Episode 23 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 23 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

یکایک سرکاری ہرکارہ کی درشت آواز نے مجھے اپنے گہرے خیالات سے چونکا دیا، وہ پادری سے مخاطب ہونا چاہتا تھا۔
موسیو آپ نے سنی۔ آج کی تازہ خبر! اس نے متجسسانہ لہجہ سے کہا۔ پادری جو کہ میرے ساتھ وعظ ونصیحت میں مصروف تھا، اس کو نہ سُن سکا۔ لہٰذا ہرکارہ نے پھر ایک دفعہ اس سے مخاطب ہو کر کہا
مقدس باپ! کیا آپ کو اس تازہ خبر کا علم ہے، جس نے آج پیرس بھر کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے۔
میں سر سے پیر تک کانپ گیا، کیا اس خبر کا میرے ساتھ تعلق تھا۔ مجھے بھی تو آج ․․․․․․․․
”نہیں تو؟ مجھے صبح کے اخبار دیکھنے کاوقت نہیں ملا، شام کو سارے اخبار ایک بار ہی دیکھ لوں گا۔ پادری نے آخر کا جواب دیا: ”چہ خوش! میں کچھ اور عرض کر رہا ہوں، جناب آج کی تازہ خبر وہ خبر جس نے پیرس بھر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی ہے۔

(جاری ہے)

ہرکارہ نے اسی انداز سے کہا۔

”میرا خیال ہے مجھے اس کا علم ہے“ میں نے ہرکارہ کی با ت کاٹتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں ؟ کیا واقعی! ہاں تو اس معاملہ کی بابت تمہاری کیا رائے ہے؟“
”معاف کیجیے۔ میں کچھ اور سمجھا تھا۔“ میں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا۔ کیونکہ اس خبر کا میرے وجود کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔“
”لیکن تم تو ابھی کہہ رہے تھے کہ تمہیں کسی خبر کا علم ہے، آخر وہ کیا ہے؟“ ہرکارے نے مجھ سے دریافت کیا۔
میں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ بلکہ اپنے کاندھوں کو ہلکی سی جنبش دے کر پھر اپنے خیالات میں غوطہ زن ہوگیا۔
ابھی چند منٹ گزرنے پائے تھے کہ ہرکارہ پھر ایک دفعہ مخاطب ہوا اور کہنے لگا”کیا سوچ رہے ہو تم؟“
”اپنی قسمت کے فیصلہ کے متعلق یہی سوچ رہا تھا کہ آج شام کے بعدمیں کچھ سوچ نہ سکوں گا۔“
”یہ بات؟ چھوڑو۔ چھوڑو۔
ان خیالات کو موقوف کردو۔ تم تو بہت غمگین ہورہے ہو، نوجوان آدمی! بہادر بنو، اور اس کا مردانہ وار مقابلہ کرو ……“
نوجوان! میں اور نوجوان! بھول رہے ہیں۔ آپ میری عمر سے کہیں زیادہ ہیں۔ ایک ایک منٹ میری عمر میں سال بھر کا اضافہ کر رہا ہے۔“
”دیکھو! تم مذاق کر رہے ہو، میں تمہارے دادا کی عمر کے برابر ہوں۔“
”میں حقیقت عرض کر رہا ہوں، مجھے آپ سے مذاق کرنے کی کوئی خواہش نہ تھی۔
جناب خفا مت ہوں، آپ رنجش کو تھوک ڈالئے۔“ اس نے میری سنجیدگی سے متاثر ہو کر کہا۔
”وہ رنجش دیر تک قائم رہے گی، خاطر جمع رکھیں۔“ میں نے جواب دیا۔
ہماری گفتگو گاڑی کے اچانک ٹھہر جانے سے بند ہوگئی۔ گاڑی محکمہ چونگی کے سامنے کھڑی ہوئی تھی۔ ایک انسپکٹر آیا اور اس کا معائنہ کر کے چلاگیا، اگرگاڑی میں ہماری بجائے قربانی کی بھیڑ ہوتی تو وہ یقینا محصول کی دسترد سے محفوظ نہ رہی … گاڑی چل پڑی۔
گرجا گھر کا گجر ساڑھے آٹھ بجا رہا تھا۔ کہ ہم منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ عدالت کی عمارت ہی میری روح قبض کرنے کے لیے کافی تھی۔ مگر میں غیر معمولی جسارت سے کام لیتے ہوئے گاڑی سے نیچے اترا، اور سپاہیوں کی دو رویہ قطار سے گزرتا ہوا اس عمارت میں داخل ہوگیا۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto