Episode 22 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 22 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

(۲۲)

ا ب اس جگہ منتقل کردیا گیا ہوں، اب صرف ایک اور صرف ایک چیز باقی ہے یعنی گلا کاٹنے کی مشین دورانِ انتقال میں جو سفر طے کیا، وہ اس قابل ہے کہ صفحہٴ قرطاس پر لایا جائے۔
پورے ساڑھے سات بجے سرکاری ہرکارہ بلائے بے درماں کی طرح نازل ہو کر یوں گویا ہوا۔
”جناب میں حضور کا انتظار کر رہا ہوں۔
میں اٹھا اور دروازے کی جانب بڑھا، مگر مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے میری طاقت بالکل سلب ہوچکی ہے۔ سر میں شدت کا درد ہو رہا تھا۔ جسم کے تمام اعضاء بالکل مردوں جیسے تھے، دوسرا قدم اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔
مگر میں نے بڑی جرأت سے کام لیکر اپنی زائل شدہ طاقت پر فتح پانے کی کوشش کرتے ہوئے دروازہ کی جانب بڑھانا شروع کیا۔

(جاری ہے)

اس منحوس کوٹھری کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے سے پیشتر میں نے اس پر آخری نگاہ ڈالی جس میں میری زندگی کا قلیل مگر اہم حصہ گزرا تھا۔
وہ اب بالکل سنسان معلوم ہو رہی تھی …… زندان کی کوٹھری کے لیے خالی رہنا بھی تعجب سے کم نہ تھا۔ غلام گردش کے اختتام پر ہمیں جیل کا پادری ملا، اور ہمارے ساتھ ہولیا۔
زندگی کے درمیانی دروازہ پر ڈائرکٹر مجھے بہت محبت وشفقت سے ملا۔ اور خاص میری حفاظت کے لیے چار آدمی متعین کردئیے، دروازے سے گزرتے ہوئے ایک بوڑھا قیدی اپنے پنجرے سے بولا، آئندہ ملاقات تک خدا حافظ، کتنی مضحکہ خیز الوداع تھی۔
شائد وہ بوڑھا نہیں جانتاتھا کہ یہ سفر جو میں اب اختیار کر رہا ہوں میرا آخری سفر ہے۔ آئندہ ملاقات عالم بالا میں ہوسکتی ہے، اب ہم صحن میں پہنچ گئے جہاں کہ میں آزادانہ طور پر کھلی فضا میں سانس لے سکتا تھا۔ لیکن میں اس فضا سے بہت دیر تک لطف اندوز نہ ہوسکا۔ کیونکہ دروازے کے باہر وہی منحوس گاڑی میرا نتظار کر رہی تھی جس سے ایک دفعہ پہلے بھی میرا واسطہ پڑ چکا تھا۔
اس متحرک قبر میں داخل ہونے سے پہلے میں نے صحن پر نگاہ ڈالی …… وہ نگاہ جو کسی اچانک شعبدہ کی طالب تھی …
میری روانگی پر تماشائیوں کا اچھا خاصا گروہ گاڑی کو حلقہ بنائے ہوئے تھا ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ جو موسم کو اور تُند اور سرد بنا رہی ہے۔ ہم سب گاڑی میں بیٹھ گئے، ہر کارہ اور ایک محافظ سامنے والی نشست پر میں پادری اور دوسرا محافظ اس کے مقابل تھے پر اس کے علاوہ چار اور محافظ گاڑی کے پائیدان پر کھڑے تھے، کوچوان کوشمار نہ کرتے ہوئے ایک کے مقابلہ میں آٹھ تھے۔
گاڑی خوفناک گڑگڑاہٹ سے متحرک ہوئی، اور زندان کے بھاری بھرکم دروازے بند ہوگئے۔
میں اس آدمی کی طرح تھا جو بیہوشی کے عالم میں ہی زندہ درگور کیا جارہا ہو، جو سن سکتا ہوں، مگر طاقت گویائی نہ رکھتا ہو۔
گھوڑوں کی گھنٹیوں کی آواز کوچوان کی چابک کی شٹر شٹر اور گاڑی کی گڑگڑاہٹ مجھے اس خوفنا ک منظر کی طرف تیزی سے لے جارہی تھی۔ میں خدا جانے کن خیالات میں غرق تھا۔
کہ اچانک گاڑی نے رخ بدلا، آہنی سلاخوں والی کھڑکی میں باہر کی طرف جھانکا تو نوترے ڈیم کے بلند مینار نظر پڑے، جو کہ پیرس کی دھند میں ملبوس مدھم مدھم نظر آرہے تھے۔
اس منظر کو دیکھ کر میرے خیالات یک لخت نوترے ڈیم کی طرف پلٹ پڑے جو”لوگ اس مینار پر موجود ہوں گے، وہ میری گردن اُترنے کا منظر بخوبی دیکھ سکیں گے“ میں نے مجنونانہ ہنسی ہنستے ہوئے اپنے آپ سے کہا۔
اسی وقت پادری نے بھی مجھ سے کہا، میں نے اسے اطمینان سے بولنے دیا کیونکہ میرے کان تو پہلے ہی سے گاڑی کے پہیوں، کوچوان کی چابک اور گھوڑوں کی متواتر آوازوں سے پُرتھے۔ اس لیے پادری کی آواز میرے لیے ان شوروں میں سے ایک شور تھی۔ میں خاموشی سے اس کی رٹی ہوئی آواز سنتا رہا۔ جو میرے احساسات قلب کو مردہ کر رہی تھی …… اس کی وعظ اس ندی کے شور کے مشابہ تھی، جو کسی ویران جنگل میں بہہ رہی ہو۔ میں نے اس کو سُنا، مگر آہ! وہی الفاظ، وہی عبارت صنوبر کے ٹیڑھے اور مڑے ہوئے درختوں کیطرح میرے لیے نئے نہ تھے۔ میں انہیں کئی مرتبہ سن چکا تھا۔ بجائے اثر کرنے کے وہ میرے خیالات کو اور مجروح، پریشان اور آوارہ کر رہے تھے۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto