Episode 17 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 17 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

ساحرہ نے دیا کیلئے دلیہ بنا کر فریج میں رکھا اور پھر اس کے بجتے سائرن کو خاموش کروانے کیلئے ٹی وی لگا دیا۔ مگر دیا ہی کیا جو چپ کر جائے۔ اس نے اسے ریموٹ پکڑا کر بہلانا چاہا مگر دیا نے اٹھا کر نیچے پھینک دیا۔ وہ اسے لے کر لان میں چلی آئی۔ اونگی بونگی سی حرکتیں کرکے اس نے دیا کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ پچھلے دو تین دن سے بخار کی وجہ سے نہ تو وہ سو رہی تھی نہ ہی کچھ کھا پی رہی تھی۔
مزاج بھی چڑچڑا سا ہو رہا تھا۔ ساحرہ نے اسے جھولے پر بٹھایا۔ مگر اس نے احتجاجاً چلانا شروع کر دیا تھا۔ تنگ آکر وہ اسے لئے اندر چلی گئی۔ راحت اس وقت آرام کر رہی تھیں۔ اس نے کھانا کھا کر برتن سنبھالے۔ دلیہ پیالے میں ڈال کر وہ بیڈ روم میں آ گئی۔
آج حیدر نے نہیں آنا تھا۔ دو دن سے وہ ”ادھر“ ہی تھا اسی وجہ سے ساحرہ کا موڈ سارا دن خراب رہا۔

(جاری ہے)

”اونہہ… اہمیت جتانے کے اوچھے ہتھکنڈے۔“ حیدر نے فون پر اسے اذکی کی خرابیٴ طبیعت کا بتایا تھا۔ ساحرہ نے ریسیور پٹخ کر تنفر سے سوچا۔
تھوڑا سا دلیہ زبردستی اسے کھلا کر اس نے دوا دی۔ جو کہ اس نے تھوڑی کھائی اور زیادہ گرائی۔
دو دن سے دیا کو شدید بخار تھا وہ ساری رات روتی رہتی۔ اس کی وجہ سے وہ بھی بے آرام رہی تھی۔ دن کو بھی سونے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔
ساحرہ کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں جبکہ دیا کا شاید آج بھی جاگنے اور جگانے کا پروگرام تھا۔ ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ دیا کسمساتے ہوئے اٹھ گئی اور رونا شروع کر دیا۔ ساحرہ جھنجھلا کر اٹھ بیٹھی۔
”عجیب مصیبت گلے میں ڈال لی ہے۔“ اس نے دیا کے بازو کو سختی سے پکڑ کر دوبارہ لٹایا۔ وہ بھاں بھاں کرکے چلانے لگی تھی۔ روتے روتے اسے شدید کھانسی آ گئی۔
ساحرہ نے اس کی کمر سہلا کر سانس ہموار کیا۔ پانی پلا کر آخری کوشش کے تحت اس نے دیا کو تھپکنا شروع کر دیا تھا۔ پھر اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا۔ وہ سرعت سے اٹھی اور دراز میں سے ایک درمیانے سائز کی شیشی نکال لائی۔ دودھ کی بوتل میں اس نے ننھی ننھی دو گولیاں مکس کیں اور دو پانی کے ساتھ خود نگل لیں۔ دیا کے منہ سے بوتل لگا کر اس نے اطمینان بھرا سانس خارج کیا۔
کچھ دیر بعد دیا اونگھنے لگی تھی۔ اسے بھی نیند کے شدید جھونکے آنے لگے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ غافل ہو گئی۔
حیدر ساری رات سو نہیں سکا تھا۔ اذکی کی حالت دیکھ کر نجانے کیوں اس کا دل موم ہوا جا رہا تھا۔ وہ غمگین تھی تو حیدر بھی خوش نہیں تھا۔ وہ متضاد کیفیات کا شکار تھا۔
جن دنوں وہ اذکی کو اس نام نہاد بندھن سے آزاد کرنے کا سوچ رہا تھا۔
ساحرہ وہ تکلیف دہ ڈاکٹری رپورٹس لے آئی۔ اس کی التجا اور امی جان کی خواہش جان کر وہ کچھ پل خاموشی سے سوچتا رہا۔ اسے وہ دونوں درست لگی تھیں اور پھر بچے کی خواہش بھی انگڑائیاں لے کر جاگ اٹھی۔
بظاہر اس نے ساحرہ کے مجبور کرنے پر اذکی کو بیوی کا درجہ دیا تھا مگر لاشعور میں یہ خواہش نجانے کب سے چھپی تھی۔
جب اذکی نے ماں بننے کی خبر اسے دی تھی تو گویا اسے دونوں جہان کی خوشیاں مل گئیں۔
وہ بے حد خوش تھا اور ساحرہ بھی اس کی خوشی میں شریک تھی۔ ڈاکٹر نے جڑواں بچوں کی نوید سنائی تو اس نے اور امی نے ساحرہ کی گود میں زید کو ڈال دیا تھا۔ لیکن ساحرہ نے خود ہی انکار کر دیا۔
پر اب جبکہ دونوں بچے اچھے خاصے سمجھ دار ہو گئے تھے ماں کے لمس کو پہچانتے تھے تو ساحرہ نے دیا کو لینے کیلئے اسے مجبور کرنا شروع کر دیا۔
ساحرہ نے اس کے سامنے دو شرائط رکھی تھیں اور حیدر کو ہر حال میں اس کی ایک شرط ماننا تھی۔
سو اس نے دیا کو اس کے حوالے کر دیا۔ دوسری شرط ماننا اس کے اختیار میں نہیں تھا۔ وہ خود کو اس موڑ پر انتہائی بے بس محسوس کر رہا تھا۔ اس کی یہی کمزوری شاید ساحرہ کے ہاتھ جا لگی تھی۔
لیکن اذکی کی حالت کے پیش نظر اس نے ساحرہ کی دوسری شرط پر توجہ دینا شروع کر دی تھی۔ پچھلے چند دنوں سے وہ شدید ذہنی اذیت کا شکار تھی۔ سوتے میں اٹھ کر چیخنے لگتی‘ بالوں کو نوچتی اور خود کو کوستی رہتی۔
زید بھی الگ سہما سہما سا تھا۔ سو اس نے دل کی آواز پر کان بند کرکے دماغ سے سوچنا شروع کر دیا۔ امی نے کبھی اذکی کو دل سے قبول نہیں کیا۔ ساحرہ اگر انہیں پوتا پوتی دے دیتی تو اذکی کی طرف وہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ ساحرہ بھی اس کے وجود کو برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔ اپنی تکلیف کم کرنے کیلئے اس نے اذکی کو اذیت پہنچانے کا الگ طریقہ سوچا تھا یعنی دیا کو اس نے سے چھین کر۔
وہ صبح بغیر ناشتہ کئے آفس چلا آیا تھا۔ پہلی مرتبہ وہ راحت ولا ساحرہ سے ملے بغیر آفس میں موجود تھا۔ مگر ہمیشہ کی طرح وہ دلجمعی سے کام نہیں کر سکا۔ سر میں الگ ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ اس نے کچھ لمحے سوچا اور پھر اپنے سامنے چند کاغذات تیار کرنے کیلئے کہا۔ اس نے فلیٹ اذکی کے نام کر دیا تھا جبکہ بینک میں موجود تین لاکھ رقم میں مزید پچاس ہزار کا اضافہ کیا۔
اس کام سے فارغ ہو کر اس نے بخاری صاحب سے چھٹی لی اور راحت ولا چلا آیا تھا۔ وہ بیڈ روم کے دروازے تک آیا تو ساحرہ کی سوئی سوئی آواز نے قدم روک لئے۔
”حیدر صرف اور صرف میرا ہے۔ مجھے اس سے شدید محبت ہے۔“ وہ تفخر سے بول رہی تھی۔ حیدر کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ جانتا تھا کہ ساحرہ اس کے معاملے میں کس قدر شدت پسند ہے۔ اس نے کوٹ دائیں کندھے پر منتقل کرکے ہینڈل پر ہاتھ رکھا۔
”میں نے جسے چاہا اسے پایا بھی۔ کوئی میرے راستے کی رکاوٹ بنے میں اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہوں۔ پھر اذکی کیا چیز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ حیدر میری دوسری شرط ماننے پر تیار ہو جائے گا۔ کیونکہ اذکی اسے مجبور کرے گی۔ وہ بچی کے بغیر نہیں رہ سکتی‘ بچی ماں کے بغیر نہیں رہ سکتی اور میں… میں حیدر کے بغیر نہیں رہ سکتی۔“
حیدر نے دروازے کو ہولے سے دھکیلا‘ دروازہ کھلتا چلا گیا تھا۔
ساحرہ کی اس طرف پشت تھی یا پھر وہ فون پر ہی اس قدر محو تھی کہ اسے حیدر کی آمد کا احساس نہیں ہوا تھا۔ ورنہ وہ تو اس کی خوشبو سے ہی پہچان لیا کرتی تھی۔
”میں نے ہر بازی سوچ سمجھ کر کھیلی ہے۔ جیت ہمیشہ میرے مقدر میں لکھی گئی ہے۔ اس وقت بھی جب اذکی راحت ولا میں حیدر کی منکوحہ بن کر آئی تھی اور اب بھی جبکہ وہ اس کے دو بچوں کی ماں ہے۔ اسے پیچھے ہٹنا ہے ہر صورت۔
حیدر ٹھٹک کر رہ گیا تھا۔ اس نے بے یقینی سے ساحرہ کی پشت کو دیکھا۔
”دنیا کے جس کونے میں بھی دیا اور زید رہیں بس میری نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں۔ ویسے بھی وہ جہاں رہیں حیدر کے بچے ہی کہلائیں گے اسی کے نام سے پہچانے جائیں گے۔ حیدر کو بھی یقین و اطمینان رہے گا کہ اس کے بچے موجود ہیں۔ پھر وہ صرف اور صرف میرا ہوگا۔ کوئی اذکی ہمارے درمیان نہیں آئے گی اور نہ ہی کسی اور دوسری عورت کا دھڑکا۔“
وہ حقارت سے کہہ رہی تھی جبکہ حیدر کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آیا۔ الفاظ تھے کہ شعلے اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ سامنے کھڑی عورت نے بھی اس تپش کو محسوس کر لیا تھا۔ جب وہ پلٹی تو حیدر کو موجود دیکھ کر اس کے ہاتھ سے ریسیور چھوٹ کر گر پڑا۔

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi