Episode 64 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 64 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

سونی خالہ کے ہمراہ بازار گئی تھیں سیزن کے کپڑے لینے۔ پہلے اماں بی اس کے ساتھ جایا کرتی تھیں‘ مگر اب اسے اماں بی کو بازاروں میں گھسیٹنا خود بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ سوہنی تو اسکول چلی گئی تھی۔ خالہ نے اس کے ساتھ برابر کام نبٹائے تھے۔ حالانکہ سونی انہیں بہت دفعہ منع کرتی رہی تھی۔
”کوئی بات نہیں بیٹی!مجھے کام کرنے کی عادت ہے۔“
”پھر بھی خالہ!مجھے آپ کا کپڑے دھونا تو بالکل پسند نہیں‘ ہفتے کے روز میں مشین لگاتی ہوں آپ کے بھی دھو دیا کروں گی۔
“وہ بازار سے واپس آ چکی تھیں۔اب نچلی منزل کے تخت پر ہی بیٹھی تھیں۔ سوہنی دو بجے تک آتی تھی۔ پھر دوپہر کا کھانا اکٹھے ہی کھایا جاتا۔ سوہنی انہیں الگ سے کھانا بھی پکانے نہیں دیتی تھی۔دوپہر کے برتن وغیرہ سوہنی دھو لیتی تھی۔

(جاری ہے)

سونی کو محسوس ہوتا تھا کہ اس کی ذمہ داریاں کئی حصوں میں تقسیم ہو گئی ہیں۔

ابھی وہ دونوں باتیں کر رہی تھیں جب اماں بی چلی آئیں۔
سوہنی بھی اسکول سے آ گئی تھی۔ ان دونوں نے جھٹ پٹ کھانا لگا دیا۔
”اماں بی!آپ نے تو مجھ پر بڑا ہی احسان کیا ہے۔“ سونی مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”کیسا احسان بیٹی!“
”خالہ اور سوہنی کو میرے پاس بھیج کر۔“
”انہیں تو تم خود ہی لے کر آئی ہو‘ میں تو جنم جلی پردیس گئی تھی۔ بدبخت کوثر سے چار دن بھی برداشت نہ ہو سکا۔“ اماں بی نے افسردگی سے کہا۔
”مگر وسیلہ تو آپ بنی ہیں۔“ خالہ نے محبت سے سونی کی طرف دیکھا۔ کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا تھا۔ اماں بی اور خالہ دونوں باتوں میں مصروف ہو گئی تھیں جبکہ سونی اور سوہنی دونوں کمرے میں آ گئیں۔ سوہنی کے ہاتھ میں تہہ کئے کپڑے تھے جو وہ الماری میں رکھ رہی تھی۔ سوہنی جانے لگی تو اس نے روکا۔
”کیا کرو گی اوپر جا کر۔“
”سوؤں گی۔
آج تھکاوٹ محسوس ہو رہی ہے۔“ وہ سادگی سے بتانے لگی۔
”ادھر ہی سو جاؤ۔“ سونی اپنے بیڈ کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔
”یہاں…“ سوہنی گویا اچھل پڑی۔ ”آپ کے بیڈ روم میں سوؤں‘ کبھی نہیں۔“
”کیا حرج ہے۔“ وہ حیران ہوئی۔
”سامی بھائی کی جگہ میں کبھی بھی نہیں سوؤں گی۔“
”تو جگہ بدل لیتے ہیں۔ میٹرس نیچے بچھا لیں۔“سونی نے کچھ سوچتے ہوئے ایک حل پیش کیا۔
”آپ ہی اوپر آ جائیں۔“
”یہاں سو جاؤ‘سامی تو رات کو آئے گا‘بلکہ خالہ کو بھی ادھر ہی لے آتی ہوں‘خوامخواہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جائیں گی۔“ سونی اٹھنے لگی۔
”رہنے دیں نا‘آپ بھی آرام کرلیں۔میں اور اماں عصر کے بعد نیچے آئیں گی‘کھانا میں بنا لوں گی‘ آپ تردد مت کیجئے گا۔“وہ بولتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر نکل گئی تھی۔
”چائے بھی تم نے بنانی ہے‘ جلدی آ جانا جناب۔“سونی نے ہانک لگائی۔ کچھ دیر بعد اماں بی کمرے میں چلی آئی تھیں۔
”سوری اماں بی!میں نے سمجھا آپ چلی گئی ہیں۔“سونی شرمندہ ہو گئی۔
”سوری موری کی ضرورت نہیں۔ویسے میں جانے لگی تھی‘ سوچا جاتے سمے تمہیں دیکھ لوں۔“ وہ اس کے قریب بیٹھ گئی تھیں۔
”بیٹی! ثروت اور سوہنی تمہیں کیسی لگیں؟“
”بہت اچھی ہیں اماں بی! میرا تو ان دونوں کی وجہ سے بڑا دل لگ گیا ہے۔
ورنہ تو سامی کے جانے کے بعد میرا دن کٹتا ہی نہیں تھا۔“ وہ پرجوش سی بتانے لگی۔
”تمہیں کبھی بھی شکایت نہیں ہوگی‘ثروت بہت بھلی عورت ہے‘بیٹی بھی ماں کا دوسرا روپ ہے۔“ اماں بی نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے دبایا۔ ”سامی کو غصہ تو نہیں آیا؟“
”غصہ تو آیا تھا‘ مگر جلد ہی اتر گیا۔“ اس نے سادگی سے بتا دیا۔ ”بولا‘ اماں بی کا کہا ٹالا نہیں جا سکتا۔
”بڑا نیک بچہ ہے‘ اللہ تم دونوں کے ساتھ میں برکت ڈالے‘ جلدی گود ہری ہو تمہاری۔“اماں بی کا دل خوش ہو گیا۔ پھر کچھ سوچ کر وہ بتانے لگی تھیں۔
”ثروت کا قیام زیادہ طویل نہیں ہوگا۔ اس کی سسرالی زمینوں کا جھگڑا چل رہا ہے۔ فیصلہ ہو گیا تو بیٹی کو لے کر اپنے گھر چلی جائے گی۔ ان بدبختوں کو خوف خدا نہیں۔ یتیم بچی کا حق مار کر کون سے محل کھڑے کر لیں گے۔
اللہ بہتر فیصلہ کرے ان ماں‘ بیٹی کے حق میں۔“
”اماں بی! میری تو خواہش ہے خالہ اور سوہنی ہمیشہ میرے پاس رہیں۔“وہ خلوص دل سے بولی۔
”میں تو خوش نصیب ہوں اماں بی! کہ کسی بے آسرا کو میری وجہ سے ٹھکانہ مل گیا ہے‘ نہ جانے اللہ کو کوئی سی بھی ادا پسند آ جائے۔“
”تمہاری ساری تمنائیں اور نیک خواہشات بارگاہ ایزدی میں قبولیت کا درجہ پائیں۔
“اماں بی کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
”بیٹی! جانے والے کہاں رکتے ہیں‘ چار دن آزمائش کے تھے۔ ثروت کی بھی اور ہماری بھی‘ ہم تو مانو اس آزمائش میں پورا نہیں اتر سکے‘ فیل ہو گئے‘ کیا تھا جو دو دن کوثر اور صبر سے کام لیتی۔ یوں انہیں محلے میں رسوا نہ کرتی۔ گھر سے نہ نکالتی۔“
”اللہ کے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے۔ کوثر باجی یہ سنگین قدم نہ اٹھاتیں تو میرے ذہن کی کھڑکی بھی شاید نہ ہی کھلتی۔
میں تو بھول ہی چکی تھی کہ آپ نے مجھ سے ثروت خالہ کے قیام کے متعلق کچھ کہا تھا۔“
”یہ رحم بھی خدا کسی کسی کے دل میں ڈالتا ہے۔ ورنہ اس رات تماشائی تو بہت تھے‘ پر کسی کے دل میں خوف خدا نہ جاگا۔“ اماں بی استغفار پڑھتی اٹھ رہی تھیں۔
”بیٹی! دروازہ بند کر لو‘ ثروت بھی اوپر چلی گئی ہے‘ سامی عصر کے بعد آ جاتا ہے نا۔“
”جی… اگر کوئی کام نہ ہو تو۔
“ وہ سلیپراڑس کر اٹھ گئی۔
”تمہاری پھوپھی ٹھیک ہیں اب‘ کسی دن ان کی بھی عیادت کرنے جاؤں گی۔“ اماں بی گویا خود کلامی کے سے انداز میں بول رہی تھیں۔
”پہلے سے بہتر ہیں۔“ وہ بھی پر سوچ سی کہنے لگی۔ ”اس بے وفا شازی کا حال دیکھو‘ کبھی چکر لگانے کی توفیق نہیں ہوئی‘ کسی دن جاؤں گی میں سامی کے ساتھ۔“ سونی گیٹ بند کرکے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئی تھی۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi