Episode 12 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 12 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

سامنے والی کھڑکی سے میں نے باہر دھندلی سی روشنی دیکھی، دن چڑھ گیاتھا۔ اور یہ روشنی سورج کی تھی۔ آہ! مجھے پھر ایک دفعہ دن کی روشنی دیکھنے کی کتنی تمنا ہے۔ !!
”موسم خوب سُہانا ہے۔“ میں نے محافظ سے کہا۔
اس نے کوئی جواب نہ دیا، بلکہ خاموش رہا۔ شائد اس لیے کہ وہ مجھ بدبخت کی خاطر اپنی زبان سے لفظ نکالنا اس کو بے فائدہ ضائع کرنا سمجھتا تھا۔
لیکن تھوڑے عرصے کے بعد ایسے کہ جیسے اس کی ضمیر نے ملامت کی ہو وہ بولا:۔
”بہت خوشگوار ہے“
میں بے حس و حرکت سورج کی ان مدھم شعاعوں کی طرف حریفانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا، جو میرے قفس کی چھت پر آزادانہ کھیل رہی تھیں۔
”کیسا پیارا دن ہے۔“ میں نے پھر محافظ سے کہا۔
”درست ہے۔“ مگر وہ تمہیں بلارہے ہیں۔

(جاری ہے)

ان الفاظ نے مجھے میری اصلی حالت سے خبردار کر کے خوف وہراس کے اُسی تنگ وتاریک اور عمیق گڑھے میں پھینک دیا۔
تب میں نے اپنے دماغ میں عدالت کی کرسیوں پر ججوں کو شاہانہ لباس پہنے ہوئے دیکھا۔ وہ میری طرف گھُور رہے تھے۔ یہ جیوری کے ارکان تھے، جن کے ہاتھوں میں میری قسمت کا فیصلہ تھا۔جب میں سو رہا تھا، وہ میری قسمت کا فیصلہ مرتب کرنے میں مصروف تھے۔
میں اُٹھا، مگر میری ٹانگیں جواب دے رہی تھیں، جسم کا ہر عضو ارتعاش پذیر تھا۔ گرتے گرتے بچا، مگر قہر درویش برجان درویش۔
محافظ جیل کے ساتھ ہولیا، دروازے کے باہر دوا ور سپاہی کھڑے تھے۔ ان سب کی معیّت میں عدالت کی طرف روانہ ہوا، آسمان نکھرا ہوا تھا۔ سورج کی شعاعیں بلند دود کشوں سے چھَن چھَن کر مختلف سمتوں پر پڑ کر اس منظر میں عجب دلفریبی پیدا کر رہی تھیں …… خوب پیارا دن تھا۔
ہم کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔ میری آمد پر ہال عجیب وغریب آوازوں سے گونج اٹھا۔
تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز صرف میں ہی بدنصیب تھا۔ہر طرف سے میری جانب انگلیاں اُٹھا رہی تھیں۔ یہ نظارہ میرے دل ودماغ پر نشتر کا کام دے رہا تھا۔
میں اپنی جگہ پر بیٹھ گیا تو ہال پر پوری خاموشی چھا گئی۔ یہ دیکھ کر میرے دل کو بھی قدرے تسکین ہوئی، اس وقت تک میں نے یہ بھی نہ سوچا کہ میں یہاں اپنی قسمت کا فیصلہ لینے آیا ہوں۔اگر خیال آیا بھی تو میں اس سے خوفزدہ نہ ہوا۔
کھڑکیاں کھلی تھیں تازہ ہوا ہال میں پھر رہی تھی۔ ساتھ کے بازار سے لوگوں کے چلنے پھرنے کی آواز … خوشی کے قہقہے اچھی طرح سے سنے جاتے تھے۔ سامنے جیوری کے اراکین بیٹھے تھے، مگر ان کے بشرے سے تو ایسا معلوم نہ ہوتا تھا کہ وہ کسی کی موت کا فیصلہ سنانے والے ہیں۔
جب کہ میرے اردگرد ایسا تسلی بخش ماحول تھا۔ تو پھر میں کسی ہولناک خیال سے کیوں ڈرتا۔
اگر میرے دل میں اس وقت کوئی خواہش تھی تو صرف ایک آزادی کی۔
…… اُمید کی آخری کرن اب میرے دل میں نمودارہوچکی تھی۔ اور میں اپنے فیصلہ کا ایک ایک لفظ سننے کے لیے تیار تھا۔ اب مجھ میں ایک مقابلہ کی طاقت بدرجہٴ اتم موجود تھی۔
اسی اثنا میں میرا وکیل جس کی غیر حاضری سے ابھی تک کارروائی رُکی ہوئی تھی، نمودار ہوا۔ اور میرے قریب کی ایک کرسی پر بیٹھ کر میری طرف جھکا۔
اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔ ”کچھ فکر نہ کرو، مجھے امید ہے کہ خدا بہتر کرے گا۔“
میں نے بھی اسے اُسی انداز میں جواب دیا، یقینا۔“
”مجھے ابھی تک ان کے فیصلہ کے متعلق کچھ علم نہیں۔ تاہم میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ سزائے موت نہیں دیں گے۔ اب صرف حبسِ دوام کی بات ہے“
”آپ کا کیا مطلب جناب! میں تو موت کو ایسی ذلیل زندگی پر ترجیح دُونگا“ میں نے وکیل سے طیش میں آ کر کہا۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto