Episode 17 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 17 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

(۱۳)
طلوع آفتاب کے ساتھ جیل میں بھی ہنگامہ شروع ہوا، مجھے بھاری بھرکم آہنی دروازوں کے بند اور کھلنے کی آواز آئی، قیدی ایک دوسرے سے ہمکلام تھے۔ میرے ہمسائے قیدی بھی غیر معمولی طور پر مسرور تھے۔ جیل میں بہت زیادہ رونق تھی،ہر طرف خوشی خوشی نظر آتی تھی۔ تمام قیدیوں کے چہروں پر انبساط کے جذبات ہویدا تھے۔ صرف میں خاموش تھا، میں اپنے خیالات میں غلطاں وپیچاں سکوت سے اس تماشہ کو دیکھ رہا تھا۔
محافظ جیل میرے پاس سے گزرا، میں نے جرأت سے دریافت کیا۔ ”کیا جیل میں کسی جشن کی تیاری ہو رہی ہے؟“
”جشن؟ ہاں! اگر تم اسے یہ نام دے سکو۔ آج کے دن عمر قیدیوں کو طوق وسلاسل میں جکڑا جائے گا۔ کیونکہ انہیں کل طولوں جانا ہے۔ کیا تم انہیں دیکھنا چاہتے ہو؟ یہ نظارہ میرے خیال میں تمہارے لیے باعثِ راحت ہوگا۔

(جاری ہے)

”محافظ نے جواب دیا۔
ایک تباہ شدہ اور واژگوں بخت انسان جسے تنہائی میں مقید رکھا ہو۔ اس کے نزدیک بدترین قِسم کا اجتماع بھی قابل دید ہوتا ہے۔ میں نے محافظ کی دعوت کو قبول کرلیا۔
محافظ مجھے با احتیاط تمام ایک خالی کمرے میں لے گیا۔ کمرہ میں صرف ایک کھڑکی تھی۔ اس کھڑکی سے انسان بیرونی حالات و واقعات کا بآسانی مطالعہ کرسکتا ہے۔ محافظ نے مجھے اس کمرہ میں بیٹھ کر قیدیوں کا تماشہ دیکھنے کے لیے کہا
”تم اکیلے یہاں بادشاہ کی مانند مزے لو۔
یہ کہتے ہوئے وہ کمرہ سے باہر چلا گیا اور باہر سے کفل لگا دیا گیا۔
کھڑکی کے سامنے ایک بلند عمارت ہے جس کی چار دیواری سے رنج والم ٹپک رہا ہے۔ انسان اسے دیکھتے ہی خائف وہراساں ہوجاتا ہے۔ اس سے زیادہ تکلیف وہ منظر انسانی چشم نہیں دیکھ سکتی اس عمارت میں انسانی روحیں مقید کر رکھی ہیں
آج کے دن کے تمام قیدی ․․․․․․․․ بھائیوں کا تماشہ دیکھنے کے لیے باہر آئے ہوئے ہیں ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ مجروح روحوں نے دوزخ کی طرف ٹکٹکی لگا رکھی ہے!!
قیدی خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف تک رہے تھے۔
ان میں سے ایک دو کی چشمہائے شعلہ بار ان کی اندرونی کیفیات کو ظاہر کر رہی تھیں، بارہ بجے سب سے بڑا دروازہ کھلا۔ ایک بہت بڑی گاڑی اندر داخل ہوئی، جس پر مسلح سپاہی بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ گاڑی عمر قیدیوں کے لیے تھی۔
اسی اثنا میں طولوں جانے والے قیدی فوجی ضبط میں باہر نظر آئے ان کے دیکھتے ہی دوسرے قیدیوں نے شور مچانا شروع کیا۔
محافظوں نے اپنا کام شروع کردیا۔
تمام قیدیوں کو بیڑیاں پہنائی گئیں۔ قیدیوں نے ان آہنی زنجیروں کو بخوشی قبول کیا اور کوئی پس وپیش نہ کی۔ ہر دلعزیز قیدیوں کو رخصت کے وقت ادب سے سلام کیا گیا جس کا جواب وہ نہایت متانت اور خندہ پیشانی سے دیتے رہے۔
اسی اثنا میں طبی معانئہ کے لیے ڈاکٹر آدھمکے۔ ان کی آمد پر قیدیوں نے آخری مرتبہ ناکام سعی کی کہ وہ طولوں نہ جاسکیں۔
بعض نے خرابی صحت کا بہانہ تراشا اور بعض نے آنکھ، پیٹ یا ٹانگ میں درد کا عذر پیش کیا۔ لیکن ڈاکٹروں کے سامنے ان کی ایک پیش نہ چل سکی۔ قہر د رویش برجان درویش کو ان کے آہنی حکم کے آگے سر جھکا دینا پڑا۔
اب قیدیوں کو نیم برہنہ کردیا گیا۔ تاکہ طولوں کے لیے انہیں مخصوص لباس پہنا دیا جائے۔ قیدیوں کے اجسام کا برہنہ ہونا تھا کہ سرد ہوا زور سے چلنی شروع ہوئی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سرد ہوا بھی آمادہٴ انتقام ہے۔
بارش بھی خوب زور سے ہونے لگی۔
غریب قیدی کانپ رہے تھے۔ لیکن ان کی تکلیف کی کوئی پرواہ نہ کی گئی۔ اور ان کومخصوص لباس پہنا دیا گیا۔ اور گردنوں میں آہنی کالر لٹکا دئیے گئے۔
کاروان جرائم روانہ ہوچکا تھا۔ میں تنہا کھڑکی میں بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ ان کی نگاہوں نے میری طرف رُخ کیا۔
”مجرم، قاتل، مستحق موت“ سب نے یک زبان ہو کر کہا، میں حیران و سراسیمہ تھا۔
کیا وہ میری طرف مخاطب ہو کر کہہ رہے تھے؟
”الوداع شب بخیر“ کہتے ہوئے سب آگے نکل گئے۔ ایک نوجوان قیدی نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
یہ خوش قسمت ہے۔ کیونکہ عنقریب اس کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ ”شب بخیر رفیق میں کھڑکی میں بے حس وحرکت پڑا ہوا تھا۔ طولوں جانے والے قیدیوں کا پانچواں گروہ میری کھڑکی کے سامنے سے گزر رہا تھا۔
آہنی زنجیروں کی آواز سے میرا قلب لرز ررہا تھا مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فوج شیاطین میری طرف بڑھی آرہی ہے، میں زور سے چیخا
اب مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میں انسانی کھوپڑیوں میں گھرا ہوا ہوں، اس خیال کی دہشت نے میرے قلب کے اندر ایک عجیب کیفیت پیدا کردی میں نے ایک چیخ ماری اور بے ہوش ہوگیا۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto