Episode 13 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 13 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

موت! ہاں موت! مجھے یہ کہنے میں کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا۔ سزائے موت تو آدھی رات کے وقت خوفناک ہال میں جس کی گندی شمعیں جل رہی ہوں اور موسلا دھار بارش ہو رہی ہو، سنائی جاسکتی ہے۔ مگر اس خوبصورت ہال میں اگست کے پرکیف مہینے میں آج ایسے خوشگوار اور سہانے دن اور ایسی شریف جیوری کے ہوتے ہوئے کیا سزائے موت سنائی جائے گی؟ نہیں! ہرگز نہیں۔ یہ خیال کرتے وقت میری آنکھیں سورج کی منوّر صورت دیکھنے کو ترس رہی تھیں۔

اتنے میں ریڈر نے کھڑے ہو کر میرا فیصلہ جو کہ جیوری نے میرے سوتے وقت مرتب کیا تھا، سنانا شروع کیا۔ میرے تمام جسم میں خوف وہراس کی سرد لہر دوڑ گئی۔ میں نے دیوار کا سہارا لے لیا تاکہ زمین پر نہ گر پڑوں، کیونکہ اب میری طاقت جواب دے چکی تھی۔
”کیا آپ کو اس بارے میں کچھ کہنا ہے کیوں نہ یہ سزا ملزم کو دی جائے۔

(جاری ہے)

صاحب صدر نے میرے وکیل سے دریافت کیا۔
مجھے بہت کچھ کہنا تھا۔ مگر میری زبان تالوسے چمٹ گئی، میں ایک حرف بھی زبان سے نہ نکال سکا۔
میرا وکیل کچھ کہنے کے لیے اٹھا۔ غالباً وہ میری سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرانے کی ناکام سعی کر رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اس کو روک دوں اور بھری عدالت میں پکار کر کہہ دوں۔ ”مجھے ہزار بار موت پسند ہے، میں عمر قید کے لیے جبہٴ سائی کرنا نہیں چاہتا۔
“ مگر الفاظ میری زبان پر آ کر رہ گئے۔ میں اپنے وکیل کا بازو پکڑ کر نحیف آواز میں صرف اتنا کہہ سکا”جانے دیجیے۔“
جیوری نے میرے وکیل کی سفارش پر کوئی کان نہ دھرا، بلکہ دوسرے کمرے میں تھوڑی دیر ٹھہر کر واپس آئے۔ اور میری موت کا فتوےٰ سنا دیا۔ ”سزائے موت!“ ہجوم نے چلا کر کہا۔
میں نیم بیہوشی کی حالت میں ہجوم سے نکل کر باہر آیا۔
میرے اندر ہنگامہ سا برپا ہوگیا تھا۔ سزائے موت کا حکم سنائے جانے سے پیشتر میں اوروں کی طرح ہوش وحواس میں تھا۔ مگر مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مجھ میں اور دنیا میں اب ایک وسیع خلیج حائل ہے۔ دُھلا ہوا آسمان وہی اُونچے اونچے ودوکش وہی خوبصورت روشنی جو اس سے چند ساعت پیشتر میرے لیے موجب فرحت تھی، اب باعث اذیّت ہے۔ وہی دلخوش کن سماں بھیانک، زرد اور خوفناک۔
جو آدمی میرے پاس سے گزر رہے تھے، غول بیابان معلوم ہوتے تھے۔ سیڑھیوں کے نیچے قید خانہ کی مہیب اور ڈراؤنی گاڑی میرا انتظار کر رہی تھی۔ دو نو عمر لڑکیاں میری طرف غور سے دیکھ رہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے خوشی سے تالی بجاتے ہوئے کہا: ”باجی! اس آدمی کو چھ ہفتہ کے بعد پھانسی دی جائے گی، ہم بھی دیکھیں گے خوب تماشہ ہوگا۔“

(۳)
سزائے موت!! کیا ہوا؟ کیا دنیا فانی نہیں؟ کیا ہر شخص کے لیے موت یقینی امر نہیں؟ تو پھر خوفزدہ ہونا کیا معنی!
میری موت کا حکم سنانے سے اب تک کیا ان اشخاص کی اموات نہیں ہوچکیں جو زندگی کو عزیز جانتے تھے؟
کیا نوجوان، تندرست اور آزاد انسان نہیں مرچکے۔
جو میرا سر قلم ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے؟
کیا اور شخص موت کے شکار نہ ہوں گے، جو کہ اب تازہ ہوا میں آزاد چلتے پھرتے ہیں؟
تو پھر زندہ رہنے سے مجھے کیا مل جائے گا جو میں اپنی موت پر اظہار افسوس کروں۔ اگر زندہ رہوں، تو سوائے اس کے کہ محافظ کا ہر روز منحوس چہرہ دیکھوں ریت ملی ہوئی روٹی کو پانی جیسے شوربے سے زہر مارکروں جیل کے افسروں سے دھتکارا جاؤں۔
کسی ایسے شخص سے نہ مل سکوں، جس کے دل میں مجھ بدبخت کا تھوڑا سا درد بھی ہوتا اور کہیں اس سے میں اپنا دُکھ نہ بٹا لوں۔ اور کیا ہوسکتا ہے۔
ایسی زندگی سے …… ذلیل اور ناپاک زندگی سے موت ہزار درجہ بہتر ہے۔ آہ! یا یہ زندگی ناقابل برداشت اور ہولناک ہے:۔
(۴)
قید خانے کی سیاہ ماتمی اور منحوس گاڑی مجھے اس زندان میں لے آئی جس میں کہ اب اپنی زندگی کے قلیل ایام بسر کر رہا ہوں۔
دور سے اگر دیکھو تو یہ ایک عالیشان اور شاہی عمارت معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جوں جوں آپ نزدیک آتے جائیں گے، آپ کو افسوسناک حقیقت معلوم ہوتی جائے گی۔ اور شاہی عمارت ایک بدنما کھنڈر میں تبدیل ہوجائے گی جس کی کھڑکیوں میں شیشے کی بجائے آپ کو لوہے کی موٹی موٹی سلاخیں جڑی ہوئی نظر آئی گی۔ جن کے پیچھے آپ کو مجرموں کے بھیانک اور مردار چہرے نظر آئیں گے۔ یہ زندگی ہے، زندگی … جو موت کا بھیس بدل کر پھر رہی ہے۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto