Episode 2 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 2 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

دیباچہ از وِکٹر ہیوگو (مصنّف)

جب یہ کتاب پہلی مرتبہ شائع ہوئی تواس کے سرورق پر مصنف کے نام کی جگہ ذیل کی چند سطور درج تھیں:۔
اس کتاب کی تکمیل دو اسباب کی مرہون منّت ہوسکتی ہے۔ اولاً کسی تباہ شدہ انسان کے احساسات، مشاہدات اور مدرکات بوسیدہ کاغذات کی صورت میں دستیاب ہوئے ہوں۔ جنہیں لفظاً لفظاً نقل کردیا ہو۔
ثانیاً کسی حسّاس مفکر ، شاعر یا فلسفی کے خیالات کا مجموعہ جن کے عمیق سمندر میں وہ برسوں غوطہ زن رہا اور اس وقت تک چین نہ لیا، جب تک اس کے افکار نے کتابی صورت اختیار نہ کرلی۔ ان دو اسباب میں کسی ایک کے ذہنی رشتہ کی استواری کا انحصار ناظرین پر ہے۔
کتاب کی پہلی اشاعت میں مصنف نے جوئے فکر کو آزادانہ بہنے سے عمداً باز رکھا، وہ تفہیم نظریہ کا منتظر تھا۔

(جاری ہے)

ایسا ہی ہوا، مصنّف اب تنسیخ سزائے موت کے سیاسی اور معاشری اسباب ادبی رنگ میں پیش کرتا ہے۔ وہ اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ سرگزشت اسیر سے اس کا مقصد سزائے موت کی تنسیخ ہے۔ اس کے پیش نظر کسی خاص مجرم کا تحفظ نہیں۔ وہ تمام مجرموں کی طرف سے وکالت کرتا ہے۔ خواہ وہ عہد حاضرہ کے ہوں، یا زمانہٴ مستقبل کے مصنف انسانی حقوق کو سب سے بڑی عدالت یعنی سوسائٹی میں پیش کرتا ہے۔
فتوےٰ سزائے موت کے المناک تاثرات عدالت کی فصاحت میں گم ہوجاتے ہیں۔ زندگی اور موت کا سوال”یہ ایک واضح اور عیاں مسئلہ ہے،۔ مجلس وکلاء نے اس کی ہیئت کو تبدیل کر رکھا ہے۔ اس مسئلہ کو اس کے حقیقی قیام گاہ پر روز روشن میں دیکھنا چاہیے۔ اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ عدالت کی جگہ تختہٴ دار پر لگانا چاہیے۔ اور اس امر پر غور کرتے وقت جج کی نسبت قاتل کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔
انہیں تاثرات کی تخلیق وتولید کے لیے اس نے یہ کتاب لکھی۔ اگر ان تاثرات سے متاثر ہو کر سوسائٹی مصنف کے نظریہ کو شرف قبولیت بخشے تو اس سے زیادہ کامیابی کا اور کیا سہرا ہوسکتا ہے۔
اس خیال کے پیش نظر کہ اس کی وکالت اس کے نظریہ کی طرح زمان ومکان وامصار وافراد کی تخصیص سے آزاد ہو۔ مصنف نے”سرگزشت اسیر“ میں کسی خاص فرد، خاص مقام، خاص جُرم ، خاص عدالت اور خاص جلاد کا ذکر نہیں کیا۔
اس نے جانفشانی کے ساتھ اپنے خیالات کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ ہر ایک حساس قلب اس پر خون کے آنسو بہائے بغیر نہ رہ سکے۔
وہ نہایت خوش ہوگا، اگر منصف نرم دل ہو کر مجرم کے احساسات قلب سے آشنا ہوجائیں۔
تین سال گزرے، جب یہ کتاب پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔ اس وقت لوگوں میں اس تصنیف کے متعلق بحث کا بازار گرم تھا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ یہ کسی امریکی کی تصنیف ہے۔
بعض اسے برطانوی کتاب سمجھ بیٹھے تھے۔ بعض کے نزدیک یہ کسی چینی مفکّر کی مرہون منّت تھی۔ کس قدرظلم ہے، کہ انسان اپنے پائیں باغ کی ندی کا سرچشمہ رد ونیل کو قرار دے۔ یہ کتاب نہ امریکی ہے، نہ برطانوی اور نہ چینی۔ مصنف نے سرگزشت اسیر کا تخیل ایسے مقام سے لیا جسے آپ بارہا دیکھ چکے ہیں۔جہاں پر آپ کے دماغ میں بھی ایسے ہی خیالات پیدا ہوئے، میری مراد”پیلس دی گریو“ کا چوک ہے جہاں تم پھانسی کا چبوترہ تعمیر کرتے ہو۔
اسی مقام پر مصنف کے ذہن میں سزائے موت کے ہولناک نتائج نے جگہ پکڑی۔ جب وہ اپنے مکان پر بیٹھا تماشائیوں کو مقتل کی طرف اندھا دھند بھاگتے دیکھتا، تب اس کا خیال مقتول کی طرف ہوتا۔ وہ اس کی مشکلات کا خاکہ کھینچتا۔ وہ خود کو مقتول تصور کرتا، تاکہ اس پر تدریجی مصائب واضح ہوجائیں۔ یہ المناک منظر صبح سے لے کر چار بجے شام تک جاری رہتا۔ جب پھانسی کا گھنٹہ بج چکتا، تب اس کے ذہن کو تھوڑا سا سکون حاصل ہوتا۔ اور وہ اپنے کام میں از سر نو مشغول ہوتا۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto