Episode 6 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 6 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

اولاً وہ شخص افراد خاندان اور صحبت احباب سے محروم ہے اس صورت میں وہ صحیح تعلیم وتربیت حاصل نہیں کرسکا جب اس کے دل ودماغ کی اصلاح کے لیے کوئی سعی نہیں کی گئی۔ تب تمہیں اس معاشرتی یتیم کے قتل کرنے کا کیا حق ہے؟تم اسے اس لئے قتل کرتے ہو کہ عہد طفولیت عدم نگہداشت کی نذر ہوا۔ تم اسے اپنے کئے کی سزا دیتے ہو، تم اس بدبخت کو جرائم کا لباس پہناتے ہوئے۔

اس نے جہالت کی گود میں … پرورش پائی۔یہ اس کی تقدیر کا قصور ہے، وہ بالکل بے گناہ ہے … تم ایسے انسان کا خاتمہ کرتے ہو جو بالکل معصوم تھا۔ تم معصومیت کو تختہ دار پر لٹکاتے ہو۔
ثانیاً وہ انسان جسے تم نے موت کی سزا دی، وہ اہل وعیال رکھتا ہے۔ ایک خاندان کا فرد ہے، کیا اس صورت میں تم صرف ایک انسان کو زندگی سے محروم کرتے ہو؟ نہیں! تم اسے موت کی سزا دیتے وقت اس کے افراد خاندان کے آسمان اور امید پر ادبار کے سیاہ بادل پیدا کرتے ہو۔

(جاری ہے)

اس صورت میں تم معصوموں کو سزا دیتے ہو، معصومیت پھر تمہاری نوحہ خوانی کرتی ہے۔
سزائے موت کو تم خواہ کسی رنگ میں جامہ پہناؤ اس کا دار صرف معصومیت پر ہی ہوگا۔
ایسے مجرم کو حبس دوام کی سزا دو کیونکہ تنگ وتاریک کوٹھری میں بھی وہ اپنے لواحقین کے لیے سامان زیست پیدا کرسکتا ہے لیکن وہ مرقد کی گہرائیوں سے ان کی معاونت کیسے کرسکتا ہے؟
کیا تم اس وقت خوفزدہ نہیں ہوتے جب تم اس کے لڑکے اور لڑکیوں کا خیال کرتے ہو؟ …… ان بچوں کا خیال جن سے زندگی کا سہارا چھین لیا گیا ہے۔
کیا تم محسوس نہیں کرتے کہ آیندہ پندرہ برس میں بیٹا زندان میں ہوگا۔ اور بیٹی تعیش پسند امراء کی نفسانی خواہش کے بجھانے کا ذریعہ ہوگی؟
کیا تم نے کبھی اس کی روح کے متعلق غور کیا؟
کیا تم اس کی زمانی اور مکانی کیفیت سے آگاہ ہو؟
بعض منطق پرست حضرات کے نزدیک یہ ایک جذباتی، اور ہنگامی دلیل ہوگی کیونکہ وہ ذہنی براہین کے قائل ہوتے ہیں۔
میں دماغ کی نسبت دل کا زیادہ قائل ہوں۔ دلیل احساس اور تجربہ ہماری حمایت پر ہیں۔
جن ممالک میں سزائے موت منسوخ ہوچکی ہے، وہاں وارداتِ قتل ہرسال کم ہوتی جاتی ہیں، اس وزنی دلیل کی اہمیت کا اندازہ لگاؤ۔
زمانہ خود بخود اس مسئلہ کو حل کردے گا۔ گزشتہ صدی سے سزاؤں میں نرمی کا دخل ہوچکا ہے۔ خونی سزا قریباً منسوخ ہوچکی ہے۔ اس خلاف عقل سزا سے فرانس کو عنقریب نجات حاصل ہوگی۔
ازمنہ عتیق میں معاشری قصرتین ستونوں یعنی پروہت، بادشاہ اور جلّاد پر استوار تھا مدت ہوئی کہ ایوان انسانیت کے دریچوں سے یہ صدا آئی۔ ”پروہت رخصت ہوچکے ہیں۔“ زان بعد ایک اور آواز آئی۔ ”بادشاہ رخصت ہوگئے۔“ اب تیسری آواز بلند ہونے کا وقت ہے جو ببانگ دہل اعلان کردے۔ ”جلّاد کو نکال دو۔“
وہ جنہیں پروہت کے رخصت ہونے کا غم ہے، ان سے کہتے ہیں کہ خدا موجود ہے۔
جو بادشاہ کے خاتمہ پر افسوس ظاہر کرتے ہیں، ہم ان سے کہتے ہیں کہ ہمارا ملک موجود ہے۔ وہ جنہیں جلاد کے رخصت ہونے کا رنج ہوگا، ان کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ․․․․
تختہٴ دار کی قطع وبرید سے ہمارے معاشری نظام میں کوئی نمایاں فرق نہیں پڑے گا۔ معاشرتی نظام کا سنگ بنیاد تختہٴ دار نہیں ہوسکتا۔ تمدن ایک تغیر پذیر سلسلہ ہے میں تمہاری معاونت چاہتا ہوں۔
کس مسئلہ میں؟ تبدیلی قوانین میں مسیح کے اخلاقی قوانین انسانوں پر پھر حکمران ہوں گے وقت آنے والا ہے، جب ہم جُرم کو مرض تصور کریں گے اور ججوں کی جگہ ان امراض کے رفع کرنے والے ڈاکٹر ہوں گے۔ نذرانوں کی جگہ شفاخانے ہوں گے، افق پر اخوت اور محبت کا آفتاب طلوع ہوگا۔

15 مارچ 1831ء 


Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto