Episode 51 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 51 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

حالانکہ میڈیا، اس کے Shows، خاص طور پر Morning Show بہت طاقتور اور موثر ذریعے ہیں جن کا براہِ راست معاشرے خصوصاً خواتین سے تعلق ہے۔ خواتین صبح فرصت سے (عام طور پر) یہ Shows دیکھ رہی ہوتی ہیں، انہماک سے سنتی ہیں، اور شوق و تجسس سے Follow کرتی ہیں یہ بہترین وقت ہوتا ہے اور بہترین انداز سے اس وقت ان کو کوئی بھی چیز، ہنر، معلومات یا Technique خالصتاً یا Entertainment کی Coating میں لپیٹ کر سکھائی جا سکتی ہیں۔
ان کے Brain میں Register ہو گا تو ایک خاتون سے ایک خاندان پر اثر پڑے گا۔ اس طاقت کا مناسب استعمال کر کے تقدیریں بدلی جا سکتی ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ معیاری Shows کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔ کوئی بھی Be yourself نہیں ہے اس سے بھی بڑھ کر کسی میں بھی Beleive in yourself نہیں ہے۔ سب کو آج ہی Show کے اختتام پر Rating چاہیے۔

(جاری ہے)

کوئی بھی چند دن، چند ہفتوں کی محنت کے بعد Rating لینا نہیں چاہتا۔

صبر ختم ہو گیا ہے یقین تو کہیں نظر ہی نہیں آتا بلکہ کسی کو علم ہی نہیں کہ یقین کیا ہوتا ہے۔
پہلے زمانے میں بغیر Recording کے Live پروگرام بہترین ہوتے تھے کیونکہ کام کرنے والوں میں، میزبانوں میں، Anchors میں علم تھا، تہذیب تھی، تعلیم و تربیت اور صلاحیت تھی، اور دم خم تھا۔ اپنا کام جانتے تھے۔ علم و الفاظ کا ذخیرہ تھا۔ الفاظ کے چناؤ کا ہنر تھا۔
ادائیگی، الفاظ میں ٹھہراؤ تھا۔ دوسروں کو سننے کا حوصلہ تھا۔ وہ لوگ تاریخ، دین، حالات اور ملک سب کے بارے میں جانتے تھے۔ بیان کرتے تھے۔ لوگ جانتے بہت تھے بولتے کم تھے۔ مگر اب جانتے کچھ بھی نہیں بولتے بہت ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عقل کامل ہو تو گفتگو گھٹ جاتی ہے۔ یعنی زیادہ گفتگو عقل کی کمی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اور اس کمی کو آج ”ظاہر“ پر سارا Focus کر کے پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
”ظاہر“ اس کمی کو پورا نہیں کر سکتا جبکہ آج کل اس کو Replace کر کے گزارا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پہلے کے لوگوں میں Language بھی تھی۔ Body Language بھی تھی اور ظاہر بھی تھا۔ اب تو لگتا ہے ایمرجنسی نافذ ہو چکی ہے۔ رفتارِ گفتگو، اندازِ گفتگو ٹھیک نہیں ہے۔ الفاظ کا چناؤ مناسب نہیں ہے۔ مقصدیت اور ٹھہراؤ ختم ہو گیا ہے۔ Language اور Body Language دونوں ختم ہو گئے ہیں صرف ”ظاہر“ کا سہارا ہے بلکہ صرف اور صرف ظاہر بیچا جا رہا ہے۔
صرف آنکھوں کی تسکین ہے جبکہ ذہن و روح کو تو آکسیجن بھی نہیں مل رہی۔ آکسیجن کی یہ کمی ہی معاشرے کی گھٹن کا سبب ہے۔
ہر چیز کی، ہر ادارے، ہر پیشے کی بقاء و وقار کے لیے اس کا ایک کم از کم معیار ہوتا ہے جس سے نیچے چلے جانا زیب نہیں دیتا، بقاء و وقار کے لیے خطرناک ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کامیابی حاصل نہیں ہو پاتی۔ اس کم از کم معیار کو حاصل کرنے اور برقرار رکھنے کی کوشش وہ آخری حد ہے جس تک پہنچنے کے لیے کی جانے والی محنت سے فرار ممکن نہیں۔
جس طرح فوج میں Non Executive شعبوں (Cores) کو بھی کم از کم فوجی تربیت دی جاتی ہے۔ کسی کو چھ ماہ کسی کو اس سے بھی کم ضرور اکیڈمی میں تربیت کے مراحل سے گزارا جاتا ہے یا اس کے علاوہ کسی اور انداز سے تربیت دی جاتی ہے مگر دی ضرور جاتی ہے اس طرح ایک میزبان Anchor یا Host کے لیے بھی کم از کم معیار آدابِ محفل، آداب گفتگو، علم و تروبیت، شخصیت، گفتگو میں ٹھہراؤ اور اچھا سامع ہونے کا ہنر ضروری نہیں بے حد ضروری ہے۔
ورنہ Shows اس طرح لوگوں کا بے مقصد و بلاوجہ اکٹھنا بولنے والا ہجوم لگیں گے۔ اس طرح رہا تو Norms بدلتے بدلتے عوام بے وقوف بن کر صرف بے کار کی چیزوں سے الجھے رہیں گے۔ عوام کی ذہنی سطح پست ہوتی جائے گی تو مسائل بڑھتے جائیں گے۔
مانا کہ زمانہ بدل گیا ہے Entertainment کی ضرورت ہے مگر بدلے ہوئے زمانے کے ساتھ انداز بدل لیجئے۔ آنکھ وہی دیکھتی ہے جو دماغ جانتا ہے۔
زبان وہی بولتی ہے جو دماغ جانتا ہے۔ لہٰذا ”دماغ کا جاننا“ کسی بھی زمانے میں، کسی بھی دور میں، کسی بھی بے مقصد چیز کے ساتھ Replace نہیں کیا جا سکتا۔ دماغ کم از کم علم رکھتا ہو گا، اندازِ گفتگو آدابِ گفتگو، اندازِ بیان اور آدابِ محفل جانتا ہو گا تو کم از کم معیار حاصل ہو گا، تب ہی میزبان یہ جان پائے گا کہ الفاظ کا زیادہ اور تیز بولنا، بے لگام و بے انداز بولنا، بے کار بولنا تفریح نہیں بلکہ کیا بولا کب بولا کس انداز سے کس لیے بولا تفریح ہے۔
موج مستی کے نام پر Shows کو Fun land اور Play land بنا دینا تفریح نہیں ہے کیونکہ صرف بچے viewers نہیں ہیں اور بڑے Funland جا کر کبھی کبھار تو خوش ہو سکتے ہیں مگر روزانہ کئی گھنٹوں کے لیے جا کر نہیں۔
تمام Anchors، میزبان یا Host قابل ہیں مگر یہ وہ پتھر ہیں جن کو مزید تراش خراش کی ضرورت ہے تاکہ یہ زیادہ قیمتی ہیرے بن سکیں اور دوسروں کو مستفید کر سکیں۔ علم و ادب اور تجربے کے اوزاروں سے ان کی تراش خراش ہو جائے تو بہترین ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا کرنے کے لیے بھی وقت نہیں ہے تو اعلیٰ اہل علم و ادب سے پروگرام کا Script لکھوا کر بنیادی تربیت کے بعد ان کو دے دیا جائے تو یقینا بہت بہتری آئے گی۔ Viewers کو بہت اعلیٰ درجے کی ایسی تفریح میسر آ سکے گی جو جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہو گی۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan