Episode 56 - Muskrat By Uswah Imaan

قسط نمبر 56 - مسکراہٹ - اسوہ ایمان

زیتون گھر جاتی ہے۔ ماں اس سے کھانا کھانے کے لیے کہتی ہے تو وہ کہتی ہے بھوک نہیں۔ اس کی ماں پوچھتی ہے
کیوں؟
آج پڑھائی سے ہی پیٹ بھر گیا ہے۔
زیتون کوئی جواب نہیں دیتی
اس کی ماں پوچھتی ہے کیوں؟
کیا ہوا ہے؟
چپ کیوں ہو؟
زیتون نے سوالوں کے جواب میں مزید سوال کرتے ہوئے کہا
اماں میرا نام کس نے رکھا تھا؟
بیٹا تیرے ابا نے رکھا تھا۔
کیا کوئی ڈھنگ کا نام نہیں رکھ سکتے تھے آپ لوگ؟
یہ بھی کوئی نام ہے۔ ”زیتون“
ہوں!
تمہارا نام زیتون آج تو نہیں رکھا پھر آج یہ سوال کیوں کر رہی ہو۔
آج کیوں تمہیں اپنا نام برا لگ رہا ہے۔
کیونکہ آج مجھے شدت سے احساس ہوا ہے۔ آج اس کی (نام کی) وجہ سے میرا مذاق بنا ہے۔

(جاری ہے)

اچھا بیٹا تمہیں اتنا ناپسند ہے تو بدل لینا۔
(ماں تجویز دیتی ہے)
اب اٹھو اور کھانا کھا لو۔ بھوکے رہنے سے نام پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔
#…#…#
زیتون کے ذہن میں بار بار ایک ہی خیال آتا ہے۔
”آپ میرا رزلٹ خراب کر دیں گی۔“
یہ جملہ اس کے دماغ میں چپک کر رہ جاتا ہے۔
وہ سوچتی ہے کہ انہیں (میڈم سکینہ) کو کیسے الہام ہو گیا کہ میرا رزلٹ کیا ہو گا۔
#…#…#
دو، تین دن میں تمام Subjects کی کلاسز شروع ہو جاتی ہیں۔
سب سے زیادہ برا میڈم سکینہ پڑھاتی ہیں۔ زیتون بہت کوشش کے باوجود کچھ نہیں سمجھ پاتی۔ کیونکہ ٹیچر کا انداز پڑھانے والا نہیں بلکہ پوچھنے والا اور کام دینے والا ہے یعنی کل یہ Assignmentکر کے لائیں۔
یہ پڑھ کر آئیں۔
وہ exercise کر کے لائیں۔
سب کچھ کر کے لائیں۔ وہ کیا بتاتی ہیں کچھ بھی نہیں۔
زیتون سوچتی ہے کہ میڈم علم دینے کی بجائے علم کا بوجھ منتقل کرنے پر یقین رکھتی ہیں جیسے اتنا علم ہونا چاہیے۔
جاؤ اور ڈھونڈ لاؤ۔ نہ میں مدد کروں گی۔ نہ ہی میں راستے بتاؤں گی اور نہ ہی مددگار۔
زیتون کوشش کرتی ہے کہ کسی کلاس فیلو سے مدد لے لے۔ مگر کیسے؟ کالج میں اتنا وقت نہیں ملتا۔ گھر سب کے اتنی دُور دُور تھے کہ Combine study ممکن نہیں تھی۔
ایک ہی جملہ اس کے ذہن میں گردش کرتا ہے کہ
”آپ تو میرا رزلٹ خراب کریں گی“
حالات مزید اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرے؟
اس مسئلے کو کیسے حل کرے؟
پریشان ہو کر ابا سے بات کرتی ہے۔
ابا مشورہ دیتے ہیں کہ بیٹا گاؤں میں تو ایک ہی بندہ ہے جسے عربی آتی ہو گی۔ وہ ہیں مسجد کے مولوی صاحب۔ میں ان سے بات کروں گا۔
ابا مسجد کے مولوی صاحب سے بات کرتے ہیں۔ انہیں تو صرف قرآن پڑھنا آتا ہے۔ نماز، چند سورتیں اور کچھ احادایث یاد ہیں انہیں بس!
قرآن میں لکھی گئی عربی کا کیا مطلب ہے؟ انہیں کیا معلوم؟
لہٰذا مولوی صاحب عربی پڑھانے سے قاصر۔
امیدوں کا چراغ پھر بجھ گیا۔
زیتون گاؤں کے سکول کی ٹیچر (جس نے عربی رکھنے کا مشورہ دیا تھا) سے بات کرتی ہے۔ تو انہوں نے اس مشکل کا یہ حل نکالا کہ عربی کا خلاصہ لے لیا جائے۔
خلاصہ اب ملے کہاں سے؟
خلاصہ صرف اور صرف لاہور سے مل سکتا تھا۔ اب ابا نے یہ سراغ لگایا کہ لاہور سے خلاصہ لا کر کون دے سکتا ہے۔ گاؤں کا ایک لڑکا لاہور میں ریلوے میں ملازم تھا۔
وہ مہینے میں ایک بار گاؤں آتا تھا۔ ابا نے اس سے بات کی۔ اس نے اگلی مرتبہ یعنی ایک ماہ بعد خلاصہ لا کر دینے کا وعدہ کیا۔
زیتون ایک ماہ بعد خلاصہ پا کر ایسے خوش ہوئی جیسے کوئی الہ دین کا چراغ ہاتھ آ گیا ہو۔ جو اس کے سارے مسائل حل کر دے گا۔ بحر حال دن گزرتے گئے۔ کالج کے امتحان کا وقت آ گیا۔ امتحان ہوتا ہے تو زیتون کے بہترین نمبر آتے ہیں خاطر طور پر عربی کے پیپر میں۔
میڈم سکینہ کی انا کو دھچکہ لگتا ہے۔ وہ کہتی ہیں۔
”میں یقین کر ہی نہیں سکتی!“
”آپ نے یقینا نقل کی ہو گی۔“
وہ پاس بٹھا کر اس سے پیپر دوبارہ کرواتی ہیں
زیتون نے پیپر ٹھیک کر دیا (جو کہ ان کی مزید پریشانی کا باعث بنا)
انہیں پھر یقین نہ آئے یا وہ یقین کرنے کے باوجود یقین نہ کر پا رہی تھیں۔
لہٰذا انہوں نے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ بتاؤ آخر تم نے کیا کیا ہے؟
خلاصہ استعمال کرنا تو بہت بری بات سمجھی جاتی ہے۔ خلاصہ کا بتا کر میڈم کی ضد کو چار چاند لگانے والی بات تھی۔
استاد نا اہل ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ استاد اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے، طالب علم کو نہ پڑھائے کوئی بری بات نہیں۔ طالب علم کو Discourage کرے بالکل بھی برا نہیں مگر اگر طالب علم خلاصہ استعمال کر کے کچھ سیکھ لے تو بہت بری بات ہے۔
کیا تضاد ہے۔
میڈم کے بہت زیادہ اصرار پر وہ صرف یہ کہتی کہ کسی سے مدد لی تھی۔ اسطرح بچاری زیتون اپنی جان چھڑواتی ہے۔
زیتون خوب دل لگا کر محنت کرتی ہے۔ بہت کوشش کرتی ہے۔ ایک دن وہ پڑھ رہی ہوتی کہ
”اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کر دیا۔“
(ترجمہ سورئہ قمر آیت 17)
تو اس کے دل میں خیال آتا ہے کہ قرآن تو عربی زبان میں ہے۔
اس کا مطلب ہے عربی زبان آسان ہے۔ اس کے خیال کی تصدیق ایک دن ہو جاتی ہے جب وہ پڑھتی ہے۔
”سو ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان (عربی) میں اس لیے آسان کیا ہے کہ…“
(ترجمہ سورئہ طٰہٰ آیت 97…)
یہ سب جان کر وہ دل ہی دل میں اللہ سے کہتی ہے۔
”اے اللہ تو نے قرآن کو عربی زبان میں آسان بنایا ہے مگر تیرے بندوں نے تیری آسان زبان کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔
زیتون سوچتی ہے اس پر۔ پھر ارادہ کرتی ہے کہ میں ضرور کوشش کروں گی کہ مجھے جتنی بھی عربی آتی ہو اس کے ذریعے کسی کے لیے آسانی پیدا کروں۔ بے شک تھوڑا سکھا کر ہی کیوں نہیں۔ جتنی مشکل میں نے اٹھائی ہے اتنی شاید میں کسی کے لیے آسانی پیدا کر سکوں۔
دن گزرتے جاتے ہیں۔ زیتون خوب دل لگا کر محنت کرتی ہے۔ عربی کی تیاری تو وہ بہت Conscious ہو کر کرتی ہے کیونکہ بار بار اسے ایک ہی خیال آتا ہے عربی کی پہلی کلاس کا۔
ایک ہی جملہ اس کے ذہن میں گونجتا رہتا ہے۔
”آپ تو میرا رزلٹ خراب کریں گی“
FA کا رزلٹ آتا ہے۔ زیتون کے عربی میں Highest Marks ہوتے ہیں۔ اس کے بعد BA کرنے کے لیے اسے ابا سے شاندار ریزلٹ کی بدولت آسانی سے اجازت مل جاتی ہے۔ سلمیٰ اور زیتون BA میں داخلہ لینے کے لیے فارم پر کر رہے ہوتے ہیں تو سلمیٰ پوچھتی ہے۔
زیتون تم کون سے Subject لو گی BA میں
عربی والا Combination (فوراً جواب دیا)
کیا؟
تمہارا دل نہیں بھرا ابھی تک عربی سے
تھوڑی مشکل دیکھی ہے تم نے (سلمیٰ نے تبصرہ کیا)
زیتون انتہائی سنجیدگی سے بولی!
نہیں اب مجھے عربی اچھی لگنے لگی ہے۔
یہ آسان ہے۔ اللہ نے آسان بنایا ہے۔“
سلمیٰ نے اختلاف کرتے ہوئے زیتون کو جواب دیا۔۔
اچھی آسان ہے!
تب ہی سب ”عربی“ والے رو رہے ہوتے ہیں
زیتون نے دلیل دیتے ہوئے کہا۔
رونا زبان کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ وجہ یہ ہے کہ نہ تو پڑھانے والا ذمہ داری سے پڑھاتا ہے اور نہ ہی پڑھنے والا دل لگا کر پڑھتا ہے۔
سلمیٰ نے ایک بار پھر تصدیق کرنی چاہی!
یعنی تم عربی والا Combination ہی رکھو گی۔
زیتون نے بلا توقف جواب دیا
بالکل!
کیوں تمہارا ارادہ نہیں ہے۔
بالکل بھی نہیں
زیتون۔
مگر کیوں؟
سلمیٰ
بھئی پہلے ہی مشکل سے جان چھوٹی ہے اور ویسے بھی میں BA میں انگلش لٹریچر پڑھنا چاہتی ہوں۔ عربی پڑھ کر مجھے نہیں بننا مولون۔ نہ ہی کوئی ڈھنگ کا رشتہ ملے گا اور نہ ہی کوئی ڈھنگ کی جاب۔ ویسے بھی مولونوں سے کوئی بھی شادی کرنا پسند نہیں کرتا۔
زیتون
اچھا تو علم و شعور کے لیے نہیں پڑھ رہی بلکہ شادی اور جاب کے لیے پڑھ رہی ہو۔
سلمیٰ
ظاہر ہے جو کام کرنے ہی ہیں۔ بہتر ہے ان کے لیے سوچ کر منصوبہ بندی کی جائے۔
زیتون
اچھا تو اگر تمہاری منصوبہ بندی مکمل ہو گئی ہو تو چل کر فارم جمع کروا دیں۔
سلمیٰ
ہاں چلو

Chapters / Baab of Muskrat By Uswah Imaan