Episode 24 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 24 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

(۲۳)

شاہی ہرکارہ کی معیت میں گیلری سے گزرتا ہوا ڈائرکٹر کے کمرے میں پہنچا تو یہ وہ گیلری ہے جس سے صرف وہی اشخاص گزرتے ہیں جن کو سزائے موت جیسا لرزہ خیز حکم سنایاجاچکا ہو۔ دوسرے الفاظ میں جن کاگلا تھوڑے سے عرصے کے بعد بریدہ کیاجانا ہو، ہرکارہ بحفاظت تمام مجھے ڈائرکٹر کی نگرانی میں چھوڑ گیا، جس نے مجھے اپنے ملحقہ کمرے میں بند کردیا، اور باہرسے کمرے کو مقفل کردیا۔
خدا جانے کن خیالات میں مستغرق تھا، نہ معلوم اس کمرے میں کتنے عرصہ سے موجود تھا کہ یکایک کسی انسانی قہقہہ نے مجھے اس وارفتگی سے چونکا دیا۔
میں نے فوراً ہی اپنی نگاہیں اٹھائیں تو اس حقیقت سے آشنا ہوگیا کہ میں کمرہ میں اکیلا نہ تھا بلکہ میرے سامنے پچاس ایک برس کامتوسط قد آدمی کھڑا میری طرف تیز اور چمکتی ہوئی نگاہوں سے گھور رہا تھا۔

(جاری ہے)

اس کا لباس تار تار ہو رہا تھا، جسم بے حد کثیف اور گندہ۔ اس کی موجودہ ہیئت کذائی عجیب گھناؤنا منظر پیش کر رہی تھی۔
معلوم ہوتا ہے کہ میری بے خودی کے عالم میں یہ بدنصیب شخص اس کمرہ میں ٹھونسا گیا تھا … کاش موت کا فرشتہ ہی اس کی جگہ آگیا ہوتا۔ !!!
ہم تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے ایک دوسرے کو غور سے دیکھتے رہے مگر میرا تعجب اور خوف لحظہ بہ لحظہ بڑھتا گیا۔
کیونکہ وہ اس دوران میں پہلے سے زیادہ خوفناک اور شیطانی قہقہے لگا رہا تھا۔
”تم کون ہو“ بالآخر میں نے اس سے دریافت کیا۔
”میں؟ میں وہ شخص ہوں جس کے سر کو آج سے ٹھیک چھ ہفتہ بعد دوسروں کا کھلونا بننا ہے۔ اپنی طرح ہی سمجھو، فرق اتنا ہے کہ تمہارا سر چھ گھنٹہ کے بعد قلم ہوگا اور میرا چھ ہفتہ کے بعد۔“ اس بڈھے نے شیطانی قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے سرد لہر تمام جسم میں بجلی جیسی سرعت سے دوڑ گئی۔ تو یہ میرا وارث تھا … میری چھوڑی ہوئی کوٹھری کا وارث۔
”کوئی فکر مت کرو اپنا تعارف کرائے دیتا ہوں“ یہ کہہ کر اس نے اپنے سوانح حیات سنانے شروع کیے۔“
میں ایک مشہور چور کابیٹا ہوں۔ بدقسمتی سے ایک دن میرے باپ کو جلاد سے واسطہ پڑ گیا، جس نے اس کی گردن کو پھانسی کے پھندے میں دے دیا، یہ اس زمانہ کا ذکر ہے جب کہ خدا کے فضل سے پھانسی کی سزا رائج تھی۔
چھ سال کی عمر میں، میں نے اپنے آپ کو بالکل خانماں برباد پایا۔ والد تو اس طرح مرگیا، والدہ بھی اس کے پیچھے چل پڑی۔ متواتر تین سال تک سڑکوں پر بھیک مانگتا رہا، مجھے اس غرض کے لیے ننگے پاؤں بیسیوں میل سفر کرنا پڑتا۔ اور کیچڑ میں گھٹنوں تک گھُسنا پڑتا، میرے تن پر صرف چیتھڑے چیتھڑے تھے۔ میری کمزور ٹانگیں پتلون سے بخوبی نظر آسکتی تھیں۔
سردیوں کے دنوں میں اپنا یخ شدہ جسم لوگوں کو دکھاتا، لیکن افسوس اس طرح کچھ حاصل نہ ہوا۔
نو سال کی عمر میں یعنی تین سال کے بعد اس پیشہ سے تنگ آ کر اٹھائی گیری شروع کی، لوگوں کی جیبیں خالی کیں۔ شروع میں بٹوا چرایا، ایک سال کے بعد میں پورا جیب کترا بن گیا۔
تب میں نے اپنی واقفیت بڑھانی شروع کی حتیٰ کہ سترہ برس کی عمر میں ایک ڈاکو بن گیا۔
اسی زمانہ میں ایک قفل توڑتے وقت گرفتار ہوگیا، اور قید خانہ میں سزا کے ایّام بھگتنے لگا۔
کس قدر ذلیل زندگی ہے۔ جیل خانہ کی خالی تختوں پر سونا،ریت ملی ہوئی روٹی زہر مار کرنا، اور محافظوں کی چابکیں ننگے بدن پر کھانا۔ ان تکالیف کا وہی اندازہ لگا سکتا ہے جسے اس منحوس جگہ کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو۔
خیرقہر درویش برجان درویش میں نے اپنی سزا کے پندرہ برس … اس کا خیال کرتے ہی کلیجہ منہ کو آتاہے۔
اس گھناؤنی جگہ بسر کیے۔
قید خانہ کو خیر باد کہنے سے پیشتر انہوں نے میری سہولت کے لیے ایک نقشہ اور پروانہ راہداری دیا۔ اس کے علاوہ مجھے چھیاسٹ فرانک بھی دئیے گئے۔ جو میری پندرہ سالہ محنت اور مزدوری کا معاوضہ تھے۔ سولہ گھنٹہ فی دن تیس دن فی مہینہ اور بارہ ماہ فی سال عرقریزی کا معاوضہ !!!
اس منحوس جگہ سے نکلتے ہی میں نے ارادہ کرلیا کہ اب نیک زندگی بسر کروں گا اس قلیل رقم پر ہی اکتفا کروں گا۔
اس وقت ان چیتھڑوں میں ملبوس میرے پہلو میں ایسا دل تھا جو آپ کسی پادری کے لمبے اور شاندار چغے میں نہیں پاسکتے۔ مگر وائے حسرتا!
اس زرد رنگ پاسپورٹ کاستیا ناس ہو۔ اس پر”رہا شدہ مجرم“ ایسے خوفناک الفاظ جلی قسم سے لکھے ہوئے تھے جہاں کہیں بھی جاتا، یہ منحوس کاغذ میر نامہٴ اعمال کی طرح ہر شخص پر میری شخصیت کو واضح کردیتا۔ اپنی نوعیت کی ایک سفارش تھی … ”رہا شدہ مجرم“ یہ الفاظ ہی لوگوں کو مجھ سے متنفر کرنے کے لیے کافی تھے وہی ہوا جس کی مجھے امید تھی، میری شکل سے ہی لوگ خوفزدہ ہونے لگے۔
مجھے دیکھتے ہی بچے ڈر کے مارے بھاگ جاتے۔ لوگ مجھے دیکھتے ہی اپنے دروازے بند کرلیتے، یہ حال تھا، تو ملازمت کی توقع رکھنا سراسر بے وقوفی تھی۔ وہ قلیل رقم اب بالکل خرچ ہوچکی تھی۔ ہر ایک کواپنے مضبوط اعضاء مزدوری کی توقع پر دکھلائے۔ مگرانہوں نے آنکھیں بند کرلیں۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto