Episode 25 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 25 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

میں نے دن بھر کی مزدوری پندرہ ٹکے دس پیسے، پانچ پیسے پر کرنی قبول کی مگر انہوں نے میری فریاد پر کان نہ دھرا۔ اب مرتا کیا نہ کرتا۔ آخر پیٹ پوجا بھی تو ضروری تھی۔
تین دن کی فاقہ کشی سے تنگ آ کر ایک روز نانبائی کی دوکان پر سے روٹی چرانی چاہی مگر نانبائی نے مجھے پکڑ لیا۔ اور پولیس کے حوالے کردیا۔
کھانا تو درکنار میں نے روٹی کو چھوا تک بھی نہ تھا۔
مگرعمر بھر کے لیے اسیر کردیا گیا اور تین حرف میرے کاندھوں پر داغ دئیے گئے چاہو تو دکھا دوں؟
اس اسیری کی صعوبتیں اٹھانے کی طاقت نہ تھی۔ اس لیے یہاں سے بھاگ نکلنے کا تہیہ کرلیا۔میرے پیش نظر صرف تین دیواریں اور وہ آہنی زنجیریں تھیں۔ میرے پاس صرف ایک کیل تھی، مگر میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا وہاں سے بھاگ نکلا۔

(جاری ہے)

اب کی دفعہ اس زرد پروانہ راہداری کی لعنت تو نہ تھی، مگر پیسہ نام تک کو نہ تھا۔
راستہ میں مجھے چند دوست مل گئے جو سب میری طرح ہی تھے، یعنی فرار شدہ۔ اس گروہ نے مجھے دعوت شمولیت دی جسے میں نے قبول کرلیا۔
عرصہ تک ہم لوگوں کے جان و مال پر اپنی شکم پری کے لیے ڈاکہ ڈالتے رہے، لیکن اب میں بوڑھا ہوچکا تھا، میری گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوچکے تھے۔ میری تلاش میں سپاہی مصروف عمل تھے، میں جھاڑیوں میں چھپ چھپ کر اپنی جان بچاتا، مگرپھر بھی آزاد تھا۔
اپنا آقا آپ تھا۔ اس ذلت آمیز زندگی سے یہ ہنگامی زندگی ہزار درجہ بہتر تھی۔
آخر ہر ایک چیز فانی ہے وہ دور عرصہ تک قائم نہ رہ سکا۔ اس دن بوڑھا اور نحیف ہونے کے سبب بھاگ نہ سکا۔ پکڑا گیا۔ او ر اب اس جگہ لایا گیا ہوں۔
اس بوڑھے کی کہانی سن کر میں بہت ہراساں اور پریشاں ہوگیا۔ وہ اب ہنس رہا ہے، نہیں نہیں زور سے قہقہہ لگا رہا ہے۔
اسی اثنا میں و ہ میری طرف ہاتھ ملانے کے لیے بڑھا مگر میں ایک کونے کی طرف ہٹ گیا۔
دوست! تم تو مجھ سے خوفزدہ ہو رہے ہو۔ کہیں ایسا اس چبوترہ پر نہ کرنا کاش! میں بھی تمہارے ساتھ ہی چلتا۔ خیر ایک ہی بات ہے، آج نہیں تو کل سہی لیکن تم میرے دوست نہ بنو گے۔ کیا؟“
”جناب یہ آپ کی عنایت ہے۔“ میں نے ڈرتے ہوئے جواب دیا۔
”اخاہ! آپ تو کوئی مارکوئیس معلوم ہوتے ہیں۔
اس شیطان نے میرے جواب پر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
”میرے دوست! مجھے اپنے حال پر ہی چھوڑ دو۔ میں خدا جانے کن خیالات میں غرق ہوں۔“ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
میری سنجیدہ گفتگو نے اس پر کچھ اثر کیا، اور وہ کچھ عرصہ تک اپنے گنجے سر کو کھجلاتا رہا۔ لیکن تھوڑے عرصہ کے بعد پھر گویا ہوا۔
”جناب آپ امیر آدمی ہیں۔ آپ کے پاس جو یہ بڑا کوٹ ہے، آپ کے کسی مطلب کا نہیں۔
اگر مجھے عنایت کردیں تو اسے تمباکو خریدنے کے لیے بیچ دوں گا۔“
میں نے اپنا کوٹ اتارا اور اسے دیدیا۔ اس پر وہ بچّوں کی طرح ناچنے لگا۔ فرطِ انبساط سے زور زور سے تالیاں بجانے لگا۔ مگر اچانک میری طرف دیکھ کر بولا۔
”جناب آپ تو کانپ رہے ہیں۔“ یہ کہتے ہوئے اپنی بھدّی اونی جیکٹ اتار کر مجھے پہنا دی جو کچھ بھی ہوا سب بیخودی کے عالم میں۔
میں دیوار کا سہارا لے کر کھڑا ہوگیا، اور اس کی حرکات وسکنات کا بغور معائنہ کرنے لگا۔ وہ میرے کوٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ اور ہر ملاحظہ کے بعد خوشی کا نعرہ مارا۔
جیبیں بالکل نئی ہیں۔ کالر بدستور ویسا ہی ہے۔ اسے فروخت کرنے سے کم از کم پندرہ فرانک حاصل ہوں گے کتنا خوش نصیب ہوں، چھ ہفتہ تک تمباکو پینے کے لیے یقین نہیں آتا۔“
دروازہ پھر کھلا۔ وہ اب اس لیے آئے تھے کہ مجھے اس کمرہ میں پہنچا دیں۔ جہاں کہ مجرم اپنی زندگی کے چند آخری لمحات گزارتا ہے، اور اس بوڑھے کو اس جگہ پہنچائیں گے جسے میں خیر باد کہہ آیا تھا۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto