Episode 30 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 30 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

وہ ساری رات سو نہیں سکا تھا۔ اسی لئے اٹھا بھی دیر سے ہی تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ اشعر کے گھر چلا گیا تھا۔
”مل گئی تمہیں فرصت مجھ سے ملنے کی؟“ اشعر نے طنزیہ کہا۔
”آج جلدی ہی اٹھ گئے ہو۔“ شاہ میر اس کے طنز کو نظر انداز کرتا لاپروائی سے بولا۔ اشعر چھٹی کا دن سو کرگزارتا تھا۔ خلاف معمول اسے جاگتا پاکر شاہ میر حیران ہوا۔
”ناشتہ کرو گے؟“
”نہیں۔
”چائے تو پیو گے ناں؟“
”نہیں رہنے دو‘ ابھی پی کر آ رہا ہوں۔“
”کیا بات ہے ہیرو! تم ٹھیک تو ہو ناں!“ اشعر جاتے جاتے پلٹ آیا تھا۔ صوفے پر اس کے مقابل بیٹھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا۔
”مجھے کیا ہونا ہے؟“ اس نے اشعر کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
”چھپاؤ مت مجھ سے‘ جو بات ہے شیئر کرو۔

(جاری ہے)

”مجھے محبت ہو گئی ہے۔
“ کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ سنجیدگی سے بولا تھا۔
اشعر جو کہ غمگین سی صورت بنائے بیٹھا تھا‘ ایک دم ہی ہنس پڑا۔
”بہت اچھا لطیفہ سنایا ہے تم نے مجھے۔“ اشعر کے مذاق اڑانے پر وہ تپ اٹھا۔
”میں سنجیدہ ہوں۔“
”ہوں… تو کیا اسم شریف ہے محترمہ کا اور تم سے کہاں ”ٹاکرا“ ہوا ہی اس کا؟“
”شفق… شفق نام ہے اس کا۔“ شاہ میر کھوئے کھوئے لہجے میں بولا تھا۔
اشعر کو بے ساختہ ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔
”دانت کیوں نکل رہے ہیں تمہارے؟“ شاہ میر نے اسے گھورا۔
”اچھا بتاؤ کہ ان شفق خاتون سے کب اور کہاں ملاقات ہوئی ہے تمہاری؟“ وہ بمشکل ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے بولا۔
”بس ایک ایکسیڈنٹ ہی سمجھ لو۔“ شاہ میر کو بے اختیار اپنی اور شفق کی ملاقات یاد آ گئی۔ وہ ایکدم اٹھ کھڑا ہوا۔
”کہاں جا رہے ہو؟“ اشعر اسے تیزی سے باہر نکلتے دیکھ کر چیخا۔
”ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے۔ جم میں ملاقات ہو گی۔“ شاہ میر نے گاڑی اسٹارٹ کی۔ اشعر کندھے اچکاتا پلٹ گیا تھا۔
شاہ میر کو گویا یقین تھا کہ شفق ضرور آئے گی۔ وہ جس آگ میں سلگ رہا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ شفق تک اس کے شعلے نہ لپکتے۔ وہ اس کے یقین پر مہر لگانے آ گئی تھی۔
شاہ میر بے انتہا خوش تھا۔ اسی خوشی میں اس نے ملیحہ کو لنچ کی آفر کر ڈالی تھی۔
وہ جو اتنے دنوں سے شاہ میر کی بے اعتنائی برداشت کر رہی تھی کھل اٹھی۔
”شکر ہے کہ تمہیں میرا خیال تو آیا۔“
”تمہارا خیال کب نہیں آتا۔ بس یار پچھلے دنوں کچھ مصروف تھا۔ اسی لئے تمہیں ٹائم نہیں دے پایا۔“ وہ دلکشی سے مسکرایا۔
”شاہ میر! تم فراز سے ملے ہو‘ اس دن کے بعد۔“ ملیحہ کو اچانک خیال آیا تھا۔ شاہ میر کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی۔
”نہیں۔“ وہ تنفر سے بولا۔
”امریکہ بھاگ گیا ہے خبیث‘ کہہ رہا تھا اس ملک کے حالات دیکھ کر میرا دل جلتا ہے۔ اگر یہی حال رہا تو میں ایک دن کڑھ کڑھ کر ختم ہو جاؤں گا۔ یہ سسٹم تو بدل نہیں سکتا۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے کا ارادہ کر لیا ہے۔ بے چارہ کتابی کیڑا‘ کتابی باتیں کرتا تھا۔“ ملیحہ نے لاپروائی سے کہا۔
”میرا خیال ہے باتیں ساتھ ساتھ ہوتی رہیں گی۔
کھانا کھانے چلتے ہیں۔“ شاہ میر کے کہنے پر ملیحہ مسکراتے ہوئے کھڑی ہو گئی تھی۔
ملیحہ کے کہنے پر وہ ایک درمیانے درجے کے ہوٹل میں آئے تھے۔ یہاں آکر شاہ میر بری طرح پچھتایا تھا۔ اس کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یوں شفق سے سامنا ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ اور بھی پانچ چھ لڑکیاں کالج یونیفارم میں تھیں۔ اس کی بدقسمتی تھی کہ شفق نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔
اس کی آنکھوں میں چھائی ناگواری نے شاہ میر کو کچھ پریشان کر دیا تھا۔ اسی پل شفق نے اپنی دوستوں سے کچھ کہا تھا اور پھر تیزی سے باہر نکلتی چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد گویا ہر منظر بے رنگ ہو گیا تھا۔
وہ چلی گئی تھی اور اس کے جانے کے بعد شاہ میر نے بے دلی سے کھانا کھایا تھا۔ اس رات شفق نے پہلی مرتبہ ازخود اسے فون کیا تھا۔ وہ جیسے کسی گہرے صدمے کے زیر اثر بول رہی تھی۔
شاہ میر خاموشی سے سنتا رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ خود ہی بول بول کر خاموش ہو گئی۔
”کچھ اور کہنا ہے تو وہ بھی کہہ لو‘ میں ہمہ تن گوش ہوں۔“ شاہ میر نرمی سے بولا تھا۔
”کہنے کیلئے کچھ بچا ہی نہیں۔“ اس کا لہجہ ٹوٹا بکھرا تھا۔ شاہ میر کو انجانی سی خوشی ہوئی۔
”تمہارا یہ لہجہ‘ یہ انداز مجھے خوش فہمیوں میں مبتلا کر رہا ہے۔
”میرے ساتھ مذاق مت کرو‘ میری زندگی کے ساتھ مذاق نہ کرو۔“ وہ بھیگی آواز میں بولی۔
”تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے؟“
”اعتبار!“ وہ تنفر سے ہنسی۔ ”یہ لفظ تمہارے منہ پر سجتا نہیں ہے۔“
”میں اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہوں گا۔ اگر تم یقین نہیں کرتی تو نہ کرو۔ ملیحہ میرے دوست کی فیانسی ہے۔ اگر تم کچھ دیر اور رُکتی تو اشعر کو بھی دیکھ لیتی۔“ وہ اسی سحر انگیز لہجے میں کہہ رہا تھا۔
شفق خاموشی سے اس کی دلنشین آواز کو سنتی رہی اورجب وہ فون رکھ رہی تھی تو شاہ میر اس سے ملنے کا وعدہ لے چکا تھا۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi