Episode 8 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 8 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

مرد فربہ:۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ تمدّن دن بدن رُوبہٴ تنزّل ہے۔ میرے خدا! ایک مجرم جسے موت کی سزا مل چکی ہو، اس کی آخری لمحات کی کیفیت اور اس کی جسمانی تکالیف کا بیان کس قدر مہمل خیال ہے۔ کیا یہ خیال قابل نفرت نہیں؟ معزز خواتین! کیا آپ کو یقین ہے کہ مصنّف نے”سزائے موت“ پر بحیثیت ایک مصلح کے بحث کی ہے۔
عسکری:۔ یہ فی الحقیقت بیہودگی کی بہترین مثال ہے؟
مادام:۔
اس کا مصنّف کون ہے؟
مرد فربہ:۔ کتاب کی پہلی اشاعت میں سرورق مصنّف کا کام موجود نہ تھا۔
مرثیہ گو:۔ یہ وہی مصنّف ہے جو اس سے قبل دو ناول اور بھی لکھ چکا ہے میرے ذہن سے ان کے نام محو ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ٹھیک کتاب کا آغاز عارن سے ہوا، اور انجام تختہٴ دار پر
کتاب کے ہر باب سے ایسا معلوم ہوتا تھا، گویا ایک دیو بچہ کو نگلنے جارہا ہے۔

(جاری ہے)

مرد فربہ:۔ ہاں جناب! واقعہ کا محل وقوع پرستان تھا!
مرد فربہ: …… برفستان …… کس قدر خوفناک ہے!
مرثیہ گو:۔ دوسری کتاب میں قصائد اور زرمیہ اشعار ہیں۔ ان کے علاوہ اور بہت کچھ ہے۔ کتاب میں ان دیوؤں کا ذکر ہے جو انسانی گوشت پر زندہ رہتے ہیں۔
عسکری:۔ (مسکراتے ہوئے) اس کے شعار وجد آفرین ہوں گے۔
مرثیہ گو:۔ اس نے ایک تمثیل بھی لکھی ہے، وہ اسے تمثیل کہتا ہے، جس میں یہ خوبصورت جملہ مندرج ہے:۔
کل پچیس جون ایک ہزار چھ سو ستاون عیسوی ………
یکے از حاضرین:۔ واہ! واہ کیا خوبصورت شعر ہے!
مرثیہ گو:۔ معزز خواتین! یہ شعر ہندسوں میں لکھا جاسکتا تھا:
کل 25 جون 1657ء ………
وہ مسکراتا ہے ……… سب ہنستے ہیں۔
عسکری:۔ یہ موجودہ زمانے کی عجیب وغریب شاعری کا نمونہ ہے۔
مرد فربہ:۔ شعر وشاعری سے اسے کیا نسبت …… کیا نام ہے اس کا؟
مادام:۔
ایک ناپاک انسان
مرد فربہ:۔ قابل نفرت ہستی۔
ایک جوان خاتون:۔ …… ایک صاحب جو اسے جانتے ہیں، انہوں نے مجھ سے کہا ……
مرد فربہ:۔ تم انہیں جانتی ہو، جو اسے جانتا ہے؟
جوان خاتون:۔ جی ہاں! انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ ایک سادہ مزاج اور تنہائی پسند جو اپنا بیشتر وقت اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں بسر کرتا ہے۔
مرثیہ گو:۔
اور آغوش شب میں سیاہ ترین خیالات کی پرورش کرتا ہے، مجھے اتفاقیہ ایک شعر کے مطالعہ کا موقع ملا جس میں اس نے انہیں تنگ وتار خیالات کا اظہار کیا ہے۔
مرد فربہ:۔ تم کہتی ہو کہ اس کے بچے ہیں۔ ناممکن! خاتون، جب اس نے ایسی خوفناک کتاب لکھی ہو۔
یکے از حاضرین:۔ آخر اس کتاب کا مقصد۔
مرثیہ گو:۔ میں کیونکر جانوں۔
فلسفی:۔ کتاب کا مقصد تنسیخ سزائے موت ہے۔
مرد فربہ:۔ میرے نزدیک اس کا مقصد دہشت آفرینی ہے۔
عسکری:۔ چہ خواب! گویا جلاد سے مبازرت ہے۔
مرثیہ گو:۔ اس کے نزدیک تختہ‘ دار ہی تمام مصائب کا سرچشمہ ہے۔
مرد فربہ:۔ ہرگز نہیں! تنسیخ سزائے موت کے مسئلہ پر صرف چند سطور میں بحث کی گئی ہے۔ کتاب کا باقی حِصّہ جذباتی ہے۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto