Episode 39 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 39 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

ایک وہ رات تھی جب وہ سارے خدا بنے اس کے وجود پر انگلیاں اٹھا رہے تھے‘ اسے رسوا کر رہے تھے۔
”بی بی کا اور ان ڈاکوؤں کا بڑا گہرا تعلق لگتا تھا جی اور…“ ایک عورت دوسری عورت پر گندگی اچھال رہی تھی۔ غلاظت پھینک رہی تھی۔ شفق کا دل چاہ رہا تھا کہ اس جھوٹی کا منہ نوچ لے اور چیخ چیخ کر کہے کہ یہ عورت بکواس کر رہی ہے مگر وہ کچھ بھی نہیں کہہ پائی تھی۔
وہ تو صرف شاہ میر کو دیکھ رہی تھی۔ یہ آنکھیں‘ یہ چہرہ شاہ میر کا تو نہیں تھا۔ یہ تو کوئی اور کھڑا تھا۔ نفرت اور حقارت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتا وہ اس کا شوہر نہیں‘ ایک فرد تھا۔ عام سی سطحی سوچ رکھنے والا مرد۔
”اس غلاظت کی پوٹلی کو یہاں سے لے جاؤ۔“ ایک دوسرا فرعون چیخا تھا اور وہ اندھی گہری کھائی میں گرتی چلی گئی تھی اور پھر بالکل ویسی ہی ایک اور رات اس کی زندگی میں آئی تھی۔

(جاری ہے)

اس کی کمر میں درد تھا‘ بے تحاشا درد۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ چند منٹ مزید کھڑی رہی تو ضرور گر جائے گی مگر وہ درد سے بے حال کھڑی رہی۔ ملازم اسے ہولڈ کرنے کا کہہ کر چلا گیا تھا۔ چند پل مزید سرکنے کے بعد دوسری طرف آواز سنائی دی۔ یہ آواز شاہ میر کی نہیں تھی‘ وہ حلق میں اٹکتے سانس کو بمشکل بحال کرتے بول رہی تھی۔
”خدا گواہ ہے کہ میں جھوٹ نہیں بول رہی۔
میری سچائی کی گواہی صرف وہی دے سکتا ہے۔ تم انسانوں سے مجھے کوئی امید نہیں۔ تم لوگ تو پیسے کے بل بوتے پر زندگیاں خرید لیتے ہو۔ میں صرف تمہیں اتنا بتانا چاہتی ہوں کہ میرا وجود پاک ہے‘ میرا بچہ کسی کا گناہ نہیں‘ شاہ میر کی جائز اولاد ہے۔ یہ وقت ہر عورت پر بڑا بھاری ہوتا ہے۔ میں اس وقت کو گواہ بنا کر کہہ رہی ہوں اور تم ”بھی“ جانتے ہو کہ سچائی کیا ہے۔
میں تم سے بھیک نہیں مانگوں گی‘ صرف اتنی التجا ہے میری کہ ایک دفعہ‘ صرف آخری مرتبہ شاہ میر سے میری بات کروا دو۔“ دوسری طرف سے بغیر کچھ کہے فون پٹخ دیا گیا تھا اور شفق کی ساری ہمتیں بھی گویا ٹوٹ کر رہ گئیں۔
اور پھر جس دن اس نے جڑواں بیٹوں کو جنم دیا تھا۔ اس دن وہ آخری مرتبہ جی بھر کر روئی تھی پھر اس نے فیصلہ کر لیا تھا۔ کچھ پانے کا فیصلہ یہ ایسا عزم تھا جو اس کے راستے کی ساری گٹھنائیاں مٹاتا چلا گیا۔
اب وہ اپنے لئے نہیں اپنے بیٹوں کیلئے جینا چاہتی تھی۔ ان کیلئے کچھ کرنا چاہتی تھی۔ اپنا ایک مقام بنانا چاہتی تھی۔ اس کے ارادوں کی مضبوطی نے اس کے بوڑھے باپ کو ایک دفعہ پھر زندہ کر دیا تھا۔ وہ ایک دفعہ پھر جی اٹھا تھا۔
جب خدا سے ناتا جوڑا تو سارے درد خود بخود بھول گئے تھے۔ وہ اپنی زندگی کے اس بھیانک باب کو ہمیشہ کیلئے دفن کر چکی تھی اور پھر جس دن اس کے وجود پر خاکی یونیفارم سجا تھا وہ دن ان کیلئے خوشیوں کی سوغات لے کر آیا تھا۔
اس کے بچے اب بڑے ہو رہے تھے۔ اسکول جانے لگے تھے۔ اسے بھی زینہ بہ زینہ ”ترقیاں“ ملتی گئیں۔
پھر یکے بعد دیگرے اماں‘ بابا کی وفات نے‘ اسے مزید اپنے ہی خول میں مقید کر دیا تھا۔ ہسپتال‘ گھر‘ بچے وہ بے معنی زہریلی سوچوں سے بچانے کیلئے خود کو مصروف رکھتی تھی۔
خرم کی جاب کے بعد اس کے تیور بدلے بدلے سے محسوس ہونے لگے تھے۔
اب وہ اپنی زندگی کے ساتھ کسی بھی قسم کا تجربہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے کبھی خرم کی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی۔ مگر خرم کی جذباتیت اسے ذہنی اذیت کا شکار کر دیتی تھی۔ پہلے خرم اور اب اس آنے والی فون کال نے زخموں پر سے کھرنڈ اتار کر ایک دفعہ پھر اسے سہولہان کر دیا تھا۔
جنرل (ر) جہاں زیب کے اس فون نے ایک دفعہ پھر اس کی نیندیں اڑا دی تھیں‘ کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا۔ وہ درد‘ وہ کرب‘ وہ اذیتیں‘ وہ لمحے پل جو وہ بھلا دینا چاہتی تھی مگر بھلا نہیں پا رہی تھی۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi