Episode 53 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 53 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

الیکٹریشن کا حال یہ تھا کہ وہ شرمندہ ہونا تو دُور کی بات حیران بھی نہ ہوا معذرت خواہ ہونے کا تو اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں۔ اس کا رویہ ایسا تھا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں بلکہ یہاں تک گمان گزرتا تھا اس کی Body Language کو دیکھ کر کہ شاید وہ منتظر تھا، کہ یہ گاڑی میرے پاس دوبارہ نہیں آئے گی تو کہاں جائے گی۔ اس نے سرسری سی نظر دوڑائی اور کہا Fan short ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔
اس کا یہ خبر (Fan shortage کی) بتانے کا انداز اتنا Casual تھا جیسے یہ تو روز مرہ کا معمول ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ بلکہ اس کا انداز تو Daily Routine کے اس Casual سوال کہ آج کیا پکائیں؟ سے بھی زیادہ Casual تھا۔
اس الیکٹریشن پر غصہ کرنا اس کو اس کی غلطی کا احساس دلانا بے کار تھا یہ عقل کچھ غصہ دکھانے کے بعد آئی۔

(جاری ہے)

اس کی ادائے بے نیازی اور ڈھٹائی دیکھ کر اور زیادہ غصہ آیا اور اس سارے غصے (پرانا جو کہ اس کی غیر ذمہ داری پر آ رہا تھا اور نیا غصہ جو کہ اس کی بے رخی اور بے نیازی پر آ رہا تھا) کو پینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

پر واحد حرام چیز ہے جس کو پینے کا حکم ہے۔ جس کو پینے پر اللہ خوش ہوتا ہے۔ جس کے پینے سے گردو نواح کے لوگوں پر اچھا اثر پڑتا ہے اور اجر بھی ملتا ہے۔ اتنے فائدے پہنچانے والی چیز (غصہ) خاصی بڑی مقدار میں پی لی گئی۔ اس کے علاوہ چارہ بھی نہ تھا۔ کیونکہ جس کے آگے آپ کی بیٹی رہتی ہو اور جس کے آگے آپ کی گاڑی پڑی ہو وہاں غصہ دکھانا آپ ہی کے لیے نقصان دہ ہے۔
الیکٹریشن کے پاس کبھی ایک چکر نہیں لگا۔ کیونکہ ایک چکر لگانے آپ جاتے ہیں باقی چکروں کا انتظام وہ خود کر لیتا ہے۔ مثلاً Wiring کر کے Tape لگاتے ہوئے وہ خود ٹیپ (Tape) کے سرے کھلے چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ پگھل کر گر جائیں۔ اور Emergency پیدا ہو جائے۔ یہ ایمرجنسی بھی ایسی ہوتی ہے کہ بغیر Consultation کے گزارا کرنا تو دور کی بات Consultation کے مقام تک پہنچنا مصیبت ہو جاتا ہے۔
کیونکہ جان و مال یعنی زندگی اور گاڑی دونوں Risk پر ہوتے ہیں۔ اس رسک کی شدت کا اندازہ با آسانی لگایا جا سکتا ہے اور اس رسک سے بچا جا سکتا ہے اگر الیکٹریشن چاہے تو………
ایک مرتبہ ان صاحب نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا مسئلہ کیا ہے؟ کیا تم سے Tape بھی صحیح طرح نہیں لگتی تو جواب ملا کہ صاحب ایک مرتبہ ہم صحیح کر کے Tape لگا دیں گے تو ہمارا کام کیسے چلے گا۔
اس جواب نے تمام رازوں سے پردہ اٹھا دیا کہ الیکٹریشن کے پاس کبھی بھی ایک ہی چکر یا ایک ہی visit کیوں کافی نہیں ہوتا کسی کی زندگی و مال خطرے میں ڈال کر خود اپنے رزق کا انتظار کر کے وہ مطمئن ہو جاتے ہیں۔ نہ تو ان لوگوں کو آپ پر یقین ہے اور نہ خود پر۔ وہ خود اپنے رزق کا انتظار کر کے اس رزق سے حالات کے بدلے جانے کے منتظر ہوتے ہیں۔ کسی کا مال و زندگی، جان و مستقبل داؤ پر لگا کر وہ سمجھتے ہیں گھر کی دال روٹی چلانے کے لیے یہ سب ضروری ہے۔
وہ بے قصور و مجبور ہیں مجرم نہیں۔
مکینک کے پاس روٹین کے گاڑی کے کام Tuning وغیرہ بھی کروانے جاؤ تو مکینک فوراً بتائے گا فلاں چیز خراب ہے تبدیل کروانی پڑے گی۔ یہ سن کر صاحب نے بتایا کہ گاڑی تو ٹھیک چل رہی ہے اس میں خرابی تو فی الحال کوئی نہیں آ رہی۔ تو مکینک جواب دیتا ہے یہ لیں دیکھ لیں تبدیل تو آپ کو کروانا پڑے گا ویسے یہ پرزہ ہمارے پاس ہے۔
کابلی اتنے کا ہے۔ چائنا والا اتنے کا ہے اور Genuine اتنے کا ہے اور آپ کو اتنے کا مل جائے گا۔ چلتا یہ بھی Genuine جیسا ہے۔ اتنے مہینے نکال جائے گا آرام سے۔ یہ تمام معلومات بغیر پوچھے بغیر کسی اشارے کے بغیر کسی سوالیہ Gesture کے بلا تاخیر آنے والے کو بغیر وقت ضائع کیے دے دی جاتی ہیں آگے کے سارے معاملات کا انحصار اس بات پر ہے کہ گاڑی کا مالک کتنا ذہین ہے اور وہ اس Puzzle کو حل کرنے کی کتنی صلاحیت، وقت،پیسہ اور دلچسپی رکھتا ہے۔
گاڑی، مکینک اور الیکٹریشن کی Triangle کے آپس کے تعلقات کی وجہ سے پیدا ہونے والی دشواریوں سے بچنے کا حل صاحب نے یہ نکالا کہ گاڑی آئندہ آٹو کلب سے ٹھیک کروائیں گے۔ اب گاڑی میں جب اگلی مرتبہ پرابلم ہوئی اور وہ Auto Club پہنچ گئے تو کلب والوں نے بتایا کہ گاڑی میں ایک پرابلم نہیں بلکہ بیسیوں مسائل ہیں۔ جن کا حل یہ ہے اور اتنا خرچہ ہے آٹو کلب والوں کو گاڑی کے جس حصے کا مسئلہ بتایا گیا تھا انہوں نے اس حصے کے اردگرد کے تمام حصوں کو بیماری زدہ قرار دے کر فوراً Transplant کی ضرورت پر زور دیا۔
فیصلہ کرنے کی نوبت تو بعد میں آتی ہے پہلے تو یہ خبر سن کر ہی لگتا ہے جیسے نروس بریک ڈاؤن ہو جائے گا۔ کیونکہ لگتا ہے بتایا گیا مسئلہ صرف چھوٹا سا مسئلہ نہیں بلکہ پھیل جانے والا کینسر تھا جو کہ مکمل طور پر پھیل چکا ہے گردو نواح میں۔ آٹو کلب جانے کا تجربہ بھی کوئی اتنا اچھا نہیں رہا۔ آٹو کلب والوں کے پاس جا کر پتہ چلتا کہ گاڑی کی رجسٹریشن کے علاوہ سب کچھ تبدیل کروانا پڑے گا۔
کچھ ہی دنوں بعد یہ خبر سننے میں آئی کہ صاحب کی گاڑی جس کمپنی کی تھی انہوں نے قریب ہی Dealership 3s کا آغاز کیا ہے۔ پہلے تو وہ کمپنی ڈیلر کے پاس جانے کو گھر سے دور ہونے کی وجہ سے Avoid کرتے تھے۔ اب ان کا خیال تھا کہ گاڑی سے متعلق تمام پریشانیاں اور مسائل حل ہو گئے کیونکہ ڈیلر کے پاس گاڑی لے کر جانے پر Expert Services اور Genuine Parts ملیں گے جو کہ مستقل کے سکھ کے علمبردار ہونگے۔
گاڑی کی کمپنی بھی وہ تھی جو کہ پاکستان میں چلنے والی سب سے زیادہ گاڑیاں بنانے والی کمپنی ہے۔ اس کمپنی کا آغاز جاپان میں ہوا جب ان کی گاڑیوں کی مانگ بڑھی تو انہوں نے دوسرے ملکوں میں Manufacturing شروع کر دی وقت کے ساتھ ساتھ جب کاروبار اور Demand بہت بڑھ گئے تو کمپنی نے متعلقہ ملکوں اور ان کے لوگوں کو اختیارات دے دئیے وغیرہ وغیرہ ان سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ کمپنی کا نام ہی صرف جاپانی رہ گیا باقی سب کچھ پاکستانی سے بھی زیادہ پاکستانی ہو گیا۔
پاکستان میں مشکل ہی ہے کہ کوئی ایسا آدمی ملے جو کہ گاڑی استعمال کرتا ہو مگر اس نے اس کمپنی کی گاڑی استعمال نہ کی ہو۔ اب اندازہ ہوا اس گاڑی کی پبلک ڈیمانڈ کا اور اس گاڑی کا۔ بحر حال سہولت (Company 3's' Dealer) کے Door step پر مل جانے کی بہت خوشی ہوئی۔ جب صاحب اپنے دکھوں کا اور گاڑی کے مسائل کا مداوا کرنے کے لیے ڈیلر کے پاس پہنچے۔ گاڑی کی تکلیف بیان کی اور علاج کے منتظر تھے کہ ان کی نظر ایک شخص پر پڑی۔
اس شخص کو یہاں دیکھ کر خوش ہونا تو دُور کی بات، صرف دکھ ہوتا اگر وہ کمپنی کا یونیفارم پہنے ہوئے نہ ہوتا۔ مگر بہت زیادہ دکھ ہوا کیونکہ اس نے یونیفارم پہنا ہوا تھا۔ پھر بھی اپنے گمان پر اتنی تکلیف اٹھانے سے بہتر تھا کسی سے مشورہ کر لیا جاتا بلکہ پوچھ کر تصدیق کر لی جاتی۔ لہٰذا وہاں Reception پر جا کر معلومات لیں تو پتہ چلا کہ وہ شخص وہاں پر Employee تھا اور وہ وہی شخص جو کہ الیکٹریشن تھا جو تاروں کے جوڑ پر لگائی جانے والی ٹیپ کے سرے کھلے چھوڑ دیتا تھا تاکہ اس کا روز گار چلتا رہے۔
تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ جب یہاں 3's'Dealership کو open کرنا تھا تو اس علاقے کے مکینک اور الیکٹریشن وغیرہ کو ہی کمپنی نے اپنے پاس جاب دے کر اپنے Employee کی حیثیت دے دی۔ اس کمپنی کا حال یہاں تک پہنچ جائے گا جاپان والوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا۔ انہیں شاید پتہ بھی نہیں بلکہ یقینا پتہ بھی نہ ہو گا کہ ان کے ”نام“ کے ساتھ یہاں کیا کچھ اور یہ کچھ ہو رہا ہے۔
بحر حال یہ تو سنا تھا کہ زمین گول ہے مگر ایک طرف سے پچکی ہوئی ہے۔ آج اس شخص کو اس جگہ دیکھ کر لگا کہ زمین کی گولائی (قطر) بہت کم ہے بلکہ اس کے پچکے ہوئے ہونے پر بھی آج شک ہو رہا تھا۔ گاڑی کے مسائل کے حل سے ملنے والی خوشی کا انتظار ختم ہی نہیں ہوا بلکہ خواب ہو گیا۔ مایوسی نے گھیر لیا اور یقین ہو گیا کہ مکینک کے شر سے بندہ بندے کو نہیں بچا سکتا، خود کو نہیں بچا سکتا۔ صرف بندے کو بنانے والا ہی اس کو مکینک و الیکٹریشن وغیرہ کے شر سے بچا سکتا ہے۔

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan