۔
سب سے بڑھ کر جس تبدیلی کو مستقبل میں دیکھا جائے گا وہ خواتین و حضرات کے حسن کے حوالے سے ہو گی۔
پارلرز ختم ہو چکے ہونگے کیونکہ ضرورت ہی باقی نہ رہے گی۔ سب کے رنگ گورے ہو چکے ہونگے۔ چہرے بے داغ و دلکش ہونگے۔ جھریاں اور جھائیاں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں گی۔ چہرے کے Pores بالکل ٹھیک اور قدرتی حالت میں ہوں گے نہ کھلے، نہ بند، نہ واضح، نہ مدد کے لیے پکارتے ہوئے۔ جلد کی Tone اور Tension بہترین ہو گی۔ نہ ڈھیلی جلد ہو گی نہ Tight اور تمام چہرے کا رنگ ایک سا اور دمکتا ہوا ہو گا۔
روشن آنکھیں ہونگی۔ آنکھوں کے گرد حلقے تو کجا جلد کا رنگ بھی گہرا نہ ہو گا۔ گردن کا حسن چہرے جیسا ہو گا۔ گردن کی جلد بھی گوری، تروتازہ اور چمکدار ہو گی۔ سب کی گردنیں ان کے چہروں کے ساتھ Match کرتی ہونگی۔
سروں پر بال ہی بال ہونگے اور Dandruff دیکھنے کے لیے تو ملک سے باہر جانا پڑے گا۔ کوئی بھی بوڑھا یا ادھیڑ عمر نہ ہو گا سب کے سب جوانی کی دہلیز کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھے ہونگے کیونکہ سب کے سر اور دیگر بال کالے یا قدرتی رنگ کے ہونگے۔
بالوں کا Texture انتہائی خوبصورت ہو گا۔ بال گھنے، مضبوط اور قدرتی چمک لیے ہونگے۔ یہ اتنے دلکش بال حسن کو چار چاند تو کیا آٹھ چاند لگاتے ہونگے۔
بڑھاپا کہیں نہ ہو گا نہ جسم پر، نہ جلد پر، نہ بالوں پر اور نہ چہرے پر۔ صحت ہی صحت ہو گی۔ رعنائی ہی رعنائی ہو گی۔ حسن ہی حسن ہو گا۔ Antiaging کریموں اور دیگر مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کا مستقبل خطرے میں ہو گا۔
ظاہری دلکش عروج پر ہو گی کیونکہ سارا Focus ہی اس پر تھا، ساری محنت ہی اس کو درست کرنے کے لیے کی گئی تھی۔ باطنی حسن کی طرف تو کسی نے توجہ ہی نہ دی ہو گی کیونکہ وقت ہی نہ بچا ہو گا کسی کے پاس اس مشقت کے لیے مگر پریشانی کی کوئی نہیں کیونکہ باطنی حسن کی ضرورت ہی ختم ہو چکی ہو گی۔ ویسے بھی سب کی آنکھیں ظاہری حسن سے ہی خیرہ ہو جائیں گی اور جب دلفریب رعنائی سے اوسان خطا ہو چکے ہوں تو باطن کیا ہوتا ہے؟ کیسا ہوتا ہے؟ کیسا ہونا چاہیے؟ کی خبر کس کو ہو گی۔
کسی کو نہیں۔ عورتوں کا حسن ایسا ہو گا کہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن چہرے ہونگے اور ان چہروں کی روشنی کافی ہو گی گردو نواح میں اجالا کرنے کے لیے یعنی انرجی سیور تک کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ لوڈ شیڈنگ کے باوجود اندھیرا نہ ہو گا اسی لیے تو حکومت لوڈ شیڈنگ کا اصل مسئلہ حل نہیں کری کیونکہ مستقبل میں بجلی کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
خواتین کے رُخِ زیبا ساری ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہونگے۔ کھانا پکانے کا جھنجٹ تو پہلے ہی ختم ہو چکا ہو گا۔ حقوق و فرائض کے جھگڑے نہ ہوں گے۔ گلے شکوے نہ ہونگے۔ حقوق العباد کے کھاتے بے باک ہو چکے ہونگے۔ نہ موٹاپا، نہ بیماری، نہ بڑھاپا، نہ جادو، نہ بندش، نہ برے اثرات ہونگے۔
زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں تھوڑا سا غور کریں تو پتہ چل جائے گا کہ یہ کیسا مستقبل ہو گا۔
معاشرہ کس طرف جا رہا ہے تو عرض یہ ہے کہ معاشرہ ارضی جنت بننے جا رہا ہے۔ ایسی جگہ جہاں حسن کی انتہا ہو، بیماری اور بڑھاپا نہ ہو کو جنت کہا جاتا ہے۔ حسن کی انتہا حور ہے۔ جن عورتوں کی جلد کو بذریعہ میڈیا رات دن لگا کر خوبصورت، شفاف اور Radiant بنایا جا رہا ہے تاکہ Glow کرے تو یہ انتہا ”حور“ ہی ہے۔ بس صرف زمین پر قیام پذیر ہونے کی وجہ سے دیسی حور کہلائے گی مگر کسی بھی طرح اصلی حور سے کم نہ ہو گی۔
دیسی حور تو مفت میں ملے گی جب کہ اصلی حور کے لیے تو مرنا پڑے گا۔ بغیر مرے اور بغیر اعمال کے حساب کتاب کے حور مل جائے تو اور کیا چاہیے نا شکرے انسان کو۔ حقیقی جنت میں بھی باطن کے معاملات نہ ہونگے اس لیے دیسی جنت میں بھی اس کا ذکر کرنے کا اور اس پر وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ۔ اہل جنت پکا پکایا کھایا کریں گے یعنی جنت میں حوریں ہانڈی چولہا نہ کریں گی۔
اگر اصلی حور پکانے کی ذمہ داری سے بری ہے تو دیسی حور پر یہ ظلم کیوں۔ کیونکہ چولہے کی Heat بھی حسن کی قاتل ہے اسی لیے دیسی حور کے حسن کی حفاظت و بقا کے لیے چولہے سے دوری ضروری ہے۔ جنتِ حقیقی میں بھی کسی کو کسی سے شکایت نہ ہو گی کیونکہ کسی کا کسی پر کوئی حق، کوئی فرض نہ ہو گا، نہ کسی کی عمر بڑھے گی نہ کوئی بیمار پڑے گا۔ ایسی صورت میں جب سب کے پاس اپنی اپنی حوریں ہونگی، برابر کی خوبصورت ہونگی (نہ دوسرے کی حور سے کم نہ زیادہ) تو حسد نہ ہو گا۔
جب حسد نہ ہو گا تو سحر و بندش کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی۔
پس کلی طور پر ثابت ہوا کہ معاشرہ جنت ہی کی طرف جا رہا ہے۔ مستقبل کا قیام دیسی جنت میں ہو گا۔ خوش آئند بات ہے بلکہ چینلز کا مشکور ہونے کی بات ہے کہ ان کے زیر تربیت رہ کر عورتیں دیسی حوریں، دیگر لوگ علالت سے بے نیاز اور بزرگی سے بے خوف ہو جائیں گے تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آنے والے وقت میں یہ ملک دیس ارضی جنت ہو گا۔ پاکستان کے مکین جنت کے مکینوں جیسے ہو جائیں گے۔ تو اللہ کرے پاکستان کے ماحول میں بھی جنت جیسا امن و سکون اور تحفظ آ جائے تا کہ یہ مکمل طور جنت نظیر ہو۔ آمین ثمہ آمین۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan