Episode 72 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 72 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

تم میرے ہو

اس نے جوں ہی کمرے میں قدم رکھا۔ فون کی بیل ایک دم بجنے لگی۔ اس نے ایک نظر سیل فون کی طرف دیکھا۔ پھر غصے کے عالم میں سفید رنگ کی گیند کو دیوار پر پوری شدت سے دے مارا۔ ہاتھ میں پکڑی ہاکی اور پسینے سے تربتر شرٹ اتار کر بیڈ پر پھینکی۔ فون کی بیل تواتر سے بجتی جا رہی تھی۔ اب وہ صوفے پر بیٹھ کر جوتوں کے تسمے کھول رہا تھا۔
وہ ابھی تک بجتی بیل کی طرف متوجہ نہیں ہو سکا تھا کیونکہ وہ ذہنی طور پر یہاں موجود ہی نہیں تھا۔ وہ تو ابھی تک خود کو ہاکی کے میدان میں محسوس کر رہا تھا۔
سوگز لمبے اور ساٹھ گز چوڑے ہاکی کے اس میدان میں ابھی تک تماشائیوں کا ہنگامہ مچا ہوا تھا اور آج کی شکست بری طرح اسے تلملا رہی تھی۔
تھوڑی دیر اس نے فون کے بند ہو جانے کا انتظار کیا۔

(جاری ہے)

پھر کچھ سوچ کر گویا کرنٹ کھا کے اٹھا۔
”مائی گاڈ! اگر لالہ کا فون ہوا تو… وہ کس قدر پریشان ہو رہے ہوں گے۔“
پھرتی سے فون اٹھا کر اس نے اسکرین کی طرف دیکھا اسکرین پر چمکتا نمبر اجنبی نہیں تھا۔ وہ پہلے ایک سال سے اس نمبر سے آنے والی ہر کال نہ چاہتے ہوئے بھی اٹینڈ کر رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر مزید سوچتا رہا۔ شاید دوسری طرف موجود ڈھیٹ انسان کو کچھ شرم آ جائے۔
مگر اسے غیرت بھلا کہاں آ سکتی تھی۔ اس نے دانت پیستے ہوئے کال ریسیو کی۔
”عبد ڈارلنگ! کہاں تھے؟ اتنا انتظار کروایا۔“ چہکتی ہوں اس آواز میں بلا کی تازگی تھی۔ وہ گہری سانسیں خارج کرتے ہوئے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”مجھے پورا یقین تھا کہ تم اس وقت بہت سیڈ ہو رہے ہو گے۔ سو اسی لئے کال کر لی۔ کیا روتے رہے ہو۔ بڑی ہمدردی کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔
گویا ان دونوں؟“ میں بلا کی ذہنی ہم آہنگی اور دوستی ہو‘حالانکہ وہ اس ہمدردی کے پردے میں چھپا طنز اچھی طرح سمجھ رہا تھا۔
”جسٹ شٹ اپ!“ وہ بری طرح تپ گیا تھا۔ وہ کچھ پل مزید خود کو ٹھنڈا کرتا رہا۔ ”ہار اور جیت زندگی کا حصہ ہوتی ہے۔ میں اتنی معمولی بات پر رو نہیں سکتا۔“ اس کے لہجے میں بلا کی مضبوطی تھی۔
تب ہی وہ شرارتی انداز میں چہکی۔
”حوصلے تو بہت بلند ہیں۔“
”ہر سپاہی کا حوصلہ بلند اور ہمت جواں ہوتی ہے۔“ وہ چڑ کر گویا ہوا۔ جانتا تھا کہ وہ بات سے بات نکالتی جائے گی اور وہ اس کے جوابات نہ چاہتے ہوئے بھی دیتا رہے گا۔
”اے بلند ہمت سپاہی! آج کا معرکہ تمہارے لئے خاصا تکلیف دہ رہا۔ وہ شکست ہمیشہ یاد رہنے والی ہے۔ تمہاری گیند بھول کر بھی ”فلیگ پوسٹ“ (جہاں گول کیا جاتا ہے) کی طرف نہیں جا سکی جبکہ جازم کی ٹیم نے یکے بعد دیگرے کئی گول کئے تھے۔
مائی گاڈ! ستر منٹ کے کھیل میں ایک بھی گول تم لوگوں سے نہیں ہو سکا۔ ویری بیڈ! آج تو بہت خراب کھیلے ہو۔“ اس کے ہمدردانہ لہجے میں چھپی شرارت کو محسوس کرکے عبد کا خون کھول اٹھا۔
”کیوں فون کیا ہے؟“
”سونے کی قیمت دن بہ دن بڑھ رہی ہے‘بس یہی بتانے کیلئے فون کیا ہے۔“ وہ ایک دفعہ پھر اسے بری طرح سے تپا گئی۔
”دیکھئے مس!“ عبد کچھ بولنا چاہتا ہی تھا جب وہ سرعت سے اسے ٹوک گئی۔
”میں رمشا اکرام ہوں۔ ایک سال ہو چکا ہے۔ اب تک تو تمہیں میرا نام حفظ ہو جانا چاہئے۔“
”حفظ تو تب ہوتا‘جب میں تمہارے نام کو یاد کرنے کی کوشش کرتا۔“ عبد نے بھی طنزیہ لہجے میں اسے جلانا چاہا۔
”کوئی بات نہیں… صرف حفظ ہی نہیں کرو گے بلکہ میرے نام کی مالا بھی جپنے لگو گے۔“ وہ تلملاتی کہاں تھی‘بلکہ تلملا کر رکھ دیتی تھی۔
”بڑی خوش فہمی ہے۔“ وہ خون کے گھونٹ بھر کر رہ گیا تھا۔
”جو بھی کہہ لو۔“ اسے کون سا پروا تھی۔
”جسٹ شٹ اپ!“ عبد پھر سے سخت الفاظ کہتے کہتے رک گیا۔ خواتین سے نازیبا گفتگو کرنا اسے کبھی بھی پسند نہیں رہا تھا‘مگر یہ رمشا اکرام اسے زچ کرکے رکھ دیتی تھی۔
”تم نے فون کرنے کی وجہ نہیں بتائی۔“ اس نے روکھے لہجے میں پوچھا۔
”اس لئے فون کیا تھا تاکہ تم سے پوچھ سکوں ہاکی کا کھیل برصغیر پاک و ہند میں کب متعارف ہوا؟“ رمشا نے کھنکتی آواز میں اسے چڑایا۔ ”ویسے آج تم بہت خراب کھیل رہے تھے۔ تین گول مس کئے۔ تم اچھے کھلاڑی نہیں ہو۔“ وہ اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھے مسلسل بول رہی تھی۔
”میں تمہیں…“
”لنچ کی آفر کرنا چاہتے ہو کیا؟“ وہ جانتی تھی‘اب عبد ضرور کچھ نہ کچھ بولے گا اسی لئے اس کی بات سنے بغیر اپنی سناتی رہی۔
”تم…“ وہ ایک دفعہ پھر لفظ ترتیب دینے لگا تھا جب رمشا نے اس کی بات درمیان میڈ اچک لی۔
”آجکل کلب کیوں نہیں آ رہے تم؟“ اسے موضوع بدلنے میں بھی مہارت حاصل تھی۔
”میری مرضی۔“ عبد چڑ کر رہ گیا۔
”کل ضرور آنا۔“ رمشا کا انداز دھونس بھرا تھا۔
”کیوں‘تم نے میراولیمہ ارینج کروایا ہے؟“ وہ غصے میں پھنکارا۔
”بولنے سے پہلے سوچ تو لیا کرو۔
“ رمشا نے گویا خوب لطف لیا تھا۔ ”ویسے‘ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے تم ”دولہا“ بننے کیلئے تیار تو ہو جاؤ۔ ہم سارا ارینج منٹ کر لیں گے۔ اکیس توپوں کی سلامی بھی تیار رہے گی۔“
”تم آخر چاہتی کیا ہو؟“ وہ زچ ہوا۔
”صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ تم جتنا اچھا جہاز اڑاتے ہو۔ اتنے ہی برے کھلاڑی ہو۔“ وہ ہمیشہ فون بند کرنے سے پہلے ایسی ضرب لگا دیتی تھی کہ عبد کئی گھنٹے تک سلگتا رہتا تھا۔
اس وقت بھی وہ غصے کے عالم میں بیڈ پر رکھی ہاکی کو ہاتھ میں لے کر کھڑا ہو گیا تھا۔ ہاکی کے پچھلے چپٹے سرے کو پکڑ کر اس نے پوری قوت سے ہوا میں اچھالا تھا اور یہ اس کی بدقسمتی تھی یا پھر فلائنگ آفیسر ثوب کی‘بے چارے نے اسی پل دروازہ کھول کر کمرے کے اندر پاؤں رکھا تھا‘جب لہراتی ہوئی ہاکی اس کے عین کندھے پر لگی۔ یہ تو اللہ کا شکر تھا کہ سر یا ماتھا محفوظ رہا تھا ورنہ تو جس قوت کے ساتھ اس نے ہاکی کو پھینکا تھا‘ثوب کا سر تو ضرور ہی پھٹ جاتا۔
”سر! میں ادھار مانگنے تو نہیں آیا‘پھر ایسا استقبال؟“ اس نے اپنے کندھے کو پکڑ کر دہائی دی۔ عبد کو بے تحاشا خفت نے آن گھیرا۔
”سوری یار! مجھے بس پتا نہیں چل سکا۔“
”اگر ہڈی وڈی ٹوٹ گئی تو پھر؟“ ثوب بھی خاصا نازک مزاج تھا۔ نجانے ایئر فورس اس نے کیسے جوائن کر لی تھی۔

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi