Episode 67 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 67 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

”یہ کون ہے؟“ شازی الگنی پر کپڑے پھیلاتی سوہنی کو دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ سوہنی نے مشین لگا رکھی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ حلیم بھی پکا رہی تھی۔ خالہ‘ سونی کے کپڑے سلائی کر رہی تھیں۔ شازی ابھی ابھی آئی تھی۔ بچہ بھی ساتھ تھا‘ جسے دیکھ کر سونی دیوانی ہو گئی تھی۔ چوم چوم کر اسے رلا دیا تھا۔ شازی تو اس جیتی جاگتی چینی کی گڑیا کو دیکھ کر دم بخود تھی۔

”سوہنی ہے۔“ وہ عادل کو ہنسانے کی کوشش میں اوٹ پٹانگ حرکتیں کر رہی تھی۔
”سوہنی ہے‘ رج رج کے سوہنی ہے۔ مجھے بھی نظر آ رہا ہے‘ مگر یہ ہے کون؟“ شازی سنجیدہ تھی۔
”خالہ ثروت کی بیٹی ہے۔ اماں بی کی رشتہ دار ہیں۔ اوپر کی منزل میں رہتی ہیں۔ کسووال سے آئی ہیں۔“
”اماں بی کی رشتے دار یہاں کیوں رہی رہی ہیں۔

(جاری ہے)

“ شازی دبی آواز میں بولی تھی۔

سونی نے اسے تمام تفصیل اور ساری روداد سنا دی۔
”تیرا دماغ چل گیا ہے سونی!“ شازی نے اپنا ماتھا پیٹا۔
”تجھے کیا ضرورت تھی انہیں اپنے گھر میں لے کر آنے کی۔“
”کیوں؟ کہاں دھکے کھاتیں یہ‘ کوثر باجی نے گھر سے نکال دیا تھا۔ میرے ضمیر نے گوارا نہیں کیا۔ وہ میرے دروازے کے سامنے سے گزر کر نعمت بے بے کے گھر بیٹھی تھیں۔ بے یارو مددگار‘ آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر ویرانی لئے میں تو سرتاپاؤں کانپ کر رہ گئی تھی‘ میرے دل نے فیصلہ کیا تھا اور میں نے دل کی مان لی۔
“ سونی بھی سنجیدہ ہو گئی۔
”اور تو اس چلتی پھرتی قیامت کو گھر لے آئی۔“
”کیا مطلب؟“ وہ بھی ٹھٹک گئی۔
”تجھے کبھی عقل نہیں آئے گی۔ بھوسہ بھرا ہوا ہے تیرے دماغ میں۔“
”میں سمجھی نہیں۔“ سونی سچ مچ نا سمجھی کے انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔
”تب تم سمجھو گی‘ جب پانی سر سے اونچا ہو گیا۔“ شازی نے ریں ریں کرتے عادل کو زور کا دھمو کا جڑا۔
”کھل کر بتاؤ۔“
”اس حسین مورت کو گھر میں رکھنے کی بھلا کیا تک بنتی تی۔ آگ اور تیل کو آمنے سامنے یا قریب قریب رکھنا کہاں کی عقل مندی ہے۔“ شازی خطرناک حد تک سنجیدہ تھی۔
”سوہنی ایسی ویسی لڑکی نہیں۔“ سونی سمجھ چکی تھی‘ تبھی روکھے سے لہجے میں بولی۔
”سوہنی میں بڑی خوبیاں ہوں گی‘ بہت اچھی ہوگی‘ مگر مردوں کا بھلا کیا بھروسہ‘ ایسی من موہنی صورت دیکھنے کے ساتھ ہی دل پانی بن کر بہنے لگے اور تم بے عقل۔
“ شازی دانت پیس کر رہ گئی۔
”تم سامی کو اس طرح کا مرد سمجھتی ہو۔“ وہ ناراضی سے بولی۔
”مرد سارے ایک جیسے ہوتے ہیں“
”مگر سامی ایسا نہیں۔“ سونی اٹھ کر چلی گئی تھی۔ واپس آئی تو ہاتھ میں کیلے تھے۔ اب وہ عادل کو کیلا کھلا رہی تھی۔
”اسی خوش فہمی میں گم رہنا۔“ شازی تیکھے انداز میں بولی۔ ”اور یہ محترمہ تمہارے گھر میں مالکانہ انداز لئے کام کاج میں مصروف ہیں۔
”وہ میرا ہاتھ بٹانے کیلئے…“ سونی سے بات نہیں بن پائی تھی۔
”میری بات سنو سونی! تم بہت سادہ طبیعت رکھتی ہو‘ لوگوں کے چلن سے کہاں واقف ہو۔“ وہ نرمی سے سمجھا رہی تھی۔ ”پھر مرد ذات پر بھروسہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے سامی ہے کہاں؟“ شازی پوچھ رہی تھی۔ اسی اثناء میں سامی اندر چلا آیا۔
”تم کہاں سے راستہ بھول آئی ہو۔
“ سامی نے خود پر بڑی دقتوں کے ساتھ بشاشت طاری کی تھی۔
”اور تم دونوں نے کبھی راستہ بھولنا بھی گوارا نہیں کیا۔“ شازی بھی بھلا کہاں چوکتی تھی۔
”سونی نے کبھی کہا نہیں۔“ وہ اس کے کندھے پر بندوق رکھے مسکرا رہا تھا۔ سراسر مصنوعی مسکراہٹ۔
”ایک ہزار مرتبہ تو اس مہینے میں کہہ چکی ہوں۔ یہ وزیراعظم سے بھی زیادہ مصروف ہے۔
“ سونی نے جتا کر کہا۔ اس پل سوہنی دروازہ کھولے اندر چلی آئی۔
”کھانا لگا دوں؟“
”ہاں…“ سونی کسی سوچ میں گم تھی۔
”کیا پکایا ہے؟“ شازی تو دنگ ہی رہ گئی تھی۔ جب اس نے سامی کے جگمگاتے چہرے کی طرف دیکھا‘ وہ سونی کی بجائے سوہنی سے پوچھ رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں ستاروں کی سی چمک تھی۔
”یہ سونی کیا اندھی ہے؟ اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا؟“ شازی بے تحاشا پریشان سی سوچے گئی۔
”حلیم اور روٹی۔“ سوہنی نے سادگی سے بتایا۔
”شازی کیلئے چار‘ پانچ روٹیاں بنانی تھیں۔“ وہ شازی کو چھیڑ رہا تھا اور اس کا موڈ دیکھ کر شگفتہ ہوا تھا۔ شازی دھک سے رہ گئی۔
”کچھ میٹھا بھی بنا لینا تھا۔ آخر ہمارے مہمان پکے لاہوری ہیں۔ حد سے زیادہ چٹورے۔“
”کسٹرڈ بنایا ہے۔ ڈبل روٹی کی پڈنگ بھی ہے۔“ سوہنی‘ عادل کو پیار کر رہی تھی۔
”شازی! سوہنی کے ہاتھ کا کھانا کھا کر یہیں ڈیرہ مت لگا کر بیٹھ جانا۔“ وہ ہنس رہا تھا۔
”سونی کے ہاتھ میں بھی بہت لذت ہے۔“ نہ جانے کیوں شازی نے روکھے سے انداز میں جواب دیا۔
”یہ لذت ہمیں تو محسوس نہیں ہوئی آج تک۔“سامی مذاق تو نہیں کر رہا تھا۔ اب کے سونی بھی چونک گئی۔
”تم نئے نئے ذائقے چکھ رہے ہو‘ اب تو کچھ یاد بھی نہیں رہے گا تمہیں۔
”شازی نے مسکرا کر طنز کیا۔
”یہ تو تم نے ٹھیک کہا۔“ سامی نے فوراً تسلیم کر لیا تھا۔
”سوہنی کے ہاتھ میں ذائقہ ہے‘ اپنی سونی سے پوچھ لو‘ یہ بھی گواہی دے گی۔“
”ہاں… واقعی۔“ سونی اب کچل کر رہ گئی تھی جبکہ سوہنی خود کو ڈسکس ہوتا دیکھ کر منظر سے ہٹ گئی تھی۔
کھانا کھاتے ہوئے سامی نے سوہنی کو پکارا تھا۔ جو آخری چپاتی رکھے جا رہی تھی شاید اوپر۔
”سوہنی! تم بھی آؤ نا۔“

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi