Episode 45 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 45 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

گاڑی بھی ٹھیک ہے۔ گھر والوں کو ضرورت تھی اس لیے گاڑی چھوڑ آیا ہوں خیال تھا کہ جھوٹ کی پرانی مقدار ہی اس شخص کے لیے کافی ہوں گی مگر اللہ نے سب کہ ذہن الگ الگ دیا ہے۔ انہوں نے جو سوال کیا وہ سب سے مختلف تھا۔
اچھا پابی ہوری گڈی چلا لیندے نے
(اچھا بھابھی صاحبہ گاڑی چلا لیتی ہیں)
(بھابھی صاحبہ سے مراد ان صاحب کی بیوی تھیں)
سوائے ”ہاں“ کے اور کوئی جواب دیا نہ جا سکتا تھا۔
یعنی ایک اور جھوٹ۔ کہاں بھابھی اور کہاں Driving؟ ان کو کیا پتہ بھابھی کے حالات کا، قابلیت اور صلاحیتوں کا۔ بچارا خوا مخواہ بھابھی سے متاثر ہو رہا تھا اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ میری خوش قسمتی پر رشک کر رہا تھا۔ ایسی بھابھی کا شوہر ہونے پر…… پھر احساس ہوا کہ کتنا کچھ ہے جسکی پردہ داری اللہ نے کر رکھی ہے……
آج دفتر میں قدم رکھ کر جو سکون ملا وہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔

(جاری ہے)

تحفظ کا وہ احساس ہوا کہ جیسے کوئی لڑکی خطرات میں گھری ہونے کے باوجود بخیریت گھر پہنچ جائے۔ اتنی خوشی دفتر پہنچ کر کبھی نہ ہوئی تھی۔ جتنی آج ہوئی کہ وہ صاحب نظر نہ آئے جن کے نظر آنے کا ڈر تھا اور داؤ پر لگی عزت بچ گئی۔
دفتر سے واپسی کے وقت کئی لوگ آ گئے۔ آپ صبح بس پر آئے ہیں میرے ساتھ چلیں تو ان صاحب نے یہ جواب دینا شروع کیا کہ نہیں گھر والے فارغ ہو کر مجھے یہاں سے Pick کر لیں گے۔
پہلے ایک دو حضرات تو یہ جواب سن کر چلے گئے مگر تیسرے چوتھے شخص کے آفر کرنے تک اس بہانے سے اثر ختم ہو چکا تھا۔ تو جواب ملا کہ یہاں بیٹھ کر کب تک انتظار کرو گے۔ میرے ساتھ چلو اور فون کر کے ان کو اطلاع دے دو۔ میرے جھوٹے بہانے کی بدولت وہ وہاں بیٹھے تھے۔ ذہن کوئی بھی ایسا جھوٹ جو ان کو وہاں سے اٹھانے کا سبب بن سکے گھڑنے سے قاصر تھا۔ لہٰذا ہتھیار ڈال دئیے گئے اور ایک اور احسان کا آج کے سامانِ نادیدہ میں اضافہ ہو گیا۔
اگلے دن گاڑی پر دفتر جانے کا ارادہ کیا۔ اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ بجٹ گاڑی کے پٹرول کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہو گیا تھا بلکہ Public Transport استعمال کرنے سے حاصل ہونے والے تجربے کی روشنی میں اس منصوبے پر نظر ثانی اور ترامیم کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی اور ان سب کے لیے وقت درکار تھا۔ گاڑی پر دفتر جانے کا فیصلہ کر کے ایک طرف تو وقت حاصل کیا گیا تھا سوچنے اور منصوبہ سازی کے لیے جبکہ دوسری طرف وہ دنیا والوں کو ایک بار پھر دھوکہ دے رہے تھے کہ انہیں شک نہ گزرے کہ وہ بچت کر رہے تھے۔
یہ طے کیا کہ وہ وقتِ مقررہ سے مزید کچھ دیر پہلے صبح کے وقت Public Transport میں سوار ہونگے تاکہ نہ تو ان کو کوئی بس سٹاپ پر کھڑے دیکھے اور نہ ہی کوئی بس میں Subordinate ملے اور وہ گزشتہ مسائل و شرمندگی سے دوبارہ دو چار ہونے سے بچ جائیں۔ ایسا ہی کیا گیا۔ عمل درآمد شروع ہوا اور صبح جلدی بس میں سوار ہونے کے لیے گھر سے وقتِ مقررہ سے پہلے نکلے۔
بس آ گئی۔ رش بہت کیونکہ یہ سکول کالجوں کا وقت تھا اور طالب علموں کے لیے اس سے بہتر کوئی سواری نہ تھی۔ رش کے باوجود بس میں سوار ہو گئے۔ اس بس میں کوئی جاننے والا کوئی Subordinate نہ ہو گا ان کی خام خیالی تھی۔ یہاں سب سے پہلے نائب قاصد سے ملاقات ہوئی وہ صاحب کو دیکھتے ہی صاحب کے لیے جگہ کا انتظام کرنے میں مصروف ہو گیا۔ وہ خود اٹھ کھڑا ہوا اور صاحب کو سیٹ پر بٹھا کر ایسے محسوس کر رہا تھا جیسے عمرہ قبول ہو گیا ہو۔
اگلے سٹاپ سے چپڑاسی سوار ہوا صاحب کو دیکھ کر چونک گیا اور وجہٴ نزول پوچھنے لگا۔ تو بتایا کہ گاڑی بیٹے کو چاہیے تھی۔ چپڑاسی نے فوراً کہا صاحب وہ تو ٹھیک ہے مگر چھوٹے صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے آپ کو دفتر چھوڑ دیتے پھر گاڑی لے جاتے۔ ”صاحب“ چپڑاسی سے اتنی عقل مندی کی توقع نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے تو ہوا میں تیر چلایا تھا جس کے Feed Back کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔
مگر اب Feed Back موصول ہو چکا تھا۔ جس کا (Feed Back کا) استقبال صاحب کو یہ کہہ کر کرنا پڑا ”وہ مجھے ضرور دفتر چھوڑ دیتا اگر وہ یہاں ہوتا۔ لیکن وہ تو لاہور گیا ہوا ہے گاڑی لے کر۔“ آج جھوٹ کا دائرہ دوسروں شہروں تک پھیل گیا۔ آج ایک چیز جو صاحب کو یاد تھی وہ یہ کہ کرایہ خود دیں گے مگر ان کے اور کنڈیکٹر کے درمیان اتنا رش تھا کہ جس چپڑاسی نے صاحب کے بیٹے کی سعادت مندی پر شک کیا تھا اسی نے اپنا اور صاحب کا کرایہ دے دیا۔
اس بچارے کو کیا پتہ کہ صاحب نے بیٹے کو گاڑی دوسرے شہر لے جانا تو دُور کی بات تھی کبھی اپنے شہر میں بھی نہیں چلانے دی کیونکہ گاڑی چاہے باپ چلائے چاہے بیٹا چلتی تو پٹرول پر ہی ہے۔ صاحب بس میں بچت کرنے کے لیے سوار ہوئے تھے۔ صاحب کی بچت تو بجٹ میں تخمینہ شدہ مقدار سے بھی زیادہ ہو رہی تھی کیونکہ بس کا کرایہ بھی دوسرے لوگ ادا کر رہے تھے۔
صاحب مفت سفر کر کے بچت میں اضافہ کر رہے تھے جب کہ دوسرے لوگ اس بچت کا باعث بن کر اپنا بیڑہ غرق کر رہے تھے۔ ٹھیک ہی کہتے ہیں مہنگائی سے ہر صورت غریب ہی متاثر ہوتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہو رہا تھا۔
واپسی پر اگر دفتر سے چند منٹ پہلے نکل جاتے تو لوگ گاڑی روک روک کر لفٹ دیتے لہٰذا سوچا کہ ذرا دیر سے نکلوں گا تاکہ سب جا چکے ہوں۔ دیر سے نکلا تو سٹاپ پر کچھ ملازمین کو کھڑے دیکھا اس لیے وہاں جانے کا منصوبہ ملتوی کر دیا کیونکہ اس وقت کٹہرے میں کھڑا ہو کر سوالات کے جوابات دینے کا کوئی موڈ نہ تھا۔
لہٰذا نظر بچا کر فوٹ پاتھ پر چلنا شروع کر دیا۔ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کروں۔ چلتے چلتے ابھی زیادہ وقت نہ ہوا تھا کہ ایک گاڑی پاس آ کر رکی اس سے پہلے کہ ان صاحب سے سوال کیا جاتا انہوں نے گاڑی والے حضرت سے خود پوچھا… آپ تو آج چھٹی پر تھے۔ جواب آیا کہ ”ہاں جس کام کے لیے چھٹی کی تھی وہی نمٹا کر واپس جا رہا ہوں تم سناؤ یہاں کیا کر رہے ہو؟“
ایک دم زبان سے نکلا Walk کر رہا ہوں۔
Walk? (حیرت کی انتہا تھی دوسرے شخص کے لیے)
ہاں! بھئی ڈاکٹر نے بہت زور دیا ہے walk کرنے پر لہٰذا انہی کی تجویز پر عمل کر رہا ہوں۔ (سمجھ نہ آ رہا تھا کہ آج اتنے مختلف جواب ذہن میں کہاں سے آ رہے تھے)۔
مگر سوٹ پہن کر walk! کیا یہ بھی ڈاکٹر نے کہا تھا؟
(بہت بری طرح پھنس گئے یہ کیسا سوال تھا جس میں چھپی دوسرے شخص کی پریشانی ایک دم تو سمجھ میں نہ آئی)
”نہیں“ (اتنا ہی کہہ کر یہ صاحب سوچنے لگے کہ walk تو ٹانگوں سے کرنی ہے کپڑوں سے نہیں)
ٹریک سوٹ پہننے میں اتنا وقت تو نہیں لگتا کہ تمہاری صحت خطرے میں پڑ جاتی (مفت مشورہ بن مانگے دیا گیا)۔
وقت ٹریک سوٹ پہننے میں نہیں لگتا روزانہ یہی سوچتا تھا کہ کل سے walk شروع کروں گا۔ کل ٹریک سوٹ لے کر آؤں اور واک شروع کروں گا۔ مگر یہ کل کبھی نہ آتی تھی۔ اس لیے میں نے آج سے walk شروع کر دی۔
تو اب سمجھ آیا کہ ان کو مسئلہ کیا تھا۔ ان کو بغیر ٹریک سوٹ کے واک کرنے پر اعتراض تھا ان کو کیا معلوم کہ واک تو بہانہ بنایا گیا تھا۔ واک کا ارادہ تو کسی کم بخت کا نہ تھا۔
ان حضرت سے یہ ملاقات ایک نیا Idea دے گئی کہ بچث پروگرام کو آج پیش آنے والی صورت حال کے نتیجے میں Redesign کیا جا سکتا ہے یعنی ایک طرف کی بچت و اک کر کے بھی کی جا سکتی ہے۔ دفتر اور گھر کا درمیانی راستہ اتنا تھا کہ ایک لمبی واک کے نتیجے میں طے کیا جا سکتا تھا مگر ایسا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ٹریک سوٹ پہنا جائے لہٰذا اگلے دن ٹریک سوٹ ساتھ لے کر دفتر گئے تاکہ لوگ طرح طرح کے سوال واک کے بارے میں نہ کریں۔ کیونکہ ان حضرت سے ملاقات نے یہ سکھایا تھا کہ Public Opinion یہ ہے کہ واک نہ کرنا کوئی بُری بات نہیں مگر بغیر ٹریک سوٹ کے واک کرنا جرم اور مذاق ہے۔ ان تمام الجھنوں اور پریشانیوں سے بچنے کا انتظام کر لیا گیا۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan