Episode 52 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 52 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

”اماں بی! میری پہنچ جہاں تک ہوتی ہے نا‘ کوئی بھی فروٹ میرے ہاتھوں سے بچ نہیں پاتا۔ آپ کو پتا ہے نا کہ میں کتنا کھاتی ہوں۔ اگر کچھ نہ ملے تو گاجر اور مولی سے پیٹ بھر لیتی ہوں۔ مگر یہ اونچے درختوں کی چوٹیوں تک پہنچنا میرے لئے آسان نہیں۔ ایک دفعہ کوشش بھی کی تھی‘ مگر اس کوشش کے بعد توبہ کر لی۔ مرتے مرتے بچی تھی میں‘ یادہے نا آپ کو‘ کتنے دن بستر پر پڑی رہی۔
آپ کے گھر سے تینوں وقت کا ناشتہ کھانا آتا تھا اور یہ سبزیاں بھی میرے شوق کی بدولت ہری بھری ہیں۔ آپ کو نہیں لگتا درختوں‘ پھولوں اور پودوں سے محبت میں نے اماں سے وراثت میں لی ہے اور صفائی ستھرائی کا خبط بھی اماں کی طرح میرے سر پر سوار رہتا ہے۔ صبح صبح صحن دھو لیتی ہوں۔ دن بھر گرنے والوں پتوں کو اٹھاتی رہتی ہوں‘ مگر شام کو پھر ہمت نہیں ہوتی کہ سامی درختوں کو ہلا ہلا کر پتوں کے ڈھیر لگا دے اور پھر مجھے دوبارہ سے صفائی کرنا پڑے۔

(جاری ہے)

“اس نے اپنی سستی دوسرے معنوں میں بے بسی کی اچھی خاصی وضاحت کر ڈالی تھی۔
”سلیقہ قرینہ سگھڑ عورت کی پہچان ہوتا ہے۔“اماں بی صاف ستھرے چمکتے فرش کو دیکھتے ہوئے بولیں۔ پچھلے سال سونی کی ضد اور شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر سامی نے پورے صحن میں ماربل لگوا کر دیا تھا۔ سونی کی خواہش پر ہی پورے گھر کو پینٹ بھی کروایا گیا تھا۔ اس گلی کے سبھی گھروں میں یہ دو منزلہ مکان اپنی الگ ہی شناخت اور پہچان رکھتا تھا۔
بیرونی دیواریں تک بیلوں سے لدی ہوئی تھیں۔گیٹ بھی نیا لگوایا تھا۔اماں کے وقت میں لکڑی کا بھاری دروازہ تھا‘ جسے وقت نے دیمک کی بیماری لگا دی تھی۔
گیٹ کے اوپر انگور کی بیل نے سایہ کر رکھا تھا۔اتنا پھل لگتا تھا کہ گلی کے بچے کچے اور کٹھے میٹھے انگور کے گچھے پکنے سے پہلے ہی ہڑپ کر جاتے تھے۔ یہ بیل نہ جانے کس نسل کی تھی۔محلے میں اکثر مہمان کسی گھر میں آتے تو خصوصاً انگور کی اس بیل کا دیدار ضرور کرتے۔
جو ابا کے ہاتھ سے لگائی گئی تھی اور اس کا پھل نہ جانے کس کس نے کھانا تھا۔ سونی کو یاد تھا۔ اماں نے کبھی بھی کسی بچے کو پھل توڑنے سے منع نہیں کیا تھا۔ حالانکہ سونی کو بہت غصہ آتا تھا۔
”اماں! کچے توڑ کر لے جاتے ہیں۔ پکنے کا انتظار بھی نہیں کرتے۔ایک دن سارے کٹوا دوں گی“
”نہ میری بیٹی!وعدہ کر ان درختوں کو محض اس وجہ سے نہیں کٹوائے گی کہ محلے کے بچے پتھر پھینکتے ہیں۔
کچے پھل کو توڑتے ہیں۔ انہیں کھانے دے‘ یہ ان کا بچپنا اور شوق ہے اور لگانے والوں کیلئے صدقہ جاریہ‘ موت کے بعد کا بھی انعام۔“ اماں ہمیشہ دہل کر ٹوک دیتی تھیں اسے اور سونی کو اماں کا ٹوکنا ہمیشہ یاد رہا تھا۔ اس کے ذہن میں محفوظ تھا اسی لئے کبھی بھی اس نے درختوں کو کٹوانے کے بارے میں نہیں سوچا تھا اور نہ ہی بچوں کو کبھی منع کیا تھا۔
حالانکہ اس وقت کے بچے اب جوان ہو چکے تھے اور ان کے بچوں نے کنکر اور پتھر اٹھا لئے تھے۔ ہاں‘سونی نے اماں کی طرح کبھی ٹوکری بھر بھر کے کسی کے گھر موسم کی سبزی نہیں بھجوائی تھی۔
”ایک ہماری بہو ہے… گندگی کی پوٹ‘نہ کبھی خود کو صاف رکھا‘ نہ گھر کو‘ سوہنی بے چاری نے کمروں اور برساتی کا گند کیا نکال دیا وہ بھی میرے ہی کہنے پر… بس بہو بیگم نے سارے بھرم کے چولے اُتار دیئے۔
بچی کو ایسی بے بھاؤ کی سنائی کہ منہ سے ادا کرنا بھی مشکل ہیں‘ ایسے گھٹیا الفاظ‘ گندے القابات‘ توبہ توبہ۔“ اماں بی کا چہرہ ایک دم رنگ بدل گیا۔ شاید ثروت اور ان کی بیٹی کیلئے اماں بی کے دل میں بہت گنجائش تھی‘ نرمی تھی‘ خیر نرمی کے کیا ہی کہنے‘ اماں بی تو راہ چلتے فقیروں سے بھی ہمدردی جتانے سے باز نہیں آتی تھیں۔ اجنبیوں کو گھر لے آتیں‘ کھانا کھلاتیں‘ بساط بھر مدد کرتیں۔
”کوثر بھابھی کا مزاج ہی ایسا ہے۔“ سونی نے عام سے انداز میں تبصرہ کیا۔ ”آپ کیلئے چائے لاتی ہوں۔“ 
”نہ بیٹی! اب چائے کا تردد مت کرنا۔ میں چلتی ہوں۔“ وہ اٹھنے لگی تھی اور اماں بی نے سرعت سے اس کا ہاتھ تھام کر روکا۔
”تردد کیسا‘میں اپنے لئے بنا رہی ہوں۔“ وہ سونی ہی کیا جو اپنی منوائے نہ‘ اٹھ کر اندر جاتے ہوئے اس نے اماں بی کو دھمکایا تھا۔
”اب اگر چلی گئیں میری چائے پیے بغیر تو پھر دیکھئے گا۔“
”اگر میں چلی گئی اور پورا امکان ہے کہ میری بیٹی کچن میں گھسے گی اور میں باہر کی طرف دوڑ لگا دوں گی۔ تب چائے کی دوسری پیالی میری بیٹی قطعاً ضائع تو نہیں ہونے دے گی۔“ اماں بی کے لبوں پر شفیق سی مسکراہٹ اُبھر آئی۔ اس محلے کی سبھی بچیاں انہیں مان اور عزت دیتی تھیں۔ خواتین تو کیا مرد حضرات بھی سلام کئے بغیر آگے نہیں بڑھتے تھے۔
آس پڑوس کی بچیوں نے ان سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ سلائی‘ کڑھائی‘ کھانا پکانا‘ لحاف اور ہر قسم کے غلاف بنانا۔ غرض ہر اس فن کو اماں بی نے مفت میں آگے منتقل کیا تھا‘ جو ان کے بڑوں نے انہیں سکھایا تھا۔ سونی بھی اماں بی کی شاگردوں میں سے تھی‘ بلکہ ہر دل عزیز شاگرد تھی۔
”آپ نے ٹھیک کہا۔ چائے کی پیالی میری ٹنکی میں چلی جائے گی۔ تاہم گاجر کا یہ حلوہ کون چکھے گا۔“ تھوڑی ہی دیر میں سونی جھٹ پٹ چائے بنا کر لے آئی تھی۔

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi