Episode 9 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 9 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

فلسفی:۔ اس موضوع پر کتاب لکھتے وقت دلائل اور براہین پیش نظر ہونے چاہئیں، منطق کے دامن کو ہاتھ سے کبھی نہیں کھونا چاہیے۔ میں نے کتاب کا مطالعہ کیا، فلسفیانہ نقطہٴ نگاہ سے کتاب مہمل اور ناقص ہے۔ تمثیل یا ناول کے دائرہ سے سزائے موت کی بحث خارج ہے۔
مرثیہ گو:۔ پلند اخرافات کا! کیا یہ فن کاری ہے؟ میں نہیں جانتا کہ مجرم کون ہے، اس نے کیا کیا، میری طرح اور بھی تو کوئی نہیں جانتا۔
شاید وہ بدمعاش ہو۔
کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ میرے لیے اس چیز میں مذاق پیدا کرے جس کا مجھے علم ہی نہیں۔
مرد فربہ:۔ مصنّف کو یہ بھی اختیار نہیں ، کہ وہ ایک مجرم کی جسمانی تکالیف سے ہمیں خوفزدہ کرے، میں کسی المناک حادثہ یا کسی شخص کو اپنے ہاتھوں سے اپنی جان تلف کرتے ہوئے دیکھ کر اتنا متاثر نہیں ہوتا، جتنا ایک کتاب پڑھنے سے … ایک ناول کا مطالعہ تمہیں لرزہ براندام کرسکتا ہے۔

(جاری ہے)

رات کی نیند تم پر حرام کرسکتا ہے، اس کتاب کے مطالعہ کے بعد میں دو روز تک صاحبِ فراموش رہا۔
فلسفی:۔ فی الحقیقت یہ ایک لغو اور بیہودہ کتاب ہے۔
مرثیہ گو:۔ (طنزاً) کتاب! کتاب!
فلسفی:۔ جیسا کہ آپ نے پہلے ارشاد فرمایا، یہ کتاب کسی اصلیت پر مبنی نہیں۔ میں خشک مضامین کا دلدادہ ہوں۔ لیکن اس کتاب کا کوئی کردار بھی میری طبع کے موافق نہیں، طرز تحریر بھی ناقص ہے۔
کیا آپ میرے ساتھ متفق ہیں۔
مرثیہ گو:۔ بے شک! بے شک!
فلسفی:۔ مجرم کا کردار دلچسپی سے خالی ہے۔
مرثیہ گو:۔ وہ دلچسپ ہوبھی کیسے سکتا ہے؟ اس کا دامن گو ناگون جرائم سے رنگین ہے۔ میں اسے مختلف صورت میں پیش کرتا۔ میں اپنے ”مجرم“ کی سرگزشت کو یوں بیان کرتا۔ اعلیٰ خاندان کا چشم وچراغ … اعلیٰ تعلیم … محبت …رقابت … ناکردہ گناہ … تاسف
چونکہ انسانی قوانین پیچیدہ ہیں، اس لیے اسے موت کی سزا دی جاتی ہے تب اور تب میں سزائے موت کے مسئلہ پر بحث کرتا۔
مادام:۔ واہ! واہ!
فلسفی:۔ معاف کیجیے۔ آپ کے خیال کے مطابق بھی کتاب بے معنی ہے۔ ایک خاص حادثہ سب کو یکساں متاثر نہیں کرسکتا۔
مرثیہ گو:۔بہت خوب! بہتر تھا کہ کتاب میں کسی پیرو کا تذکرہ ہوتا۔ مثلاً مالش اربی، متقی،مالش اربی کے آخری لمحات۔تب مصنّف ہمارے سامنے ایک اچھا واقعہ پیش کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
میں شور مچاتا،چیخ وپکار کرتا،مالش اربی کے ساتھ خود بھی تختہٴ دار پر لٹکنے کے لیے تیارہوجاتا۔
فلسفی:۔ میں ہرگز تیار نہ تھا۔
عسکری:۔ میں بھی ہرگز نہ ہوتا۔ آپ کا مالش اربی ایک انقلابی تھا۔
فلسفی:۔ مالش اربی کی موت”سزائے موت“ کے خلاف کوئی دلیل بہم پہنچاتی ہے۔
مرد فربہ:۔ سزائے موت! ہم اس خلجان میں کیوں مبتلا ہیں۔ آپ کا اس نے کیا بگاڑا ہے۔ اس کتاب کا مصنف غیر تربیت یافتہ معلوم ہوتا ہے۔
مادام:۔ یقینا وہ سنگ دل ہوگا۔
مرد فربہ:۔ وہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہمیں زندان اور تختہٴ دار کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔یہ ہماری طبیعتوں کے ناموافق ہے۔ ہم جانتے ہیں یہ مقام نہایت غلیظ ہیں۔لیکن سوسائٹی کو ان سے کیا تعلق؟
مادام:۔ مقنین طفلان مکتب نہیں۔
فلسفی:۔ واقعات کو صحیح رنگ میں پیش کرتے ہوئے ……
مرد لاغر:۔جہاں تک صداقت کا تعلق ہے، اس میں ذرہ بھر نہیں، ایک شاعر مگر حقیقی واقعات سے کیا تعلق۔ کتاب کا مصنّف یقینا سرکاری وکیل ہوگا۔ میں نے ایک اخبار میں وہ تبصرہ دیکھا جو اس کتاب پر لکھا گیا۔ مبصر رقمطراز ہے کہ مجرم سرکٹاتے وقت ایک لفظ بھی زبان پر نہ لایا۔ بہت خوب!لیکن میں نے ایک مجرم دیکھا جو قتل گاہ میں شور مچارہا تھا۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto